جہاں تک شاخ جاتی ہے ثمر جاتے ہیں ٭ ادریس آزاد

ہم ایسے لوگ شیشے میں اُتر جاتے ہیں
چھنک کر ٹوٹ جاتے ہیں، بکھر جاتے ہیں

ہرا رہتا ہے دنیا میں ہراِک پودا محبت کا
جہاں تک شاخ جاتی ہے ثمر جاتے ہیں

ہمارے دِل کی چنگاری کو بس اِک پھونک کافی ہے
زیادہ سانس لے کوئی ، تو ڈر جاتے ہیں

بہت دن کہہ لیا ہم تم پہ مرتے،تم پہ مرتے ہیں
بس اب کی بار یوں کرتے ہیں مر ہی جاتے ہیں

ہم اپنے چوکھٹے میں ہی کھڑے رہتے ہیں بے جنبش
ہمارے پاؤں سے رستے گزر جاتے ہیں

جڑیں مضبوط رکھنے سے غرض ہےاپنے پودوں کو
یہ سرکٹوا کے تو اُلٹا سنور جاتے ہیں

وہاں تک جستجو بے منت اُمید جاتی ہے
جہاں تک ساتھ سڑکوں کےشجر جاتے ہیں

بس اب کچھ اور تو لینا نہیں بازارِ دنیا سے
دکانیں بند ہونے کو ہیں، گھر جاتے ہیں
ادریس آزاد​
 
Top