حوالے کھو گئے، مردہ اجالے ہو گئے ہیں - اختر عثمان

شمشاد

لائبریرین
حوالے کھو گئے، مردہ اجالے ہو گئے ہیں
ستارے، چاند، سورج، دیپ کالے ہو گئے ہیں

یہاں آ کر ملا ہے تحفہئِ خانہ بدوشی
منادی تھی کہ ہم گھر بار والے ہو گئے ہیں

ہمارا ماس دیوِ اشتہا نے کھا لیا ہے
ہمارے جسم کتوں کے نوالے ہو گئے ہیں

ہمارا گھر تو پہلے ہی وہاں گروی پڑا تھا
ہمارے ذہن بھی اس کے حوالے ہو گئے ہیں

یہاں اک عمر دن پہ* رات کا سایہ رہا ہے
یہاں کے لوگ اس دوران کالے ہو گئے ہیں
(اختر عثمان)

نوٹ : * یہاں “پہ“ کو دو حرفی باندھنا جائز سمجھتا ہوں۔
 
Top