جہاد میں زخمی ہونے کی فضیلت کا بیان اور جہاد میں زخمی ہونے والے بعض حضرات کے واقعات

بائیسواں باب

جہاد میں زخمی ہونے کی فضیلت کا بیان اور جہاد میں زخمی ہونے والے بعض حضرات کے واقعات

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے اور اللہ تعالی اپنے راستے میں زخمی ہونے والوں کو خوب جانتے ہیں وہ شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم سے ( ایسا ) خون بہہ رہا ہو گا جس کا رنگ خون جیسا اور خوشبو مشک کی ہو گی۔ ( بخاری ۔ مسلم )

علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اس کے زخم سے خون بہنے کے دو مقصد ہیں پہلا یہ کہ یہ خون اسے زخمی کرنے والے کے خلاف ثبوت بنے گا اور دوسرا یہ کہ اس کے خون میں مشک کی خوشبو جاری کر کے تمام لوگوں کے سامنے اس کی افضلیت کا اعلان ہو گا [ کہ یہ وہ خوش قسمت ہے جس نے اپنا خون اللہ کے راستے میں بہایا تھا] ۔ ( احکام الاحکام )

٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں دودھ نکالنے کے درمیانی وقفے جتنی مدت جہاد کیا جنت اس کے لئے واجب ہو گئی اور جس شخص نے سچے دل سے اللہ تعالی سے شہادت مانگی پھر وہ [ طبعی موت ] مرگیا یا شہید ہوا اس کے لئے شہید کا اجر ہے اور جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوا یا اس نے چوٹ کھائی تو قیامت کے دن اس کا زخم پہلے سے زیادہ تازہ ہو گا اس [ کے خون ] کا رنگ زعفران جیسا اور خوشبو مشک کی ہو گی اور جس کو اللہ کے راستے میں پھوڑا نکلا اس پر قیامت کے دن شہیدوں کی مہر ہو گی۔ ( ابو داؤد ۔ ترمذی ، نسائی ۔ ابن ماجہ )

٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک دو قطروں اور دو قدموں سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے ایک اس آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف میں نکلا ہو اور دوسرا اس خون کا قطرہ جو اللہ کے راستے میں بہہ گیا ہو اور دو محبوب قدموں میں پہلا وہ قدم ہے جو اللہ کے راستے میں اٹھا ہو اور دوسرا وہ قدم جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فرض کی ادائیگی کے لئے اٹھا ہو۔ ( ترمذی )

٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ جب بھی غزوہ احد کا تذکرہ کرتے تھے تو فرماتے تھے کہ وہ دن تو سارا طلحہ رضی اللہ عنہ کا تھا ۔میں سب سے پہلے واپس لوٹنے والا شخص تھا جب میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کافروں سے لڑ رہا ہے۔ میں نے کہا یہ یقیناً طلحہ ہی ہو نگے جو اس شرف کو حاصل کر گئے جو مجھ سے رہ گیا۔ اس دن حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو ستر سے زائد یا اس سے کچھ کم زخم لگے تھے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )

٭ حضرت قیس بن ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو دیکھا جو شل ہو چکا تھا اسی ہاتھ سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی تھی [ کہ دشمنوں کی طرف سے آنے والے تیر اپنے اس ہاتھ پر روک کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچنے دیتے تھے ] ( سیر اعلام النبلاء )

٭ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو ایک شخص نے بتایا کہ میں نے انہیں میدان جنگ میں دیکھا کہ ایک کافر نے انہیں نیزا مارا ۔ انہوں نے اسی زخمی حالت میں اس کافر پر حملہ کیا اور دونوں اکٹھے گر گئے۔ ( سیر اعلام النبلاء )

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن حضرت ابو دجانہ نے باغ کے اندر چلانگ لگائی جس سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ اس ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ( سیر اعلام النبلاء )

٭ حضرت معاذ بن عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر کے دن ابو جہل کو اپنی طرف متوجہ کیا پھر جب مجھے موقع مل گیا تو میں نے اس پر حملہ کر کے اس کا پاؤں پنڈلی سے کاٹ دیا۔ اس دوران عکرمہ بن ابو جہل نے میری گردن پر وار کیا اور میرا بازو کاٹ دیا وہ بازو میرے جسم کی کھال کے ساتھ لٹکا رہ گیا اور اس حملے نے مجھے ابو جہل سے ہٹا دیا میں سارا دن اسی لٹکے ہوئے بازو کے ساتھ لڑتا رہا جب یہ بازو مجھے زیادہ تکلیف دینے لگا تو میں نے اسے پاؤں کے نیچے رکھ کر کھینچا اور اسے جسم سے جدا کر دیا ۔ ( سیر اعلام النبلاء)

٭ حضرت جعفر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ سب سے پہلے نکلے دشمن کی طرف سے ایک تیر آیا جو انہیں کندھے اور دل کے درمیان لگا یہ تیر نکالا گیا لیکن ان کا بایاں حصہ سخت متاثر ہوا چنانچہ وہ گھسٹ کر اپنے خیمے تک پہنچے جب میدان جنگ سخت گرم ہو گیا اور مسلمانوں کو شکست ہونے لگی تو حضرت معن بن عدی رضی اللہ عنہ نے انصار کو آواز لگائی اے انصاریوں آؤ اللہ کی طرف آؤ اللہ کی طرف اور دشمن پر پلٹ کر حملہ کرو ۔ یہ سن کر حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا آپ کہا جا رہے ہیں ؟ فرمانے لگے پکارنے والے نے میرا نام بھی پکار ا ہے میں نے کہا ان کا مقصد زخمیوں کو پکارنا نہیں تھا ۔ فرمانے لگے میں بھی انصار میں سے ہوں اور میں ضرور ان کی پکار پر جاؤں گا اگرچہ گھسٹ کر جا سکوں ۔ انہوں نے پٹی باندھی اور تلوار لے کے نکل کھڑے ہوئے اور آوازیں لگانے لگے اے انصار آج حنین کے دن کی طرح پلٹ کر حملہ کرو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تلواریں آپس میں ٹکرانے لگیں اور حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ گیا ۔ میں نے کہا اے ابو عقیل رضی اللہ عنہ انہوں نے کمزور سی آواز میں جواب دیا اور پوچھا کہ کس کو شکست ہو رہی ہے میں نے کہا مبارک ہو اللہ کا دشمن [ یعنی مسیلمہ کذاب ] مارا گیا ہے۔ یہ سنکر انہوں نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور اللہ کا شکر ادا کیا اور شہید ہو گئے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سنایا تو فرمانے لگے ان پر اللہ تعالی کی رحمتیں ہوں وہ شہادت کی طلب میں لگے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اس پا ہی لیا ۔ ( مرآۃ الزمان لابن الجوزی )

٭ حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک لڑائی کے دوران ان سے کہا گیا کہ اگر آپ خوف اور خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو جھنڈا آپ کے علاوہ کسی اور کو دے دیا جائے۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے فرمایا [ اگر خوف کی وجہ سے جھنڈا کسی اور کو دے دوں ] تب تو میں بہت برا قرآن کا عالم ہوں ۔ [ جنگ کے دوران ] ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بایاں ہاتھ میں لے لیا جب بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو جھنڈے کو سینے سے لگا لیا۔ اس وقت وہ یہ آیات پڑھ رہے تھے :۔


" و ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسول افائن مات
او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر
اللہ شیا و سیجزی الشکرین ۔ وما کان لنفس ان تموت
الا باذن اللہ کتبا موجلا ومن یرد ثواب الڈنیا توتہ منھا
ومن یرد ثواب الاخرۃ نوتہ منھا وسنجزی الشاکرین و کائن
من نبی قتل معہ ریبیوں کثیر ۔ ( ال عمران ۱۴۴ ۔ ۱۴۶)​
اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو ایک رسول ہیں آپ سے پہلے بہت سے
رسول گزر چکے ہیں پھر اگر آپ کا انتقال ہوجائے یا آپ شہید کر
دیئے جائیں تو کیا تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے (یعنی دین اسلام سے ہٹ
جاؤ گے ) اور جو شخص الٹا پھر جائے گا وہ اللہ تعالی کا کچھ نقصان نہیں کرے گا
اللہ تعالی جلد ہی بدلہ دے گا شکر گزاروں کو ۔ اور کسی شخص کو اللہ تعالی
کے حکم کے بغیر موت نہیں آسکتی (موت کا) ایک مقرر وقت لکھا ہوا ہے
اور جو کوئی دنیا کا بدلہ چاہے گا ہم اسی دنیا ہی سے دیں گے اور ہم بدلہ دیں گے
احسان والوں کو ۔ اور بہت ( سے ایسے ) نبی ہیں کہ جن کے ساتھ ہو کر
بہت سارے اللہ والے ( راہ خدا میں ) لڑے ہیں۔​

جب آپ گر پڑے تو آپ نے ساتھیوں سے پوچھا ابو حذیفہ کا کیا ہوا جواب ملا کہ وہ شہید ہو گئے۔ پھر پوچھا کہ فلاں کا کیا ہوا ۔ جواب ملا وہ بھی شہید ہو گئے ہیں فرمایا مجھے ان دونوں کے درمیان لٹا دو ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )


٭ حضرت یزید بن السکن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن جب سخت لڑائی شروع ہو گئی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی اور آپ نے اس دن دو زرہیں پہن رکھی تھیں جس کی وجہ سے کچھ بوجھ تھا جب دشمن آپ کے قریب آگئے تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹایا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے اور حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ بھی دشمن کو پیچھے دھکیل رہے تھے وہ شدید زخمی ہو گئے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا اور آپ کے دانت مبارک شہید ہو گئے اور آپ کے ہونٹوں اور رخسار پر بھی زخم آئے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آج کون شخص ایسا ہے جو اپنی جان ہمارے لیے قربان کرے یہ سن کر انصار کے پانچ نوجوان چھلانگ لگا کر میدان میں اترے ان نوجوانوں میں حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ بھی تھے وہ سارے نوجوان شہید ہو گئے حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ لڑتے لڑتے زخمی ہو کر گر گئے اسی دوران مسلمانوں نے حملہ کر کے حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ کے آس پاس سے کافروں کو مار بھگایا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا میرے قریب آجاؤ ۔ اس وقت وہ زخموں سے چور تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پاؤں بچھا دیا ۔ حضرت زیاد نے پاؤں مبارک پر اپنا منہ رکھا اور شہید ہو گئے ۔ ( کتاب الجہاد لابن مبارک )
 
٭ حضرت عبداللہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے [ احد کے دن ] ارشاد فرمایا کون ہے جو میرے پاس سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی خبر لے آئے ایک انصاری نے کہا اے اللہ کے رسول یہ کام میں کروں گا۔ وہ انصاری صحابی مقتولین کے درمیان گھومنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں دیکھا آپ اس وقت آخری سانس لے رہے تھے انصاری نے کہا ۔ اے سعد اللہ کے نبی نے مجھے بھیجا ہے تاکہ دیکھوں کہ آپ زندوں میں سے ہیں یا شہیدوں میں سے ۔ حضرت سعد نے فرمایا میں تو شہیدوں میں سے ہوں ۔ میرا سلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا دینا اور کہنا کہ سعد نے عرض کیا ہے اے اللہ کے رسول اللہ تعالی آپ کو ہماری طرف سے وہ بہترین بدلہ عطاء فرمائے جو اللہ کسی قوم کی طرف سے اس کے نبی کو دیتا ہے اور اپنی قوم [ انصار ] کو بھی میرا سلام کہہ دینا اور ان سے کہنا سعد نے تم سے کہا ہے کہ اللہ کے ہاں تمھارا کوئی عذر قبول نہیں ہو گا اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچی اور تم میں سے کوئی آرام سے بیٹھا رہا ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )

٭ ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ۔ ( المستدرک )

٭ مسعر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے سعد رحمہ اللہ نے بتایا کہ وہ واقعہ جسر کے ایک شخص کے پاس سے گزرے جن کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کت چکے تھے اور وہ گھسٹ رہے تھے اور یہ آیت پڑھ رہے تھے : ۔

اولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین
والشھداء ولصالحین و حسن اولئک رفیقا۔ ( النساء ۶۹ )
وہ ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے
انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین
اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ (کتاب الجہاد لابن المبارک)​


مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ واقعہ جسر اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں پر ایک آزمائش تھی اور اس واقعے میں بہت سارے مسلمان شہید ہوئے ۔


مختصر واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت ابو عبید بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ دریا کے کنارے پر اترے تو رستم کے کمانڈر بہمان نے انہیں پیغام بھیجا کہ یا تو آپ لوگ دریا عبور کر کے ہماری طرف آجائیں یا ہم دریا عبور کر کے آپ کی طرف آجاتے ہیں حضرت ابو عبید رضی اللہ تعالی نے فرمایا وہ لوگ ہم سے زیادہ موت پر جرات بننے والے نہ بن جائیں چنانچہ ہم ہی پہلے عبور کریں گے جب دریا عبور کیا تو آگے انتہائی تنگ جگہ تھی ۔ وہاں لڑائی شروع ہو گئی حضرت ابو عبید چھ سے دس ہزار کے لشکر کے ساتھ تھے دن کے آخری حصے میں آمنے سامنے کی لڑائی شروع ہوئی تو مسلمانوں کے گھوڑے ہاتھیوں کو دیکھ کر آگے نہیں بڑھتے تھے ۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو عبید رضی اللہ عنہ گھوڑوں سے کود پڑے دوسرے حضرات نے بھی ایسا ہی کیا حضرت ابو عبید رضی اللہ عنہ نے ہاتھیوں پر حملے کا حکم دیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر¬¬¬¬¬ آگے بڑھے۔ خود انہوں نے ایک سفید ہاتھی پر حملہ کیا حالانکہ اس سے پہلے انہوں نے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا اور انہوں نے پلان کی رسی سے لٹک کر اسے تلوار سے کاٹ دیا دوسرے مجاہدین نے بھی ایسا ہی کیا ۔ چنانچہ انہوں نے سارے ہاتھیوں کے سوار اوپر سے گرا کر ہلاک کر دئیے اس معرکے میں چھ ہزار مشرک مارے گئے پھر حضرت ابو عبید رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھی پر حملہ کر کے اس کی سونڈ کاٹ دی وہ ہاتھی آپ پر حملہ آور ہوا اور آپ شہید ہوگئے لشکر والوں نے جب آپ کو ہاتھی کے نیچے دیکھا تو ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ ادھر اہل فارس نے دوبارہ حملہ کیا مسلمانوں کے سات علمبردار یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے ۔ حضرت عبداللہ بن یزید جسر یعنی پل کی طرف بڑھے اور اسے عبور کر لیا ۔ مسلمانوں کا لشکر دفاعی حملہ کر کے پل تک پہنچ گیا مگر پیچھے سے ان پر تلواریں چل رہی تھیں چنانچہ کئی ان میں سے دریا فرات میں گر گئے ۔ کئی کافروں کے ہاتھوں شہید ہو گئے ۔ ڈوبنے اور قتل ہونے کی تعداد چار ہزار تھی جبکہ دو ہزار نے بھاگ کر جان بچائی۔


یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جہاد میں زخمی ہونے والوں کو دوسرے زخمیوں جتنی تکلیف نہیں پہنچتی ۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جہاد میں شہید ہونے والے کو چیونٹی کے کاٹنے جیسی تکلیف ہوتی ہے تو جب شہید کا یہ حال ہے تو اسی سے زخمی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ [ کہ اسے بھی دوسرے زخمیوں کی بنسبت کم تکلیف ہوتی ہے ] یہ ایک واضح حقیقت ہے اس کا انکار وہی کر سکتا ہے جس نے تجربہ نہ کیا ہو ۔ اوپر جو واقعات ہم نے ذکر کئے ہیں وہ بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں ۔ اسی طرح عقلا بھی یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ جب دو آدمی کسی ذاتی غصے یا قومی غیرت میں لڑتے ہیں تو انہیں جوش اور غصے کی وجہ سے گہرے زخموں کا پتہ نہیں چلتا ۔ اور انہیں لڑائی کی بعد ان زخموں کا احساس ہوتا ہے حالانکہ وہ سارے موت سے بچنے کی کوشش میں ہوتے ہیں تو خود سوچئے کہ اس آدمی کی کیا کیفیت ہو گی جو اللہ کے لیے اور اس کی دین کے لیے غضب ناک ہو کر شہادت کی طلب میں نکلتا ہے ۔ اور اپنے نور ایمان کے ذریعے شہیدوں اور زخمیوں پر ہونے والے اللہ کے فضل کو بھی محسوس کرتا ہے ۔ جیسا کہ غزوہ احد میں حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آھا میں تو احد کی طرف سے جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ دشمنوں میں گھس گئے اور جام شہادت نوش فرما گئے۔ ( مسلم )

اسی طرح فتح موصلی کی بیوی کے بارے میں آتا ہے کہ اس نے اپنا ناخن اکھڑتے دیکھا تو ہنسنے لگی کسی نے پوچھا تمھارا تو ناخن اکھڑ رہا ہے اور تم ہنس رہی ہو وہ فرمانے لگیں اجر کی حلاوت نے درد کی کڑواہٹ کو دور کر دیا ہے ۔


اس سے بھی زیادہ عجیب واقعہ جنگ یرموک میں حضرت حیاش بن قیس کا پیش آیا کہ انہوں نے جنگ کے دوران کافروں کے کئی سردار مار گرائے ۔ لڑائی کے دوران ان کی ٹانگ کٹ گئی مگر انہیں ان کا احساس تک نہیں ہوا ۔ جب لڑائی ختم ہو گئی تو وہ اپنی ٹانگ کو ڈھونڈ رہے تھے ۔ (جامع الفنون لابن شبیب الحرانی )

یہ بات بھی اچھی طرح جان لیجئے کہ بعض مرتبہ زخمی کو بھی حور عین نظر آجاتی ہے کیونکہ وہ بھی جلد شہید ہونے والا ہوتا ہے۔


اسی سلسلے کا ایک واقعہ عارف باللہ بزرگ امام عبداللہ الیافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب روض الریاحین میں نقل فرمایا ہے ۔راوی کہتے ہیں کہ ہم ملگ روم میں تھے ہمارے ساتھ ایک ایسے شخص بھی تھے جو کچھ بھی نہیں کھاتے پیتے تھے ایک بار میں نے ان سے کہا آپ کو گیارہ دن سے دیکھ رہا ہوں آپ نے کچھ بھی نہیں کھایا انہوں نے کہا جب آپ لوگوں سے میری جدائی کا وقت قریب ہو گا تو میں اس کی وجہ بتا دونگا ۔ جب جدائی کا وقت قریب آگیا تو ہم نے ان سے کہا آپ وہ بات بتائیے جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا ایک بار ہم چار سو مجاہدین تھے ہم پر دشمنوں نے حملہ کر دیا اس حملے میں میرے ساتھی شہید ہو گئے اور میں زخمی حالت میں ان میں پڑا ہوا تھا جب سورج غروب ہونے لگا تو مجھے فضا میں مہکتی ہوئی خوشبو محسوس ہوئی میں نے آنکھیں کھولیں تو مجھے کچھ نوجوان لڑکیاں نظر آئیں جنہوں نے ایسا لباس پہن رکھا تھا کہ اس جیسا لباس میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا ان لڑکیوں کے ہاتھ میں پیالے تھے اور وہ شہیدوں کے منہ میں کچھ انڈیل رہی تھیں میں نے آنکھیں بند کر لیں جب وہ میرے پاس پہنچیں تو ایک نے کہا اس کے منہ میں بھی انڈیلو اور جلدی کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ آسمان کے دروازے بند ہو جائے اور ہمیں زمین پر رہنا پڑے ۔ دوسری نے کہا اے بہن اس کے جسم میں تو ابھی جان ہے کیا اسے بھی پلادوں ۔ پہلے والی نے کہا کوئی بات نہیں اسے بھی پلا دو پس اس نے میرے حلق میں وہ شربت انڈیل دیا ۔ جب سے میں نے وہ شربت پیا ہے مجھے نہ کچھ کھانے کی ضرورت پڑتی ہے نہ پینے کی ۔ ( روض الریاحین )


٭ حضرت کھیل الازدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن بہت سارے مسلمان زخمی ہوگئے تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا [ اے اللہ کے رسول ] لوگ بہت زخمی ہو گئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جاؤ اور راستے میں کھڑے ہو جاؤ اور جو زخمی بھی گزرے تم یہ دعا پڑھو۔
بسم اللہ شفاء الحی الحمید من کل حد و حدید او
حجر تلید اللھم اشف انہ لا شافی انت

اللہ کے نام سے۔ اللہ تعالی جو زندہ ہے اور خوبیوں والا ہے
اور اس کی شفا پہنچے ہر دھار ، لوہے اور پرانے پتھر کے زخم سے
اے اللہ اسے شفا دے بے شک تو ہی شفا دینے والا ہے۔
حضرت کھیل الازدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس زخم میں پیپ نہ پڑے گی نہ اس سے خون بہے گا ۔ ( ابن عساکر )

زخموں کے لیے نسخے
فائدہ :
کاغذ جلا کر اس کی راکھ ڈالنے سے گہرے زخم کا خون بھی بند ہو جاتا ہے اسی طرح آبنوس کی لکڑی کا برادہ بھی زخموں پر چھڑکنے سے زخم جلد بھر جاتے ہیں اور خراب نہیں ہوتے ہے یہ مجرب ہے ۔ چقمانی کا پتھر پیس کر اسے بالکل غبار کی طرح بنا لیا جائے پھر اگر اسے گندے اور مشکل سے ٹھیک ہونے والے زخموں پر ڈالا جائے تو وہ زخم مندمل ہو اجاتے ہیں یہ بھی مجرب ہے ۔ اگر آگ سے جلی ہوئی جگہ پر اچھا تیل اور اچھی طرح پسا ہوا نمگ ڈال دیا جائے تو درد کم ہو جائے گا اور پھوڑا نہیں بنے گا ۔ یہ بھی مجرب ہے ۔ یہ سارے علاج ابن السویدی رحمہ اللہ نے اپنے تذکرہ میں ذکر فرمائے ہیں ۔ ( واللہ اعلم )

[ اللہ تعالی کے راستے کا زخم ایک سعادت اور جنت کا تمغہ ہے ۔ آج کل کی حکومتیں ان فوجیوں کو اعزازی تمغے دیتی ہیں جو ملکی سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے کارنامے سر انجام دیتے ہیں یا زخمی ہو جاتے ہیں مجاہدین کرام ان ظاہری تمغوں سے بے نیاز ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں اور اللہ کی دین کی عظمت کے لیے اپنے جسم کے قیمتی اعضاء قربان کر دیتے ہیں چنانچہ اللہ تعالی کو ان پر پیار آتا ہے ۔اور اللہ تعالی ان سے بے انتہا محبت فرماتے ہیں اور انہیں اللہ تعالی قیامت کے دن اپنی رضا اور جنت کا ایسا تمغہ عطاء فرمائیں گے جسے دیکھ کر ہر شخص یہی تمنا کرے گا کہ کاش میں نے بھی دنیا میں اللہ تعالی کے راستے کے زخم اپنے جسم پر سجائے ہوتے ۔ آج کا نفس پرست نقلی عاشق اگر اپنے معشوق کی حفاظت میں اپنی انگلی کٹوا لے تو وہ معشوق کی نگاہوں میں کتنا بڑا مقام پا لیتا ہے تو کون اندازہ لگا سکتا ہے اس اللہ قدر دان کی قدردانی کا جس سے بڑھ کر کوئی قدر دانی کرنے والا نہیں ۔ بے شک جو لوگ اللہ تعالی کے راستے میں اپنے قیمتی اعضاء کٹوا تے ہیں وہ خوش نصیب ہیں کہ ان کے جسم کے اعضاء کو اللہ تعالی نے قبول فرما لیا اب انہیں اپنے زخموں پر اور کٹے ہوئے اعضاء پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اسی سے اجر کی امید رکھنی چاہیے۔

سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ کے بھائی کی آنکھ جہاد میں نکل گئی تو وہ رونے لگے۔ سلطان نے فرمایا اگر تجھے اندازہ ہو جائے کہ تجھے اس آنکھ کے بدلے اللہ تعالی کی طرف سے کیا ملنے والا ہے تو تو اس بات پر روئے گا کہ تیری دوسری آنگھ اللہ کی راہ میں قربان کیوں نہیں ہوئی۔

اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو ایمان و یقین کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کی توفیق عطاء فرمائیں ۔ آمین تم آمین ۔

گل تک صحابہ کرام اور ان کے بعد والے اہل ایمان کے جسم زخمی ہوئے تھے اور اعضاء کٹے تھے مگر اسلام کا ایک ایک حکم محفوظ تھا وہ حضرات اپنے جسم کو کٹوا کر اسلام کی حفاظت فرما رہے تھے جب کہ آج مسلمان کو اسلام سے زیادہ اپنے جسموں کی فکر لگی ہوئی ہے چنانچہ اسلام کو زخمی کیا جار رہا ہے اور اسے کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

یا اللہ ! ہم مسلمانوں کو توفیق عطاء فرما کہ ہم اپنی جانیں تو قربان کر دیں مگر اسلام پر آنچ نہ آنے دیں یا اللہ اسلام کی بھی حفاظت فرما اور تمام مسلمانوں کی بھی حفاظت فرما۔ آمین ثم آمین ]
 
Top