اقتباسات حضرت مولانا احمد رضا خاں بطور ریاضی دان

سید زبیر

محفلین
مقبول جہانگیر
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین نے یورپ میں تعلیم یائی تھی اور ان کا شمار برصغیر کے بلند پایہ ریاضی دانوں میں ہوتا تھا۔ اتفاق سے ڈاکٹر صاحب کو ریاضی کے کسی مسئلے میں مشکل پیش آئی اس لئے فیصلہ کیا کہ جرمنی جا کر مسئلہ حل کریں۔ حضرت مولانا سید سلیمان اشرف یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے ناظم تھے۔ مولانا سلیمان اشرف نے مشورہ دیا کہ آپ بریلی جائیے اور اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب سے دریافت کیجیے۔ ڈاکٹر ضیاء الدین نے حیرت سے کہا یہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ جب میں یہ مسئلہ حل نہ کر سکا تو مولانا احمد رضا خان جنہوں نے ریاضی کی تعلیم جدید یونیورسٹیوں میں حاصل کرنا دور کی بات انہوں نے تو کسی کالج میں بھی تعلیم نہیں پائی وہ کیونکر یہ مسئلہ حل کر سکیں گے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے سفر یورپ کی تیاری شروع کردی۔ مولانا سلیمان اشرف نے ایک مرتبہ پھر کہا آپ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت سے ملاقات کر آئیے پھر آپ کو اختیار ہے کہ آپ یورپ جائیں یا امریکہ۔ یہ سن کر ڈاکٹر ضیاء الدین کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ تلخ لہجے میں کہا مولانا آپ مجھے کیا رائے دیتے ہیں؟ آخر عقل بھی کوئی چیز ہے۔ خواہ مخواہ برا وقت برباد ہوگا۔ یہ مسئلہ مولانا احمد رضا خان کے بس کا نہیں۔ مولانا سلیمان اشرف نے زور دے کر کہا آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ بریلی کچھ زیادہ دور تو نہیں۔ قصہ مختصر ڈاکٹر صاحب مولانا کی معیت میں بریلی پہنچے۔ اندر اطلاع پہنچائی۔ حضرت کی طبیعت ناساز تھی لیکن مولانا سلیمان کا نام سنتے ہی فوراً بلوا لیا اور پوچھا کیسے تشریف آوری ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ریاضی کا ایک مسئلہ آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں۔ جناب وہ مسئلہ ایسا نہیں کہ فوراً بیان کر دیاجائے ذرا اطمینان کی صورت ہو تو بیان کروں۔ حضرت نے فرمایا بیان فرمائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ بیان کیا اور اعلیٰ حضرت نے سنتے ہی فرمایا۔ اس کا یہ جواب ہے جواب سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کو حیرت سے سکتہ ہوگیا۔ بے اختیار بول اٹھے سنا کرتا تھا ’’علم الدنی‘‘ آج آنکھ سے دیکھ لیا۔ آپ سے اس مسئلہ کا حل سن کر یوں لگا جیسے آپ اس مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنا ایک قلمی رسالہ منگوایا جس میں مثلثوں اور دائروں کی شکلیں بنی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے وہ رسالہ انتہائی حیرت سے دیکھا اور فرمایا میں نے یہ علم حاصل کرنے میں بہت صعوبت اٹھائی۔ ملک۔ ملک کا سفر کیا ہے، بے انتہا روپیہ خرچ کیا۔ مگر جو کچھ علم آپ جانتے ہیں اس کے مقابلے میں میں اپنے آپ کو طفل مکتب سمجھ رہا ہوں۔ مولانا یہ تو فرمائیے آپ کا استاد کون ہے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا میرا کوئی استاد نہیںوالد ماجد سے صرف چار قاعدے جمع تفریق۔ ضرب، تقسیم محض اس لئے سیکھے کہ ترکے کے مسائل میں اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں یہ اپنے مکان کی چاردیواری میں بیٹھ کر خود ہی کرتا رہتا ہوں۔ یہ سب حضرت سرکار رسالت کا کرم ہے۔ ڈاکٹر ضیاء الدین پر اعلیٰ حضرت کی علمی جلالت اور اعلیٰ اخلاق کا ایسا اثر ہوا کہ بریلی سے علی گڑھ آتے ہی داڑھی رکھ لی اور صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوگئے
(مقبول جہانگیر کی کتاب’’بے تاج بادشاہ ‘‘سے انتخاب ازمسعود خان
مطبوعہ روزنامہ دنیا یکم جنوری ۲۰۱۳
 
Top