جگ ہنسائی کی ہوشربا کہانی

جنوبی ایشیا میں اسلامی ریاست کی تشکیل بیسویں صدی کا ایک بہت بڑا سیاسی معجزہ تھا۔ قدرت نے ہمیں بیش بہا خزانے عطا کیے ہیں ٗ
عالمی برادری میں سربلند رکھا تھا ٗ مگر کفرانِ نعمت کے باعث ہم ایک انتہائی سنگین نفسیاتی ٗنظریاتی ٗ اخلاقی ٗ تہذیبی ٗ معاشرتی اور معاشی بحران میں گھرے اوردنیا بھر میں رسوائی کی ایک لرزہ خیز داستان بنے ہوئے ہیں۔نجات پانے کا راستہ ۔ الطاف حسن قریشی کے قلم سے

پاکستان جو برصغیر کے نابغہ روزگار حضرت شاہ ولی اﷲؒ کی مجاہدانہ بصیرت اور مسلمانوں کی عظیم تہذیبی روایات کا امین ہے اور عصرِ حاضر میں اسلام کی ایک جدید تجربے گاہ کی حیثیت سے قائم ہوا تھا ٗ اِس کی صدیوں پر مبنی فکری ٗ سیاسی اور علمی جدوجہد میں عظمت و عزیمت کی ہزاروں داستانیں تخلیق ہوئیں۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز سے جب مرہٹے مسلم تہذیب و تمدن کو تاراج کرتے ہوئے دہلی فتخ کر کے لاہور تک آ پہنچے ٗ تو وقت کے مجدداور بگڑتے ہوئے حالات کے صحیح نباض حضرت شاہ ولی اﷲدہلویؒ نے افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی کو اسلامی شناخت کی حفاظت کے لیے ہندوستان آنے اور مرہٹوں کا قلع قمع کرنے کی دعوت دی۔ اُن کے متعدد خطوط جو شمالی ہندوستان میں اسلامی تہذیب کو لاحق خطرات کے بارے میں وقفے وقفے سے لکھے گئے تھے ٗ اُنہوں نے احمد شاہ ابدالی میں ایک زبردست ایمانی قوت پیدا کی۔ اُس نے روحیلہ کے پٹھان سردار نجیب خاں ٗ اودھ کے نواب شجاع الدولہ اور جاٹوں کی قیادت کو جوش دلا کر ’’لشکرِ اسلام‘‘ تیار کیا اور پانی پت کے میدان میں 14 جنوری 1761ءکے دن مرہٹوں کی اُمڈتی ہوئی طاقت کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ بپا ہوا جس میں کم و بیش ایک لاکھ مرہٹے کام آئے۔ پانی پت کی تیسری جنگ میں ایک عظیم سلطنت کا خواب دیکھنے والے مرہٹوں کے مقابلے میں احمد شاہ ابدالی کی فتح نے مسلمانوں کے اندر اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کا جذبہ اور مستقبل کی تعمیر کے تحفظ کا شعور بہت گہرا کر دیا ۔اِس جنگ میں شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ لڑے۔ احمد شاہ ابدالی کی افواج سنی العقیدہ تھیں جبکہ نواب شجاع الدولہ اہلِ تشیع اور روحیلہ کے پٹھان نواباودھ کے سیاسی حریف تھے ٗ مگر وہ سب کے سب حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کی دینی شخصیت اور اُن کی فکری قوت سے بہت متاثر ہونے کے باعث اور ایک عظیم الشان مقصد کے لیے تمام اختلافات کو فراموش کر کے ایک جان ہو گئے تھے۔
حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ اپنے عہد کے قرآن و حدیث کے جید عالم ٗ ایک بہت بڑے مفکر اور جدید علمِ کلام کے موجد تھے۔ اُنہوں نے جدید اسلوب میں اسلام کے سیاسی ٗ اقتصادی ٗ معاشرتی اور مابعد الطبیعاتی مسائل کے بارے میں قلوب و اذہان کو مسخر کرنے والے مضامین اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ میں بیان کیے اور اسلامی ریاست کے عصری تقاضوں پر سیر حاصل بحث کی تھی۔ اُن کی اِس عظیم الشان تصنیف کے زیرِ اثر برصغیر میں گاہے گاہے آزادی کی تحریکیں اُٹھتی رہیں ٗ غیور اور آزادیکے جذبوں سے سرشار علمائے حق انگریز استعمار سے ٹکراتے اور کالا پانی کی نہایت کڑی سزاؤں سے گزرتے رہے۔ ریشمی رومال کی تحریک نے پورے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ایک انتہائی منظم اور پُرجوش تحریک میں پرو دیا تھا جس نے دیانت داری اور فرض شناسی کا نہایت اعلیٰ معیار قائم کیا تھا۔ مجلسِ احرار نے انگریزوں کی ہیبت کا طلسم توڑنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ’’البلاغ‘‘ اور ’’الہلال‘‘ نے عامۃ المسلمین کی سیاسی بیداری میں گراں قدرخدمات سرانجام دی تھیں۔ مولانا ظفر علی خاں کے ’’زمیندار‘‘ نے مسلمانوں کے جذبات میں ایک آگ سی لگا دی تھی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ٗ انجمنِ حمایت اسلام ٗ لاہور اور پشاور کے اسلامیہ کالج ٗ ندوۃ العلماء لکھنؤ ٗ جامعہ ملیہ دہلی ٗ دارالمصنفین اعظم گڑھ اور سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی نے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ میں اہم رول ادا کیا۔ مولانا عبدالحلیم شرر ٗ مولانا عبید اﷲ سندھی ٗ سرسید احمد خاں ٗ علامہ شبلی نعمانی ٗ علامہ سید سلیمان ندوی ٗ مولانا بدایونی ٗ حضرت علامہ اقبالؒ ٗ مولانا اشرف علی تھانوی اور سیدابوالاعلیٰ مودودی افکار کی آبیاری اور افراد کی تیاری میں شب و روز منہمک رہے۔ اُن کی تخلیقات نے ہندوستان میں جداگانہ مسلم قومیت کے تصور اور کھوئی ہوئی عظمت کی بازیابی کا جذبہ بیدار کیا۔ حضرت قائداعظمؒ نے اپنی بے مثال بصیرت اور ولولہ انگیز قیادست سے اِن جذبوں اور ولولوں کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آئینی اور سیاسی جدوجہد کے قالب میں ڈھال دیا تھا اور اُن کی عظمتِ کردار اور قوتِ استدلال کے آگے برطانوی استعمار اور ہندو سیادت ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے تھے ٗ چنانچہ ہندوستان تقسیم ہوا اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آ گیا۔

٭٭٭

ہندو اور سکھ قیادت نے تقسیمِ ہند کا انتقام لینے کے لیے 1947ء میں مسلمانوں کا بڑی سفاکی اور درندگی سے قتل عام کیا اور فرقہ وارانہ پاگل پن سے بھپرے ہوئے انسانی درندے مسلمان عورتوں پر ٹوٹ پڑے۔ شیرخوار بچوں کی ننھی منی لاشیں نیزوں پر لہرائی گئیں اور شہروں اور قصبوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ خوفناک منصوبہ یہ تھا کہ خاکمِ بدہن پاکستان قائم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے اور اِس عظیم خطے میں حضرت شاہ ولی اﷲؒ ٗ علامہ اقبال اور محمد علی جناح کے ویژن کے مطابق جدید بنیادوں پراسلامی ریاست قائم نہ ہونے پائے ٗ لیکن مسلمانوں نے فقیدالمثال قربانیاں دے کر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حفاظت اور تعمیر کا گرانقدر کارنامہ سرانجام دیا۔ مقامی آبادی نے آنے والے مہاجرین کا مؤخاتِ مدینہ کی طرز پر کھلی بانہوں سے خیر مقدم کیا۔بے سروسامانی میں پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے سرکاری ملازمین اور اعلیٰ منتظمین کی شبانہ روز کوششوں اور قربانیوں سے پاکستان بہت جلد مضبوط انتظامی ٗ سیاسی اور اقتصادی بنیادوں پر کھڑا ہو گیا اور اِس نے چند ہی برسوں میں عالمی برادریمیں بلند مقام حاصل کر لیا۔ اِس کے انجینئر ٗ اِس کے ڈاکٹر ٗ اِس کے قابل اساتذہ پورے شرق اوسط کی تعمیر میں شب و روز کام کرتے نظر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لق و دق صحرا ہرے بھرے نخلستانوں اور خوش رنگ شہروں میں تبدیل ہوتے گئے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں ٗ کالجوں اور پیشہ ورانہ اداروں میں شرقِ اوسط سے ہر سال ہزاروں طلبہ آتے اور پاکستان کے نہایت عمدہ سفیر بن کر جاتے۔ یوں پاکستان پوری اُمتِ مسلمہ کی آرزوؤں کا مرکز بن چکا تھا اور آج اِس کی افرادی قوت برطانیہ ٗ امریکہ اور کینیڈا کی معیشت کو سہارا دینے میں بہت نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان کے انجینئروں ٗ سائنس دانوں اور ٹیکنالوجسٹس نے مغرب کی سخت مخالفت کے باوجود اپنے وطن کو ایک ناقابلِ تسخیر ایٹمی طاقت بنا دیا جس کے باعث جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بڑی حد تک قائم ہو گیا ہے۔ بھارت جو معمولی معمولی اختلافات پر اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد پر لے آتا اور طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں دیتا آیا تھا ٗ اب اِس کے دماغ میں اکھنڈ بھارت کا خناس تحلیل ہوتا جا رہا ہے۔ اِس نے پارلیمنٹ ہاؤس پر حملے کے بعد 2001ء میں دس ماہ تک اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر لگائےرکھیں اور مہلک ترین ہتھیاروں کے ساتھ جنگی مشقیں بھی شروع کر دیں تھیں ٗ مگر اُسے ہماری سرزمین پر قدم رکھنے کی اِس لیے جرأت نہ ہوئی کہ پیش قدمی کی صورت میں اُسے ایٹمی حملے کا سامنا ہو سکتا تھا۔ ممبئی پر 2008ء میں دہشت گردوں نے حملہ کیا ٗ تو بھارت نے پاکستان پر سارا الزام تھوپ دیا اور خوفناک نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ کچھ لمحات ایسے بھی آئے جب ’’محدود جنگ‘‘ کے خطرات منڈلانے لگے اور وہ آج بھی ہمارے تعاقب میں ہیں ٗ مگر ایٹمی طاقت ہونے کے باعث پاکستان بھارت کی تمامریشہ دوانیوں سے اِس لیے بھی محفوظ رہا کہ اِس کی بنیادوں میں شہیدوں کا خون شامل ہے اور اِس کی فطرت امن پسند اور انسانیت کے لیے خیر خواہی کے اعلیٰ جذبات سے معمور ہے۔ نظریاتی اعتبار سے اِس کے قیام کی اصل غرض و غایت ایک ایسے معاشرے کی تشکیلِ نو ہے جو پوری دنیا کے لیے انسانی مساوات ٗ معاشرتی انصاف اور بنیادی آزادیوں کے اعتبار سے ایک رول ماڈل نظر آئے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ٗ ہرشخص آزاد پیدا ہوتا ہے اور اُسے غلامی کی زنجیریں پہنا دینا سب سے بڑا ظلم ہے جس کی دینِ فطرت کسی طور اجازت نہیں دیتا۔

٭٭٭

پاکستانی قوم نے اپنے عمل اور کردار سے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ وہ گھبرانے اور ہمت چھوڑ دینے کے بجائے بڑے بڑے مصائب اور مشکلات پر قابو پانے کی بے پایاں صلاحیت رکھتی ہے اور ہر آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کے نکلتی ہے ٗ لیکن مختلف وجوہات سے اِس میں ایک عظیم اور ایک منظم قوم کے بنیادی اوصاف پیدا نہیں ہو سکے۔ اِس کا ایک سبب مخلص ٗ دیانت دار اور عوامی اُمنگوں سے ہم آہنگ قیادت کا فقدان بتایا جاتا ہے جو بادی النظر میں درست معلوم ہوتا ہے ٗ مگر تاریخی حقائق اور عوامل کا گہرائیسے جائزہ لینے پر یہ حقیقت منکعشف ہوتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے پہلے عشرے میں ہماری سیاسی قیادت نے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے اور بھارتی قیادت کے خواب چکنا چور کر ڈالے جن میں پاکستان کے معاشی دیوالیے پن کی پشین گوئی سرِفہرست تھی۔حصولِ آزادی کے بعد کی قیادت نے ایک کروڑ کے لگ بھگ مہاجر آباد کیے جو ایک معجزے سے کسی طرح کم نہ تھا۔ اِسی طرح ہندوؤں اور سکھوں کے چلے جانے سے ہمارے سرکاری معمولات ٗ کاروباری سرگرمیوں اور زندگی کے نہایت اہم شعبوں میں ایکہولناک خلا پیدا ہو گیا تھا ٗ مگر وہ کمال دانش مندی اور فرض شناسی سے پُر کیا گیا۔ پاکستان کا اپنا کوئی دارالحکومت تھانہ سیکرٹریٹ ٗ نہ فارن آفس نہ مالی وسائل۔ یہ کریڈٹ پاکستان کے پہلے سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی کو جاتا ہے جنہوں نے شبانہ روز محنت سے ایک پائیدار انتظامی ڈھانچہ تعمیر کیا اور دنیا کو یہ محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ انگریزوں اور ہندوؤں کی سازش سے برصغیر کے مسلمانوں کے حصے میں ایک کٹا پھٹا پاکستان آیا ہے جہاں برسوں کیکر کے کانٹوں سے کاغذات پروئے اور میز کرسیکے بغیر دفتری امور سرانجام دیے جاتے رہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان صنعت و حرفت ٗ تجارت ٗ بینکاری اور اقتصادی معاملات میں بھارت سے بازی لے گئے اور پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہونے لگی۔
کئی اعتبار سے پہلے عشرے کی سیاسی قیادتوں کا نامۂ اعمال قابلِ ستائش رہا۔ 1958ء کے مارشل لا کے وقت ملک فیروز خاں نون وزیر اعظم تھے جنہوں نے کمال درجے کی بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے سلطنت مسقط و عمان سے گوادر کا علاقہ خریدا تھا جو انتہائی اہم آبی گزرگاہ کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے آج غیر معمولی اسٹریٹجک اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اِس کے اندر پورے خطے کی تقدیر بدل دینے ٗ بلوچستان کو خوشحالی سے ہمکنار کر دینے اور چین کو ایک بہت بڑا اقتصادی آؤٹ لیٹ(outlet)فراہم کرنے کی استعداد پائی جاتی ہے ۔ یہ وہی وزیر اعظم تھے جنہوں نے عام انتخابات فروری 1959ء میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا ٗ لیکن ایوب خاں نے مارشل لا نافذ کر کے عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا راستہ روک دیا۔ اِسی طرح ہمارے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں نے لاہور کے دفاع کے لیے بی آر بی نہر 1950ء میں تعمیر کرائی جو 1965ء کی جنگ میں ناقابلِ تسخیر دفاعی فصیل ثابت ہوئی۔ اِن کا سب س عظیم کارنامہ یہ تھا کہ اُنہوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے قراردادِمقاصد منظور کرا کے نوزائیدہ ریاست کی سمت کا واضح تعین کر دیا تھا اور امریکی صدر کی دعوت قبول کر کے اُنہوں نے بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف پاکستان کی دفاعی اور سفارتی طاقت میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا۔ ہم اپنے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے ویژن کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1957ء میں چین کے ساتھ رابطے استوار کیے جو آج ہماری خارجی اور دفاعی معاملات اور اقتصادی ترقی میں ایک فیصلہ کن اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ درحقیقت اُس دور کی سبھی سیاسی قیادتیں کرپشنکی آلائشوں سے پاک تھیں اور یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی وزیر یا حکومت کا سیکرٹری مالی بدعنوانی میں ملوث ہو سکتا ہے۔ تاریخ شہادت دیتی ہے کہ اہلِ سیاست اور بیوروکریسی میں بدعنوانی کا سارا بگاڑ فوج کے اقتدار میں آنے سے پیدا ہوا۔ فوجی آمروں نے سیاسی جماعتوں کا ادارہ بالکل تباہ کر ڈالا جو بعض تاریخی اور سماجی وجوہات سے پہلے ہی ناتواں تھا۔ بدقسمتی سے اُن کے دورِ حکومت میں پاکستان بہت ساری خونخوار آزمائشوں سے دوچار ہوا جن سے اِس کے وجود کو خوفناکخطرات لاحق ہوتے آ رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے شوقِ مہم جوئی نے پاکستان کو 1965ء کی تباہ کن جنگ میں دھکیل دیا جس کے ہولناک اثرات پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوئے۔ اِسی طرح جنرل ضیاء الحق سویت یونین کے عفریت کو تو پاش پاش کر دینے میں کامیاب رہے ٗ مگر جہادِ افغانستان کے مابعد اثرات ہماری جڑوں میں بیٹھ گئے ہیں اور نان اسٹیٹ ایکٹر اِس قدر طاقت ور ہو چلے ہیں کہ پاکستان کی ریاست بڑی بے بس نظر آتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کاجو تحفہ دیا ٗ اُس نے ہمارے قومی وجود اور ہماری معیشت اور ہماری قومی سلامتی کی بنیادیں ہلا کے رکھ دی ہیں اور ہماری فوج ٗ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے عرصۂ محشر میں ہیں۔

٭٭٭

اِن زخموں کی بخیہ گری کا نہایت مشکل کام اب سیاسی قیادتوں پر آن پڑا ہے جن کو اِس وقت بڑے مہیب اور گھمبیر بنیادی مسائل کا سامنا ہے۔ 2013ء کے انتخابات اِس اعتبار سے تاریخی اہمیت کے حامل ثابت ہوئے کہ ایک سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت مل گئی اور بلوچستان کی تمام قومیت پرست جماعتوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ یہ پہلو بھی خوش آئند ہے کہ تحریکِ انصاف کو خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے کا موقع میسر آ گیا ٗ لیکن بعض ایسے نتائج بھی سامنے آئے ہیں جو مسائل حل کرنےکے بجائے خود مسائل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر بلوچستان کے وزیراعلیٰ جناب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے ٗ اور اُن کے صوبے کے قبائلی سردار حکومت سے تعاون کرنے سے گریزاں ہیں ٗ چنانچہ وزیر اعلیٰ کو کابینہ سازی میں سخت دشواری پیش آ رہی ہے۔ کچھ اِسی طرح خیبر پختونخواہ کا معاملہ بھی اُلجھا ہوا ہے۔ وہاں کی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے جو اُمیدوار کامیاب ہو کر آئے ہیں ٗ اِن میں سے بیشتر ناتجربے کار اور حکومت کی پیچیدہ مشینری سے بڑی حد تکناواقف ہیں۔مزید برآں اسپیکر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان ایک چپقلش بھی جاری ہے۔ فیصلہ سازی کا عمل واقعات کی رفتار کے مقابلے میں بڑا سست ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ایک تھکا ہارا کچھوا دو چار قدم چلنے کے بعد آرام کے لیے رک جاتاہے۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی اور شہروں میں ایم کیو ایم کو مینڈیٹ ملا ہے جو ابھی تک ایک دوسرے کے مدِمقابل کھڑی ہیں جس کے باعث امنِ عامہ کا مسئلہ سنگین تر ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت درماندگی کا شکار ہے اور اِس جماعت کی شاہ خرچیوں ٗبدعنوانیوں اور اقربا پروریوں سے پوری انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے۔مزید پریشانی یہ کہ صوبوں اور مرکز کے درمیان اِس ہم آہنگی کا فقدان محسوس ہو رہا ہے جو گھمبیر مسائل سے نمٹنے کے لیے آج سب سے زیادہ ضروری ہے۔
پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات جن نہج تک آ پہنچے ہیں ٗ وہ ایک بہت بڑے ذہنی ٗ اخلاقی اور سماجی انقلاب کی طرف نشان دہی کر رہے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد انے سیاسی آزادی اور علاقائی خودمختاری کے حصول کی خاطر اَن گنت قربانیاں دیں ٗ لیکن ہمارے حکمران اور ہمارے قومی ادارے اِس کی پوری طرح حفاظت نہیں کر سکے اور انتہا یہ کہ افغانستان جیسا کمزور اور بدحال ملک بھی ہماری سرحدیں پامال کرنے کی جرأت کر رہا ہے۔اِسی طرح بھارتی فوجیوں نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے اشتعال انگیزسرگرمیوں کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ وہ ریاست جو پوری دنیا تک اسلام کے امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے اور انسانی جان و مال کے تحفظ کا ایک قابلِ رشک نظام قائم کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی ٗ آج اُس کی خوفناک بدامنی اور خوں ریزی کی داستانیں ملک ملک پہنچ رہی ہیں۔ اِس کے مختلف علاقوں میں جنگل کا قانون اور دہشت گردی کا راج ہے۔ دینِ فطرت کی اساس پر قائم ہونے والی ریاست میں فرقہ پرستی اور غنڈہ گردی عروج پر ہے۔ کوئٹے میں ہزارہ قبیلے پر بار بار خود کش حملے ہوتے رہے اور ایک حملےمیں سو سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔ اُن کے ورثاء اپنے پیاروں کی لاشیں سخت سردی میں آسمان تلے سڑک پر رکھے بیٹھے رہے کہ شہریوں کی جان و مال کے محافظ آئیں اور تحفظ کی ضمانت دیں۔ تب پورے ملک میں دھرنے دیے گئے تھے اور اب پشاور میں ایک چرچ پر دو خودکش حملے ہوئے ہیں جن میں اسی سے زائد عیسائی اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے لقمۂ اجل بن گئے اور اُن کے ہمراہ مسلمان بھی شہید ہوئے۔ پورے ملک میں اور ملک سے باہر کہرام سا مچا ہوا ہے اور ہر طرف سے شدید مذمتی بیان آرہے ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے جنرل اسمبلی کی تقریر میں اِس حادثے کا بطورِ خاص حوالہ دیا ٗ تاہم پاکستان کے اندر بین المذہبی خیر خواہی کا یہ دلکشا منظر دیکھنے میں آیا کہ مسلمانوں نے اپنے عیسائی بھائیوں کی ہر طرح سے دیکھ بھال کی اور ڈاکٹروں نے زخمیوں کی جان بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں اِس بدترین دہشت گردی کی شدید ترین الفاظ میں تمام سیاسی جماعتوں نے مذمت کی اور خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اِس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے بعض اہم قدمبھی اُٹھائے ہیں۔ وہ ملک جس میں چالیس ہزار سے زائد سول اور فوجی لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور آئے دن پُرامن شہری موت کے گھاٹ اُتارے جا رہے ہیں ٗ اُس کی جگ ہنسائی کے ہزاروں عنوانات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ لاہور میں پانچ سالہ معصوم سنبل کے ساتھ زیادتی نے ہماری رسوائی کی ایک اور ہوشربا داستان رقم کر دی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہماری سرشت میں کوئی خرابی ہے یا یہ اپنے کالے ہاتھوں کی کمائی ہے۔

٭٭٭

ہماری قومی سرشت نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ اور عطر بیز ہے ٗ لیکن ہمارے معاشرے میں جو نسل ٗ زبان ٗ ثقافت اور مسلکی عقائد کا تنوع پایا جاتا ہے ٗ ہم اُسے صحنِ چمن کی طرح آراستہ نہیں کر سکے۔ یہ اختلافات اِس وقت بھی پائے جاتے تھے جب ہم حصولِ پاکستان کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ حضرت علامہ اقبال اور مولانا الطاف حسین حالیؔ نے اپنی شعری تخلیقات میں اُن کا بڑی تفصیل سے احاطہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے اندر وسعتِ قلبی پیدا کرنے کی دلگداز کوشش کی تھی۔ پاکستان وجود میں آیا ٗ تو ابتدائی ایکدو برسوں میں تعمیرِ وطن کا جذبہ غالب رہا ٗ مگر بہت جلد سیاسی ٗ نسلی ٗ لسانی اور مسلکی اختلافات ظاہر ہونے لگے ٗ مگر دوسرے مسائل اِس قدر محیط اور مہیب تھے کہ ہماری سیاسی قیادت اُبھرنے والے اختلافات کے سائنٹیفک تجزیے کے بعد اُن کا مستقل حل تلاش کرنے پر توجہ نہ دے سکی۔ ہم اِس غفلت کو سیاسی قائدین اور عمرانی علوم کے ماہرین کی بے بصیرتی اور سہل نگاری سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ قومی سطح پر ایک بار بھی اِس امر کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی کہ پاکستان کے جغرافیائی دو بازوجو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہیں ٗ اُن کی زبان ٗ رہن سہن اور جغرافیائی حالات ایک دوسرے سے بڑے مختلف ہیں ٗ اُن میں ہم آہنگی اور یک جہتی کو فروغ دینے کے لیے ٗ سیاسی ٗ علمی ٗ تہذیبی اور انتظامی سطح پر کیا کچھ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ قومی شناخت کی حفاظت اور قومی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے زبان ٗ مذہب ٗ آئین کی پاسداری اور ہیروز کی قدرومنزلت اور عوامی رابطے نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بالغ نظر قومیں پیچیدہ مسائل کو قالین کے نیچے چھپانے کے بجائے اُنپر مسلسل کام کرتے رہنے کے لیے سماجیات اور سیاسیات کے ماہرین کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ ہماری قومی غفلت سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا ٗ تو اب ہمیں اِس پاکستان کی فکر کرنی چاہیے جس میں نسلی ٗ لسانی ٗ ثقافتی اور مسلکی اختلافات پائے جاتے ہیں جن کا اظہار بڑی تکلیف دہ صورتوں میں ہو رہا ہے۔ ہمارے اہلِ اختیار اور اربابِ فکر و نظر کو علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کے تحفظ کا تسلی بخش انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ قومی زبان کی ترویج کا نہایت عمدہ طریقے سے اہتمام کرنا ہو گا۔ یہ ہمارے آئین کاتقاضا ہے اور اِس پر دیانت داری کے ساتھ عمل درآمد نہ ہونے سے ہم ابھی تک ایک باشعور ٗ خود شناس اور ذہنی طور پر ایک منظم قوم نہیں بن سکے اور ہمارے اندر وہ خوبیاں پیدا نہیں ہوئیں جو معاشرے کو متحد رکھتی ہیں اور اُسے تہذیب یافتہ بناتی ہیں ٗ چنانچہ ہمیں انتشار اور افراتفری پر قابو پانے کے لیے اور بہت سارے اقدامات کے علاوہ قومی یک جہتی کو اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا۔
قومی یک جہتی کا بنیادی وصف یہ ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات قومی دھارے میں رہتے ہوئے افہام و تفہیم کے ذریعے اختلافات کا حل دریافت کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلوچستان کی تمام قومیت پرست سیاسی جماعتیں اب قومی دھارے میں شامل ہو گئی ہیں اور اُن کا انفرادی اور اجتماعی رویہ پہلے کے مقابلے میں بڑا مثبت نظر آ رہا ہے۔ سردار اختر مینگل جن کو اسٹیبلشمنٹ سے بڑی شکایات رہتی تھیں ٗ وہ جب آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئے ٗ تو بڑی گرم جوشی سے ڈی جی آئی ایس آئیکے علاوہ آرمی چیف اور دوسرے سیاست دانوں سے ملے۔ اِس کُل جماعتی کانفرنس نے بلوچستان کی حکومت کو ناراض بلوچ سرداروں سے مذاکرات کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ ممکن ہے کہ مذاکرات کے عمل میں خاصا وقت لگ جائے ٗ مگر حالات نے صحیح سمت اختیار کر لی ہے۔ آئین کے مطابق اگر تمام صوبوں کے حقوق ادا کیے جاتے رہیں اور سماجی انصاف کا دائرہ وسیع تر کر دیا جائے ٗ تو چھوٹے چھوٹے گروپ جو ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت میں شامل رہتے ہیں ٗ وہ یقینا قومی یک جہتی کی لڑی میںاپنے آپ کو پرو دینے میں فخر محسوس کرنے لگیں گے۔ عوامی رابطوں سے بہت سارے مغالطے ختم اور مفاہمت کے در کھلتے جاتے ہیں۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ اب ایک صوبے کے اراکینِ اسمبلی نے دوسرے صوبے کے ارکان سے میل جول کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس مفید سلسلے کو ایک مستقل حیثیت دے دینی چاہیے کہ اِس طرح ذہنی اور سماجی تعلقات مضبوط ہوں گے اور نظر میں وسعت پیدا ہو گی۔

٭٭٭

معاشرتی اور سیاسی میل جول بڑھانے کے لیے ملک میں امن اور سلامتی کی فضا بہت ضروری ہے۔ ہم نے اپنے مضمون کے آغاز میں لکھا ہے کہ جب مرہٹوں کا طوفان اُمڈا چلا آ رہا تھا ٗ تو اُس کا مقابلہ شیعہ اور سنیوں نے شانہ بہ شانہ کیا تھا جب احمد شاہ ابدالی نے اودھ کے نواب شجاع الدولہ کو جہاد میں شرکت کی دعوت دی ٗ تو نواب شجاع الدولہ کی والدہ نے اپنے بیٹے کو مرہٹوں کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا تھا ٗ کیونکہ اُنہوں نے شجاع کے والد صفدر یار جنگ کو فرخ آباد کے مقام پر روحیلوں کو شکست دینے میں بھرپورمدد کی تھی ٗ مگر شجاع الدولہ نے اسلامی شناخت کی حفاظت کے لیے جہاد میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ آج اِسی جذبے کا احیاء بہت ضروری ہے۔ تمام دینی اور مذہبی جماعتوں کو ’’ملی یک جہتی کونسل‘‘ کو دوبارہ فعال بنانے پر غیر معمولی توجہ دینی چاہیے۔ ایک زمانے میں اِس کونسل نے عظیم الشان کام سرانجام دیے اور فروعی اختلافات کم کرنے اور ایک دوسرے کو قریب لانے میں قابلِ تحسین کردار ادا کیا تھا۔دینی مدارس نے وفاقی سطح پر ایک اجتماعی نظم قائم کر لیا تھا اور مشاورت کے دائرے وسیع تر ہوتے جا رہےتھے۔ سیالکوٹ میں ایک امام بارگاہ پر حملہ ہوا ٗ تو تمام قابلِ ذکر علماء اظہارِ یک جہتی کے لیے وہاں گئے۔ اِس قافلے میں راقم الحروف بھی ایک صحافی کی حیثیت سے شامل تھا۔ اِس باہمی ربط و ضبط سے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کم ہونے لگے تھے ٗ مگر بعد ازاں ملی یک جہتی کونسل غیر فعال ہو گئی اور اِس دورانیے میں فرقہ وارانہ نفرت پیدا کرنے والے عناصر کو اپنے اہداف تک پہنچنے کا موقع مل گیا۔
ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ عراق ۔ ایران جنگ اور جہادِ افغانستان سے فرقہ واریت کو پنپنے کے لیے سازگار ماحول میسر آیا۔ عراق نے سنیوں کو فنڈز فراہم کیے جبکہ ایران کی طرف سے اہلِ تشیع کی بڑی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ اِسی زمانے میں سپاہِ محمدؐ ٗ سپاہِ صحابہؓ اور لشکرِ جھنگوی وجود میں آئے جو مسلح ونگ تھے اور طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے تھے۔ انہی برسوں میں دینی مدرسے بہت بڑی تعداد میں قائم ہوئے جن میں زیادہ تر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور سعودی عرب کےتعاون سے سلفیہ مکتبہ فکر کو بڑی تقویت پہنچی۔ اِس مکتبہ فکر میں دوسرے مکاتب فکر کے مقابلے میں شریعت کے حوالے سے کچھ شدت پائی جاتی ہے۔ وہ مزارات اور قبروں کا احترام کرنے کے بجائے اُنہیں منہدم کر دینے کے قائل ہیں۔ وہ شاید ذوقِ لطیف اور صحت مند تفریحات سے بھی قدرے ناآشنا ہیں۔ اُن کے مدرسوں میں جو طالب علم تیار ہوئے ٗ وہ مذہب کے بارے میں خاصے متشدد ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی معاشرے میں شعائرِ اسلام کا احترام کم ہو رہا تھا اور جنرل پرویز مشرف کی بادہ خواری اور شہوت رانیتمام حدود توڑ دینے کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ اِسی زمانے میں برطانیہ کی سرزمین سے ’’ حزب التحریر‘‘ کے نام سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک تحریک اُٹھی جس کے منشور میں برطانیہ سمیت پوری مسلم اُمہ میں خلافت کا قیام شامل ہے۔ وہ مسلمان ملکوں میں رائج ہر نظام ٗ آئین اور جمہوریت کو صریح کفر سے تعبیر کرتے ہیں۔

٭٭٭

پاکستان میں فکری اور نظریاتی انتشار پیدا کرنے میں وہ کشمکش سرِ فہرست ہے جو اسلامی ذہن اور سیکولر سوچ رکھنے والوں میں پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہو گئی ہے۔ پاکستان کے ضمیر میں اسلام کے ساتھ جذباتی لگاؤ ہے ٗ مگر مغربی تہذیب کی پروردہ وہ اشرافیہ جسے اقتدار ملا ٗ وہ شروع ہی سے پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانے پر تُلی ہوئی تھی۔ اِس کی سخت مزاحمت کے باوجود قراردادِ مقاصد منظور ہو گئی جو آئندہ ہر دستور کا دیباچہ قرار پائی۔ مسٹر بھٹو سیکولر ذہن رکھتے تھے ٗ مگر اُنہوں نے عوام کیاُمنگوں کے مطابق اور کمال بالغ نظری سے دستور میں اسلامی دفعات اور راہنما اصولوں میں وہ تمام امور شامل کیے جو ایک فلاحی اسلامی ریاست کے امتیازی خدوخال ہیں۔ جنرل ضیاء الحق آئے ٗ تو اُنہوں نے قراردادِ مقاصد کو آئین کے متن کا حصہ بنا دیا جسے جنرل پرویز مشرف بھی تبدیل نہ کر سکے ٗ حالانکہ ایل ایف او کے ذریعے اُنہوں نے پورے دستور کے بخیے اُدھیڑ دیے تھے۔ جناب میاں رضا ربانی کی سربراہی میں آئینی اصلاحات کمیٹی بھی قراردادِ مقاصد کو دستور سے خارج نہ کر سکی حالانکہ وہ سیکولرایلیٹ کو سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔ اِس وقت ہمارا دستور اسلام اور جمہوریت کا ایک حسین امتزاج ہے اور اِس پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے ٗ تو معاشرے کی خوفناک ناہمواریاں اور ناانصافیاں بڑی حد تک ختم ہو سکتی ہیں اور بتدریج ایک فلاحی ٗ جمہوری اور اسلامی ریاست کے ثمرات عوام تک پہنچ سکتے ہیں ٗ لیکن بدقسمتی سے معاشرے میں ذہنی آوارگی کا رجحان فزوں تر ہے جبکہ سیکولر عناصر بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں اور اسلام کو ریاست سے خارج کرنے کا الٹی میٹم دے رہے ہیں۔ اُن کے ردِعمل میں طالبان کا ایک متحرک گروپ انتہا پسندی اور دہشت گردی پر اُتر آیا ہے اور معصوم اور پُرجوش نوجوانوں کو جنت کی بشارت دے رہا ہے۔
ہمارے مسائل بہت گہرے اور اُلجھے ہوئے ہیں۔ ساٹھ پینسٹھ برسوں کی نااہلیوں اور حماقتوں نے پاکستان میں انتہا پسندوں ٗ دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ ہماری خود غرضیوں ٗ ہولناکیوں اور عوام دشمنیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اختصار کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری بیشتر قیادتیں جن میں سیاسی اورعسکری برابر کی شریک ہیں ٗ معاشرے کو اسلام کے بنیادی اصولوں اور تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھیں ٗ کیونکہ اُنہیں سب سے پہلے اپنے مفادات کی قربانی دینا پڑتی تھی۔ دوسرا یہ کہ اُنہوں نے انسانی وسائل کو ترقی دینے اور اُنہیں اپنی اصل طاقت بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ تعلیم ٗ صحت اور ذرائع آمد و فت کی بنیادی ضرورتوں پر بجٹ کا بہت کم حصہ خرچ کیا گیا اور معیاری تعلیم کے ذریعے معیاری قوم کی تعمیر کبھی اوّلین قومی ترجیحات میں شامل نہ ہو سکی۔ ایسی اقتصادیپالیسیاں وضع کی گئیں جن سے امیر ٗ امیر تر اور غریب ٗ غریب تر ہوتے گئے۔ ایوب خاں کی معاشی خوشحالی کا ماحصل یہ تھا کہ بائیس خاندان پورے ملکی وسائل کے مالک بن گئے۔ بھٹو صاحب نے اقتصادی اصلاحات نافذ کیں ٗ تہ سارے اختیارات بیوروکریسی میں مرتکز ہو گئے یا پارٹی کی لیڈر شپ کے ہاتھ میں چلے گئے۔ ہم نے محروم طبقات کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے اور اُنہیں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کے لیے سنجیدگی سے منصوبہ بندی نہیں کی۔ سب سے بڑا ظلم ہمارے اُن فوجی جرنیلوں نے کیاجنہوں نے آئین اور قانون کی حرمت ختم کی اور قومی یک جہتی کو فروغ دینے والے تمام ادارے تباہ کر ڈالے۔ طالبان تو جنرل پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں کی پیداوار ہیں۔

٭٭٭

ہم اِن خوں آشام حالات میں بہتری لانے کے لیے چند تجاویز پیش کرتے ہیں:

1۔ کراچی ہو یا بلوچستان یا فاٹا ٗ اِن میں خونریزی اور قتل و غارت گری کی جو المناک صورتِ حال بن گئی ہے ٗ وہ پچیس تیس برسوں کی غلط یا غیر متوازن پالیسیوں کا نتیجہ ہے ٗ اِس لیے اُس کی اصلاح کے لیے ہمیں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک طویل المعیاد منصوبہ تیار کرنا اور پوری ثابت قدمی سے اُسے عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ آج کی انتہائی دھماکہ خیز صورتِ حال کے تجزیے کے لیے ایک قومی کمیشن تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں جہاں دیدہ سیاست دانوں کے علاوہ عمرانی علوم کے ماہرین ٗجدید فکر کے حامل علمائے کرام ٗ صحافی اور دانش ور بھی شامل ہوں۔ اِس کمیشن میں اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرڈ پولیس اور فوجی افسروں اور سفارت کاروں کی بھی خدمات حاصل کی جائیں۔ اِس کمیشن کو سماجیات اور سیاسیات پر تحقیق کرنے والے اہلِ علم کی اعانت بھی حاصل ہونی چاہیے۔ یہ کمیشن حکومت کو فوری اقدمات کی بھی سفارش کر سکے اور اُن انتظامات کی بھی جن کے ذریعے امن کی قوتوں کو استحکام حاصل ہو اور مائنڈ سیٹ میں جوہری تبدیلی واقع ہو۔

2۔ اے پی سی میں امن کو موقع دینے کا جو فیصلہ اتفاقِ رائے سے ہوا ہے ٗ اُس پر عمل درآمد کے لیے ایک مربوط حکمتِ عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج کے سینئر افسروں کی شہادت اور پشاور میں چرچ پر دو خودکش حملوں سے بظاہر مذاکرات کا آپشن دھندلا گیا ہے ٗ مگر اِن دل فگار حادثات سے ہمارے قومی عزم اور ہمارے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آنی چاہیے۔ وہ عناصر جو چاہتے ہیں کہ پاکستان کا خون بہتا رہے ٗ وہ مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کا ہر انتہائی حربہ استعمال کریں گے۔ یہ ہماریدانش اور استقامت کا امتحان ہو گا کہ ہم دشمن کے جال میں پھنس جاتے ہیں یا اپنی بصیرت اور ہمت سے دشمن کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیتے ہیں۔ گزشتہ دس بارہ برسوں سے دہشت گردی کا مقابلہ ٗ فوج ٗ پولیس اور ایف سی کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کمال بہادری اور نظم و ضبط کا ثبوت دیا ہے اور ہماری تاریخ اُن کی قربانیوں سے دمک رہی ہے۔ وہ فرنٹ لائن پر ہیں اور اے پی سی کے ذریعے اُنہیں زبردست سیاسی کمک پہنچی ہے۔ اگر پوری قوم کی حمایت سے مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں جن کے قوی امکانات پائے جاتےہیں ٗ تو اِس کے غیر معمولی پر داخلی اور خارجی اثرات مرتب ہوں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ستمبر 2001ء سے جاری ہے جس کے نتیجے میں پاکستان پہلے سے زیادہ زخمی نظر آتا ہے۔ ہم اگر حکومت اور معاشرے کی سطح پر اسلامی شعائر کا احترام پوری طرح کر سکیں اور وی آئی پی کلچر کے مظاہر کم کرتے جائیں ٗ تو مذاکرات کے لیے تیس میں سے بیس پچیس گروپ ضرور تیار ہو جائیں گے۔ سیاسی قیادت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مذاکرات میں عسکری قیادت ہی کلیدی کردار ادا کرے گی اور عسکریقیادت کویہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فوج اِس وقت ’’وار زون‘‘ میں ہے۔

3۔ سیاسی اور فوجی قیادتیں حساس پوائنٹس پر دباؤ بڑھا کر دہشت گرد تنظیموں کو اِس معاہدے پر رضامند کر سکتی ہیں کہ وہ عبادت گاہوں ٗ ہسپتالوں ٗ شہری بستیوں ٗ ریل گاڑیوں اور بسوں پر راکٹ برسائیں گے نہ خودکش حملے کریں گے نہ فرقے اور نسل کی بنیاد پر عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اُتاریں گے۔ اِس کے عوض حکومت کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔

4۔ داخلی سیکورٹی کی بنیادی ذمے داری پولیس کی ہے جو اِس وقت ایک سے زیادہ بحران کا شکار ہے۔ سیاسی حکومتوں نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی ہیں جن سے اِس فورس کی جانب داری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ دوسری طرف جب یہ دیانت دار اور فرض شناس افسر مجرموں پر ہاتھ ڈالتے ہیں ٗ تو ممبران اسمبلی اُنہیں چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ تیسری طرف پولیس میں کرپشن عام ہے اور وہ پیسے بٹورنے کے لیے عام آدمی پر ظلم ڈھاتی ہے ٗ چنانچہ پولیس اور عوامکے درمیان اعتماد کا رشتہ ٹوٹا ہوا ہے۔ چوتھی طرف اِس کی ٹریننگ پرانی طرز کی ہے اور اِس کے ہتھیار دہشت گردوں کے مقابلے میں نہایت فرسودہ اور غیر مؤثر ہیں۔ خطرناک حالات متقاضی ہیں کہ بتدریج ایک نئی پولیس فورس تیار کی جائے جس کی ٹریننگ اور ملازمت کے قواعد فوجی معیار کے ہوں۔

5۔ سب سے ضروری بات یہ کہ میڈیا دہشت گردی میں آب و تاب پیدا کرنے سے اجتناب کرے۔ ایک ہی منظر بار بار دیکھنے سے عوام ذہنی مریض بن جانے کے ساتھ ساتھ دہشتزدہ نظر آتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام کیے جا سکتے ہیں جن میں اسلامی تعلیمات کی صحیح روح ناظرین تک پہنچائی جائے اور ایک ایسی فضا تیار کی جائے جس میں عوام اپنے اندر مزاحمت کی طاقت پیدا کریں اور مجرموں اور دہشت گردوں کے سامنے فوری طور پر سرنڈر نہ کریں۔ جرم پیشہ عناصر اور انتہا پسند بنیادی طور پر بڑے بزدل ہوتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کے لیے صحت مند سرگرمیوں کا ایک جال بچھانا اور اُن کی صلاحیتوں اور توانائیوں کا رُخ ایک عظیم اور مضبوط ریاست کی تعمیر کی طرفموڑ دینا ہو گا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اُن کے لیے چھ منصوبوں کا اعلان کیا ہے جو ہمارے عزیز وطن کی تقدیر بدل سکتے ہیں ٗ مگر اِس کے لیے بڑے خلوص ٗ پوری شفافیت اور قومی وسائل کے نہایت عمدہ استعمال کا عملی ثبوت دینا ہو گا۔ محبت ٗ عفو ودرگزر اور حُسنِ تدبیر سے ایک دنیا فتح کی جا سکتی ہے۔

جگ ہنسائی کی ہوشربا کہانی - اُردو ڈائجسٹ
 
آخری تدوین:
پس نوشت:
اگرچہ یہ کالم 2011 کا لکھا ہوا ہے مگر اس میں پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ بیان کی گئی ہے اور یہ کالم ایک بہت اچھا ریفرینس ہے
 
آخری تدوین:
Top