جیب جیب میں انٹرنیٹ کیفے( تھری جی اور فور جی ٹیکنولوجی کے تعمیری استعمال کی اہمیت)

جیب جیب میں انٹرنیٹ کیفے
ٹیکنولوجی ٹاٴمز کی طرف سے "نقارہ خدا" جلد 05 شمارہ 19 میں پوسٹ کیا گیا
پاکستان میں نیکسٹ جنریشن ٹیکنولوجی کی آمد کے ساتھ تھری جی اور فور جی کی سہولت فراہم کرنے والے موبائل آپریٹرز نے اپنی اپنی ایڈورٹائزنگ شروع کردی ہے۔
کوئی تیز رفتاری کو ہدف بنارہا ہے تو
کوئی ویڈیو کالنگ کو،
کسی کا مطمع نظر ایچ ڈی موویز دکھانا ہے تو
کوئی مزاح کے عنوان میں موویز کے ٹکڑے دکھانے کی باتیں کر رہا ہے۔
بالفاظ دیگر اس ٹیکنولوجی کی آمد کے بعد اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص یا تو موویز میں کھویا ملے گا یا اپنوں سے آمنے سامنے باتیں کرتا پایا جائے گا۔
جدید ٹیکنولوجی کی آمد ایک بہت اچھا قدم ہے، کیونکہ ٹیکنولوجی اپنے ساتھ ترقی بھی لاتی ہے اور یوں بھی بروڈ بینڈ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہر ۱۰ لاکھ بروڈ بینڈ صارفین ملکی جی ڈی پی میں ۴ء۱ فیصد اضافے کا سبب ہوتے ہیں۔ یہ ترقی اسقدر تیز رفتار ہے کہ فقط ایک سال پہلے یہ اضافہ ایک فیصد شمار کیا جاتا تھا۔ ترقی کی اس رفتار کو دیکھتے ہوئے باآسانی یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد جی ڈی پی میں اضافہ کی یہ رفتار ۲ فیصد کو چھونے کے بعد مزید آگے بڑھتی چلی جائے گی۔
ٹیکنولوجی کی اس رفتار کا سبب کیا ہے اور آخر یہ ترقی کیسے آئے گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ادراک عوامی سطح پر کروایا جانا لازمی ہے۔ عوامی سطح پر ٹیکنولوجی استعمال کرنے کے حوالے سے ہمارے پاس ماضی کے چند تلخ تجربات موجود ہیں۔ مثلاً جب ہمارے ملک میں ٹیلی وژن آیا تو سب نے اس کی بہت آؤبھگت کی، لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کے مضر اثرات سامنے آنے لگے اور ضابطہ اخلاق کی باتیں ہونے لگیں۔ سیٹلائٹ ڈش اور ویڈیو کیسٹ پلیئرز کی تاریخ بھی کچھ اسی طرح ہے۔ تھوڑا مزید آگے بڑھیں تو پاکستان میں انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ انٹرنیٹ کیفے کا اسکینڈل بھی نظر آتا ہے جس کے باعث کئی اموات بھی واقع ہوئیں اور بالآخر ایک ضابطہ اخلاق کے تحت اب ان نیٹ کیفیز کو پابند کیا گیا کہ وہ مخرب اخلاق حرکات کا موجب نہ بنیں۔
جب ہم اپنے ملک کے موجودہ نظام کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے یہاں احتیاطی تدابیر ہمیشہ نقصان ہونے کے بعد اختیار کی جاتی ہیں۔ یہی ٹیکنولوجی کے میدان میں بھی ہورہا ہے کہ ہم ٹیکنولوجی کو عام پہلے کردیتے ہیں اور پھر جب اس کے منفی استعمالات سامنے آتے ہیں تو احتیاطی تدابیر سوچنا شروع کردیتے ہیں۔
تھری جی اور فور جی ٹیکنولوجی وقت کی اہم ضرورت ہے، خصوصاً بروڈ بینڈ تک ہر شخص کی رسائی ترقی کا زینہ ہے، لیکن کیا ہم اس جدید ٹیکنولوجی سے وہ خاطر خواہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں جس کے باعث یہ ملکی جی ڈی پی میں اضافہ کا سبب بھی بن سکے؟ ہم سے پہلے جن ممالک میں تھری جی اور فور جی ٹیکنولوجی کا نفاذ عمل میں لایا گیا انہوں نے ٹیکنولوجی کے نفاذ سے پہلے انہی پہلوؤں پر غور کیا اور یہی وجہ ہے کہ ٹیکنولوجی کی آمد کے ساتھ ہی ان ممالک میں ترقی کا عمل بھی رواں دواں ہوگیا، جس کے نتیجہ میں یہ ممالک آج تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہے ہیں۔
بروڈ بینڈ تک ہر کسی کی رسائی ایک اہم کام ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ بروڈ بینڈ یا انٹرنیٹ کیلئے مواد کی تیاری بھی اہم ہے۔ ہمارے ملک کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے جس کیلئے انگریزی پڑھنا یا سمجھنا دشوار ہے (خیر سے جو تعلیم یافتہ ہیں ان میں بھی انگریزی خواندگی کی شرح کم ہی ہے)۔ ایسے میں اگر ان کی رسائی ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ تک ہوجاتی ہے تو انہیں موویز دیکھنے یا ویڈیو کالنگ کے علاوہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگاٰ اور یوں ترقی بذریعہ ٹیکنولوجی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ ایسے میں ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ فی الفور ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر اس ٹیکنولوجی کے تعمیری استعمال کی اہمیت کو عوام میں نہ صرف اجاگر کریں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس ٹیکنولوجی سے آنے والی ممکنہ تباہی کیلئے ضابطہ اخلاق بھی وضع کریں.... وگرنہ کل کے انٹرنیٹ کیفے آج ہر کسی کی جیب میں ہوں گے۔
 
Top