جہانِ نو ہورہا ہے پیدا،عالم پیر مررہا ہے,,,,ثروت جمال اصمعی

گزشتہ صدی کے وسط میں دوسری جنگ عظیم نے اپنے وقت کی سپر پاور سلطنت متحدہ برطانیہ کو جس کے حدود میں کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا، ایک چھوٹے سے جزیرہ نما تک محدود کردیا جس کا کل رقبہ ڈھائی لاکھ مربع کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ پھر اسی بیسویں صدی کے آخری عشروں میں افغانستان پر فوج کشی کی حماقت نے سوویت یونین کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیا۔ سوشلسٹ نظام کی اس ٹوٹ پھوٹ کے بعد عالمی سرمایہ داری کا سرغنہ بے لگام ہوگیا۔ کرہٴ ارض پرطاقت کا توازن بگڑ گیا۔ امریکی حکمرانوں کے سرمیں دنیا پر غلبے کا سودا سمایا۔ یک قطبی نظام اور نیوورلڈ آرڈر کی باتیں شروع ہوئیں۔ اپنی طاقت کو چیلنج کرنے کا کسی میں دم خم نہ دیکھ کر امریکی حکمرانوں نے عالمی برادری کے سامنے ”انا ربکم الاعلیٰ“ کا نعرہ بلند کیا۔ پوری دنیا پر امریکی تسلط کا منصوبہ بنایا گیا۔ موجودہ نو قدامت پسند امریکی حکمراں ٹولے کے لیے گزشتہ صدی کے آخری مہینوں میں اکیسویں صدی کو امریکی عالمی بالادستی کی صدی بنانے کے لیے پروجیکٹ فار دی نیو امریکن سنچری نامی تھنک ٹینک کے تیارکردہ اس منصوبے پر عمل کا آغاز افغانستان اور پھر عراق کے خلاف بے جواز ننگی جارحیت سے ہوا۔اس کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جعلی نعرہ ایجاد کیا گیا۔ یکے بعد دیگرے تمام مسلم ملکوں کو اسی نعرے کی آڑ میں نشانہ بنانے کے عزائم برملا ظاہر کیے گئے۔نائن الیون کے ڈرامے کے بعد علی الاعلان کہا گیا کہ ”دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لیے امریکا کو ساٹھ ملکوں میں جانا پڑے گا۔“ یاد رہے کہ تین مبصر ریاستوں سمیت او آئی سی میں شامل ملکوں کی کل تعداد اتنی ہی ہے۔لیکن افغانستان اور عراق میں پھولوں کے ہار پہنائے جانے اور چند روز کے اندر مقاصد حاصل کرلینے کی خوش گمانیاں خاک میں مل گئیں۔ اور آج دنیا ریاست ہائے متحدہ کے حیرت انگیز طور پر تیزرفتار اخلاقی، سیاسی اور معاشی انحطاط کا نظارہ کررہی ہے۔
عراق کی جنگ کے غلط ہونے اور وہاں امریکیوں کے ناکام ہوجانے کے بارے میں آج کہیں دورائے نہیں ہیں۔جبکہ افغانستان کی جنگ کو کچھ دن پہلے تک ”گڈ وار“ قرار دینے والے امریکی اور ان کے اتحادی آج زبان حال ہی سے نہیں زبان قال سے بھی تسلیم کر رہے کہ وہ دلدل میں پھنس گئے ہیں اور اس سے نکلنا ان کے لیے آسان نہیں ہے ۔دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کی دعویدار مملکت ان جنگوں پر تیس کھرب (تین ٹریلین) ڈالر خرچ کرکے ہانپ رہی ہے۔ اس کی اپنی معیشت ہی نہیں ، پورا سرمایہ دارانہ نظام سنگین خطرات کی زد میں گھر گیا ہے۔ امریکا میں اس نظام کو بچانے کے لیے --- جسے ٹونی بین نے ٹائم آن لائن میں شائع ہونے والے اپنے تازہ تجزیے میں بہت درست طور پر ”وال اسٹریٹ کا جواخانہ“ کہا ہے ---طاقت کا جو انجکشن لگایا گیا ہے، اس کی مالیت سات سو ارب ڈالر ہے۔ سرمایہ داری کے بنیادی ہتھیار یعنی سرمایہ کار بینکوں کو بچانے کے لیے سرمایہ داری نظام کے علمبردار دوسرے ممالک بھی اپنے ہاں ایسے ہی اقدامات کررہے ہیں۔
دولت کی خدائی پر مبنی یہ نظام مخلوق خدا کے لیے کس قدر سنگ دل اور سفاک ہے،اور نجی آزادی کے نام پر اس نظام میں سرمایہ دار کو عام آدمی کا خون چوسنے کی کیسی بے روک ٹوک آزادی حاصل ہوتی ہے،اس کا مزہ ہم اپنے ملک میں بھی چکھ رہے ہیں جہاں ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں، ذخیرہ اندوزوں اورناجائز منافع خوروں کو عوام کو لوٹنے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ مگر ہمارے حکمراں ابتر معاشی صورت حال کو ہمارے مصائب کا سبب بتاکر ہرذمہ داری سے بری ہوجاتے ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار کو علاج قرار دے کر لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ صحت چاہتے ہویہ کڑوی گولیاں نگلنی ہوں گی۔لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ نظام ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں بھی دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے ذریعے عام آدمی کو محرومیوں اور حق تلفیوں کے سوا کچھ نہیں دے رہا ہے۔
اس نظام کی سنگ دلی کا اندازہ لگانے کے لیے اس کی بدولت نہایت تیزی سے ترقی کرنے والے اپنے پڑوسی بھارت پر ایک نظر ڈالتے چلئے۔بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 17 سال میں دوارب ڈالر سے بڑھ کر تقریباً تین سو ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔اس کے باوجود اس امیرملک کی 77فی صد آبادی یعنی چوراسی کروڑ مردوزن محض نصف ڈالر یعنی بیس روپے یومیہ پر گزارا کرر ہے ہیں جبکہ خط غربت کی کسوٹی اب عام طور پر ایک نہیں دو ڈالر یومیہ تسلیم کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال اگست کے اواخر میں یہ انکشاف بھارت کے سرکاری ادارے نیشنل کمیشن فار انٹر پرائزز اِن اَن آرگنائزڈ سیکٹر نے خود کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے ہوئے اس ملک میں پچھلے پندرہ برسوں میں کم و بیش دولاکھ کسان اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کا کوئی وسیلہ نہ پاکر خودکشی کرچکے ہیں۔ مگر سرمایہ داری میں دولت کے مقابلے میں انسان اور اس کی جان اور آبرو سب جس طرح بے وقعت ہوجاتے ہیں ، اس کا ماتم کرتے ہوئے بھارتی تجزیہ کار دیویندر شرما آن لائن جرنل میں لکھتے ہیں کہ” چند ماہ پہلے جب وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں مقروض کسانوں کو ،جن میں سے دولاکھ پچھلے پندرہ برس میں خود کشی کرچکے ہیں، قرضوں کی دلدل سے نکالنے کے لیے ساٹھ ہزار کروڑروپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا تو سیاسی و صحافتی حلقوں اور ٹی وی چینلوں پر شور مچ گیا تھا کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ معاشی نہیں سیاسی فیصلہ قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی تھی اور اس اقدام کو آئندہ انتخابات میں کامیابی کا حربہ ٹھہرایا گیا تھا۔شرما کہتے ہیں، لیکن محض چھ ماہ بعد عالمی مالیاتی بحران برپا ہونے پر جب یہ نظام اپنے آپ کو خود بچانے کا اہل ثابت نہیں ہوا تو ریزرو بینک آف انڈیا پر مداخلت کے لیے دباوٴ ڈالا گیا اوروال اسٹریٹ کے ڈھیر ہوجانے کے فوراً بعد ریزرو بینک آف انڈیا نے چوراسی ہزار کروڑروپے ملکی بنکاری نظام میں داخل کرنے کا اعلان کیا۔ مگر اس بار کسی نے نہیں پوچھا کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی؟“ عالمی سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کو بچانے کے لیے طاقت کے ان ٹیکوں کے باوجود مریض کی جان بچ جانے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق عالمی مالیاتی بحران کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ وال اسٹریٹ کا طوفان بے قابو نظر آتا ہے۔ جمعرات کو وہاں تاریخ کی دوسری سب سے بڑی مندی دیکھی گئی۔اس کے نتیجے میں دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں تباہی برپا ہے۔ہر روز بروکروں کے کھربوں روپے ڈوب رہے ہیں۔سال رواں میں امریکی مالیاتی خسارہ 455ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جبکہ مالیاتی اداروں کو تباہی سے بچانے کے لیے سات سو ارب ڈالر کا امدادی پیکیج اس خسارے میں شامل نہیں ہے۔ اس کی شمولیت کی صورت میں سال رواں میں امریکا کا مالیاتی خسارہ ایک ٹریلین یعنی دس کھرب ڈالر سے بھی تجاوز کرجائے گا۔یہ خسارہ امریکا کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً تین فی صد ہے اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے لیے بہت زیادہ ہے۔فیڈرل بینک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے تسلیم کیا ہے کہ امریکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوچکی ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکا کے پاس اس نظام کو بچانے کے لیے مزید کسی اقدام کی گنجائش نہیں ہے۔
اس انسانیت کش نظام کا خاتمہ تو بالآخر ہونا ہی تھا مگرشایدکسی کو گمان نہیں تھا کہ یہ سب اتنی جلدی شروع ہوجائے گا۔ عالمی سرمایہ داری اور اس کے سرغنہ امریکا پر نازل ہونے والی یہ تباہی اس ہوس کا نتیجہ ہے جس نے اسے عالم اسلام کے وسائل پر تسلط کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جعلی نعرے کی آڑ میں افغانستان اور عراق کے خلاف بے جواز جارحیت پر آمادہ کیا۔سات برس میں نوقدامت پسند امریکی ٹولے نے ان جنگوں پر تیس کھرب ڈالر پھونک دیے۔ اور امریکا کے ایک سابق نائب وزیر خزانہ اور عظیم محقق پال کریگ رابرٹس کے بقول ”دنیا کی واحد سپر پاور“ یہ جنگیں مکمل طور پر بیرونی قرضوں کے بل پر لڑرہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم میں جنگی اخراجات کے لیے امریکا سے قرض لیا تو دانشمندوں نے کہہ دیا کہ اب برطانیہ دنیا کی سپر پاور نہیں رہا۔
آج امریکا اپنی ہوس کے ہاتھوں اسی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ افغانستان اور عراق پر دائمی تسلط کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے۔ اب امریکا کے لیے اصل مسئلہ رہی سہی ساکھ اور عزت بچا کر اس جنجال سے جان چھڑانے کا ہے۔پورا سرمایہ دار بلاک لوٹ کے مال میں شرکت کے لیے اس نام نہاد انسداد دہشت گردی مہم میں امریکا کا اتحادی بنا رہا مگر اب افغانستان کی صورت حال کے پیش نظر برطانیہ جیسا ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھی امریکا سے کہہ رہا ہے کہ ”ہم فتح کی حکمت عملی کے شریک ہیں، شکست کے نہیں۔“یہ بات حال ہی میں افغانستان میں مقیم برطانوی سفیر نے کہی ہے۔
مکافات عمل کے قانون کے حرکت میں آجانے کے آثار نمایاں ہیں۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم نے برطانیہ کی سپر پاور کی حیثیت کو ختم کیااور افغانستان پر قبضے کی خواہش کے ہاتھوں سوویت یونین اپنا وجود مٹا بیٹھا، اسی طرح آج افغانستان کے خاک نشین بندگان صحرائی اور مردان کہستان کے ہاتھوں ریاست ہائے متحدہ کا دبدبہ مٹی میں مل رہا ہے۔دنیا میں طاقت کا توازن قائم کرنے کے لیے قدرت نے ان لوگوں کا انتخاب کیا ہے۔
جن کے لیے اقبال نے کہا ہے”کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو، ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں“۔بلاشبہ ”جہان نو ہورہا ہے پیدا، عالم پیر مررہا ہے“۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=311182
 
Top