٭ یزیدبن شریک رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ بغیر چادر کے تیروں کے ہدفوں کے درمیان بھاگ رہے ہیں ۔ ( کتاب السنن )
ہدف : زمین کی اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز گاڑی جاتی ہے اور اسے نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات کسی چیز کو لٹکا کر اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ دو ہدفوں کے درمیان دوڑ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں مجھے شہادت کیسے ملے گی مجھے شہادت کیسے ملے گی ۔ ( کتاب السنن )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام تیر اندازی کا کتنا زیادہ اہتمام فرماتے تھے چنانچہ وہ ہدفوں کے درمیان چلنے کی بجائے دوڑتے تھے اور جسم سے زائد کپڑے اتار کر اپنے جسم کو مشقت کا عادی بناتے تھے ۔ یہ صحابہ کرام وہ عظیم لوگ ہیں جو ہدایت کے سورج ہیں اور ایسے ستارے ہیں جنہیں دیکھ کر ہدایت کا راستہ معلوم کیا جاتا ہے وہ دنیا اور آخرت کے بادشاہ ہیں درست راستہ وہی ہیں جس پر یہ حضرات تھے اورسیدھی راہ وہی ہیں جس پر وہ حضرات چلے۔ ان کی شان کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالی کا یہ فرمان کافی ہے۔
محمد رسول اللہ ولذین معہ اشداء علی الکفار رحماء
بینھم ترھم رکعا سجدا یبتعون فضلا من اللہ و رضوانا سیما
ھم فی وجوھم من اثر السجود ۔ ( الفتح ۔ ۲۹)[/CENTER
]محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کی صحبت یافتہ ہیں وہ سخت ہیں کافروں کے مقابلہ میں اور آپس میں مہربان ہیں تو دیکھے گا ان کو رکوع میں
اور سجدہ میں (وہ ) اللہ کا فضل اور اس کی رضا کو ڈھونڈتے ہیں ان کی پہچان
ان کے چہروں پر ہے سجدوں کے اثر سے ۔
تیر اندازی [ یا جہاد کی کوئی بھی مشق ] کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی عزت و حشمت اور بڑائی کو ایک طرف پھینک کر اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ تیر اندازی کریں اور اس میں کیسی طرح عار محسوس نہ کریں اور اپنے اس عمل پر اللہ کے قرب اور اس سے اجر کے امیدوار رہیں ۔ اور اس مشق [ اور جہاد کی تمام ٹریننگ اور ورزش وغیرہ ] کو بڑی عبادت اور اعلی ترین نیکیوں میں سے سمجھیں اور اسے محض کھیل کود یا فضول مقابلہ بازی نہ جانیں اور جب انہیں اس کی توفیق ملے تو اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالی نے ان کے دل میں دوسرے کھیل کود کی بجائے اس کی محبت ڈالی ہے۔ اسی طرح تیر اندازی [ اور جہاد کی دوسری مشقوں ] کے دوران اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنسنا اور خوش دلی کرنا بھی کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستحب کام ہے کیونکہ اس سے مزید چستی اور ہمت پیدا ہوتی ہے البتہ یہ ہنسنا اور خوش دلی مکروہ حد تک نہیں پہنچنا چاہئے۔
بلال بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسے لوگوں [ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ] کی زیارت کہ ہے جو ہدفوں کے درمیان دوڑتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے تھے اور جب رات چھا جاتی تھی تو وہ راہبوں کی طرح دنیا سے بے رغبت ہو کر عبادت اور آہ وزاری میں لگ جاتے تھے ( ابن عساکر )
مصنف فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رحمہ اللہ خود بھی ان صفات کے حامل تھے اور وہ حضرات تابعین کے علماء اور عابدوں میں سے تھے اور وہ ہر دن رات میں ایک ہزار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
٭ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیر اندازی کر رہے تھے کہ کسی نے کہا اے اللہ کے رسول نماز کا وقت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ لوگ بھی تو نماز میں ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازی کو نماز کے مشابہ قرار دیا اور یہی بات اس عمل کی فضیلت کے لئے کافی ہے ۔ ( الفروسیتہ المحمد الابن قیم الجوزیہ )
علامہ ابو عبداللہ الحلیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تیر اندازی کی بلند فضیلت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کو کسی کام پر نہیں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہو جائیں تم ایسا کرو ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا : اے سعد تیر پھینکو میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں
ابو عبد اللہ الجوز جانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراھیم بن ادھم رحمہ اللہ سمندر میں جہاد کے لئے تشریف لے گئے جس رات آپ کا انتقال ہوا [ پیٹ میں ] تکلیف کی وجہ سے آپ کو پچیس بار قضائے حاجت کے لئے جانا پڑا اور ہر بار آپ آ کر نماز کے لئے نیا وضو فرماتے تھے جب انہیں موت قریب محسوس ہوئی تو فرمایا میری کمان تیار کرکے مجھے دے دو چنانچہ انہوں نے کمان اپنے ہاتھوں میں پکڑ لی اور اسی حال میں انتقال فرمایا ۔ ( تہذیب للذ ہبی )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے ایسا اس لئے کیا تاکہ وہ قیامت کے دن اس حالت میں کھڑے کئے جائیں کہ جہاد کے لئے کمان ان کے ہاتھ میں ہو۔
فصل
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانچ کمانیں تھیں۔
( ۱ ) الروحاء ۔
( ۲ ) الصفراء ۔
( ۳ ) البیضاء ۔ یہ آ پ کو بنو قینقاع سے ملی تھی۔
( ۴ ) الزوراء ۔
( ۵ ) الکتوم ۔
اس کا یہ نام اس لئے پڑا کہ تیر مارتے وقت اس کی آواز بہت کم ہوتی تھی ۔بعض روایات میں ایک اور کمان کا بھی تذکرہ ہے اس کا نام السداد تھا اور اس کے ساتھ جو ترکش تھا اس کا نام الکافور تھا اور اس کے ساتھ پٹکا بھی تھا جس کا حلقہ چمڑے کا اور سرا چاندی کا تھا [ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تمام کمانیں نبع اور شوحظ نامی درختوں کی لگڑی سے بنی ہوئی تھیں ]
[ اس فصل کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے نہایت تفصیل کے ساتھ تیر اندازی اور گھڑ سواری کے مقابلے کے احکام کو بیان فرمایا ہے چونکہ یہ مسائل خالص فقہی نوعیت کے ہیں اس لئے ہم انہیں یہاں بیان نہیں کر رہے اگر اللہ تبارک و تعالی نے توفیق اور موقع عطاء فرمایا تو ان شاء اللہ ان کو الگ رسالے میں بیان کریں گے ]
فصل
احادیث میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید آئی ہے جو تیر اندازی سیکھ کر اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔
٭ فقیم اللخمی رحمہ اللہ نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا۔ آپ تیر اندازی کے دو ہدفوں کے درمیان چل پھر رہے ہیں حالانکہ آپ بوڑھے ہیں اور آپ کو اس میں بہت مشقت اور تکلیف اٹھانی پڑ رہی ہے اس پر حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہ سنا ہوتا تو میں اتنی مشقت نہ کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے نافرمانی کی ۔ ( مسلم )
٭ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے تیر اندازی سیکھی پھر اسے چھوڑ دیا تو اس نے میری نافرمانی کی ۔ ( سنن ابن ماجہ )
حضرات علماء کرام میں سے ایک جماعت کے نزدیک تیر اندازی سیکھ کر اسے چھوڑ دینا کبیرہ گناہ ہے وہ حضرات فرماتے ہیں کہ جس عمل کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما دیں کہ ایسا کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے یا وہ نافرمان ہے تو وہ عمل کبیرہ گناہ ہوتا ہے امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے اپنی حدیث کی کتاب میں باقاعدہ باب باندھ کر تیر اندازی چھوڑے والوں کے لئے وعیدوں کا ذکر کیا ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تیر اندازی چھوڑ دینا سخت مکروہ فعل ہے ( شرح نووی علی مسلم )
مصنف فرماتے ہیں کہ ان تمام اقوال کو سامنے رکھ کر اگر تیر اندازی کو کبیرہ گناہ نہ بھی قرار دیا جائے تو وہ ایسا صغیرہ گناہ ہے جس پر اگر اصرار کیا جائے تو وہ کبیرہ بن جاتا ہے ۔ اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے بچے اور جو اس گناہ میں مبتلا ہو چکا ہو یعنی تیر اندازی چھوڑ چکا ہو تو اسے چاہئے کہ فورا توبہ کر کے اس عمل کو شروع کر دے اور زندگی بھر تیر اندازی کو لازم پکڑے۔
[ تیر اندازی سیکھنے ، دشمن کی طرف تیر پھینکنے اور تیر اندازی میں تعاون کے فضائل ہم نے پڑھ لئے اللہ تبارک و تعالی ہمیں ان تمام فضائل کو حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آج اللہ تبارک و تعالی نے ان فضائل کا حاصل کرنا ہم کمزور مسلمانوں کے لئے آاسان فرما دیا ہے پہلے ایک تیر کو پھینکنے کے لئے مشقت کرنی پڑتی تھی، زور لگانا پڑتا تھا اور تکلیف اٹھانی پڑتی تھی مگر آج کل تو جدید اسلحہ تیار ہو چکا ہے۔ جس میں ٹریگر پر ہلکی سے انگلی دبا کر منٹوں میں ہزاروں گولیاں دشمن کی طرف چلائی جاسکتی ہیں ۔ اب کون انسان ہے جو ان فضائل سے محروم رہنے کا تصور کرے۔ اگر آج ہم نے اللہ تعالی کے دشمنوں پر گولیاں اور راکٹ نہ برسائے تو پھر وہ ابابیل بھی ہم سے اچھے تھے جنہوں نے کعبۃ اللہ کی حفاظت کے لئے آسمان سے اللہ کے حکم پر کنکریاں برسائیں اور ہاتھیوں کے لشکر کو کھائے ہوئے بھس کر طرح بنا دیا ۔ آج بھی ٹینکوں ، بکتر بن گاڑیوں اور بحری بیڑوں کی شکل کے ہاتھی کعبۃ اللہ کی طرف اور مسلمانوں کی سرحدوں کی طرف دندناتے ہوئے بڑھ رہے ہیں اور اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ مسلمان مجاہدین ابابیلوں کی طرح ان پر گولیاں اور راکٹ بر سائیں اور دشمن کی طرف تیر پھینکنے کے بے شمار فضائل حاصل کریں۔
یاد رکھیں دشمن کی طرف تیر پھینکا جائے یا خاک کی مٹھی ۔اللہ تعالی اسے دشمنوں کے لئے خطرناک بنا دیتا ہے۔ کیونکہ اگرچہ ظاہر طور پر پھینکنے والا مجاہد ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اصل میں پھینکنے والے ہم ہوتے ہیں یعنی اس میں تاثیر ہم ہی ڈالتے ہیں ۔
آج سے انیس سال پہلے [اس کتاب کا ترجمہ ۱۹۹۸ میں کیا گیا تھا] اپنے وقت کی سب سے بڑی جنگی اور ایٹمی طاقت سوویت یونین نے افعانستان پر حملہ کیا تو نہتے مجاہدین ان کے مقابلے میں نکلے مگر دنیا جہاں نے وہ مناظر دیکھے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا مجاہدین پتھر پھینکتے تھے اور روسی ٹینکوں میں آگ لگ جاتی تھی مجاہدین اپنی سادہ رائفل سے گولی چلاتے تھے اور روسی ہیلی کاپٹر زمین پر آگر تے تھے۔ اللہ تعالی کے ان ابابیلوں نے اپنی استطاعت کے مطابق دشمن پر اسلحہ پھینکا مگر اللہ تعالی نے اس میں اپنی قوت کو شامل فرما دیا آج بھی مسلمانوں کو چاہئے کہ گولہ باری اور میزائل باری کی مشق کریں اپنے گھروں کی عورتوں کو بھی اسلحہ سکھائیں ۔ کیونکہ آج کے اسلحے کا استعمال نہایت آسان ہے اور مسلمانوں پر خطرات بہت زیادہ ہیں چنانچہ ان خطرات سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو پھینک کر مارنے والے آلات زیادہ سے زیادہ بنانے چاہیں اور ان کے استعمال میں خوب مہارت حاصل کرنی چاہئے ۔ اور جو مسلمان اسلحہ چلانا سیکھ چکے ہیں مگر اب گھروں میں جا بیٹھے ہیں انہیں اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے اور دوبارہ میدان جہاد کا رخ کرنا چاہیے اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے فوج میں یا کمانڈوز دستوں میں رہ کر ہتھیار چلانا سیکھے ہیں مگر اب اپنی نوکری سے پنش لے کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں کہ اپنی اس صلاحیت کو اللہ تعالی کے دین کی عظمت اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے بلا معاوضہ مرتے دم تک استعمال کرتے رہیں کیونکہ قیامت کے دن ہر انسان سے اس کی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق حساب لیا جائے گا ۔ آج جبکہ مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر کر ختم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ۔ ہر با صلاحیت فرد کو اپنی صلاحیت استعمال کرکے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے اور اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے میدانوں میں نکلنا چاہئے ۔
یا اللہ تو ہم سب کو اس کی تو فیق عطاء فرما ۔ ( آمین ثم آمین )
الحمد للہ "فضائل جہاد کامل" کا بیسواں باب بھی مکمل ہو گیا
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے تو ہمیں ھدایت نصیب فرما اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو ادا کرنے کی تو فیق عطاء فرما