جھوٹی افواہیں اور پیغام قرآن

جھوٹی افواہیں اور پیغام قرآن

✍ ذوالقرنین رضا اسیر
05 اپریل 2020,

آج کل کورونا وائرس کے حوالے سے جھوٹی افواہوں کا بازار گرم ہے، کوئی اس کا علاج بتا رہا ہے تو کوئی اس کے نقصانات، الغرض ہر کوئی اپنا اپنا حصہ ملا رہا ہے،
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ
1⃣ افریقہ کے کسی ملک میں 55 یا 65 بندے ایک کیمیکل (دوائی) پی کے مر گئے،
وجہ کیا بنی کہ کسی نے افواہ اڑائی کہ جو اس دوائی کو پی لے گا اُسے کورونا نہیں ہو گا، اس کے اگلے دن....
2⃣ ایشیا کے ایک ملک میں 300 بندے ایک کیمیکل پی کے موت کے گھاٹ اُتر گئے جی ہاں یہ سچی باتیں ہیں،
وجہ وہی کہ کسی نے افواہ اڑائی کہ جو اس کیمیکل کو پی لے گا اُسے کورونا نہیں ہو گا،
جھوٹی افواہیں یعنی جھوٹی خبریں پھیلانا گناہ تو ہے ہی لیکن اس سے کسی جان بھی جا سکتی ہے،
اور اس سے لڑائیاں، جھگڑے، فتنے، فساد، اور کئی طرح برائیاں معاشرے میں جنم لیتی ہیں،
خاص کر خاندانی جھگڑے، ساس بہو، اور میاں بیوی، کی لڑائیاں بھی جھوٹی افواہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں،
جھوٹی افواہیں پھیلنے کے دو اسباب ہیں،
(1) سوشل میڈیا۔ (2) جاہل عوام۔
کسی بھی بیماری کو ختم کرنے کے لیے اس کے اسباب کو ختم کیا جاتا ہے، لیکن یہاں ایسا کرنا قریب بمحال ہے،
پہلا سبب سوشل میڈیا اس کو ختم کیا ہی نہیں جا سکتا،
دوسرا سبب جاہل لوگ جاہل لوگ تو ہیں ہی جاہل لیکن آج کل پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی یہی کام سر انجام دے رہے ہیں،
لیکن پھر بھی ( سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمان کو فائدہ دیتا ہے،۔۔۔۔القرآن) کے تحت اسکے حل کی طرف آتے ہیں،

*✅ حل........*
اس کا سب سے بہترین حل وہی ہے جو قرآن کریم میں اللّٰہ پاک نے بیان فرمادیا، وہ کیا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ. (پ 26 الحُجُرات آیت 6)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
اس فرمان میں جھوٹی افواہوں کا جو حل دیا گیا ہے وہ *تحقیق* ہے، لیکن تحقیق کرنے کی زحمت کون کرے،
جب بھی کوئی خبر آپ کے پاس آئے تو سب سے پہلے اس کی تحقیق کر لیں،
تحقیق کریں کیسے؟؟؟ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ. (پ 4، النساء، آیت 83)
ترجمہ: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے تو اسے پھیلانے لگتے ہیں حالانکہ اگر اس بات کو رسول اور اپنے بااختیار لوگوں کی خدمت میں پیش کرتے تو ضرور اُن میں سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے اُس (خبر کی حقیقت) کوجان لیتے۔
اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کا فرمایا گیا ہے، جوکہ ظاہری حیات سے متصف نہیں ہیں،
لیکن اس میں ایک قاعدہ ایک قانون دے دیا گیا ہے، کہ جب تمہارے پاس کوئی اچھی یا بری خبر آئے تو اسے سب سے پہلے متعلقہ لوگوں تک پہنچائیں تاکہ وہ بتا سکیں کہ یہ خبر جھوٹی ہے یا سچی ہے،
اسی سے متعلق ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ فرمائیں:
حضرت حفص بن عاصم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (آگے) بیان کر دے۔
( مسلم، باب النہی عن الحدیث بکلّ ما سمع، ص ۸ )

نتیجہ❕
ان آیات بَیِّنَات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب بھی ہمارے پاس کوئی اچھی یا بری خبر آئے تو آگے پھیلانے سے پہلے تحقیق کر لیں،
تحقیق کرنے کے لیے اس سے متعلقہ افراد تک پہنچائیں جب وہ تصدیق کر دیں تو پھر آگے بھیجیں،
اور سنی سنائی باتوں کو آگے بیان نہ کریں،
اس سے نہ صرف جھوٹی افواہوں کا خاتمہ ہو گا بلکہ ہم خاندانی جھگڑوں، ساس بہو، اور میاں بیوی، کی لڑائیوں سے بھی نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے،

لطیف نکتہ
گزشتہ آیت میں دو طرح کی خبروں کے بارے میں فرمایا گیا، 1⃣ امن۔ 2⃣ خوف۔
اور آج کل بھی دو طرح کی خبریں موصول ہو رہی ہیں،
1⃣ کورونا وائرس کے علاج کی خبر۔ جو کہ امن کی خبریں ہیں اگر چہ جھوٹی ہیں،
2⃣ کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں اور اس سے ہونے والے نقصانات کی خبریں، یہ خوف کی خبریں ہیں،
اس آیت سے قرآن کی تازگی (Freshness) ظاہر ہو رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ قرآن پاک آج کل کے حالات کے مطابق اُترا ہے،
قرآن کریم کی یہ خاصیت ہے کہ یہ پرانا نہیں ہوتا جب بھی پڑھیں ایک نیا لطف اور روحانیت ملتی ہے، تو وقت نکال کر اسے بھی پڑھیئے،

وما علینا الاالبلاغ...!
 
Top