حسن رضا خان : ۔ باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے

مہ جبین

محفلین
باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے
کیا مدینہ پہ فدا ہوکے بہار آئی ہے
اُن کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے
اُنکے ابرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے
سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے
ناخنوں میں تِرے اعجازِ مسیحائی ہے
سرِ بالیں اُنہیں رحمت کی گھٹا لائی ہے
حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے
جانِ گفتار تو رفتار ہوئی روحِ رواں
دم قدم سے تِرے اعجازِ مسیحائی ہے
تیرے جلوؤں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالم
تابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے
جس کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمال
اے حسیں تیری ادا اُس کو پسند آئی ہے
جب تِری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی
جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے
سر پا تک تِری صورت پہ تصدق ہے جمال
اُس کو موزونی اعضا یہ پسند آئی ہے
تیرے قدموں کا تبرک یدِ بیضائے کلیم
تیرے ہاتھوں کا دَیا فضل مسیحائی ہے
دردِ دل کس کو سناؤں میں تمہارے ہوتے
بیکسوں کی اسی دربار میں سنوائی ہے
آپ آئے تو منور ہوئیں اندھی آنکھیں
آپ کی خاکِ قدم سرمہء بینائی ہے
ناتوانی کا الم ہم ضعفا کو کیا ہو
ہاتھ پکڑے ہوئے مولیٰ کی توانائی ہے
ہاتھ پھیلائے ہوئے دوڑ پڑے ہیں منگتا
میرے داتا کی سواری سرِ حشر آئی ہے
ناامیدو تمہیں مژدہ کہ خدا کی رحمت
اُنہیں محشر میں تمہارے ہی لئے لائی ہے
فرش سے عرش تک اک دھوم ہے اللہ اللہ
اور ابھی سینکڑوں پردوں میں وہ زیبائی ہے
اے حَسن حُسنِ جہاں تاب کے صدقے جاؤں
ذرے ذرے سے عیاں جلوہء زیبائی ہے
مولانا حَسن رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
 
Top