حجِ تمتع کا آسان طریقہ

سید عمران

محفلین
حج کی تین اقسام ہیں۔ لیکن دوسرے ممالک سے سعودیہ آنے والے حاجی عموماً ’’حجِ تَمَتُّعْ‘‘ کرتے ہیں۔ حج تمتع صرف حدودِ میقات سے باہر رہنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ اسی لیے ذیل میں حج تمتع کا طریقہ بتایا جارہا ہے۔اس حج میں حاجی مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھول لیتے ہیں، پھر چاہے مکہ مکرمہ میں ہی رہیں یا کہیں اور چلے جائیں مثلاً مدینہ منورہ۔ لیکن جہاں کہیں بھی ہوں آٹھ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں حج کا احرام باندھ کر مِنیٰ روانہ ہونا ہے۔

مِیقات​

عمرہ یا حج کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود بتائی ہیں جن میں داخل ہونے سے پہلے احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی نیت کرلینی چاہیے، ان حدود کا نام میقات ہے۔ اگر میقات سے پہلے احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی نیت نہیں کی اور حدودِ میقات میں داخل ہوگئے تو دَم واجب ہوجاتا ہے۔ دَم کے احکام کسی معتبر عالم سے معلوم کرلیں۔

اِحرام​

سعودیہ کے لیے ائیر پورٹ جانے سے قبل اس طرح غسل کریں کہ اگر ضرورت ہو تو جسم کے غیر ضروری بال صاف کرلیں اور ناخن کاٹ لیں ۔ اب مرد احرام کی دو چادریں باندھ لیں اور دو رکعات نفل اداکرلیں۔ خواتین کا احرام ان کا عام لباس ہی ہوتا ہے۔ احرام کی چادریں باندھنے اور نفل ادا کرنے سے احرام کے احکام لاگو نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے حج یا عمرہ کی نیت کرکے تلبیہ پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن بہتر ہے کہ عمرہ کی نیت میقات آنے سے تھوڑا پہلے ہی کریں۔
حج کے لیے جاتے ہوئے میقات کی حدود آنے سے قبل ہوائی جہاز میں اعلان کردیا جاتا ہے۔ چوں کہ حج تمتع میں پہلے عمرہ کرنا ہوتا ہے لہٰذا جب ہوائی جہاز میں میقات کا اعلان ہوجائے اس وقت عمرہ کی نیت اس طرح کریں کہ یا اللہ میں آپ کو راضی کرنے کے لیے عمرہ کی نیت کرتا ہوں، میرے اس عمرہ کو قبول فرمائیے اور اس کو میرے لیے آسان فرما دیجیے۔ نیت کرنے کے بعد ’’تَلْبِیَہ‘‘ پڑھیں۔ تلبیہ یہ ہے:
لَبَیَّكَ اللّٰھُمَّ لَبَیَّكَ ، لَبَیَّكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ لَبَیَّكَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَكَ وَ الْمُلْك، لَا شَرِیْكَ لَك​
یہ تلبیہ آپ نے عمرہ شروع ہونے تک وقفہ وقفہ سے پڑھتے رہنا ہے۔مرد بلند آواز سے اور خواتین آہستہ آواز سے پڑھیں۔ نیت کرنے اور تلبیہ پڑھنے کے ساتھ ہی آپ پر احرام کے احکامات لاگو ہوگئے۔ اب جسم کا ایک بھی بال کاٹ یا توڑ نہیں سکتے، نہ ناخن کاٹ سکتے ہیں، نہ خوشبو لگا سکتے ہیں، نہ کسی جاندار مکھی، مچھر، کھٹمل وغیرہ کو مارسکتے ہیں نہ کسی جانور کا شکار کرسکتے ہیں، نہ شوہر اور بیوی ازدواجی تعلق قائم کرسکتے ہیں۔ مرد کسی قسم کا سلا ہوا کپڑا نہیں پہن سکتا نہ ہی سر ڈھانپ سکتا ہے، پاؤں میں ایسا جوتا یا موزہ نہیں پہن سکتا جس سے ٹخنہ کی ہڈی یا پنجہ کے اوپری ابھار والی ہڈی چھپ جائے، اس لیے مرد کو چاہیے کہ ہوائی چپل پہنے۔ مرد و عورت کے چہرہ پر کپڑا بھی نہیں لگنا چاہیے۔البتہ خواتین سر پر پی کیپ (P-Cap) پہن کر اوپر سے نقاب کا کپڑا اس طرح لٹکا سکتی ہیں کہ کپڑا چہرہ پر بھی نہ لگے اور چہرہ کا پردہ بھی ہوجائے۔

عمرہ

مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد بیت اللہ حاضر ہوں۔ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے۔ اس موقع پر خوب دعائیں مانگیں۔ اگر کسی فرض نماز کا وقت نہیں ہے تو عمرہ کا طواف ادا کریں۔ ورنہ نماز جماعت سے ادا کرنے کے بعد یہ طواف کریں۔

طواف​

طواف بغیر وضو کے ادا نہیں ہوتا لہٰذا باوضو ہوکر عمرہ کا طواف ادا کرنے حجر اسود کے سامنے آجائیں۔ اب تلبیہ کہنا بند کردیں، مرد احرام کی چادر کو اس طرح اوڑھ لیں کہ دایاں کندھا کھل جائے۔ اس کو ’’اِضْطِباع‘‘ کہتے ہیں۔ اضطباع کرنے کے بعد دونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں حجر اسود کے بالکل سامنے کردیں، پھر بسم اللہ، اللہ اکبر پڑھ کر دونوں ہتھیلیاں چوم لیں۔ اس عمل کو ’’اِسْتِلام‘‘ کہتے ہیں۔ احرام کی حالت میں حجر اسود کے قریب جا کر اس کو چومنا نہیں چاہیے کیوں کہ حجر اسود پر خوشبو لگی ہوتی ہے اور احرام کی حالت میں جسم یا بدن پر خوشبو لگانا جائز نہیں۔ استلام کرنے کے بعد ادب سے نگاہیں نیچی کرکے طواف شروع کریں۔ جب آپ حجر اسود سے طواف شروع کریں گے تو سب سے پہلے دیوار کا ایک حصہ آئے گا جو ’’مُلْتَزَم‘‘ کہلاتا ہے، ملتزم کے بالکل برابر میں خانہ کعبہ کا دروازہ ہے۔ اس سے تھوڑا آگے بڑھیں تو نصف دائرے کی شکل میں چھوٹی سی دیوار ملے گی اسے ’’حَطِیم‘‘ کہتے ہیں۔ یہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے۔ اسے کھلا اس لیے چھوڑا گیا ہے تاکہ عوام اس میں داخل ہوکر نفل ادا کرسکیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوگئے۔ کعبہ کی چھت پر برساتی پانی کی نکاسی کے لیے پرنالہ لگا ہے اسے ’’میزابِ رحمت‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں سے جب بارش کا پانی گرتا ہے تو حطیم میں ہی گرتا ہے۔ طواف کے دوران حطیم میں سے نہیں گزرنا چاہیے ورنہ آپ کا طواف نہیں ہوگا کیوں کہ یہ خانہ کعبہ ہی کا حصہ ہے اور طواف خانہ کعبہ کے باہر سے ہوتا ہے۔ حطیم سے آگے بڑھیں تو جس دیوار کے کونے پر حجر اسود لگا ہے اسی دیوار کے دوسرے کونے کو جو حجر اسود سے پہلے آتا ہے’’رُکنِ یَمانی‘‘ کہتے ہیں۔ طواف کے دوران موقع ملے تو رکن یمانی کو سیدھا ہاتھ لگاتے ہوئے گزرنا سنت ہے لیکن اسے چومنا نہیں چاہیے۔ البتہ حالت احرام میں رکن یمانی کو ہاتھ نہ لگائیں کیوں کہ اس پر بھی خوشبو لگی ہوتی ہے۔ طواف کرتے ہوئے رکن یمانی سے حجر اسود کے درمیانی حصہ میں یہ دعا پڑھتے رہنا سنت ہے:
رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّار​
طواف کے دوران بیت اللہ کو دیکھنا جائز نہیں۔ مرد پہلے تین چکروں میں اکڑ کر کندھے ہلاتے ہوئے چلیں۔ اس عمل کو ’’رَمَل‘‘ کہتے ہیں۔ ان تین چکروں کے بعد باقی چار چکروں میں عام رفتار سے چلیں۔ طواف کے دوران جو چاہے ذکر کریں یا دعا مانگیں، چاہیں تو خاموش رہیں۔ جب آپ چکر لگاتے ہوئے دوبارہ حجر اسود کے سامنے آجائیں گے تو ایک چکر پورا ہوجائے گا۔اب حجر اسود کا پھر استلام کریں اور دوسرا چکر شروع کریں۔ اس طرح ہر چکر کے شروع میں استلام کرنا ہے۔ ساتویں چکر کے آخر میں ایک بار پھر استلام کرکے طواف ختم کردیں۔ یوں آپ کے سات چکر اور آٹھ استلام ہوئے اور طواف مکمل ہوا۔ اب اضطباع ختم کردیں، یعنی دایاں کندھا جو طواف شروع کرتے وقت کھولا تھا اسے دوبارہ ڈھک لیں۔
اب مقام ابراہیم کے پیچھے ورنہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ دو رکعات نماز ادا کریں۔ یہ نماز ’’واجبُ الطَّوَاف‘‘ کہلاتی ہے۔ نماز ادا کرنے کے بعد مُلتَزَم پر آجائیں۔ مُلتَزَم خانہ کعبہ کے دروازہ اور حجر اسود کے درمیان کی دیوار کو کہتے ہیں۔ مُلتَزَم کے جتنا قریب ہوسکیں ہوجائیں اور پھر دنیا آخرت کی تمام دعائیں مانگیں۔ یہ دعاؤں کی قبولیت کی جگہ ہے۔ بے شمار انبیاء نے مُلتَزَم سے اپنا سینہ اور چہرہ مبارک لگا کر دعائیں مانگی ہیں۔ لیکن حالت احرام میں ملتزم سے نہ لپٹیں کیوں کہ یہاں بھی خوشبو لگی ہوتی ہے۔
نوٹ: احرام، رمل اور اضطباع کی شرائط صرف عمرہ کے طواف کے لیے ہیں۔ جب آپ عام کپڑوں میں طواف کریں گے تو رمل نہیں کریں گے اور حجر اسود کے قریب جاکر اس کو چومنا چاہیں تو چوم سکتے ہیں، رکن یمانی کو ہاتھ لگا سکتے ہیں اور ملتزم سے بھی لپٹ سکتے ہیں ۔خواتین کے لیے کسی بھی طواف میں اضطباع اور رمل نہیں ہے۔

سَعی​

سعی کرنے کی جگہ کو مَسْعیٰ کہتے ہیں۔ طواف سے فارغ ہوکر مَسْعیٰ میں صفا پہاڑی پر آجائیں اور سعی کی نیت کرکے خوب دعائیں مانگیں۔ پھر صفا پہاڑی سے مروہ پہاڑی کی جانب چلیں۔ درمیان میں ایک جگہ آئے گی جہاں سبز لائٹیں جل رہی ہوں گی۔ جتنے حصہ پر یہ سبز لائٹیں ہیں اتنے حصہ میں مرد دوڑ کر چلیں گے۔ خواتین عام رفتار سے چلیں گی۔ مروہ پہاڑی پر پہنچنے کے بعد سعی کا ایک چکر پورا ہوا۔ مروہ پہاڑی پر پہنچ کر یہاں بھی خوب دعائیں مانگیں۔ اب دوبارہ صفا پہاڑی کی طرف جائیں یہ دوسرا چکر ہوا۔ ہر بار صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا پہنچنے پر خوب دعائیں مانگیں۔ ساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا۔

حَلْق​

ساتواں چکر پورا ہونے کے بعد مروہ پر دعائیں مانگیں اور سامنے موجود دروازہ سے باہر آجائیں۔ یہاں جگہ جگہ حجاموں کی دوکانیں ہیں۔ مرد یہاں پورے سر کے بال منڈوائیں۔ اس کو حَلْق کہتے ہیں۔ خواتین اپنے ہوٹل یا رہائش گاہ پہنچ کر سر کے سارے بالوں کو چوٹی کی شکل میں اکٹھا کرکے انگلیوں کے ایک پورے کے برابر کاٹ لیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ کا عمرہ پورا ہوا۔ احرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہن لیں۔ اب آپ احرام کی تمام پابندیوں سے آزاد ہوگئے۔
نوٹ: عمرہ کے ارکان ایک ساتھ بھی ادا کرسکتے ہیں اور کوئی عذر ہو تو وقفہ دے کر بھی۔مثلاً طواف کرنے کے بعد اسی دن میں کسی اور وقت یا اگلے دن بھی سعی کرسکتے ہیں۔ اور سعی کے سات چکر بھی ایک ہی دن میں وقفہ وقفہ سے یا کئی دنوں میں پورے کرسکتے ہیں۔ مگر جب تک عمرہ کے تینوں ارکان یعنی طواف، سعی اور بال منڈوانا یا کٹوانا ادا نہ ہوں گے احرام کی تمام پابندیاں برقرار رہیں گی۔ احرام کی حالت میں آپ غسل کرسکتے ہیں مگر خوشبودار صابن استعمال نہ کریں۔غسل یا وضو کے دوران بلکہ کسی بھی وقت سر، داڑھی یا جسم کے بالوں کو اتنی زور سے نہ رگڑیں کہ وہ اکھڑ جائیں۔ احرام کی چادریں کسی وجہ سے گندی یا ناپاک ہوجائیں تو انہیں پانی سے یا ایسے صابن یا سرف سے دھو سکتے ہیں جس میں خوشبو شامل نہ ہو۔ خواتین معذوری کے ایام میں عمرہ نہ کریں بلکہ مسجد حرام میں بھی داخل نہ ہوں ، وہ ایام ختم ہونے کا انتظار کریں۔

حج

آٹھ ذو الحجہ سے ارکان حج کی ادائیگی کا آغاز ہوتا ہے۔ فجر کی نماز مسجد میں جماعت سے ادا کرنے کے بعد غسل کرکے حج کا احرام باندھیں، حج کی نیت کریں کہ یا اللہ میں آپ رضا کے لیے حج ادا کرنے کی نیت کرتا ہوں، اس کو میرے لیے آسان فرما اور قبول فرما، پھر تلبیہ پڑھیں۔ یہ تلبیہ دس ذوالحجہ کو شیطان کو کنکریاں مارنے تک پڑھنا ہے۔

مِنیٰ روانگی​

حج کا احرام باندھ کر ظہر سے پہلے مِنیٰ روانہ ہوجائیں۔ اس دن مِنیٰ میں ظہر، عصر،مغرب اور عشاء کی نمازیں وقت پر جماعت سے ادا کرنی ہیں اور اور رات کو وہیں قیام کرنا ہے۔ اگلے دن یعنی نو ذوالحجہ کی فجر کی نماز وقت پر جماعت سے پڑھیں اور سورج نکلنے کے بعد میدانِ عرفات کی جانب روانہ ہوجائیں۔

وُقوفِ عرفات​

میدان عرفات میں ٹھہرنے کے عمل کو ’’وُقوفِ عرفات‘‘ کہتے ہیں۔ ’’وُقوفِ عرفات‘‘ حج کا سب سے بڑا رکن ہے جو فرض ہے۔ ’’وُقوفِ عرفات‘‘ کا وقت نو ذوالحجہ کو ظہر سے لے کر اگلے دن صبح صادق یعنی فجر سے پہلے تک کا ہے۔ظہر کا وقت شروع ہوتے ہی مناسب جگہ دیکھ کر کھڑے ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ سے خوب گڑگڑا گڑگڑا کر معافی اور دعائیں مانگیں۔ وقوف عرفات کا سب سے بہتر وظیفہ چوتھا کلمہ ہے جو یہ ہے:
لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْكَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ، یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ​
چوتھا کلمہ جتنا ہوسکے پڑھیں۔ آج کے دن یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ ظہر کی نماز باجماعت ادا کریں۔ بھوک پیاس محسوس ہو تو کھا پی لیں۔ مگر کوشش کریں کہ سارا وقت دعا، تسبیحات، توبہ و استغفار اور ذکر اللہ میں مشغول رہیں۔ عصر کی نماز جماعت سے ادا کریں اور پھر مناجات و تسبیحات میں لگ جائیں۔

وُقوفِ مُزْدَلِفَہ​

میدانِ عرفات میں سورج غروب ہونے پر مغرب کی نماز ادا نہ کریں بلکہ میدانِ مُزْدَلِفَہ روانہ ہوجائیں۔ آج کے دن مغرب کی نماز قضا کرنی ہے اور مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے وقت مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ اس طرح ادا کرنی ہیں کہ بس ایک اذان اور ایک اقامت کہیں اور پہلے نمازِ مغرب کے تین فرض جماعت سے ادا کریں، اس کے فوراً بعد نماز عشاء کے چار فرض پڑھیں۔ عشاء کے فرض کے بعد مغرِب کی سنتیں، پھر عشاء کی سنتیں اور وتر ادا کریں۔ مز دلفہ میں رات بھر رکنا ہے۔رات ہی میں شیطانوں کو مارنے کے لیے پاک جگہ سے اُنچاس کنکریاں کھجور کی گٹھلی کے برابر اکٹھی کر لیجئے بلکہ احتیاطاً کچھ زیادہ لے لیجئے تاکہ ضائع یا گم ہوجانے کی صورت میں کام آئیں۔ ہوسکے تو ان کنکریوں کو دھو لیں۔ اگر مزدلفہ سے کنکریاں اُٹھانا بھول گئے تو مِنی سے بھی اُٹھا سکتے ہیں۔ مزدلفہ میں رات کو کھا پی سکتے ہیں اور نیند آئے تو سو بھی سکتے ہیں۔ مزدلفہ میں کھانے پینے اور بیت الخلاء کی بہت زیادہ سہولیات نہیں ہیں لہٰذا ضرورت کے مطابق کھانے پینے کا سامان، آرام کرنے کے لیے زمین پر بچھانے کی ایک موٹی چادر اور ایک اوڑھنے کی چادر ساتھ رکھیں۔
وقوف مزدلفہ کا وقت صبح صادق یعنی فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر سورج نکلنے تک ہے۔ چناں چہ فجر کی نماز اوّل وقت جماعت سے ادا کریں اور ذکر و تسبیحات اور توبہ و استغفار اور دعاؤں میں مشغول ہوجائیں۔ جب سورج نکل آئے اور اس کی روشنی خوب پھیل جائے تو وقوف مزدلفہ کا وقت ختم ہوگیا۔ اب مِنیٰ واپس آجائیں۔

جَمَرات (شیطان کو کنکریاں مارنے کی جگہ)​

منیٰ میں اپنے خیمہ میں پہنچ کر سامان رکھیں، تھوڑا آرام کریں اور بڑے شیطان کو سات کنکریاں مارنے جمرات پہنچ جائیں، چاہیں تو مزدلفہ سے سیدھا جمرات بھی جاسکتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ایسے وقت کنکریاں مارنے جائیں جب رش کم ہو۔ کمزور ، بوڑھے یا بیمار افراد اپنی جگہ کسی دوسرے کو کنکریاں مارنے بھیج سکتے ہیں۔ لیکن ایسا شخص پہلے اپنی کنکریاں مارے گا پھر اُس کی طرف سے مارے گا جس نے اسے بھیجا ہے۔
جمرات پہنچ کر حج کا تلبیہ کہنا بند کردیں۔ سات کنکریاں الٹے ہاتھ میں رکھیں۔ اب سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے ایک کنکری اٹھائیں اور اللہ اکبر پڑھ کر سامنے ستون پر ماریں۔ اسی طرح سات کنکریاں ایک ایک کرکے مارنی ہیں۔ اگر کوئی کنکری ستون کے گرد بنے بڑے سے حلقے میں نہ گرے بلکہ اس سے باہر گرجائے تو گری ہوئی کنکری نہ اٹھائیں بلکہ اس کی جگہ نئی کنکری لے کر ماریں۔ جب آپ نے سات کنکریاں گن کر اس طرح مار لیں کہ ستون پر لگیں یا بڑے حلقے کے اندر گریں تو اپنے خیمے میں واپس آجائیں۔ آج کے دن صرف بڑے شیطان کو کنکریاں مارنی ہیں۔

حج کی قربانی​

اب حج کی قربانی کریں۔ آج دس ذوالحجہ یعنی بقرہ عید کا دن ہے لیکن یہ قربانی بقرہ عید کی نہیں ہے حج کے شکرانے کی ہے۔ مسافر ہونے کی وجہ سے آپ پر بقرہ عید کی قربانی واجب نہیں ہے۔ قربانی خود کرلی، یا کسی دوسرے کے ذمہ لگائی ہے اور وہ یقینی اطلاع دے دے کہ قربانی ہوگئی ہے تو اب مرد سر منڈوائیں اور خواتین سارے سر کے بال اکٹھا کرکے انگلی ایک پورے کے برابر کاٹ لیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ پر سے احرام کی پابندیاں ختم ہوگئیں۔ اب احرام کھول کر عام لباس پہن لیں۔

طوافِ زیارت​

اب چاہیں تو کچھ دیر آرام کرکے آج ہی یعنی دس ذوالحجہ کو یا اگلے روز کسی بھی وقت مکہ مکرمہ پہنچ کر طوافِ زیارت کریں، دو رکعات واجب الطواف ادا کریں اور حج کی سعی کریں۔ اس طواف اور سعی میں نہ احرام باندھنا ہے اور نہ بال منڈوائے یا کاٹے جائیں گے۔ طواف اور سعی کرکے مِنیٰ واپس آجائیں۔
نوٹ: طوافِ زیارت دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے بارہ ذوالحجہ کے غروب آفتاب تک کیا جاسکتا ہے۔اگر بلاعذرِ شرعی اس وقت میں طواف نہیں کیا تو یہ ذمہ رہے گا، بعد میں ادا کرنا ہوگا، البتہ بلا عذر تاخیر کی وجہ سے دم واجب ہوگا۔ البتہ خواتین مخصوص ایام کی وجہ سے طوافِ زیارت مذکورہ ایام میں نہ کرسکیں تو عذر کی وجہ سے اس تاخیر پر ان کے ذمہ دم لازم نہیں ہوگا۔

مِنیٰ میں تین دن قیام​

گیارہ ذوالحجہ کو ظہر کے بعد سے لے کر آدھی رات تک کسی بھی وقت جمرات آئیں۔ سب سے پہلےچھوٹے شیطان کو ایک ایک کرکے سات کنکریاں اللہ اکبر پڑھ کر ماریں۔ پھر درمیانے شیطان کو اسی طرح سات کنکریاں ماریں۔ ان دونوں شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلہ رخ ہو کر اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مسنون ہے۔ دعا سے فارغ ہوکر بڑے شیطان پر آئیں اور اسی طرح کنکریاں ماریں لیکن اس کے بعد دعا نہ کریں اور اپنے خیمہ کو لوٹ آئیں۔بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو بھی اسی طرح ظہر سے لے کر آدھی رات تک کسی بھی وقت تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں۔
مِنیٰ میں گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کی راتیں گزارنا واجب ہے۔ بارہ ذوالحجہ کو کنکریاں مارنے کے بعد مِنیٰ سے جا سکتے ہیں تاہم تیرہ ذوالحجہ کی رات وہیں گزارنا اور اگلے دن کنکریاں مار کے وہاں سے جانا افضل ہے۔ان ایام میں تینوں جمرات کو کنکریاں مارنی ہیں جس کا وقت ظہر سے لے کر آدھی رات تک ہوتا ہے۔ مِنیٰ میں دو یا تین دن قیام کے بعد آپ کا حج مکمل ہوگیا۔
نوٹ:خواتین معذوری کے ایام میں بھی حج کے تمام ارکان ادا کرسکتی ہیں سوائے مسجد حرام میں جاکر طواف زیارت اور حج کی سعی کے۔ ان کی ادائیگی کے لیے خواتین کو اپنے ایام ختم ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔ یہ ارکان ادا کیے بغیر مرد ہو یا عورت کوئی بھی وطن واپس نہیں جا سکتا۔

طوافِ وَداع​

حج کی ادائیگی کے بعد مکہ مکرمہ سے اپنے وطن روانگی سے قبل طوافِ وداع کرنا ضروری ہے۔ اگر خواتین مخصوص ایام میں ہوں تو ان پر طواف وداع واجب نہیں۔حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ مناسک حج میں ان کا سب سے آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو، البتہ حائضہ عورت کو (جانے کی)اجازت دے دی۔(متفق علیہ)

آدابِ مسجد نبوی و روضۂ رسول

عمرہ یا حج کرنے جائیں اور روضہ رسول پر حاضر نہ ہوں تو انتہائی محرومی کی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
مسجد نبوی پہنچ کر تحیۃ المسجد پڑھیں، ہو سکے تو ریاض الجنۃ میں جاکر پڑھیں۔ اب اگر کسی فرض نماز کا وقت نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کے سامنے آئیں، سامنے سنہری جالی میں بنے سب سے بڑے دائرے کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر ہے۔ یہاں حاضر ہوکر اس طرح درود و سلام پڑھيں:
اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللہِ​
اس کے بعد بہتر ہے کہ درود ابراہیمی پڑھیں جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔پھر تھوڑا آگے آئیں تو ایک اور دائرہ ہے اور اس سے آگے ایک اور دائرہ ہے، یہ بالترتیب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبور کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دونوں صحابہ کرام کی خدمت میں بھی سلام عرض کریں۔
مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد میں ایک ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ ایک روایت میں مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزار نماز پڑھنے سے افضل ہے۔لیکن ایک ہزار والی روایت سند کے اعتبار سے راجح ہے۔
مسجد نبوی میں جماعت سے چالیس نمازیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ پانچ نمازیں روزانہ کے حساب سے چالیس نمازیں آٹھ دن میں ادا ہوجاتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ جس شخص نے میری مسجد میں (جماعت سے)چالیس نمازیں اس طرح پڑھیں کہ (درمیان میں)کوئی نماز فوت نہ ہو تو اس کے لیے آگ سے براءت،اور عذاب سے نجات لکھ دی جاتی ہے اور وہ نفاق سے بری ہے۔
مُسند احمد بن حنبل کی مذکورہ بالا روایت کی سند میں اگرچہ نبيط بن عمر ضعیف راوی ہے، لیکن فضائل کے باب میں مذکورہ روایت معتبر ہے۔
مسجد نبوی میں جب موقع ملے ریاض الجنۃ میں خوب نفل نمازیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔
مسجد نبوی کے بالکل برابر جنت البقیع کا قبرستان ہے۔ یہاں عام مسلمانوں کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام کی قبور ہیں۔ یہاں آکر سب کے لیے دعا اور قرآن میں سے کچھ پڑھ کر ایصالِ ثواب کیجیے۔
مسجد نبوی سے ذرا دور مسجد قباء ہے۔ حدیث پاک میں یہاں نماز پڑھنے کی فضیلت ایک عمرہ کے برابر آئی ہے۔لہٰذا جب موقع ملے مسجد قباء جائیں اور وہاں دو رکعت نماز ادا کریں۔ اس کے لیے بہترین وقت فجر کے بعد کا ہے، کوشش کریں کہ جب موقع ملے اشراق یا چاشت کے نوافل مسجد قبا میں ادا کریں، مگر ظہر کی نماز مسجد نبوی میں آکر جماعت سے پڑھیں۔
غارِ ثور، غارِ حرا، شہداء اُحد یا دیگر زیارات کی وجہ سے مسجد نبوی میں نمازِ باجماعت ہرگز ہرگز ترک نہ کریں۔ کیوں کہ ان زیارات کی زیارت کرنے میں کوئی ثواب نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے غار ثور یا غار حرا کی کبھی زیارت نہیں کی۔ اصل مقصد مسجد نبوی میں حاضری کو یقینی بنانا ہے جس کے لیے حاجی گھر بار، بیوی بچے، ماں باپ اور ذریعہ روزگار چھوڑ کر آیا ہے۔ تاہم اگر مسجد نبوی کی کوئی نماز باجماعت چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو تو ان زیارات پر جانا چاہے تو جاسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top