جیرا بٹ

گل زیب انجم

محفلین
سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس
(یاداں)
جیرا بٹ
تحریر :-گل زیب انجم
پیوند کاری یوں تو ہماری زندگی کا ایک اہم کردار ہے جو ہم پاپوش سے پوشاک تک اور ذات سے لے کر اخلاق تک کرتے ہی رہتے ہیں. لیکن کون سا پیوند کہاں لگے گا اس سے ساری زندگی انجان رہتے ہیں. پیوند کاری کی فنکارانہ صلاحیت ہماری اپنی ہی ذات پات حسن خلق اور مذہبی تفرّقات کے گرد و پیش گهومتی رہتی ہے. ہم جیسے ہیں ایسے دہکتے نہیں ہیں ہم نے ایسے ماسک چڑھا لیے ہیں کہ کبهی کبهار خود کو بهی پہچان نہیں پاتے.
یوں تو یہ دنیا آش نراش کے دو رنگوں سے بنائی گئی لیکن اس میں بسنے والے ہزاروں رنگ لے کر آئے. اس دنیا میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو غیریبی کے پیراہن کو مسکراہٹوں کا پیوند لگانے کا فن رکهتے ہیں اور انہی مسکراہٹوں سے مفلسی اور فطرت کے محاذ پر صف آرا رہ کر زمانے سے اپنے دکھ درد چهپا رہے ہوتے ہیں. ایسے لوگ گنے چنے ہوتے ہیں لیکن جہاں ہوتے ہیں کمال کے ہوتے ہیں.
سیری چوک سے اگر ہم چتر کی سمت جائیں تو رستے میں جو پہلی ندی آتی ہے اسے یارہویں آلیاں صوفی ہوراں نی کسی کہا جاتا ہے پٹوار کے لحاظ سے سیری یہاں ختم ہو جاتی ہے اور سامنے کا گاؤں کہوٹہ لکها اور پکارا جاتا ہے. اسی کسی کے ساتھ ایک باولی ہوتی تھی جسے لعلاں نی باں کہا جاتا تھا اس باولی کو جب بهی دیکھا بهرا ہوا دیکھا بلکہ سیت سیالے کی بانسبت روڑے(مئی سے اگست) میں زیادہ بهری ہوئی پائی . بهلے زمانے تهے تعلیم کم تهی لیکن جس کے پاس جتنی تهی اس پر عمل پیرا تها . پیار محبت کو فروغ دیا جاتا تھا آپس میں اتفاق تها قدرتی وسائل سے لوگ مالا مال تهے . کہتے ہیں ناچاقیاں گراں نہے گراں اجاڑی شوڑنیاں . بالکل سولہ آنے درست کہتے تھے. آج ناچاقیاں بڑهی تو ندیوں نالوں میں ساون بھادوں کے دنوں میں بهی پانی دیکھنے کو نہیں ملتا. اسی کسی کی پارلی جانب ایک دندا ( cliff) تها جسے لغوراں نا دندا کہتے تھے. اس کی کیا وجہ تسمیہ تهی آج تک نہ جان پایا . جب کہ باولی کو لعلاں نی باں کیوں کہتے تھے اس کی وجہ تسمیہ اپنی نانی مرحومہ سے یہ سنی تهی کہ یہاں بهوت پریت نہایا کرتے تھے اور وہ اکثر کڑکتی دوپہر کو نہایا کرتے تھے . یہ کہ وہ پیتل تانبے کے کٹوروں کی طرح چمکتے نظر آتے تھے جس کی وجہ سے پرانے لوگوں نے بجائے جن بهوت کہنے کے لعل وغیرہ کہنا شروع کر دیا اور وہاں سے لعلاں نی باں ہی مشہور ہو گئی . بعد میں اسی باولی اور دندے کے کچھ فاصلے پر باوا حسن دین کشمیری سکونت پذیر ہوئے جن کی دیکھا دیکھی اور لوگوں نے بهی اسی دندے کے آس پاس مکان بنوانے شروع کیے آبادی اور کیا بلکہ باوے حسن دین کے اپنے پتر پوتے اتنے ہوئے کے ایک گراں بن گیا . جہاں انسان بس جائیں وہاں بهوت پریت کیا بانو قدسیہ کے راجا گدھ بهی کم ہی رہتے ہیں.
لغوراں نا دندا اور باوے احمر دین کا دندا کبهی آمنے سامنے ہوا کرتے تهے سڑک کی توسیع ہوئی تو باوے احمر دین کے دندے کو ہی کاٹ دیا گیا اور لاریاں چلنا شروع ہو گئی .
چتر جانے والی سڑک جہاں سے کسی عبور کرتی ہے یہاں دس بارہ سال پہلے ایک سروس اسٹیشن ہوا کرتا تها جہاں ایک بار مجهے بهی کار واش کرانے کا اتفاق ہوا . ایک درمیانے سے قد کا گوری رنگت والا لڑکا کار واش کرنے لگا جو کام کرتے ہوئے اتنا ہی نیا لگ رہا تها جتنا میں کار چلاتے ہوئے لگتا تھا. وقت گزاری کے لیے پوچها نام کیا ہے کہنے لگا بابو . میں نے کہا یہ تو پیار سے کہا جاتا ہو گا کہنے لگا جی ایہہ گل اے مہاڑے بےجی بابو ای آخنے ہن. اس کی بات سن کر شاعر کشمیر افضل صابری کا شعر یاد آیا کہ :- جسے دفتر کی صفائی سے فرصت نہ ملی، ماں نے اس کا نام آفسر رکھ دیا. مائیں اکثر اولاد کے سلسے میں تقدیر کے لکھے کو بهول کر اپنی بهول بهلیوں میں محو ہوکر بڑے بڑے نام تو دے دیتی ہیں لیکن نوشتہ تقدیر کو بدلنا ان کے بس میں نہیں.
کسی(ندی) سے تهوڑی ہی آگے صاحبزادہ مطیع الرحمٰن کی درس گاہ ہے جہاں بچوں کو قرآن پاک کا درس دیا جاتا ہے . درس گاہ سے تقریباً ہزار میٹر کے فاصلے پر ایک کوٹھی نما مکان ہے جس کی دیوار پر جعلی حروف میں لال حویلی لکها ہوا ہے.اللہ جانے اندرونی مناظر کیا ہوں گے البتہ باہر سے اس کی لال دیواروں نے اندر والوں کا مکمل اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے. یہ حویلی دیکھتے ہی یادوں کے تار ایک نہایت ہی ملنسار اور زمانہ شناس شخصیت نذیر بٹ سے جا ملتے ہیں. یہ حویلی بهی ان کا تصرف تهی جو آج بھی برلب سڑک لوگوں کی نگاہوں کا محور بنی ہوئی ہے.
نذیر بٹ عرف جیرا ایک ایسے شخص کا نام تها جس کو ہر رنگ میں نہ صرف دیکها گیا ہے بلکہ ہر رنگ اس میں پایا گیا ہے. خوبصورتی اللہ کی دین ہے پهر مرد کی خوبصورتی ہوتی ہی کیا ہے بس اچهی صحت اور مناسب جسامت. یہ دونوں باتیں اس میں قدرتی پائی جاتی تهی . پهر اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم سے نواز رکها تها . عقل ایسی عظیم نعمت ہے جو ہر کمی کو پورا کر دیتا ہے. جیرا بٹ کو جب سے ہم نے دیکها بس شوخ مزاج ہی دیکها وہ دور بڑے بالوں اور بڑی بڑی مونچھوں کا تها. یہ شوق انہی پر آ کر ختم ہوتا تھا. بڑے گنگهریالے بال اور بهری بهری آدهے رخساروں پر قبضہ کرتی مونچھیں . آنکھوں میں ہر وقت سرمہ اور دانتوں پر لگا دنداسہ یہ سب کچھ ہی ہر وقت دیکهنے کو ملتا تها. ہونٹوں پر ہر وقت کھلتے گلاب کی پنکھڑیوں سا تبسم سجائے رکھنا آپ کا شیوہ تها. بال ہر وقت تیل سے چپڑ کر رکهنے اور سلیقے سے یوں سلجھانے کہ بڑے بڑے ہیر ڈریسر مات کها جاتے. زندگی میں ایسا کون سا شوق تها جسے پورا نہیں کیا. گهڑ سواری کا شوق پیدا ہوا تو گهوڑی خرید لی کتوں کے پالنے کا شوق جاگا تو بولہی نسل کے کتے رکھ لیے جب دل میں کار کی خواہش نے انگڑائی لی تو انسٹالمنٹ پر کار لے لی. ایک دور ایسا بهی آیا کہ بہت بڑے بڑے پونچوں والی شلواریں ہوا کرتی تھیں لیکن جتنی بڑی شلوار ہوتی تھی اتنی ہی چهوٹی گول گهیرے والی قمیص ہوا کرتی تھی. سامنے دو جیبیں اور لمبائی کی کسر بڑے بڑے کالروں پر نکال دی جاتی تھی. سٹیل کے بٹنوں کا بهی یہی دور تها . بس ہر زمانے کا اپنا ہی رواج تها . پھر فیشن اور جیرے بٹ کا دامن چولی سا ساتھ تها. فیشن میں جیرے کا کوئی ثانی نہیں تها . گویا جیرا بٹ نام تها ایک ایسے شخص کا جو ہر فن مولا تھا.
فلم جیرا بلیڈ میں منور ظریف بطور جیرا کیا آئے تهے کے پهر کوئی کم ہی نذیر رہا سبهی جیرا بن گئے ... پهر ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی لاہور رہے اور اپنے اصلی نام سے بلایا یا پکارا جائے. لاہوریوں کو شارٹ کٹ کی خداداد صلاحیت حاصل ہے جہاں وہ کالے رنگ کے کسی شخص کو چاندی کمزور لاغر کو پہلوان جی جیسے خطابات دے دیتے ہیں وہی ناموں کا حشر نشر کر دیتے ہیں. ہمارے ساتھ نیلا گنبد ایک دکان پر مقبول نامی لڑکا کام کیا کرتا تھا جب وہ نیا نیا آیا تو ہم نے سوچا کہ اس کا نام مقبول ہے اس کو کوئی کیا شارٹ کٹ لگائے گا ابهی ہم یہی سوچ ہی رہے تهے کہ دکان کے مالک نے ہمیں مختصرات سے نوازتے ہوئے پوچها بوہلہ کتهے آ. نذیر بٹ بهی لاہور کام کرتے تھے پهر وہ کیسے ان نوازشات لاہوریہ سے بچ سکتے تھے.
جیرا جی کی تعلیمی اسناد کا کچھ خاص علم نہیں لیکن خوش گفتار اور نڈر انسان تها. محفل کوئی ہو بلاجهجک اس میں حصہ لے لینے کی صلاحیت موجود تهی .
ان کی عادت تهی کہ ہر رنگ کی محفل میں جا بیٹھا کرتے تھے اور جب بیٹھ جاتے تو پھر محفل انہی کی ہو جاتی تھی. بات کے مطابق وہ باڈی کے ہر حصے کو محو گفتگو رکهتے مثلاً کسی چیز کی جسامت کو کم کر کے بتانا ہو تو پھر وہ کیا کرتے ہاتھ کا انگوٹھا اور اس کے ساتھ والی دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب کرتے ہوئے کہتے ایمان نال تکو تے سہی صرف اتنی سی اے سی. اور یہ صرف وہ انگلیوں کو ہی نہ چهوٹا کرتے بلکہ وہ آنکھوں اور ہونٹوں کو بهی اتنا ہی چهوٹا کر کے بات کہتے. اور پهر اتنا ہی آگے کو جهکتے کے سننے والے یقین کر لیتے کہ جو ہاتهی انہوں نے دیکها وہ اتنا ہی چھوٹا ہوا ہو گا کہ چوہے کے بل میں گهس جاتا ہو گا. کوئی بهینس وغیرہ کا ذکر موضوع گفتگو ہو تو آپ اس کی کهیری دکهانے کے لیے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے دونوں ہاتھ اتنی دور لے جاتے جیسے اس کی کهیری نہیں اس کا پورا جثہ دکهانے لگے ہوں . کسی چیز کی تعریف کرنا ان کے بعد بس تها. آپ پائے کی دانشمندانہ گفتگو کرتے کہ سننے والا ورطہ حیرت میں پڑ جاتا کہ یہ کون سی ہستی کا سامنا ہو گیا ہے. ماسٹر منشاء مرحوم کی یاد میں ایک تقریب منعقد تھی. بڑے بڑے علماء پروفیسر اور مقررین ماسٹر منشاء کے قتل کی مذمت اور ان کی زندگی کے مختلف پہلو کو تقریر کا موضوع بنا رہے تھے. اللہ غریق رحمت فرمائے پروفیسر انوار حسین چشتی کو پنجابی شعروں کے ساتھ ماسٹر منشاء کی تعلیمی میدان میں گرانقدر خدمات کو سراہا رہے تهے جب آپ نے ایک پنجابی شعر کے ساتھ موضوع سمیٹا تو اسٹیج سیکرٹری نے نذیر بٹ کو دعوت دی کہ ماسٹر منشاء کی یاد میں کچھ اظہار خیال کریں . اسٹیج سیکرٹری کا اتنا کہنا ہی تها کہ محفل میں کانا پوسی شروع ہو گئی کسی نے دبی زبان میں کہا ایں بالو کدوں ہوئ بالیاں جوغی، محفل میں کهسر پسر ہو رہی تھی جسے نذیر بٹ خود بهی سن رہے تھے لیکن کمال کا حوصلہ تها کے آپ نے اسٹیج سیکرٹری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نیم وا آنکھوں سے محفل پر نظر دوڑائی حسب معمول ہونٹوں پر تبسّم بکهیرا اور گویا ہوئے کہ یہ نذیر بٹ کی قسمت کے ایک ایسی محفل میں مدعو کیا گیا جس میں علاقہ بهر کے پڑهے لکهے لوگ موجود ہیں. میری خوش قسمتی کہ اس محفل میں یہ ہونٹ (انگوٹھے اور کلمے والی انگلی سے پکڑتے ہوئے) کسی ایسی شخصیت کے بارے میں کهلیں گے جو خود علم کا ایک سمندر تهی، لیکن اس سے پہلے یہ بتا دوں کہ مجھ سے پہلے جو پروفیسر صاحب محفل پر سحر طاری کیے ہوئے تھے ان کا (مائیک ہاتھ میں پکڑے ہوئے جهکے اور پروفیسر صاحب سے کہنے لگے اک واری اپنا دس سو،نام سن کر سیدهے ہوئے) وادی بناہ کیا پورے کشمیر کو معلوم ہے میں نے نام ان سے اس لیے پوچها کے جس طرح یہ سوہنی سوادلی تقریر کرتے ہیں اس طرح یہ اپنا نام بھی سوادلے طریقے نال بتاتے ہیں. تو مجهے جتنا سواد ان کی تقریر سے آتا ہے......... بس پروفیسر صاحب کے سواد کو یوں انہوں نے بیان کیا کہ لوگ اصل موضوع ہی بهول گے کہ موضوع سخن حیات انوار نہیں حیات منشاء تها .
آپ میں ایک کمال یہ بھی تها کہ آپ چہرہ شناسی کے ماہر تهے. آج کل انسان کی انسانیت سے زیادہ اس کی معیشت کو دیکها جاتا ہے بس اس نظریے کے لوگ کبھی کبهار آپ کو وہ مقام نہیں دیتے تھے جس پر آپ قدرتی طور پر فائز تھے. ایسا ہی ایک قابل بیان واقعہ ہے کہ آپ ایک ایسی محفل میں شریک ہوئے جس میں آپ کا ایک رشتہ دار بهی بیٹها ہوا تها آپ نے اسلام کیا سب نے وعلیکم اسلام کہا اور ساتھ ہی کسی نے اٹھ کر ہاتھ ملایا کسی نے ڈرائیور والا سلوٹ کیا اور کوئی کرسی اور تشریف کے درمیان انچ دو انچ کا خلا دے کر سینے پر ہاتھ رکهتے ہوئے پهر بیٹھ گیا لیکن آپ کا رشتہ دار ان تمام اخلاقی تکلفات کو پس پشت رکهے ہوئے آپ کی آمد سے بےنیاز رہا . آپ نے مسکراہٹ بهرے چہرے سے آنکھوں میں مخصوص شوخی پیدا کرتے ہوئے اس سے مصافحے کے لیے یوں ہاتھ بڑهایا کے وہ اپنے عمل پر شرمندہ سا ہو گیا . محفل جم گئی نذیر بٹ ہر چھوٹے بڑے کو جی بسم اللہ جی بسم اللہ کہتے اور گپیں لگاتے رہے. محفلین باتوں سے محظوظ ہوتے ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوتی کوئی سگریٹ پیش کرتا تو ہونٹوں کو فل سیونگ دیتے ہوئے پکڑتے اور ساتھ ہی کہہ دیتے آپ کا اخلاق دیکھ کر دل کہتا ہے آپ سے ایک سگریٹ اور لے لوں . اور واقعی پهر آپ لے لیتے . باتیں جاری رہی اور جب محفل برخواست ہونے لگی تو آپ نے سب کے ساتھ ہاتھ ملایا ماسوائے اس کے جس نے پہلے یہ تکلیف گوارہ نہ کی تھی .آخر پر اس کے پاس کھڑے ہو کر کہنے لگے بٹ صاب تساں نال کیاں نہی ہتھ ملایا، وہ کیا ابهی سارے محفلین ہی سوچ رہے تھے کہ کیوں نہیں ہاتھ ملایا،تو اتنی دیر میں خود ہی سگریٹ کو چٹکی بجا کر جھاڑتے ہوئے کہنے لگے اس واسطے کہ تساں مہاڑے نال اس موڑے تیکر جولسو. اور مزے کی بات اس آدمی کو وہاں تک صرف یہ کہتے ہوئے لے گے بٹ صاب(صاحب) ہور سناو مزاج کیسے ہیں. وہاں جاکر اپنا ایک ہاتھ پیچھے باندھ کر دوسرے سے مصافحہ کرتے ہوئے کہنے لگے تساں مڑی جاو تساں کی کوئی کم ہوسی. مطلب یہ وہ کبھی بھی کسی کو محسوس نہیں ہونے دیتے تھے کہ تمہاری وجہ سے مجهے دکھ ہوا ہے بلکہ ہو جاتا تو پهر اسی طرح سے تبادلہ کرتے کہ وہ بهی سوچتا رہتا کہ نذیر بٹ نے کیا کیا ہے.
کہا جاتا ہے سانچ کو آنچ نہیں،درست ہے کسی جگہ سچ اتنا کام کر جاتا ہے کہ اس کا نتیجہ سوچ سے بڑه کر نکلتا ہے. آپ جہاں خرید و فروخت کے دلدادہ تھے وہی ایک شوق یہ بهی بیدار ہوا کہ انگلینڈ جایا جائے لیکن معاشی بحران ساتھ ساتھ تها. آپ نے کسی سے چیدہ چیدہ معلومات لی تو پتہ چلا اتنے بینک بیلنس کی اسٹیٹ منٹ ہونی چاہیے یہ ہو وہ ہو . آپ سنتے اور یوں ہر بات حفظ کر لیتے جیسے مدرسے کا طالب علم کرتا ہے. آخر کہیں اپلائی کر دیا جب آپ برٹش ایمبیسی انٹرویو کے لیے گے تو وہاں گورے نے ترجمان کی وساطت سے فنانشلی سوال کیے تو آپ نے بڑی متانت سے پہلے مونچھوں پر دو انگلیاں پھیری پهر آنکھوں کو یوں بند کیا جیسے آپ سگریٹ کا کش لینے کے لیے کیا کرتے تھے پهر چہرے پر اپنی مخصوص مسکراہٹ سجائی گردن کو تهوڑا سا جھٹکا دے کر ترجمان سے مخاطب ہوتے ہوئے، کہنے لگے گورے کی دسو کہ مہاڑیاں ساریاں اسٹیٹمنٹیں نی حقیقت اے آ کہ ایتهے ہشنے نا کرایہ وی کسے کولوں کینی تے آیا آں. آپ نے یہ بات اس سچائی سے کہی کے گورا اردو نہ جاننے کے باوجود بهی ساری کتها سمجھ گیا اور او کے کی اسٹیمپ لگا دی.
آپ بات زیادہ تر پہاڑی میں کرتے تھے اگر کہیں اردو بولنی بهی پڑ جاتی تو ہر چار پانچ الفاظ کے بعد پہاڑی کی آمیزش ضرور کر دیتے تھے. آپ کو گفتگو میں کمال حاصل تھا ایک عام سی بات بهی یوں کرتے کے سننے والا حیران تو ہوتا ساتھ ہی ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا. ایک بار ہم اپنے دوست قادری بٹ کے ہمراہ مولوی عطا الرحمن صاحب کے گهر بیٹھے ہوئے تھے الیکشن کا دور تها باتیں چل رہی کہ مولوی صاحب نے ایک واقعہ سنایا واقعہ بڑا دلچسپ تها لیکن اس میں مولوی صاحب بقول قادری صاحب کے کوئی خاص چاشنی نہ پیدا کر سکے. نذیر بٹ بھی وہی بیٹھے ہوئے تھے آپ نےکہا اے قصہ ہک واری فیر سناو آں آپ کا یہ کہنا تها کہ سارا مجمع ہی ہنس کر کہنے لگا واقعی اے گل بٹ (نذیر) ہوراں نہے مونہوں بہوں سوہنی لغسی.
یوں تو بٹ برادری پر اخلاق پیار بڑے چهوٹے کا احترام وسیع پیمانے پر ہے لیکن بٹ نذیر میں یہ سب چیزیں اضافی تهیں . وہ بڑے تو بڑے رہے کبهی چهوٹوں کو بهی اکرام دیے نہیں رہتے تھے.کبهی نہیں سنا کہ انہوں نے کسی چهوٹے کو اوئے کہا ہو بلکہ اپنی عادت کے مطابق وہ بچوں کو بهی پہلے بسم اللہ کہتے پهر تساں کہہ کر بلاتے. اللہ تعالیٰ نے بے شک اچهے اخلاق کو پسند کیا ہے. نذیر بٹ میں یہ اخلاق ہی تها جو دوسرے لوگوں سے انہیں ممتاز کرتا تها .
آپ کی پیٹھ پیچھے چاہیے کوئی کیسا بهی ہو لیکن جب سامنا ہو جاتا تو بس ایک ہی بسم اللہ کی لپیٹ میں آ جاتا . یعنی وہ آپ کے اخلاق کے احصار میں یوں آتا کہ پهر نکلنے کی راہیں مسدود ہو جاتی .
آپ کے ظریفانہ عادات و اطوار کا سحر انسان تو انسان حجر و شجر پر چل جاتا تها. میرے ایک دوست لین دین کے معاملے میں بڑے آتش مزاج ہیں ایک بار ان سے ایسا ہی لیں دین ہو گیا بٹ نذیر بتائی ہوئی تاریخوں سے جب کچھ زیادہ اوپر ہو گے تو مجهے فکر لگی کہ ہمارے دوست شاہ جی کی پڑیوں کے مصداق بہت گرم ہیں کہی لاوا اگل ہی نہ دیں . ابهی میں اسی سوچ میں تها کہ بٹ صاحب آ گئے. میری ایک نظر دوست پر اور دوسری بٹ صاحب پر تهی. اس دن کمال کا فن دیکها کے آپ نے میرے دوست کو پندرہ منٹ تک تو اپنے آنے کی تمہید میں مصروف رکھا اور اس کے بعد خود ہی یاد کرایا کہ آپ اپنی عادت کے مطابق چائے تو ضرور پلائیں گے لیکن ساتھ ایک گلاس پانی کا بهی کہہ دینا . آپ کا اتنا کہنا تها کہ میرے دوست کے آتشیں مزاج یوں یخ ہو گے جیسے وہ گلاس انہی کے لیے منگوانا چاہتے تھے. آپ کے جانے کے بعد میں نے دوست سے پوچھا اس مسئلے میں بٹ صاحب نے کیا کہا تو وہ ماتهے پر ہاتھ رکهتے ہوئے( جیسے اصل بات انہیں اب یاد آئی ہو) کہنے لگے اس موضوع پر تو بات ہی نہیں ہوئی .. .. .. اس کے بعد میرا دوست تو کہیں اور مصروف ہو گیا لیکن میں بٹ صاحب کی باتوں کا یوں اسیر ہوا کہ آج تک اسیر ہی ہوں.
بٹ صاحب میں قدرت نے مہمان نوازی کا وصف اس قدر بهر رکها تها کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے. پندرہ سولہ بچوں کا واحد کیفل ہو کر بهی کبهی مہمان نوازی میں کسر نہ اٹها رکهتے . مالی حالت کافی وگرگوں ہونے کے باوجود بھی راہ چلتے لوگوں کو چائے پانی کے لیے بلا لیتے . پهر چہرہ اتنا مسکراہٹ سے بهرپور رکهتے کے آنے والے چہرے اور حالات کا موازنہ بهی نہ کر سکتے.
آپ جتنے خوش مزاج اور ملنسار رفقاء میں تهے اتنے ہی گهر میں بھی تهے . آپ اپنے بیٹے شاہجہان سے کافی فرینک تهے . کہا کرتے تھے جب بیٹا باپ کے کندھوں تک پہنچ جاتا ہے تو پهر وہ بیٹا نہیں بلکہ دکهاں سکهاں ناں پنجهال بنی جاناں اے. اور یہی احساس ان کو دوست بنا دیتا ہے. آپ بیٹوں سے بھی بڑھ کر بیٹیوں سے زیادہ محبت و شفقت کرتے . ایک بیٹی کے متعلق ان کا شوق رہتا کہ یہ ڈیبیٹیر بنے سکول کالج میں تقاریر کرے . آپ اس سلسلے میں خود رہنمائی فرماتے ججهک دور کراتے بولنے کا حوصلہ بندهاتے(سننے میں آیا ہے کہ وہ بچی اب نعتیہ و تقریری پروگرامات میں حصہ لیتی ہے جب کہ بیٹا شاہجہان بهی پائے کا نعت خواں ہے) آپ کی یہ خواہشات آپ کی زندگی میں ہی پوری ہو گئی تھیں آپ نے بیٹی کو تقریر کرتے بهی سنا اور بیٹے کو نعت خوانی کرتے بهی دیکها .
نذیر بٹ انتہائی سفید پوش ہونے کے باوجود بلاکے ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تهے ساری زندگی ہنس کهیل کر گزاری . کهانے کے متعلق کهانا دینے والا ہی جانے لیکن پہناوا بہت اچها ہوتا تھا. آپ کی جسامت ایسی تهی کہ کچھ بھی پہن لیتے خوب ججتا تھا. ہر فیشن کیا ہر شوق پورا کیا. مفلسی کو یوں مات دی کہ قریب سے قریب تر شخص بهی یہ نہ جان سکا کہ ان قہقہوں کے پس پشت کیا پنہاں ہے. آپ نے ان آنکهوں کو جانے کہاں سے شوخی لے کر دے رکهی تهی جو پندرہ بچوں کی پرورش پر اگر ایک بار بهی سنجیدہ ہو جاتی تو مہینوں کے لیے اداسی بهر آتی . لیکن آپ نے ایسا نہیں ہونے دیا. آپ قدرت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے مسکراتے رہے .
آپ کی عادت تهی کے یاروں میں بلاتکلف رہتے تھے. ہر بات بلاججهک کرتے تھے لیکن بات وہی کہ انداز اپنا تها. آپ بات یوں کنایتا"کرتے کہ جس کے متعلق کرتے وہ گہرائی تک سمجھ جاتا اور باقی کے اسے بٹ صاب دی اک گپ سمجھ کر ہنس پڑتے. ایسی ہی ایک بات ان کی انگلینڈ کے سفر سے وابستہ ہے کہ آپ کے یاروں دوستوں نے بےشمار تحائف آپ کی نذر کیے. وہ دور چونکہ وی سی آر کا تها اور اسی کو بڑا اہم سمجھا جاتا تھا. آپ کے ایک دوست نے ٹی وی تحفے میں دیا لیکن ساتھ وی سی آر نہیں تها آپ نے ہنستے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہلہ ٹی وی تکی اسطرح لغنا اے جسطرح مہنجی نالو کسے کٹا لائی کیندا ہووے(اکیلا ٹی وی یوں لگتا ہے جیسے بهینس سے کسی نے اس کا بچہ جدا کر لیا ہوا)یہ بات اتنے پیارے انداز میں کہی کہ پوری محفل کو ہنسی چھوٹ گئی.
آپ زمانے کے بہت سے پیچ و خم سے شناسا تهے یہی بات تهی کہ آپ کی گفتگو میں جہاں شوخی ہوتی تھی وہی اس کے پس پردا بہت ساری مصلحتیں حقیقتیں اور افسردگی ہوتی تھی. آپ نے اپنی مسکراہٹ سے عسرت بهری زندگی کو یوں مات دے رکهی تهی جیسے لال رنگ دیوا روں نے حویلی کے اندرونی منظر کو عشرت کا رنگ دے رکها تها. آپ اپنے رنج و الم کو گیتوں کے سر میں بیان کرنے کا فن رکهتے تهے. وہ جانتے تھے کہ آج کا دور آنسوؤں سے زیادہ قہقہوں کو ترجیح دیتا ہے اس لیے انہوں نے غموں سے ہاسے مستعار لے کر زمانے کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ .......... جن کے لبوں پر قہقہے ہوتے ہیں...... ان کے غم بہت گہرے ہوتے ہیں.
 
Top