میرے الفاظ میری گویایٔ، ساتھ دیتے نہیں ہیں کیا میں کروں
کیسے اُس ربِّ لم یزل کےحضور، نعمتوں کا شکر ادا میں کروں

اپنے اعمال ہی کی شامت ہے، یہ مصیبت جو ہم پہ آی ہے
وہ تو سب دیکھتا ہے سنتا ہے، ہر عمل ظاہر و نہاں میں کروں

آزماتا ہے تنگدستی سے ، فاقہ مستی بھی آزمائش ہے
مرض بھی ہے اسی کی جانب سے، وہ شفا دیتا ہے دوا میں کروں

اس سے شکوہ ہے اور نہ کوی گلا، جو ملا ہے ہمیں اُسی سے ملا
میں تو مالک نہیں ہوں قاسم ہوں،اُس سے لیکر تمہیں عطا میں کروں

چاند تاروں میں ذکر اُس کا ہے، ریگزاروں میں ذکر اُس کا ہے
ہرسواُسکی تجلیوں کاظہور، اپنی نظریں جہاں جہاں میں کروں

ہم کو صیحت کی نعمتیں دے دے،قوم کو پھر وہ عظمتیں دے دے
سر بلندی عطا ہو دین کو پھر ، اسجاب اُسکی ہے دعا میں کروں

وہ خداے بزرگ و برتر ہے، وہ شہنشاہِ روزِ محشر ہے
خلد ارشادؔ کو میسرہو، میرے مولیٰ یہ التجا میں کروں
(ارشاد احمد صدیقی)
 
آخری تدوین:
Top