جوتے

عثمان

محفلین
بلاشبہ کچھ تلخ حقائق اپنی جگہ ، لیکن چوہدری صاحب بھی بہت بڑے "چھوڑوُ" ہیں۔ تحریر میں انے وا مسالا لگایا ہے۔
"ہمارے ایم اے پاس کی استطاعت یورپ کے پرائمری پاس کے برابر ہے۔"
"امریکی شہری سارا راستہ صدر ایوب پر پھول برساتے رہے۔ "
حد ہو گئی یار! o_O
 
یار بھائی لوگوں ۔ سب باتیں ایک طرف ،
دکھ صرف ایک بات کا ہے کہ ہم لوگ اتنےمیلے ہو گئے ہیں کہ ہمارا نام اب منفی مثالوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یار بھائی لوگوں ۔ سب باتیں ایک طرف ،
دکھ صرف ایک بات کا ہے کہ ہم لوگ اتنےمیلے ہو گئے ہیں کہ ہمارا نام اب منفی مثالوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب کوئی ہماری پوشاک پر لگے داغوں کی نشاندہی کرتا ہے تو ہم اُس کی نشاندہی پر کان دھرے بغیر اس سے کہتے ہیں "آپ کے کپڑے بھی تو گندے ہو رہے ہیں، آپ اُنہیں دیکھیے۔

ہمیں مت چھیڑیے، ہم سر پھرے ہیں"

اسی اندازِ فکر کو پیرزادہ قاسم نے یوں لکھا ہے۔
جو بھی ہو تم پہ معترض اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بات تو واقعی قابلِ افسوس ہے۔ لیکن 'ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات' ۔

ویسے جاوید چودھری کے قارئین سے معذرت کے ساتھ، جاوید چودھری کی تحریر اور اندازِ بیان میں داستان گوئی اور ڈرامہ کا عنصر غالب ہے۔ وہ پری کنسیویڈ نوشن (@عثمان سے معذرت کے ساتھ۔ مجھے پھر اس کی اردو یاد نہیں آ رہی) کے ساتھ اپنی تحریر اور تقریر (پروگرام) کا آغاز کرتے ہیں اور پھر اپنی رائے دے کر (بلکہ مسلط کر کے)اختتام۔ جبکہ ایک صحافی یا تجزیہ نگار کو صرف حقائق پیش کرنا ہوتے ہیں غیر جانبدارانہ انداز میں۔

بلاشبہ کچھ تلخ حقائق اپنی جگہ ، لیکن چوہدری صاحب بھی بہت بڑے "چھوڑوُ" ہیں۔ تحریر میں انے وا مسالا لگایا ہے۔
"ہمارے ایم اے پاس کی استطاعت یورپ کے پرائمری پاس کے برابر ہے۔"
"امریکی شہری سارا راستہ صدر ایوب پر پھول برساتے رہے۔ "
حد ہو گئی یار! o_O
:jokingly:
 
بات تو واقعی قابلِ افسوس ہے۔ لیکن 'ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات' ۔
ویسے جاوید چودھری کے قارئین سے معذرت کے ساتھ، جاوید چودھری کی تحریر اور اندازِ بیان میں داستان گوئی اور ڈرامہ کا عنصر غالب ہے۔ وہ پری کنسیویڈ نوشن (@عثمان سے معذرت کے ساتھ۔ مجھے پھر اس کی اردو یاد نہیں آ رہی) کے ساتھ اپنی تحریر اور تقریر (پروگرام) کا آغاز کرتے ہیں اور پھر اپنی رائے دے کر (بلکہ مسلط کر کے)اختتام۔ جبکہ ایک صحافی یا تجزیہ نگار کو صرف حقائق پیش کرنا ہوتے ہیں غیر جانبدارانہ انداز میں ۔
:jokingly:
بالكل متفق ، بعض اوقات وہ analogy كا بالكل بے تكا استعمال كرتے ہيں ۔
کافی مضاحیہ تحریر ہے جاوید چوئدری کی بھی اور پلیکارڈ پر بھی۔ مصر پر چالیس سال ایک امر نے حکومت کی ہے اور ابھی بھی فوج کی حکمرانی ہے۔ پاکستان میں کئی جمہوری حکومتیں آ چکی ہیں اور ابھی بھی جمہوریت بحال ہے۔ مصر کو پاکستان تک پہنچنے کے لئے ابھی کئی دہایاں درکار ہیں۔
ايسا ايك تجزيہ مختار مسعود نے لوح ايام کے آخر ميں كيا ہے۔ بعض اوقات يہ بات کچھ حد تك مطمئن كرتى ہے ليكن پاكستان كے حالات منفى تجزيے بھی قبول كرتے ہيں۔
جاوید چوہدری نے بڑی سادہ سی بات کی ہے، مصر جو تھا وہ اب نہیں ہے، بدترین آمرانہ دور سے بتدریج بہتری آئی ہے اور گزرتے ہوئے ایام کے ساتھ مزید بہتر ہوجائے گا ان شاءاللہ، پاکستان جو تھا وہ اب نہیں ہے، ایک بہتر ملک بدترین کیفیت و حالات سے دوچار ہو چکا ہے، اللہ سے دعا ہے کہ میرا وطن بہتر سے بہتر ہو لیکن موجودہ حکمران قیادت کی موجودگی میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا، درحقیقت حقائق تو ہمیشہ سادہ ہوتے ہیں رنگین وہ عینک ہوتی ہے جو ہم نے پہنی ہوتی ہے۔
دعا پر آمين ۔ مصر كو ہم پر ايك ايڈوانٹج ہے ۔ وہاں صدارتى نظام كى مہربانى سے اختيارات كى جنگ آرمى چيف اور صدر كے درميان رہے گی۔ ہمارے ہاں صدر ، وزير اعظم ، آرمى چيف اور پارليمنٹ كى كھچڑی پكى ہوئى ہے۔اس پاور شئيرنگ گيم نے ہمارى پاليسيوں کے تسلسل اور ترقى ميں بار بار ركاوٹ ڈالى ہے۔
 
Top