حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک لازوال خطبہ

عرفان سعید

محفلین
وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ ۠ وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّنُوْرٌ ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَهُدًى وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ (سورۃ المائدہ ۴۶)
پھر ہم نے ان پیغمبروں کے بعد مریم ؑ کے بیٹے عیسیٰ ؑ کو بھیجا ۔ توراۃ میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا ۔اور ہم نے اُس کو انجیل عطا کی جس میں رہنمائی اور روشنی تھی اور وہ بھی توراۃ میں سے جو کچھ اُس وقت موجود تھا اُس کی تصدیق کرنے والی تھی اورخدا ترس لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے وہ برگزیدہ پیغمبر ہیں جن کی پیدائش ایک معجزہ ہے، جنہوں نے گہوارے میں اپنی ماں کی پاک دامنی کی شہادت دی ، جن کو پیدا ہوتے ساتھ ہی رسالت کے ارفع و اعلی منصب پر سرفراز کیا گیا، جنہیں بے شمار معجزات سے نوازا گیا اور ان کے وجودِ اطہر کو کفار سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ کی جانب سے غیر معمولی اہتمام کیا گیا۔
سیدنا عیسیؑ جس کتابِ مقدس کو لے کر دنیا میں جلوہ افروز ہوئے، اس کے بارے میں قرانِ مجید یہ شہادت دیتا ہے کہ وہ سراسر حکمت ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ انجیلِ مقدس اپنی اصلی شکل میں دنیا میں موجود نہیں۔ آنجناب حضرت عیسیؑ کے بعد ہوائے نفس کے تابع ہو کر لوگوں نے اس میں بے شمار تغیرات کر ڈالے۔ ایک تغیر و تبدل تو وہ ہے جو مذہبی پیشواؤں نے اپنی مرضی کے عقائد لوگوں سے منوانے کے لیے بنائے عقائد میں دڑاریں ڈالنے کے لیے کیے۔ دوسری وہ تبدیلیاں ہیں جو لوگوں کی روزمرہ زندگی سے متعلق تھیں، جہاں اپنی سہولت کے لیے بہت سے شرعی احکام کی بنیادوں کو ہلا ڈالا گیا۔
ان بہت سی تحریفات کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جہاں جہاں دین کی حکمت کو غیر معمولی الہامی اسلوب میں بیان کیا ہے، وہ بہت حد تک اس تحریفانہ جارحیت سے محفوظ رہی ہے۔ ترجمہ در ترجمہ ہونے کے باوجود انسان جب انجیلِ مقدس کے ان مقامات تک پہنچتا ہے تو ایسی آیات دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہیں اور ایک ادنی سے شائبے کے بغیر یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ یہاں آسمان بول رہا ہے، حکمت کے اس چشمۂ صافی کا مبدا تو الہامی ہی ہو سکتا ہے، یہ تعلیم اس کائنات کا خالق ہی دے سکتا ہے۔
متی کی انجیل کے پانچویں سے ساتویں باب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک مشہور خطبہ موجود ہے جسے خطبۂ جبل یا پہاڑی کا وعظ کہا جاتا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے میرا دل جن جذبات و احساسات سے دوچار ہوتا ہے، اسے الفاظ میں ڈھالنا بہت مشکل ہے۔دنیا کےمختلف ادوار کے ادب سے عظیم ترین شہ پاروں کا انتخاب کیا جائے تو اس خطبے کو اس میں بہت بلند مقام حاصل ہوگا۔ دین کی حکمت کے ساتھ ساتھ تماثیل کا جو اسلوب آنجناب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اختیار کیا ہے وہ لازوال ہے۔

(مکمل خطبہ اگلے مراسلے میں ارسال کرتا ہوں)
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
خطبۃ الجبل

باب 5

(۱) آپ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اس بھیڑ کو دیکھ کر ایک اونچی جگہ پر تشریف لے گئے اور جب بیٹھ گئے تو آپ کے صحابہ کرام آپ کے پاس آئے (۲) اور پھر آپ اپنی زبانِ مبارک سے یوں ارشاد فرمانے لگے۔

حقیقی خوشی

(۳) مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی ان ہی کی ہے۔
(۴) مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے۔
(۵)مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔
(۶) مبارک ہیں وہ جو نیکی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے۔
(۷) مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔
(۸) مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ اللہ و تبارک تعالیٰ کو دیکھیں گے۔
(۹) مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ پروردگار کے پیارے کہلائیں گے۔
(۱۰) مبارک ہیں وہ جو نیکی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ " آسمان کی بادشاہی " ان ہی کی ہے۔ (۱۱) جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی بری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہو گے۔ (۱۲) خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے اس لئے کہ لوگوں نے ان نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اسی طرح ستایا تھا۔

نمک اور نور

(۱۳)تم زمین کے نمک ہو لیکن اگر نمک مزہ جاتا رہے تو وہ کس چیز سے نمکین کیا جائے گا ؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں سوا اس کے کہ باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے۔ (۱۴) تم دنیا کے نور ہو۔ جو شہر پہاڑ پر بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔ (۱۵) اور چراغ جلا کر پیمانے کے نیچے نہیں بلکہ چراغ دان پر رکھتے ہیں تو اس سے گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے۔ (۱۶) اسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے پروردگار کی جو آسمان پر تمجید کریں۔

اِکمالِ شریعت

(۱۷) یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ (۱۸) کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔ (۱۹) پس جو کوئی ان سے چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا وہ "آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔ (۲۰) کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری نیکی فقیہوں اور فریسیوں کی نیکی سے زیادہ نہ ہو گی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہو گے۔

غصہ کے بارے میں درس

(۲۱) تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا۔ (۲۲) لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں جو کوئی اپنے بھائی پر غصے ہو گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا اور جو کوئی اپنے بھائی کو پاگل کہے گا وہ صدر عدالت کی سزا کے لائق ہو گا اور جو اس کو احمق کہے گا وہ آتشِ جہنم کا سزا وار ہو گا۔ (۲۳) پس اگر تم قربان گاہ پر اپنی قربانی پیش کر رہے ہو اور وہاں تمہیں یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے۔ (۲۴) تو وہیں قربان گاہ کے آگے اپنی قربانی چھوڑ دو اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کرو۔ تب آ کر اپنی قربانی پیش کرو۔ (۲۵) جب تک اپنے مُدعی کے ساتھ راہ میں ہو اس سے جلد صلح کر لو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مُدعی تمہیں منصف کے حوالہ کر دے اور منصف تمہیں سپاہی کے حوالہ کر دے اور تم قید خانہ میں ڈالے جاؤ۔ (۲۶) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم کوڑی کوڑی ادا نہ کر دو گے وہاں سے ہرگز نہ چھوٹو گے۔

زنا کے بارے میں درس

(۲۷)تم سن چکے ہو کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔ (۲۸) لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا۔ (۲۹) اگر تمہاری دہنی آنکھ تمہیں ٹھوکر کھلائے تو اسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دو کیوں کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تمہارے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تمہارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے۔ (۳۰)اور اگر تمہارا دہنا ہاتھ تمہیں ٹھوکر کھلائے تو اس کو کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دو کیونکہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تمہارے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تمہارا سارا بدن جہنم میں نہ جائے۔

طلاق کے بارے میں درس

(۳۱) یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو کوئی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ دے۔ (۳۲) لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے۔

قسم کے بارے میں درس

(۳۳) پھر تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ جھوٹی قسم نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں پروردگار کے لئے پوری کرنا۔ (۳۴) لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا، نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ رب العالمین کا تخت ہے۔ (۳۵) نہ زمین کی کیونکہ وہ اس کے پاؤں کی چوکی ہے۔ نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ (۳۶) نہ اپنے سر کی قسم کھانا کیونکہ تم ایک بال کو بھی سفید یا کا لا نہیں کر سکتے۔ (۳۷) بلکہ تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ بدی سے ہے

بدلہ لینے کے بارے میں درس

(۳۸) تم سن چکے ہو کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ (۳۹) لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تمہارے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو۔ (۴۰) اور اگر کوئی تم پر نالش کر کے تمہارا کُرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دو۔ (۴۱)اور جو کوئی تمہیں ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلے جاؤ۔ (۴۲)جو کوئی تم سے مانگے اسے دو اور جو تم سے قرض چاہے اس سے منہ نہ موڑو۔

دشمنوں کے لئے محبت

(۴۳) تم سن چکے ہو کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھو اور اپنے دشمن سے عداوت۔ (۴۴)لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دعا کرو۔ (۴۵) تاکہ تم اپنے پروردگار کے جو آسمان پر ہے پیارے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور دیانتدار اور بددیانت دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ (۴۶) کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا لئے کیا اجر ہے ؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے ؟(۴۷)اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ مشرکین بھی ایسا نہیں کرتے ؟ (۴۸) پس چاہیے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا پروردگار کامل ہے۔

باب 6
خیرات کے بارے میں درس

(۱) خبر دار اپنے دیانتداری کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لئے نہ کرو۔ نہیں تو تمہارے پروردگار کے پا س جو آسمان پر ہے تمہارے لئے کچھ اجر نہیں ہے۔
(۲)پس جب تم خیرات کرو تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا منافق عبادت خانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ (۳) بلکہ جب تم خیرات کرو تو جو تمہارا دہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تمہارا بایاں ہاتھ نہ جانے۔ (۴) تاکہ تمہاری خیرات پوشیدہ رہے۔ اس صورت میں تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تمہیں اجر دے گا۔

دعا کے بارے میں درس

(۵)اور جب تم دعا کرو تو منافقوں کی مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادت خانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دعا کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کو دیکھیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ (۶) بلکہ جب تم دعا کرو تو اپنی کوٹھڑی میں جاؤ اور دروازہ بند کر کے اپنے پروردگار سے جو پوشیدگی میں ہے دعا کرو۔ اس صورت میں تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تمہیں اجر عطا کرے گا۔ (۷) اور دعا کرتے وقت مشرکین کی طرح طرح بک بک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سنی جائے گی۔ (۸)پس ان کی مانند نہ بنو کیوں کہ تمہارا پروردگار تمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تم کن کن چیزوں کے محتاج ہو(۹) پس تم اس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے پروردگار آپ جو آسمان پر ہیں آپ کا نام پاک مانا جائے۔ (۱۰) آپ کی بادشاہی آئے۔ آپ مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ (۱۱)ہماری روز کی روٹی آج ہمیں عطا کیجئے۔ (۱۲)اور جس طرح ہم نے اپنے قرضداروں کو معاف کیا ہے آپ بھی ہمارے قرض معاف کیجئے۔ (۱۳) اور ہمیں آزمائش میں نہ لائیے بلکہ برائی سے بچائیے۔ (کیونکہ بادشاہی اور قدرت اور جلال ہمیشہ آپ ہی کے ہیں آمین۔ ) (۱۴) اس لئے کہ اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا پروردگار بھی تم کو معاف کرے گا۔ (۱۵) اور اگر تم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا پروردگار بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا

روزہ کے بارے میں درس

(۱۶) اور جب تم روزہ رکھو تو منافقین کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑ تے ہیں تاکہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ (۱۷) بلکہ جب تم روزہ رکھو تو اپنے سر میں تیل ڈالو اور منہ دھو۔ (۱۸) تاکہ آدمی نہیں بلکہ تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں ہے تمہیں روزہ دار جانے۔ اس صورت میں تمہارا پروردگار جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تمہیں اجر عطا کرے گا۔

آسمان میں خزانہ

(۱۹) اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔ (۲۰) بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔ (۲۱) کیونکہ جہاں تمہارا مال ہے وہیں تمہارا دل بھی لگا رہے گا۔

بدن کا چراغ

(۲۲) بدن کا چراغ آنکھ ہے۔ پس اگر تمہاری آنکھ درست ہو تو تمہارا سارا بدن روشن ہو گا۔ (۲۳) اور اگر تمہاری آنکھ خراب ہو تو تمہارا سارا بدن تاریک ہو گا۔ پس اگر وہ روشنی جو تم میں ہے تاریکی ہو تو تاریکی کیسی بڑی ہو گی !۔

خدا تعالی اور دولت

(۲۴)کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا تعالیٰ اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ (۲۵)اس لئے میں تم سے کہتا ہوں اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ (۲۶)ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاتتے۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا پروردگار ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ (۲۷) تم میں ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ (۲۸) اور پوشاک کے لئے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔ (۲۹) تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کی مانند ملبُس نہ تھا۔ (۳۰)پس جب پروردگار میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقاد و تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ (۳۱) اس لئے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنے گئے ؟ (۳۲) کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں مشرکین رہتے ہیں اور تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ (۳۳) بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی سچائی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ (۳۴) پس کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کے لئے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔

باب 7
عیب جوئی

(۱) عیب جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے۔ (۲)کیونکہ جس طرح تم عیب جوئی کرتے ہو اسی طرح تمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔ (۳) تم کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتے ہو اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتے ؟ (۴) اور جب تمہاری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو تم اپنے بھائی سے کیوں کر کہہ سکتے ہو کہ لاؤ تمہاری آنکھ سے تنکا نکال دوں ؟ (۵) اے منافقو پہلے اپنی آنکھ میں سے شہتیر نکالو پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکو گے۔ (۶)پاک چیز کتوں کو نہ دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ان کو پاؤں تلے روندیں اور پلٹ کر تم کو پھاڑیں۔

مانگو، ڈھونڈو، پاؤ

(۷) مانگو تو تم کیا عطا کیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ (۸) کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اسے ملتا ہے اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جائے گا۔ (۹) تم میں ایسا کون سا آدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو وہ اسے پتھر دے ؟ (۱۰) یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے ؟ (۱۱) پس جب کہ تم بُرے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا پروردگار جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ عطا فرمائے گا ؟(۱۲) پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی ان کے ساتھ کرو کیونکہ توریت اور نبیوں کی تعلیم یہی ہے۔

تنگ دروازہ

(۱۳) تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ (۱۴) کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں۔

درخت اور اس کے پھل

(۱۵) جھوٹے نبیوں سے خبر دار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں مگرباطن میں پھاڑنے والے بھیڑئیے ہیں۔ (۱۶)ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں ؟( ۱۷) اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور برا درخت برا پھل لاتا ہے ؟ (۱۸) اچھا درخت بُرا پھل نہیں لا سکتا اور نہ بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے ؟ (۱۹) جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ (۲۰) پس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے۔

میں تمہیں نہیں جانتا

(۲۱) جو مجھ سے اے مولا اے مولا کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک "آسمان کی بادشاہی " میں داخل نہ ہو گا مگر وہی جو میرے پروردگار کی رضا کو پورا کرتا ہے۔ (۲۲) اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے مولا، اے مولا ! کیا ہم نے آپ کے نام سے نبوت نہیں کی اور آپ کے نام سے بد روحوں کو نہیں نکالا اور آپ کے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے ؟ (۲۳) اس وقت میں ان سے صاف کہہ دوں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بد کارو میرے پاس چلے جاؤ۔

دو معمار

(۲۴)پس جو کوئی میری یہ باتیں سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے وہ اس عقل مند آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔ (۲۵) اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گرا کیونکہ اس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔ (۲۶) اور جو کوئی میری یہ باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا وہ اس بیوقوف آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا۔ (۲۷) اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر کو صدمہ پہنچایا اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہو گیا۔

سیدنا عیسیٰ المسیح کا اختیار

(۲۸) جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یہ باتیں ختم فرمائیں تو ایسا ہوا کہ بھیڑ آپ کی تعلیم سے حیران ہوئی۔ (۲۹) کیونکہ آپ ان کے دینی علماء کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اختیار کی طرح ان کو تعلیم ارشاد فرماتے تھے۔
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
ما شاءاللہ، بہت اچھی تحریر ہے۔ بہت خوبصورت نصیحتیں ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
Top