حمد

نور وجدان

لائبریرین
کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ہوا ہے کشف یہ مجھ پر کہ ایک حمد کہوں

غمِ حیات سے فرار یا خوشی کی آرزو
سراپا اشک ہوں کہ دید کی تری ہے لو

وہ حرفِ اوّلیں ورق ورق پہ میں نے لکھا
دلِ ستم زدہ میں حشر سا ہوا تھا بپا

بدن کی قید میں مانند موم دل پگھلا
حضورِ یار میں ہرحرف دل کا تھا سلگا

وصالِ شوق میں دل بے قرار تھا کتنا
تڑپ سے بڑھتا ہوا اضطرار تھا کتنا

نمازِ عشق سے پہلے جو دے رہا تھا اذاں
زباں پہ آ نہ سکے دل کے وجد کا وہ بیاں

نگاہ نامہِ اعمال پر مری ہے پڑی
مجھے سزا کہیں یوم ِ حساب ہو نہ کڑی

کرم تھا حال پہ میرے کرم وہ اب ہی نہیں
کہ بے وفا ہوں خطاوارِ شرک میں بھی نہیں

گناہ گار حساب بھی رکھے، تری لو بھی
سزا سے ڈرے بھی، ہوپیار کی جستجو بھی

عذابِ زندگی مجھے ڈرا سکیں گے کب تلک
وہ آیا بن کے میرا مسیحا، خواجہ اب تلک

مٹا دو آئینہِ دل سے گرد ،توڑ دو قفل
خیال اسکا تم میں ہو کسی طرح سے حل

مری خودی میں چھپا جلوہ بھی تو تیرا ہے
تری شبیہ بسی مجھ میں کیا یہاں مرا ہے

ہےرنگ میرا جو تیرے ہی آئنے کی جھلک
جلا دے اس کو کہ خورشید سی ہو مجھ میں دمک
 
Top