جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا - خالد حمید

جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا
کہ اپنے دیس کو روتے بھی ہو
چین سے پڑھ کر کر سوتے بھی ہو
اپنے دیس کا غم کیسا ہے
ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو
کس نے کہا تھا آؤ یہاں
آکر تم بس جاؤ یہاں
جب دیس تمھارا اپنا تھا
وہ شہر تمھارا اپنا تھا
وہ گلی تمھاری اپنی تھی
وہ مکاں پرانا اپنا تھا
اس دیس کو پھر کیوں چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا

جب بھی دیسی مل کر بیٹھیں
قصے پھر چھڑ جاتے ہیں
ان ٹوٹی سڑکوں کے قصے
ان گندی گلیوں کے قصے
ان گلیوں میں پھرنے والے
ان سارے بچوں کے قصے
اورنگی یا کورنگی کے
پانی کے نلکوں کے قصے
ان نلکوں پر ہونے والے
ان سارے جھگڑوں کے قصے
اور نکڑ والے دروازے پر
ٹاٹ کے اس پردے کے قصے
اسے پردے کے پیچھے بیٹھی
اس البیلی نار کے قصے
جس کی ایک نظر کو ترسے
ان سارے لڑکوں کے قصے
جھوٹے قصے سچے قصے
پیار بھرے اس دیس کے قصے
پیار بھرے اس دیس کو تم نے
آخر کیوں کر چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا

تم پھولے نہیں سمائے تھے
جب ایمبیسی سے آئے تھے
ہر ایک کو ویزا دکھاتے تھے
اور ساتھ یہ کہتے جاتے تھے
چند ہی دنوں کی بات ہے یارو
جب میں واپس آؤں گا
ساتھ میں اپنے ڈھیر سے ڈالر
اور پتہ بھی لاؤں گا
تم نے کب یہ سوچا ہوگا
کیا کیا کچھ پردیس میں ہوگا
اپنے دیس کے ہوتے سوتے
بے وطنی کو روتے روتے
دیس کو تم پردیس کہو گے
اور پردیس کو دیس کہو گے
دیس کو تم الزام بھی دوگے
الٹے سیدھے نام بھی دوگے
ارے دیس کو تم الزام نہ دو
الٹے سیدھے نام نہ دو
دیس نے تم کو چھوڑا تھا
یا تم نے دیس کو چھوڑا تھا
کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
ارے جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا
خالد حمید
 
Top