جوشؔ دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ میں

الف عین

لائبریرین
جوشؔ دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ میں​
ڈاکٹر سید داؤد اشرف​
ریاست حیدرآباد میں ضرورت کے مطابق بیرون ریاست سے قابل اور لائق افراد کو طلب کرنے کا سلسلہ سالار جنگ اول کے دور سے شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں بیرونی مشاہیر از خود حصول ملازمت کے لیے حیدرآباد آنے لگے ۔ نامور اور ممتاز شخصیتوں کو حیدرآباد طلب کرنے اور ان کا از خود حیدرآباد آنے کا سلسلہ تقریباًریاست حیدرآباد کے خاتمے تک جاری رہا۔ تلاش روز گار میں حیدرآباد آنے والے اُردو کے چند بے حد اہم اور نمائندہ شاعروں میں جوش ملیح آبادیؔ بھی شامل تھے ۔ جوشؔ نے اپنی عمر کے لگ بھگ ساڑھے دس سال حیدرآباد میں گزارے ۔ یہ جوشؔ کی زندگی کے بہترین ایام تھے ۔ حیدرآباد میں ان کی تخلیقی اور فن کارانہ صلاحیتوں کی قدر کرنے والوں اور انہیں ٹوٹ کر چاہنے والے دوستوں کی کمی نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جوشؔ حیدرآباد سے گہری وابستگی اور لگاؤ رکھتے تھے ۔
جوشؔ 1924ء کے اوائل میں حیدرآباد آئے تھے ۔ وہ سال حصول ملازمت کی کوششوں کی نذر ہوا۔ وہ یکم جنوری 1925ء کو دارالترجمہ میں رجوع بہ کار ہوئے جہاں وہ ابتدا میں مترجم کی خدمت پر ایک سال 8 ماہ 13 یوم اور پھر ناظر ادبی کی خدمت پر 7 سال 11 ماہ 15 یوم فائز رہے ۔ اس طرح دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں ان کی مکمل ملازمت 9 سال 7 ماہ 28 یوم اور حیدرآباد میں ان کا قیام تقریباً ساڑھے دس سال رہا۔
آصف سابع کے عتاب پر جوشؔ کو حیدرآباد چھوڑنا پڑا تھا لیکن حیدرآباد کی یادوں نے کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
دارالترجمہ میں جوشؔ کی سرگرمیوں ، وہاں کام کرنے والے چند اہم افراد سے جوشؔ کے مراسم اور مفوضہ فرائض کی انجام دہی کے بارے میں جوشؔ کی خودنوشت ’’یادوں کی برات‘‘ کے علاوہ دیگر چند مضامین سے دلچسپ اور اہم معلومات دستیاب ہوتی ہیں ۔ یہ مضا میں جوشؔ کے عزیز اور قریبی دوستوں سید معین الدین قریشیؔ، محمد حبیب اللہ رشدیؔ اور تمکین کاظمیؔ کے تحریر کردہ ہیں ۔ ان مضمون نگار حضرات کو دارالترجمہ میں جوشؔ کو کام کرتے ہوئے اور دیگر دلچسپیوں میں وقت گزارتے ہوئے دیکھنے کے کافی مواقع ملے تھے ۔
جوشؔ نے یادوں کی برات میں لکھا ہے کہ دارالترجمہ دفتر کم اور دارالتفریح زیادہ تھا جہاں جوشؔ اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ ہر روز مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے برادرِ بزرگ مولوی ابوالخیر مودودیؒ کے علاوہ سید ہاشمی فرید آبادیؔ کے کمرے میں جمع ہو کر گپیں اڑاتے اور شاعری کیا کرتے تھے ۔ دارالترجمہ میں مولانا عبداللہ عمادیؔ، مولوی ابوالخیر مودودیؒ، سید ہاشمی فرید آبادیؔ اور مرزا محمد ہادی رسواؔ سے جوشؔ کے خاص مراسم تھے ۔ جوشؔ نے مولانا عبداللہ عمادیؔ کو فارسی اور عربی کا ہفت قلزم لکھا ہے ۔ جوشؔ لکھتے ہیں کہ حیدرآباد آنے سے قبل رسواؔ ان کو پڑھایا کرتے تھے اور حیدرآباد آنے کے بعد جوشؔ ان سے شاعری کے علاوہ انگریزی ادب اور فلسفے کا بھی باقاعدہ درس لینے لگے ۔ ان دنوں جوشؔ روزانہ رات کے گیارہ بجے تک اُردو، فارسی، انگریزی، ادب اور فلسفے کا بلا ناغہ مطالعہ کرتے تھے ۔
جوشؔ کے بیان کے مطابق انہیں بیکن کی سوانح عمری کے ترجمے کا کام تفویض کیا گیا تھا جب کہ وہ دارالترجمہ میں مترجم کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ۔ دارالترجمہ کی مطبوعات کی فہرست میں یہ سوانح عمری شامل نہیں ہے ۔ جوشؔ نے یا تو بیکن کی سوانح عمری کا ترجمہ مکمل نہیں کیا تھا یا کسی اور وجہ سے وہ سوانح عمری شائع نہیں کی گئی۔
تمکین کاظمیؔ اپنے مضمون ’’جوشؔ میری نظر میں ‘‘ (شائع شدہ افکار جوشؔ نمبر، دوسرا ایڈیشن) میں لکھتے ہیں کہ جوشؔ ناظر ادبی کی حیثیت سے کامل توجہ، پوری ذمہ داری اور نہایت ہی دلچسپی سے اپنے فرائض انجام دیتے تھے ۔ دارالترجمہ میں عبداللہ عمادیؔ، مولوی عنایت اللہ، قاضی تلمذ حسین وغیرہ ہی ایسے مترجمین تھے جن کے ترجمے نظر ثانی کے محتاج نہ تھے ورنہ بیشتر حضرات کا یہ حال تھا کہ ایک ایک سطر میں چار چار غلطیاں کرتے تھے ۔ جوشؔ نے ایسے مترجمین کو تعلیم یافتہ و سند یافتہ جہلا کا خطاب دیا تھا۔ جوشؔ جن مترجمین کی غلطیاں نکالتے انہیں اپنے پاس بلوا کر چائے سے تواضع کرتے ہوئے ان کی غلطیاں ان پر واضح کر دیتے اور اصلاح شدہ حصہ انہیں دکھا بھی دیتے جسے دیکھ کر وہ لوگ پھڑک جاتے اور جوشؔ کا شکریہ ادا کرتے تھے ۔ تمکین کاظمیؔ کی ان دنوں جوشؔ سے دارالترجمہ کے دفتر پر زیادہ ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں ۔ وہ دیکھتے تھے کہ جوشؔ بڑے انہماک اور پوری توجہ سے اس کام کو انجام دیتے تھے اور نہایت عرق ریزی سے ترجموں کو درست کرتے رہتے تھے ۔ ان کا خیال ہے کہ جوشؔ نے جس محنت اور سلیقے سے ترجموں پر نظر ثانی کی اور ان کے مفہوم کو برقرار رکھ کر زبان درست کی ہے یہ ہر کس و ناکس کا کام نہ تھا۔ تمکین کاظمیؔ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ جوشؔ کے اس سنہرے کارنامے کو کسی نے بھی نہیں سراہا اور خود جوشؔ نے بھی کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ تمکین کاظمیؔ کی نظر میں جوشؔ کا یہ کارنامہ نہایت ہی اہم اور عظیم الشان ہے ۔
محمد حبیب اللہ رشدیؔ نے اپنے مضمون ’’جوشؔ حیدرآباد دکن میں ‘‘ (مطبوعہ افکار جوشؔ نمبر، دوسرا ایڈیشن) لکھا ہے کہ جوشؔ کو ایسے زمانے میں جب کہ ان کی شاعری بہار پر آ رہی تھی اگر دارالترجمہ سے وابستہ ہونے کا موقع نہ ملتا تو شاید ان کی شاعری کا وہ رنگ نہ ہوتا جو اب ہے ۔ خود جوشؔ معترف ہیں کہ دارالترجمہ سے وابستگی ان کے لیے بہت سود مند رہی۔ خود جوشؔ ۔۔ یادوں کی برات میں لکھتے ہیں ‘‘ میری یہ بڑی نمک حرامی ہو گی اگر میں اس بات کا اعتراف نہ کروں کہ شعبۂ دارالترجمہ کی وابستگی نے مجھ کو بے حد علمی فائدہ پہنچایا اور خصوصیت کے ساتھ علامہ عمادیؔ، علامہ طباطبائیؔ اور مرزا ہادی رسوا کے فیضانِ صحبت نے مجھ بے سواد آدمی کو میرے جہل پر مطلع کر کے مجھ کو ذوق مطالعہ پر مامور کر دیا اور صحت الفاظ و نجابت لہجہ کا جو پودا میرے ماں باپ اور دادی نے میرے وجود کی سرزمین پر لگایا تھا اگر طباطبائیؔ، مرزا محمد ہادی رسواؔ اور عمادیؔ کی مسلسل دس برس کی ہم نشینی کا مجھ کو موقع نہ ملتا تو وہ پودا کبھی شاداب اور بار آور نہ ہوتا‘‘۔
دارالترجمہ میں جوشؔ کی سرگرمیوں کے بارے میں سید معین الدین قریشیؔ کے مضمون ’’جوشؔ حیدرآباد میں سترہ برس بعد‘‘ میں (مطبوعہ ماہنامہ صبا‘ حیدرآباد‘ اگست و ستمبر 1966ء) جوشؔ کا 1934ء میں حیدرآباد سے اخراج عمل میں آیا تھا۔ وہ سترہ برس بعد 1951ء میں حیدرآباد آئے تھے ۔ (یہ مضمون 1951ء میں جوشؔ کی آمد پر تحریر کیا گیا تھا) اس مضمون سے چند حوالے دینے سے قبل دو تین جملوں میں قریشی صاحب کا تعارف کروانا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ جوشؔ کے ایک قریبی دوست محمد حبیب اللہ رشدیؔ کے الفاظ میں ’’معین الدین قریشی عثمانیہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے جوشؔ کے کمال شاعری کو پہچانا۔ عثمانیہ یونیورسٹی نے قریشیؔ کا سا دوسرا طالب علم پیدا نہیں کیا۔ وہ جوشؔ کے ایسے پرستار تھے کہ اب تک جوشؔ کے احباب میں ان کا ثانی مجھے نظر نہیں آیا‘‘۔ معین الدین قریشیؔ متذکرہ بالا مضمون میں لکھتے ہیں ’’دارالترجمہ میں سب سے دلچسپ اور کام کی بیٹھک مولانا عمادیؔ کے کمرے میں ہوتی تھی۔ یہاں علم تھا اور دبی ہوئی بذلہ سنجی، جس پر سنجیدگی کے پردے پڑے ہوتے ۔ جوشؔ ان پردوں کو ہٹاتے ۔ خالص علمی اور ادبی مسائل میں جو باریکیاں ، لطافتیں ، نزاکتیں اور شرارتیں شامل ہوتی تھیں اس کے ذمہ دار جوشؔ تھے ۔ مولانا عمادیؔ میں یہ خاص بات تھی کہ وہ کسی لطیف شوخی یا پھبتی کا دل سے خیر مقدم کرتے اور ایک بے اختیار ہنسی اور برجستہ قہقہے کو اس طرح روکنے کی کوشش کرتے تھے جس طرح ایک سچا عالم اپنے علم کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ جواب تو دیتے تھے لیکن کبھی وہ ضر ر رساں نہ ہوتا۔ زیادہ تر داد ہوتی تھی اور سچے دل سے جس میں ان کے دل کی لذت سب کو محسوس ہوتی تھی۔ جوشؔ نے ہنسی ہنسی میں ان سے بہت کچھ سیکھا اور حاصل کیا اور جب کبھی وہ (جوشؔ) یہ کہتے کہ دکن سے چند دوستوں کے علاوہ میں نے علم کا ذوق پایا ہے تو میرا منتشر خیال مولانا عمادیؔ پر مرتکز ہو جاتا ہے ۔ معین الدین قریشیؔ آگے لکھتے ہیں کہ دارالترجمہ کا ایک اور گوشہ جو جوشؔ کی توجہ اور محبت کا مرکز تھا وہ مرزا محمد ہادی رسواؔ کا کمرہ تھا۔ اپنے مضمون میں قریشی صاحب جامعہ عثمانیہ میں اصطلاح سازی کے کام کے بارے میں تحریر کرتے ہیں ’’اصطلاحات بنانے کے لیے جامعہ عثمانیہ کے علما کی کمیٹیاں مہینے میں کئی بار ہوا کرتی تھیں ۔ ان کمیٹیوں میں دو مکاتیب خیال کے لوگ تھے ۔ ایک جماعت جدت پسند حضرات کی تھی جس کے سرگروہ مولوی وحیدالدین سلیمؔ تھے ۔ دوسرا طبقہ قدامت پسند حضرات کا تھا جس کے ممتاز افراد علامہ علی حیدر طباطبائیؔ، مولانا عمادیؔ اور مرزا محمد ہادی رسواؔ تھے ۔ مولوی وحید الدین سلیمؔ نے جس اوریجنل انداز سے اس پہلو پر سوچا تھا اور تحقیق کی تھی اس کی نظیر نہیں ، اور فطری اور عملی طور پر جامعہ عثمانیہ کے وجود کو ممکن اور قابل عمل بنانے میں مولانا سلیمؔ نے جو حصہ لیا وہ ان ہی کا حق تھا۔ مولانا سلیمؔ نے مولوی عبدالحقؔ کے کہنے پر اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب ’’وضع اصطلاحات‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔ اُردو زبان میں اس فن پر یہ اپنی نوعیت کا بے مثل کارنامہ ہے ۔ اصطلاح سازی کے آریائی زبانوں میں جو اصول ہیں مولانا سلیمؔ نے ان کی بڑی تحقیق کی تھی اور اپنا ایک طبع زاد نظریہ ملک کے سامنے پیش کیا تھا۔ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ اپنے اصولوں کی بنیاد پر کسی کدو کاوش کے بغیر بڑی تیزی سے اصطلاحات ڈھائے جاتے تھے ۔ ان کا دماغ خود ٹکسال تھا‘‘۔ اس کے بعد معین الدین قریشیؔ اصطلاحات کے بارے میں جوشؔ کے رجحانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اصطلاحات کے معاملے میں جوشؔ اس زمانے میں قدامت پسند طبقے کی طرف نظر آئے اور ظاہر ہے کہ یہ زیادہ تر مولانا عمادیؔ کا اثر تھا۔ اب (1951ء) میں نے جوشؔ کو اس مسلک سے بہت کچھ ہٹا ہوا پایا۔ شاعر انقلاب اب کچھ انقلاب زبان کا بھی قائل نظر آتا ہے ‘‘۔
جوشؔ کا 1934ء میں حیدرآباد سے اخراج عمل میں آیا تھا اور انہیں ریاست حیدرآباد کے خاتمے تک حیدرآباد آنے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ چنانچہ وہ 1951ء میں دوبارہ حیدرآباد آئے ۔ اس دورۂ حیدرآباد کے موقع پر شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے اکثر عمارتوں اور مکانوں کو دیکھ کر وہ پرانی یادوں میں گم ہو گئے ۔ دارالترجمہ کی قدیم عمارت کے نظر آنے پر جوشؔ کے جو تاثرات تھے اس کے بارے میں قریشی صاحب لکھتے ہیں ’’یہ تھا دارالترجمہ جہاں جوشؔ کی زندگی بکھری بھی اور نکھری بھی۔ جب کئی سال بعد جوشؔ حیدرآباد آئے تو انہوں نے اس عمارت کو بہت غور سے دیکھا جس میں دارالترجمہ تھا اور جہاں اب رائل ہوٹل ہے ۔ جوشؔ کے اندازِ نگاہ سے یہ محسوس ہوا کہ وہ اس پوری زندگی کو جو اس عمارت میں جذب ہے اب اپنے آپ میں جذب کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔
حیدرآباد اور دارالترجمہ سے اُردو کے اس بلند مرتبت شاعر کی وابستگیوں کے صرف چند یادں کے تذکروں سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وابستگیاں کتنی پرجوشؔ اور بھرپور تھیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جوش ملیح آبادیؔ کی شخصیت کی تشکیل اور ان کے فکر و فن کے ارتقا سے ان وابستگیوں کا بہت گہرا اور اٹوٹ تعلق ہے ۔ حیدرآباد نے جوشؔ کی زندگی کے اس اہم مرحلے پر ان کی مدد اور سرپرستی ہی نہیں لی بلکہ شبیر حسین خان کو اُردو زبان و ادب کی ایک نمائندہ شخصیت جوش ملیح آبادیؔ بنانے میں بھی کلیدی حصہ ادا کیا۔

تشکر: منصف، حیدر آباد دکن
 
Top