واجدحسین
معطل
بائیسواں باب
جہاد میں زخمی ہونے کی فضیلت کا بیان اور جہاد میں زخمی ہونے والے بعض حضرات کے واقعات
جہاد میں زخمی ہونے کی فضیلت کا بیان اور جہاد میں زخمی ہونے والے بعض حضرات کے واقعات
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے اور اللہ تعالی اپنے راستے میں زخمی ہونے والوں کو خوب جانتے ہیں وہ شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم سے ( ایسا ) خون بہہ رہا ہو گا جس کا رنگ خون جیسا اور خوشبو مشک کی ہو گی۔ ( بخاری ۔ مسلم )
علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اس کے زخم سے خون بہنے کے دو مقصد ہیں پہلا یہ کہ یہ خون اسے زخمی کرنے والے کے خلاف ثبوت بنے گا اور دوسرا یہ کہ اس کے خون میں مشک کی خوشبو جاری کر کے تمام لوگوں کے سامنے اس کی افضلیت کا اعلان ہو گا [ کہ یہ وہ خوش قسمت ہے جس نے اپنا خون اللہ کے راستے میں بہایا تھا] ۔ ( احکام الاحکام )
٭ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں دودھ نکالنے کے درمیانی وقفے جتنی مدت جہاد کیا جنت اس کے لئے واجب ہو گئی اور جس شخص نے سچے دل سے اللہ تعالی سے شہادت مانگی پھر وہ [ طبعی موت ] مرگیا یا شہید ہوا اس کے لئے شہید کا اجر ہے اور جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوا یا اس نے چوٹ کھائی تو قیامت کے دن اس کا زخم پہلے سے زیادہ تازہ ہو گا اس [ کے خون ] کا رنگ زعفران جیسا اور خوشبو مشک کی ہو گی اور جس کو اللہ کے راستے میں پھوڑا نکلا اس پر قیامت کے دن شہیدوں کی مہر ہو گی۔ ( ابو داؤد ۔ ترمذی ، نسائی ۔ ابن ماجہ )
٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک دو قطروں اور دو قدموں سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے ایک اس آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف میں نکلا ہو اور دوسرا اس خون کا قطرہ جو اللہ کے راستے میں بہہ گیا ہو اور دو محبوب قدموں میں پہلا وہ قدم ہے جو اللہ کے راستے میں اٹھا ہو اور دوسرا وہ قدم جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فرض کی ادائیگی کے لئے اٹھا ہو۔ ( ترمذی )
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ جب بھی غزوہ احد کا تذکرہ کرتے تھے تو فرماتے تھے کہ وہ دن تو سارا طلحہ رضی اللہ عنہ کا تھا ۔میں سب سے پہلے واپس لوٹنے والا شخص تھا جب میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کافروں سے لڑ رہا ہے۔ میں نے کہا یہ یقیناً طلحہ ہی ہو نگے جو اس شرف کو حاصل کر گئے جو مجھ سے رہ گیا۔ اس دن حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو ستر سے زائد یا اس سے کچھ کم زخم لگے تھے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
٭ حضرت قیس بن ابو حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو دیکھا جو شل ہو چکا تھا اسی ہاتھ سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی تھی [ کہ دشمنوں کی طرف سے آنے والے تیر اپنے اس ہاتھ پر روک کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچنے دیتے تھے ] ( سیر اعلام النبلاء )
٭ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو ایک شخص نے بتایا کہ میں نے انہیں میدان جنگ میں دیکھا کہ ایک کافر نے انہیں نیزا مارا ۔ انہوں نے اسی زخمی حالت میں اس کافر پر حملہ کیا اور دونوں اکٹھے گر گئے۔ ( سیر اعلام النبلاء )
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن حضرت ابو دجانہ نے باغ کے اندر چلانگ لگائی جس سے ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ اس ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ( سیر اعلام النبلاء )
٭ حضرت معاذ بن عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ بدر کے دن ابو جہل کو اپنی طرف متوجہ کیا پھر جب مجھے موقع مل گیا تو میں نے اس پر حملہ کر کے اس کا پاؤں پنڈلی سے کاٹ دیا۔ اس دوران عکرمہ بن ابو جہل نے میری گردن پر وار کیا اور میرا بازو کاٹ دیا وہ بازو میرے جسم کی کھال کے ساتھ لٹکا رہ گیا اور اس حملے نے مجھے ابو جہل سے ہٹا دیا میں سارا دن اسی لٹکے ہوئے بازو کے ساتھ لڑتا رہا جب یہ بازو مجھے زیادہ تکلیف دینے لگا تو میں نے اسے پاؤں کے نیچے رکھ کر کھینچا اور اسے جسم سے جدا کر دیا ۔ ( سیر اعلام النبلاء)
٭ حضرت جعفر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے دن حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ سب سے پہلے نکلے دشمن کی طرف سے ایک تیر آیا جو انہیں کندھے اور دل کے درمیان لگا یہ تیر نکالا گیا لیکن ان کا بایاں حصہ سخت متاثر ہوا چنانچہ وہ گھسٹ کر اپنے خیمے تک پہنچے جب میدان جنگ سخت گرم ہو گیا اور مسلمانوں کو شکست ہونے لگی تو حضرت معن بن عدی رضی اللہ عنہ نے انصار کو آواز لگائی اے انصاریوں آؤ اللہ کی طرف آؤ اللہ کی طرف اور دشمن پر پلٹ کر حملہ کرو ۔ یہ سن کر حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا آپ کہا جا رہے ہیں ؟ فرمانے لگے پکارنے والے نے میرا نام بھی پکار ا ہے میں نے کہا ان کا مقصد زخمیوں کو پکارنا نہیں تھا ۔ فرمانے لگے میں بھی انصار میں سے ہوں اور میں ضرور ان کی پکار پر جاؤں گا اگرچہ گھسٹ کر جا سکوں ۔ انہوں نے پٹی باندھی اور تلوار لے کے نکل کھڑے ہوئے اور آوازیں لگانے لگے اے انصار آج حنین کے دن کی طرح پلٹ کر حملہ کرو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تلواریں آپس میں ٹکرانے لگیں اور حضرت ابو عقیل رضی اللہ عنہ کا زخمی ہاتھ کندھے سے کٹ گیا ۔ میں نے کہا اے ابو عقیل رضی اللہ عنہ انہوں نے کمزور سی آواز میں جواب دیا اور پوچھا کہ کس کو شکست ہو رہی ہے میں نے کہا مبارک ہو اللہ کا دشمن [ یعنی مسیلمہ کذاب ] مارا گیا ہے۔ یہ سنکر انہوں نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور اللہ کا شکر ادا کیا اور شہید ہو گئے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سنایا تو فرمانے لگے ان پر اللہ تعالی کی رحمتیں ہوں وہ شہادت کی طلب میں لگے رہے یہاں تک کہ انہوں نے اس پا ہی لیا ۔ ( مرآۃ الزمان لابن الجوزی )
٭ حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک لڑائی کے دوران ان سے کہا گیا کہ اگر آپ خوف اور خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو جھنڈا آپ کے علاوہ کسی اور کو دے دیا جائے۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے فرمایا [ اگر خوف کی وجہ سے جھنڈا کسی اور کو دے دوں ] تب تو میں بہت برا قرآن کا عالم ہوں ۔ [ جنگ کے دوران ] ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بایاں ہاتھ میں لے لیا جب بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو جھنڈے کو سینے سے لگا لیا۔ اس وقت وہ یہ آیات پڑھ رہے تھے :۔
" و ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسول افائن مات
او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر
اللہ شیا و سیجزی الشکرین ۔ وما کان لنفس ان تموت
الا باذن اللہ کتبا موجلا ومن یرد ثواب الڈنیا توتہ منھا
ومن یرد ثواب الاخرۃ نوتہ منھا وسنجزی الشاکرین و کائن
من نبی قتل معہ ریبیوں کثیر ۔ ( ال عمران ۱۴۴ ۔ ۱۴۶)
او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر
اللہ شیا و سیجزی الشکرین ۔ وما کان لنفس ان تموت
الا باذن اللہ کتبا موجلا ومن یرد ثواب الڈنیا توتہ منھا
ومن یرد ثواب الاخرۃ نوتہ منھا وسنجزی الشاکرین و کائن
من نبی قتل معہ ریبیوں کثیر ۔ ( ال عمران ۱۴۴ ۔ ۱۴۶)
اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو ایک رسول ہیں آپ سے پہلے بہت سے
رسول گزر چکے ہیں پھر اگر آپ کا انتقال ہوجائے یا آپ شہید کر
دیئے جائیں تو کیا تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے (یعنی دین اسلام سے ہٹ
جاؤ گے ) اور جو شخص الٹا پھر جائے گا وہ اللہ تعالی کا کچھ نقصان نہیں کرے گا
اللہ تعالی جلد ہی بدلہ دے گا شکر گزاروں کو ۔ اور کسی شخص کو اللہ تعالی
کے حکم کے بغیر موت نہیں آسکتی (موت کا) ایک مقرر وقت لکھا ہوا ہے
اور جو کوئی دنیا کا بدلہ چاہے گا ہم اسی دنیا ہی سے دیں گے اور ہم بدلہ دیں گے
احسان والوں کو ۔ اور بہت ( سے ایسے ) نبی ہیں کہ جن کے ساتھ ہو کر
بہت سارے اللہ والے ( راہ خدا میں ) لڑے ہیں۔
رسول گزر چکے ہیں پھر اگر آپ کا انتقال ہوجائے یا آپ شہید کر
دیئے جائیں تو کیا تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے (یعنی دین اسلام سے ہٹ
جاؤ گے ) اور جو شخص الٹا پھر جائے گا وہ اللہ تعالی کا کچھ نقصان نہیں کرے گا
اللہ تعالی جلد ہی بدلہ دے گا شکر گزاروں کو ۔ اور کسی شخص کو اللہ تعالی
کے حکم کے بغیر موت نہیں آسکتی (موت کا) ایک مقرر وقت لکھا ہوا ہے
اور جو کوئی دنیا کا بدلہ چاہے گا ہم اسی دنیا ہی سے دیں گے اور ہم بدلہ دیں گے
احسان والوں کو ۔ اور بہت ( سے ایسے ) نبی ہیں کہ جن کے ساتھ ہو کر
بہت سارے اللہ والے ( راہ خدا میں ) لڑے ہیں۔
جب آپ گر پڑے تو آپ نے ساتھیوں سے پوچھا ابو حذیفہ کا کیا ہوا جواب ملا کہ وہ شہید ہو گئے۔ پھر پوچھا کہ فلاں کا کیا ہوا ۔ جواب ملا وہ بھی شہید ہو گئے ہیں فرمایا مجھے ان دونوں کے درمیان لٹا دو ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )
٭ حضرت یزید بن السکن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن جب سخت لڑائی شروع ہو گئی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی اور آپ نے اس دن دو زرہیں پہن رکھی تھیں جس کی وجہ سے کچھ بوجھ تھا جب دشمن آپ کے قریب آگئے تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹایا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے اور حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ بھی دشمن کو پیچھے دھکیل رہے تھے وہ شدید زخمی ہو گئے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا اور آپ کے دانت مبارک شہید ہو گئے اور آپ کے ہونٹوں اور رخسار پر بھی زخم آئے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آج کون شخص ایسا ہے جو اپنی جان ہمارے لیے قربان کرے یہ سن کر انصار کے پانچ نوجوان چھلانگ لگا کر میدان میں اترے ان نوجوانوں میں حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ بھی تھے وہ سارے نوجوان شہید ہو گئے حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ لڑتے لڑتے زخمی ہو کر گر گئے اسی دوران مسلمانوں نے حملہ کر کے حضرت زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ کے آس پاس سے کافروں کو مار بھگایا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا میرے قریب آجاؤ ۔ اس وقت وہ زخموں سے چور تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پاؤں بچھا دیا ۔ حضرت زیاد نے پاؤں مبارک پر اپنا منہ رکھا اور شہید ہو گئے ۔ ( کتاب الجہاد لابن مبارک )