حجاب اور اسلام

آج ہی میں یہ پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں مختلف علمائے کرام اور چند "دانشوروں" سے حجاب کے بارے میں گفتگو کی گئی کہ آیا حجاب لازمی ہے یا نہیں۔
آپ اسے دیکھیں اور بتائیں کہ آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے
 

یوسف-2

محفلین
حجاب لازمی ہے یا نہیں؟ کیا ابھی یہ طے کرنا باقی ہے؟ اختلاف رائے صرف اورٍ اس بات میں ہے کہ چہرہ کا پردہ فرض ہے یا نہیں۔ ورنہ تو انرون خانہ نا محرموں سے او باہر جاتے ہوئے حجاب کرنا یعنی نسوانی زیب و زینت بشمول سر کے بال اور پُرکشش زنانہ کپڑوں کو حجاب کے ذریعہ چھپانا از روئے قرآن و حدیث فرض ہے۔
ویسے میرے پاس فی الوقت یوٹیوب دیکھنے کی سہولت نہیں ہے، لہٰذا اس بات چیت پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔
 

عدیل منا

محفلین
آج ہی میں یہ پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں مختلف علمائے کرام اور چند "دانشوروں" سے حجاب کے بارے میں گفتگو کی گئی کہ آیا حجاب لازمی ہے یا نہیں۔
آپ اسے دیکھیں اور بتائیں کہ آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے
دیکھنے کے بعد ہی تبصرہ ممکن ہے۔آفس میں یہ سہولت میسر نہیں۔
 
حجاب لازمی ہے یا نہیں؟ کیا ابھی یہ طے کرنا باقی ہے؟ اختلاف رائے صرف اورٍ اس بات میں ہے کہ چہرہ کا پردہ فرض ہے یا نہیں۔ ورنہ تو انرون خانہ نا محرموں سے او باہر جاتے ہوئے حجاب کرنا یعنی نسوانی زیب و زینت بشمول سر کے بال اور پُرکشش زنانہ کپڑوں کو حجاب کے ذریعہ چھپانا از روئے قرآن و حدیث فرض ہے۔
ویسے میرے پاس فی الوقت یوٹیوب دیکھنے کی سہولت نہیں ہے، لہٰذا اس بات چیت پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔
کیوں آپ کسی آفس میں ہیں؟
چلیں جب یوٹیوب کی سہولت موجود ہو تب بتائیے گا
 

یوسف-2

محفلین
کیوں آپ کسی آفس میں ہیں؟
چلیں جب یوٹیوب کی سہولت موجود ہو تب بتائیے گا
ہمارے دفتر والے سمجھتے ہیں کہ یو ٹیوب بند کردیں گے تو سب لوگ کام پر لگ جائیں گے۔ یہ نہیں جانتے کہ اردو محفل پریوٹیوب کے بغیر بھی وقت ضائع کیا جاسکتا ہے :D
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں پر 99 فیصد دفاتر میں یو ٹیوب کی سہولت نہیں ہوتی۔ اور ہمارے دفتر میں تو hotmail, yahoo, gmail وغیرہ کی بھی سہولت نہیں ہے۔

مزید یہ کہ سہولت تو کسی بھی قسم کے فورم کی نہیں ہے منجملہ اردو محفل کے، یہ تو متعلقہ شعبے کے ذمہ دار کو بریانی کھلا کر اس یو آر ایل کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہاں پر 99 فیصد دفاتر میں یو ٹیوب کی سہولت نہیں ہوتی۔ اور ہمارے دفتر میں تو hotmail, yahoo, gmail وغیرہ کی بھی سہولت نہیں ہے۔

مزید یہ کہ سہولت تو کسی بھی قسم کے فورم کی نہیں ہے منجملہ اردو محفل کے، یہ تو متعلقہ شعبے کے ذمہ دار کو بریانی کھلا کر اس یو آر ایل کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

کچھ عرصہ قبل یہ تجویز ہمارے باس صاحب نے بھی دی تھی اتفاق سے انہوں نے مجھ سے مشورہ کر لیا اور میں نے کسی طرح بہلا پھسلا کر ان کو اس ارادے سے باز رکھا، اپنی اردو محفل بچانے کیلیے :noxxx:
 

علی خان

محفلین

حجاب کے استعمال کے خلاف اعتراضات پر پروفیسر احمد اللہ خان ( سابق شعبہ قانون عثمانیہ یونیورسٹی) نے ایک دلچسپ اور پُر فکر مضمون تحریر کیا تھا۔ جو روزنامہ منصف میں شائع ہوا ۔وہی مضمون ملاحظہ فرمائیں۔

مسلم خواتین کے پردہ ، برقعہ اور حجاب کے استعمال کے خلاف یوں تو کئی برسوں سے اعتراضات کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ لیکن حالیہ زمانہ میں دو اہم واقعات ایسے ہوئے ہیں جس میں ایک مغربی ملک کی عدالت نے اسکارف پر پابندی برقرار رکھی تو کچھ دن قبل فرانس میں برقعہ کے استعمال پر قانوناً امتناع عائد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ پہلا واقعہ تقریباً دو سال قبل کا ہے جس میں نیدر لینڈ کی عدالت نے ایک مسلم خاتون کو اسکارف پہننے کی اجازت طلب کرنے کی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اسکارف مسلم عورتوں کی دیگر عورتوں سے علاحدہ شناخت کا باعث بنے گا۔ جس سے معاشرہ میں مساوات کے تصور کو ٹھیس پہنچے گی اور مسلم عورتیں اپنی علاحدہ شنا خت کی بنیاد پر الگ تھلک ہو کر رہ جائے گی۔

دوسرا واقعہ جو بالکل حالیہ ہے جس میں فرانس کے وزیر اعظم نے فرانسسی پارلیمنٹ میں برقعہ پر امتناع عائد کرنے کے لئے قانون سازی کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ برقعہ کی وجہ سے خواتین کی آزادی مجروح ہو رہی ہے۔ یہ دونوں ہی اعتراضات اس لئے اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں کہ یہ کسی عام شہری یا کسی غیر سرکاری کمپنی کی طرف سے اپنے ملازمین پر عائد کردہ شرائط نہیں ہیں بلکہ یہ اعتراضات ایک قانون کے ایسے با اختیار عدالت سے آئے ہیں جو قانون کے آگے مساوات کا حق ، آزادیۂ مذہب اور شخصی آزادی کا علمبردار سمجھی جاتی ہے۔

دوسرا اعتراض فرانسسی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم جیسے اعلیٰ ترین دستوری عہدیدار کی جانب سے قانون سازی کی نیت سے آیا ہے اس لئے یہ دونوں ہی اعتراضات اس سے قبل کئے گئے اعتراضات سے مختلف اور زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان دونوں اعتراضات کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ ان اعتراضات کی بنیاد پر غور کیا جائے۔

نیدر لینڈ کی عدالت نے مسلم خاتون کو حجاب کے استعمال کی اجازت کی درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کیا کہ حجاب مسلم خواتین کو دیگر خواتین سے شناخت کی بناء پر امتیاز برتنے کے مترادف ہے۔ جبکہ فرانسسی وزیر اعظم نے برقعہ کو سرے سے مذہبی احکام کا لزوم قرار دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ برقعہ کی وجہ سے مسلم خواتین اپنی آزادی سے محروم ہوجاتی ہیں۔
مندرجہ بالا ان اعتراضات کا تجزیاتی مطالعہ شرعی ، قانونی ، اور سماجی نقطۂ نطر سے درجہ ذیل ہے۔

شرعی موقف: قرآن شریف میں پردہ سے راست متعلق جملہ پانچ آیتیں آئی ہیں۔ جس میں نہ صرف پردے کے واضح احکام نازل ہوئے بلکہ پردہ کرنے کا طریقہ اور اس کی ضرورت کو بھی واضح کردیا گیا کہ پردہ نہ کرنے کے نقصانات اور ایام میں جاہلیت کی مثالوں سے مومن خواتین کو سمجھایا گیا کہ کس طرح پردے کے احکام انکی عزت و ناموس کی حفاظت اور انکے وقار میں اضافہ کا باعث ہے۔
سورۃ نور کی آیت نمبر 31 میں خدا ئے بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ "اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائیں اور اپنے سینوں پر اوڑھنی کے آنچل ڈالے رکھیں اور کسی پر اپنا وہ بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں۔ اور اپنے پاؤں زمین پر اس طرح زور سے نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زیور (جیسے پازیب) کی جھنکار دوسروں کے کانوں میں پہنچے اور انکا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔(31: 24)

اے بیغمبر! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دوکہ (وہ باہر نکلیں) تو اپنے(مونہوں پر) چادر لٹکا لیا کریں (جیسے گھونگھٹ)۔ یہ امر ان کے لئے موجبِ شناخت (امتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔( 59: 33)

قرآن شریف میں پردہ کے متعلق سورۃ نور آیت نمبر 31 ، سورۃ احزاب آیات نمبر 59 ، 53، 32، 31 پانچ آیات کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔ لیکن اختصار کی خاطر سورۃ نور کی آیت نمبر 31 اور سورۃ احزاب کی آیت نمبر 59 کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان آیات کے مجموعی مفہوم اور عہد رسالت نبوی ص میں رائج پردہ کے طریقہ کے حوالے سے پردہ سے متعلق مکمل تفصیل کا احاطہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ پردہ کے احکام میں منہ اور سینے کو چادر سے ڈھانپ لینے کے ساتھ ساتھ چہرے کو چھپانا بھی شامل ہے اور عہد نبوی ص میں اسکا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ تمثیلاً دو روایات کا ذکر کیا جارہا ہے واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ رضی کا بیان کئی معتبر سندوں سے واضع ہےکہ وہ فرماتی ہیں کہ "جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کے غلبہ سے سو رہی۔ جب ایک شخص وہاں سے گزرا اور اسکی آواز سے میری نیند کھل گئی تو میں نے اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانک لیا۔
حوالہ: (بخاری شریف ، مسلم شریف ، مسند احمد بن حنبل ، ابن جریر ، سیرت ابن ہشام )

ابو داؤد کی ایک روایت کے مطابق ایک واقعہ میں ایک عورت ام خلاّد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہوگیا وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اسوقت بھی وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھیں۔ بعض صحابہ نے حیرت سے دریافت کیا کہ بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر بھی آپ اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئیں تو اُن خاتون نے جواب دیا کہ میں نے بیٹا کھویا ہے اپنی حیاء تو نہیں کھوئی۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم ایسی حالت میں بھی محتاط خواتین اپنا چہرہ مردوں کے سامنے کھولنا پسند نہیں کرتیں۔ حضرت عائشہ رضی کہ روایت ہے کہ جمعتہ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادر کھینچ کر اپنا منہ چھپا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتے۔(ابوداؤد)

سورۃ النور کی آیت میں عورتوں کو اپنی نظریں نیچی رکھنے کی ہدایت ہے۔ ایک حدیث میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اور حضرت میمونہ رضی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم رضی آگئے جو نا بینا تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے پردہ کرو۔ بیویوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھیں گے نہ ہمیں پہچانیں گے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم انہیں نہیں دیکھتی۔
دوپٹہ کا رواج:
زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کسادے باندھا کرتی تھیں۔ جن کی گِرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریباں کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نظر آتا تھا۔
( تفسیر کشاف جلد 2 حصہ 95، ابن کثیر جلد 3 صفحہ 283)

لیکن سورۃ نور کی آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دوپٹہ رائج کیا گیا جس کا مقصد سر، کمر اور سینہ سب اچھی طرح ڈھانک لینا ہے۔ مسلمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سن کر فوراً ہی جس طرح اس کی تعمیل کی اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں کہ سورۃ النور نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان احکامات کو سنکر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور بہنوں کو اس کی آیت سنائی۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی کہ جو یہ آیت سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئیں۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر کسی نے چادر اٹھا کر فوراً ڈوپٹہ بنا لیا اور اوڑھ لیا۔
دوسرے روز صبح نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں آئیں سب دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں۔ مزید کہ حضرت عائشہ رضی فرماتی ہیں کہ عورتوں نے اپنے باریک کپڑے چھوڑ کر موٹے کپڑوں کے دوپٹے بنائے۔
( ابن کثیر جلد 3 حصہ 284 ، ابوداؤد کتاب اللباس)

ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مصر کی بنی ململ آئی۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک ٹکڑا ایک صحابی کو دیا اور کہا کہ اس کو پھاڑ کر ایک حصہ کا اپنا کرتا بنا لو اور دوسرے حصہ کو اپنی بیوی کو دوپٹہ بنانے کے لئے دیدو اُن سے کہہ دو کہ اسکے نیچے ایک اور کپڑا لگا لیں تاکہ جسم کی ساخت اندر سے ظاہر نہ ہو۔
(ابو داؤد - کتاب اللباس)

اسی طرح سورۃ احزاب کی آیت نمبر 59 جس میں مومن عورتوں کو حکم دیا گیا کہ بڑی چادر کے پلو لٹکا لیا کریں (یا کھونگھٹ جیسا) تاکہ وہ غیر مسلم عورتوں سے علاحدہ شناخت کی جاسکے۔ اس آیت کے سیاق و سباق اور شانِ نزول میں یہ بھی بیان گیا گیا ہے کہ ایام میں جاہلیت میں بد چلن اور پیشہ ور عورتوں کو راہ چلتے لوگ چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے اور جب ظہور اسلام کے بعد عورتیں مسلمان ہوگئیں تو مومن عورتوں کو بھی اسی طرح چھیڑا جاتا تھا۔ جب ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ مومن عورتوں کو نہ ستایا کریں کیونکہ وہ اسلام لاکر داخل اسلام ہوچکی ہیں اور اُن سے کسی بھی گناہ کی توقع نہیں کرنا چاہئے۔
اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم کو کیسے پتہ چلے کون عورتیں مومن ہیں اور کون نہیں ہیں۔ چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر اور اسلامی معاشرہ کو تمام برائیوں سے پاک کر کے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے مقصد سے پردہ کے تعلق سے قرآنی احکام نازل ہوئے۔ چنانچہ امام رازی رح کہتے ہیں "اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ بد کار عورتیں نہیں ہیں۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی ، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے۔ اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہوگی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا یہ با پردہ عورتیں ہیں ان سے زنا کی امید نہیں کی جاسکتی"۔
(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 59)
 

علی خان

محفلین
اس آیت میں عربی لفظ "جلباب" استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی اوپری لباس ، لانبا گاؤن جیسا Long Gown لباس ہے جو اندرونی لباس کے اوپر پہنا جاتا ہے۔ اور برقعہ کو اس عربی لفظ "جلباب" کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے جو اس آیت کے منشاء کو احسن طریقہ پر پورا کرتا ہے۔
پردہ کے متعلق مندرجہ بالا قرآنی آیات کے تفصیلی مطالعہ سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ پردہ کے احکام عورت کی عزت و ناموس کی حفاظت کی غرض سے مومن عورتوں کی بد کار عورتوں سے علاحدہ شناخت کی غرض سے نازل کئے گئے۔ اور پردہ میں عورت غیر مردوں کی بد نگاہی اور ہوس سے محفوظ ہوجاتی ہیں۔

اب پردہ کے اصل مقصد کی روشنی میں نیدرلینڈ کی عدالت کے اعتراض کا جائزہ لیا جائے جس میں عدالت نے یہ کہا کہ مسلم عورتیں اگر حجاب پہنے گی تو وہ دیگر عورتوں سے علاحدہ شناخت تاثر کرے گی اور سماج کے عام دھارے سے الگ تھلگ ہوجائے گی۔
قارئین اکرام یہاں یہ بات محسوس کر سکتے ہیں۔ نیدرلینڈ کی عدالت نے پردہ یا حجاب کو لیکر جس بات کا "خدشہ" ظاہر کیا ہے وہی خدشہ دراصل اسلامی قانون پردہ کا "اصل منشاء" ہے اور ظاہر ہے کہ عریانی پسند معاشرہ کے یہ اقدار اسلامی شریعت سے راست متصادم ہوں گے کیونکہ اسلام ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کا ضامن ہے جبکہ موجودہ معاشرہ جنسی آزادی اور بے راہ روی کے راستہ پر اس نکتہ معدوم کو پار کر گیا ہے جہاں سے اسکی واپسی مشکل نظر آرتی ہے۔

اس طرح فرانس کے وزیراعظم کا یہ اعتراض کہ برقعہ کی وجہ سے عورت کی آزادی میں خلل پڑتا ہے اور وہ برقعہ میں قید ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اسلامی احکام پردہ سے ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ جیسا مندرجہ بالا مطالعہ میں عرض کیا گیا ہے کہ پردہ دراصل عورت کی حفاظت ناموس اور اسکی عزت و وقار کی برقراری کے لئے لازم قرار دیا گیا۔ یعنی پردہ یا برقعہ ایک طرح کا قلعہ ہے جس میں عورتیں شر پسند عناصر کو بوالہوسی سے محفوظ رہتی ہیں۔ اس طرح یہ کہنا کہ برقعہ عورت کی آزادی میں رکاوٹ ہے یا وہ برقعہ میں قید ہے بلکلیہ نفس مسئلہ سے عدم واقفیت کا مظہر ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ آزادی قید خانہ سے دلائی جاتی ہے۔ آزادی قلعہ سے نہیں دلائی جاتی جہاں عورتیں محفوظ ہیں۔ آزادی کے نام پر عورتوں کو پردہ کے اس قلعہ سے باہر نکالنا ان کی عزت و ناموس کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہے اور جس کو کوئی دانشمند اور صالح صاحبِ ایمان کبھی بھی قبول نہیں کر سکتا۔
قانونی موقف:
دنیا بھر کے ممالک کے دستوروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ ہر ملک کا دستور اپنے شہریوں کو کچھ نہ کچھ بنیادی حقوق دیتا ہے اور عام طور پر یہ بنیادی حقوق میں سرفہرست آزادی مذہب و عقیدہ بھی شامل ہے اور تقریباً ہر ملک کے دستور میں کم از کم ایک علاحدہ دفعہ یا آرٹیکل مذہبی آزادی سے متعلق موجود ہے۔ دیگر یہ کہ اس مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے "قانون کے آگے مساوات اور " انسانی حقوق" کے نام سے بھی کئی دفعات ملتے ہیں جس کا مجموعی مقصد یہ ہے کہ شہریوں کو نہ صرف آزادی مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر ان سے کوئی خصوصیت یا منفی امتیاز نہ برتا جائے چنانچہ Equality of Law اور Equal protection of Law کے مخصوص اصولوں کے تحت بھی تمام ممالک کے شہریوں کو آزادی مذہب حاصل ہے اور ان کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کا تیقن بھی دیا گیا ہے۔ بعض اہم ممالک کے دستوروں کا طائرانہ حوالہ درج ذیل ہے۔

افغانستان کا دستور:
افغانستان کا دستور افغانستان کو ایک اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے لیکن اس کے دستور کے دفعہ 2 کے ذیلی 2 میں یہ صراحت کردی گئی ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب اور عقیدہ پر چلنے کی آزادی حاصل ہے اور وہ اپنے مذہب کے رسم و رواج پر عمل پیرا بھی رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح باب سوم بنیادی حقوق و فرائض سے موسوم ہے اور اسکے دفعہ 2 میں مساوات ، دفعہ 23 میں حقِ زندگی اور دفعہ 24 میں انسانی وقار اور آزادی کی طمانیت دی گئی ہے۔

عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کا دستور:
اس دستور کا حصہ سوم بنیادی حقوق سے متعلق ہے اور دفعہ 27 کے تحت قانون کے آگے مساوات ، دفعہ 31 کے تحت قانونی حفاطت کا حق زندگی اور شخصی آزادی جیسے حقوق دیئے گئے ہیں، دفعہ 28 کے تحت مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو منع کردیا گیا ہے۔

مملکت بھوٹان کا دستور:
اس ملک کے دستور میں شہنشاہیت کو برقرار رکھا گیا لیکن پھر بھی دفعہ 7 کے ذیلی دفعات 1 تا 20 میں حق زندگی ، شخصی آزادی و حفاظت آزادی مذہب اور دیگر حقوق بیان کئے گئے ہیں۔

بوسنیا اور ھرزنگونیا کا دستور:
اس دستور کے تحت بنیادی حقوق اور انسانی حقوق قلم بند کئے گئے ہیں اور اس دفعہ کے ذیلی دفعات انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ ذیلی دفعہ 2 کے تحت حقوق انسانی اور آزادی سے متعلق بین الاقوامی قرارداد کا ذکر کیا گیا ہے اور اسکو دیگر قوانین پر برتری دی گئی ہے۔ دفعہ 3 میں حق زندگی ، حق آزادی ، حق آزادیِ مذہب وغیرہ کی تفصیلی زمرہ بندی کی گئی ہے جو جملہ 13 مشمولات پر مشتمل ہے۔

کینیڈا کا دستور:
اس ملک نے کینیڈین بل آف رائٹس کے عنوان سے 1960ء میں ہی انسانی حقوق اور دیگر بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہے اور اس بل کے پیش لفظ ہی میں آزادی مذہب اور دیگر حقوق کی صراحت کردی گئ ہے۔
چین کا دستور:
اس دستور کے باب سوم میں شہریوں کے بنیادی حقوق اور فرائض کا ذکر کیا گیا ہے اور دفعات 44 تا 59 تمام حقوق کی تفصیلات بیان کرتا ہے جبکہ دفعہ 46 کے تحت آزادی مذہب عطا کیا گیا ہے۔

جرمنی کا دستور:
اس دستور کی ابتداء ہی بنیادی حقوق سے کی گئی ہے اور دفعہ 1 کے تحت انسانی وقار کی حفاظت کا حق ، دفعہ 2 کے تحت حق آزادی ، دفعہ 3 کے تحت قانون کے آگے مساوات اور دفعہ 4 کے تحت آزادئ مذہب بیان کیا گیا ہے۔

نیپال کا دستور:
اس دستور کے حصہ سوم میں بنیادی حقوق بیان کئے گئے ہیں اور دفعہ 11 کے تحت حق مساوات ، دفعہ 12 کے تحت حقِ آزادی اور دفعہ 19 کے تحت آزادئ مذہب دی گئی ہے۔

پاکستان کا دستور:
اس دستور کا حصہ دوم بنیادی حقوق سے متعلق ہے اور باب اول کے دفعہ 20 کے تحت آزادئ مذہب بیان کیا گیا ہے جبکہ اس باب کے اولین دفعات حق زندگی ، حق مساوات وغیرہ سے متعلق ہے۔

10۔ سنگا پور کا دستور:
اس دستور کے حصہ چہارم میں دفعہ 9 شخصی آزادی ، دفعہ 12 مساوات ، دفعہ 14 حق اظہار خیال اور دفعہ 15 آزادئ مذہب سے متعلق ہے۔

11۔جنوبی افریقہ کا دستور:
اس دستور کے باب دوم میں بل آف رائٹس کے عنوان سے دفعہ 7 اور 8 کے تحت اس باب کی اولیت کو قائم کیا گیا ہے اور دفعہ 9 میں مساوات ، دفعہ 10 میں انسانی وقار ، دفعہ 11 میں حق زندگی اور دفعہ 15 میں آزادئ مذہب دی گئی ہے۔

12۔ سری لنکا کا دستور:
اس دستور کے باب ششم میں بنیادی حقوق دئے گئے ہیں اور دفعہ 18 میں تمام بنیادی حقوق کا ذکر اور دفعہ 18 کی ذیلی مشق (d) میں آزادئ مذہب کا ذکر ہے۔

13۔ برطانیہ کا دستور:
اس دستور کے حصہ دوم میں بین الاقوامی حقوق انسانی کا ذکر کیا گیا ہے اور حصہ سوم میں دفعہ 3 میں وقار انسانی دفعہ 4 میں مساوات اور باب ششم کے دفعہ 15 میں شخصی آزادی اور دفعہ 18 میں آزادئ مذہب کا ذکر کیا گیا ہے۔

14۔ فرانس کا دستور:
اس دستور میں ملک کے صدر جمہوریہ ، پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی حکومتوں کی تشکیل اور ان کے مابین روابط کا ذکر کیا گیا ہے ، اس دستور میں بنیادی حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس دستور کے پیش لفظ میں لفظ "سیکولر" کا استعمال کیا گیا ہے اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو منع کیا گیا ہے۔ لیکن اس دستور کے تحت دیگر قوانین وضع کئے گئے ہیں جس میں بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے مگر اصل دستور میں بنیادی حقوق موجود نہیں ہیں۔

15۔ امریکہ کا دستور:
اس دستور کے پانچویں ترمیم کے ذریعہ بنیادی حقوق اور اس دستور کے تحت دیگر قوانین کو وضع کیا گیا ہے جس میں آزادئ مذہب شامل ہے۔

16۔ ہندوستان کا دستور:
ہندوستان کے دستور کو دنیا کا سب سے طویل ترین تحریری دستور ہونے کا شرف حاصل ہے اور اس میں بنیادی حقوق اور رہنمایانہ اصول وغیرہ کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس دستور کے دفعہ 25 کے تحت آزادئ مذہب کا تیقن دیا گیا ہے۔ جبکہ دفعات 14، 15 ، 16 ، تا 32 تمام بنیادی حقوق کا تفصیلی احاطہ کرتے ہیں اور اس دستور کو ایک مثالی دستور کہا جا سکتا ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک کے قوانین پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا تقریباً ہر ملک نے آزادئ مذہب کا تیقن دیا ہے جس میں کسی مذہب کو قبول کرنا اور اسکے ساتھ ساتھ اس مذہب کے اصولوں پر کاربند رہنے کی گنجائش شامل ہے۔ چنانچہ ہر قانون کے تحت آزائ مذہب کی تعریف میں اس مذہب پر خارجی طور پر عمل پیرا ہونا اور اسکی تبلیغ و تشہیر بھی شامل ہے۔ ان تمام دستوروں کے تحت تمام عدالتوں نے بھی آزادئ مذہب کی حفاظت کی ہے۔ اس لئے کسی بھی تہذیب یافتہ ممالک کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسے انسانی حقوق سے اپنے شہریوں کو محروم کرے یا اس میں رکاوٹ کا باعث بنے۔
ماجی نقطۂ نظر:
سماجی نقطہ نظر سے بھی عورت اور مرد کے درمیان آزادانہ میل ملاپ ہمیشہ ہی گناہ اور بربادی کا موجب رہا ہے۔ اس لئے تقریباً ہر مذہب نے عورت مرد کے درمیان جنسی رشتوں کو مناسب اخلاقی حدود میں قید کر دیا تا کہ "خاندان" کا قیام عمل میں آئے اور ایک صحت مند مہذب معاشرہ تشکیل پائے۔ چنانچہ شادی کو خاندان کے قیام میں انتہائی اہمیت حاصل رہی ہے۔ بعض مذاہب نے تو ابتداء میں شادی کے بعد طلاق کے تصور کو ہی مسترد کردیا تھا کہ خاندان ٹوٹنے نہ پائے۔ لیکن بعد میں مختلف وجوہات کہ بناء پر طلاق کا رواج عام ہوا۔ عورت اور مرد کے درمیان جنسی تعلقات کو مذہب ، قانون اور سماجی نقطۂ نظر سے مختلف پابندیوں کے تحت کردیا گیا تاکہ اولاد کی تعلیم و تربیت اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل ہو۔ لیکن موجودہ معاشرہ ان مہذب حدود کو توڑ کر بے راہ روی کی سمت گامزن ہے اور مذہب ، قانون اور سماجی اقدار اور فرائض سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

قدیم زمانہ میں بھی ایسے احکام ملتے ہیں جس میں نیک عورتوں اور بد کار عورتوں کے درمیان فرق اور تمیز کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ ساتویں صدی قبل مسیح میں Assyrian Law نے شادی شدہ عورت کے لئے پردہ کا لزوم لگایا تھا اور بد کار عورتیں اس پردہ کے لزوم سے آزاد تھیں۔
(حوالہ: Cambridge Ancient History III , p -107)

ساتویں صدی قبل مسیح میں یہ پردہ کا قانون صرف شادی شدہ عورتوں سے متعلق تھا لیکن اسلام نے تمام مومن عورتوں پر عائد کر کے صالح معاشرہ کی تشکیل کی راہ ہموار کی ہے۔

اختتاماً یہی کہا جا سکتا ہے کہ نیدرلینڈ کی عدالت کا یہ خیال کہ "برقعہ سے عورت کی علاحدہ شناخت قائم ہوتی ہے اور اس طرح مسلمان عورتیں دیگر عورتوں سے الگ تھلگ ہو جائیگی" اس لئے قابل قبول نہیں معلوم ہوتا ہے اس عدالت کا برقعہ کو لیکر جو "خدشہ" ظاہر کیا گیا ہے دراصل وہی اسلامی احکام پردہ کا "اصل منشاء" ہے۔ اس طرح فرانسیسی وزیراعظم کا یہ کہنا کہ "برقعہ سے عورت کی آزادی میں رکاوٹ پڑتی ہے اور وہ قید ہوکر رہ جاتی ہے" اس لئے قابل قبول نہیں معلوم ہوگا کہ برقعہ میں عورت محفوظ ہوجاتی ہے اور برقعہ یا پردہ کو قلعہ کی حیثیت حاصل ہے۔ آزادی قید خانے سے دلائی جاتی ہے قلعہ سے نہیں۔ اگر برقعہ یا پردہ پر امتناع عائد کر دیا جائے تو عورت اس محفوظ قلعہ سے نکالی جاکر غیر محفوظ ہوجائے گی۔ اور آجکل کے اس آزادانہ جنسی بے راہ روی کے ماحول میں اسکی عزت و ناموس خطرہ میں پڑ جائےگی۔ اور کم از کم مسلمان عورتیں ان قرآنی احکام پردہ کا احترام ضرور کریں گی جس میں خود انہی کی فلاح و بہبود مضمر ہے۔

لنک:
 

عدیل منا

محفلین
آج ہی میں یہ پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں مختلف علمائے کرام اور چند "دانشوروں" سے حجاب کے بارے میں گفتگو کی گئی کہ آیا حجاب لازمی ہے یا نہیں۔
آپ اسے دیکھیں اور بتائیں کہ آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے
دی گئی مندرجہ بالا ویڈیو میں علماء بھی ہیں اور تاریخ دان بھی۔ اس میں بیان کئے گئے کچھ واقعات ( واللہ عا لم ) جیسا کہ "ایک جنگ میں ایک صحابی زخموں سے چور۔ خیمے میں تنہا 3 دن مستقل ایک خاتون کی تیمارداری۔" قرآن پاک کے ذریعے پردے کے احکامات کے نازل ہونے کے بعد کا واقعہ کہ "ایک خاتون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں (بغیر نقاب کے) ایک صحابی جو کہ وہاں پہلے سے موجود تھے اس خاتون کی طرف بار بار دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا چہرہ دوسری طرف کرتے لیکن خاتون سے نہیں فرمایا کہ چہرہ ڈھانپ لے۔" وغیرہ
" يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبهنَّ " جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے ہیں۔ اور " يُدْنِينَ " اِدنَاء قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں مگر جب اس کے ساتھ عَلٰی کا صلہ آئے تو یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالٰی کا مقصود اگر وہی ہوتا جو چند حضرات اس ویڈیو میں فرما رہے ہیں تو وہ " يُدْنِينَ اِ لَيْهِنَّ" فرماتا۔ جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو وہ کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ " يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ " کےمعنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں۔
بیان کئے گئے واقعات اور فرمان الٰہی آپس میں میل نہیں کھا رہے۔
اشفاق علی صاحب نے حجاب اور پردے سے متعلق جو تفصیلات یہاں بیان کی ہیں مستند ہیں اور ان سے کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔
 

ابن عادل

محفلین
پروگرام کا نام تلاش اور موضوع اور اس میں پیش کیے جانے والے دانشور وں (ایک دو کو چھوڑ کر) کو دیکھ کر ملا نصیر الدین یاد آئے ۔ ان کی چابی گم ہوگئی تھی وہ ڈھونڈنے لگے کسی پوچھا کہ کہں گم ہوئی تھی انہوں نے فرمایا وہاں پر پوچھا تو یہاں کیوں تلاش کررہے ہیں ؟ فرمایا وہاں اندھیر ا ہے اس لیے یہاں روشنی میں تلاش کررہا ہوں ۔
مسئلہ اسلام کا ۔ تورائے بھی علمائے اسلام کی پوچھنی ہوگی ۔ لیکن چونکہ وہاں اندھیر اہے اس لیے مذکورہ لوگوں میں مسئلہ کا حل تلاش کیا جارہا ہے ۔
 
Top