حق اور باطل کی کشمکش جاری رہے گی !

Saeeda Shaikh

محفلین
"وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِ‌نَا لَمَّا صَبَرُ‌وا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ -
'' اور ہم نے انہیں اپنے دین کی طرف رہنمائی کرنے والے امام بنایا کیونکہ وہ صبر کرتے تھے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے ہیں" (قران : سورة السجدة 24)


جن لوگوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ بربناے مطالعہ اس بات سے واقف ہےاور جنہوں نے دنیا کےروزوشب دیکھے ہیں وہ بربناے مشاہدہ اور تجربہ اس بات سے واقف ہے کہ دنیا کا نظام اللہ تبارک و تعالی نے ایسے اصولوں پر استوار کیاہے اس میں حق اور باطل ٹکراتے رہتے ہیں متصادم رہتے ہیں کشمکش کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں کبھی صرف اہل بصیرت کو نظر آتے ہیں اورکبھی کبھار اہل بصارت بھی اس کو دیکھ لیتے لیکن تاریخ کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا ہے کہ حق اور باطل کی یہ کشمکشس سر زمین پر جاری نہ ہو۔ اس کے آثار اس کے شواہد اس کے قرائن باواز بلند بھی اور دھیمے سروں میں بھی اپنے وجود کا پتہ دیتے ہیں ۔ اور یہ کیفیت ہر دور میں جاری اور ساری رہے گی - آج بھی حالات بالکل ایسے ہی نظر آرہے ہیں باطل کی تند آندھی اپنے پورے لاو لشکر کے ساتھ حق کو مٹانا چاہتی ہے مگر ہمیں یاد رکھنا ہے کہ "یہ تو چلتی ہے تجھے اڑانے کے لئے" آج بظاہر حق بہت کمزور اور بے بس نظر آرہا ہے اور یہ ہر دور میں اسی طرح رہا اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ حق باطل کے سامنے بظاہر ہمیشہ کمزور ہی رہا۔ مگر ہمیشہ سرخرو رہا۔ آخر کیا وجہ؟ اور کس طرح ان لوگوں نے باطل سے ٹکڑ لی اور آج ہم کیوں باوجود وسائل اور سارے سازوسامان کے حق کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے ۔۔۔

اہل حق کا ایمان اور بھی زیادہ مضبوط اور پختہ اس وقت ہوتا ہے جب باطل اپنے طاقت کہ بل پر حق کو مٹانے کے در پر ہوتا ہے۔اور مصیبتوں اور غم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چاروں طرف چھائے ہوتے ہے ۔اور شدید تنگی اور مصائب چاروں طرف سے گھیر لیں تو اسے یقین ہوتا ہے کہ اب مدد اور نصرت اب بالکل قریب ہے اور وہ ذرا بھی نہیں گھبراتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آخری فتح اہل حق کی ہے اور حق غالب ہو کر رہنا ہے ۔

وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۔۔۔
"اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا"۔(قرآن 17 : 81)


آج ہم نے اپنی سوچ روش اور سب سے بڑھ کر اللہ پر تو کل کی جو شرط تھی اس کو پورا کرنے سے قاصر ہیں تو کیا ہم اس بڑے معرکہ کو سر کر سکتے ہیں اور شرط تھی : "واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا"(قرآن 3 : 103) اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ دراصل ہم نے ہمارا اصل جوہر کھو دیا ہے۔ اور تفرقہ دین کو مونڈ دیتی ہے- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپس کی پھوٹ مونڈ دیتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سر کو مونڈ دیتی ہے بلکہ یہ تو دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (یعنی انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے)

کائنات میں غوروفکر کرےاور عبرت کی نگاہ سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر شے چرند پرند حیوانات جمادات نباتات جو بے زبان ہو کر بھی خاموش پیغام د یتی ہے۔ ۔ کوے کی ہی مثال لے لیں. کہ وہ کس طرح ساتھ رہتے ہوے بھی کسی جان کو نقصان نہیں پہنچاتے اور تو اور جب مصیبت کا وقت آتا ہے یا کوئی خطرہ یا کوئی تکلیف ہو تو سارے کے سارے جمع ہوجاتے ہیں ۔کائیں کائیں کر کے ماتم کرتے ہیں۔ جوبے زبان ہو کر بھی اپنی قوم کے دکھ کو تو سمجھتا ہے اور... ہم ؟؟ اور ہم جو زمین کے وارث بناے گئے اتنا تغافل اتنی خود غرضی ۔ کہ آج ہم جیسے انسانوں کو ہی کاٹ کھا رہے ہیں۔ ہمیں پھر سے تاریخ کا سبق دھرانا ہو گا۔

؎سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت ک

تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم سے صداقت ختم ہوجائے وہاں منافقت ڈیرے جمالیتی ہے۔ عدل جس کا شیوہ نہ ہو وہاں ظلم و ستم کا راج ہوتا ہے۔ اور پھر جس قوم سے شجاعت ختم ہو جائے تو پھر اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں رہتی ۔ اور عالمی دہشت گردوں کی چاکری اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور آج ہم اسی دور میں جی رہے ہیں - الغرض اہل باطل متحد اور اہل حق منتشر نظر آتے ہیں - باطل اپنی عارضی فتح پر ہمیشہ کی طرح نازاں ہے- لیکن اہل حق کو کیا ہوا ہے کہ وہ اصل منزل کو بھول کر سفر کو ہی منزل سمجھ بیٹھے ہیں- نظام کائنات اور وقت کی گردش کا خاصہ رہا ہے کہ تعداد ان کے لئے معنی نہیں رکھتی اور ہر دور میں اہل حق مختلف صورتوں میں پائے جاتے ہیں جو فی الحقیقت نظام کائنات کے جاری و ساری رہنے کا با عث بنتے ہیں- بس ہمیں اپنے کردار او سیرت کی تعمیر کرنی ہو گی۔ جذبوں کو مہمیز دینا ہو گا۔ ایک ملت بننا ہو گا پھر انشاءاللہ ہر معرکہ سر کر سکتے ہیں۔

؎فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں!
 
آخری تدوین:
Top