جنوبی ایشیا کے دینی مدارس میں جسمانی سزاؤں کا رجحان

ہانیہ

محفلین
جنوبی ایشیا کے دینی مدارس میں جسمانی سزاؤں کا رجحان

28.03.2021
36194853_101.jpg

بدسلوکی کی روک تھام کے لیے حالیہ کوششوں کے باوجود بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں طلبا کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے کچھ قوانین موجود ہیں لیکن وکلاء کے مطابق قانونی کوششیں اب بھی ناکافی ہیں۔


بنگلہ دیش میں حال ہی میں ایک مدرسے کے استاد کی جانب سے ایک طالبعلم کی سالگرہ کے موقع پر اُسے بے دردی سے کوڑے مارنے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ مبینہ طور پر اس آٹھ سالہ بچے نے اپنی والدہ کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے کمپاؤنڈ چھوڑنے کی کوشش کی تھی۔ ایک ایسے دن، جو اس کا جنم دن یا سالگرہ کا دن تھا۔ اُس کی ماں اپنے بیٹے کے لیے تحائف لے کر اُس سے ملنے آئی تھی۔

جنوب مشرقی بندرگاہی شہر چٹاکانگ میں پیش آنے والے وائرل واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور بعد میں اس استاد کی گرفتاری عمل میں آئی۔ مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں بہت سارے سوشل میڈیا صارفین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ واقعہ اکا دکا رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ بنگلہ دیش میں کئی دہائیوں سے چلے آ رہے، اس قسم کے وحشیانہ عمل کی یاد دہانی ہے۔

ایسے وحشیانہ واقعات کے اعداد و شمار

بنگلہ دیش بیورو آف شماریات 'بی بی ایس‘ اور یونیسیف کے ذرائع کے مطابق 2012 ء اور 2013 ء کے درمیان کرائے گئے ایک سروے سے پتا لگا ہے کہ اس ملک میں ایک سال سے لے کر 14 سال کی عمر تک کے 80 فیصد سے زیادہ بچوں کو ''پرتشدد سزا‘‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ 74.4 فیصد نفسیاتی جارحیت کا شکار ہوئے۔ 65.9 فیصد بچوں کو جسمانی سزا دی جا چُکی ہے، جن میں سے 24.6 فیصد نے سخت جسمانی سزا پائی۔

سہراب گوٹھ کے دینی مدرسے سے 68 بچے برآمد

18276731_101.jpg


اکثر مدرسوں میں چھوٹی عمر کی بچیاں بھی قران کی تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں۔
سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف 33.3 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ بچوں کی پرورش کے لیے جسمانی سزا ضروری ہے۔ سروے کے مطابق تعلیم سے محروم یا کم تعلیم یافتہ اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو جسمانی سزا ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس سروے میں سرکاری اسکولوں یا دینی مدارس میں بچوں کو سزائیں دینے کے تناسب کے فرق کی البتہ وضاحت نہیں کی گئی ہے۔


ڈھاکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں بچوں کے ماہر نفسیات ہلال الدین احمد کا خیال ہے کہ مدرسے کے طلبا کو باقاعدہ اسکول کے طلبا کے مقابلے میں زیادہ جسمانی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی اداروں میں جسمانی اور نفسیاتی اذیت کا سامنا کرنے والے طلبا اکثر افسردہ اور خوف کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا،''وہ اکثر منفی ذہنیت کے ساتھ بڑے ہو جاتے ہیں اور احساس کمتری کی پیچیدگیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان زیادتیوں کی وجہ سے ایک بچے کی نفسیاتی نشوونما میں شدید رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ جارحانہ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

قانون کے باوجود جسمانی سزاؤں کا سلسلہ جاری

سن 2011ء میں طلبا کو بید زنی کی وحشیانہ سزا کے متعدد سلسلہ وار واقعات سامنے آئے، جس سے انہیں شدید چوٹیں آئیں۔ یہ خبریں عام ہونے پر بنگلہ دیشی حکومت نے تعلیمی اداروں میں ہر قسم کی سزا پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے''ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز‘‘ قرار دیا۔ یہ قانون مدرسوں سمیت تمام اسکولوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

تاہم ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی یہ عمل جاری ہے۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ میں کام کرنے والی وکیل میتی سنجنا کا ڈوئچے ویلے کے ساتھ اس بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ''بنگلہ دیش میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا ایک سنگین تشویش میں بدل گئی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ بہت سارے بچوں کے ذہنوں میں جسمانی سزا کی وجہ سے اسکول جانے کا خوف ایک طویل عرصے تک بیٹھ جاتا ہے۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا کی سخت پابندی کے لیے مزید قانون سازی ضروری ہے۔

بچوں کو ديکھ بھال کے ليے بچے بازوں کے حوالے کيا جاتا رہا

ڈھاکا کی ایک ہیومن رائٹس کی ماہر اور وکیل عشرت حسن کہتی ہیں کہ انہیں موجودہ قوانین اور بچوں کو جسمانی سزا دینے کی ممانعت کے بیچ ایک بڑی خلیج نظر آتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''تاہم 2013 ء کے چلڈرن ایکٹ کے تحت کسی بھی فرد کو کسی بچے کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے پر سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کی خاطر اس قانون میں کچھ مخصوص دفعات کے ساتھ ترمیم کی جانی چاہیے۔‘‘

پاکستان، چند طالب علموں کی تشدد سے ہلاکت

پاکستان میں بھی بہت سارے طلبا کو ظالمانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے سالوں میں ایسے حالات میں بمشکل بہتری آئی ہے۔ کچھ طالب علموں کو مار پیٹ کے نتیجے میں نہ صرف چوٹیں آئیں بلکہ چند ایک بدترین واقعات میں تو طالبعلموں کی جان تک چلی گئی۔ 54 سالہ محمد افضل کا کہنا ہے کہ وہ فروری 2019 ء کا وہ دن نہیں بھول سکتے، جب ان کے بڑے بیٹے جنید افضل کی ایک مدرسے کے مولوی کے ہاتھوں بے دردی سے پٹائی کے نتیجے میں موت واقع ہو گئی۔ افضل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا بیٹا پنجاب کے قصبے لالہ موسیٰ کے قریب واقع اپنے گاؤں کے اسکول میں پڑھتا تھا۔ تب اس کے اسکول کے کچھ دوستوں نے لاہور کے ایک مدرسے میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جنید نے بھی ان میں شامل ہونے کی ضد کی۔ محمد افضل نے مزید بیان کیا،''میں نے اسے اس اُمید کے ساتھ مدرسے بھیجا کہ وہ دل سے قرآن سیکھنے کے بعد گھر میں برکت لےکر آئے گا لیکن اس کی بجائے مجھے اس کی لاش ملی۔ مولوی نے اُسے اس حد تک پیٹا تھا کہ اُس کا جسم نیلا ہو گیا تھا۔‘‘

پاکستانی بچوں کے ریپ ، قتل کے واقعات: اجتماعی ضمیر کہاں ہے؟

پاکستان میں مذہبی شخصیات کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور یہاں تک کہ بعض اوقات پولیس ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج کرنے سے بھی گریزاں نظر آتی ہے۔ افضل نے بتایا کہ ملزم مولوی کے خلاف ان کے بیٹے کی موت کا مقدمہ درج کروانے میں تین ماہ لگے۔

56834519_101.jpg


بچوں کے استحصال کے خلاف بہت سے معاشروں میں تحریکیں چل رہی ہیں ۔
اسلام آباد میں بچوں کے حقوق کی سرگرم کارکن ممتاز گوہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دینی مدارس میں اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ اس سال جنوری میں پنجاب کے ضلع وہاڑی میں ایک آٹھ سالہ لڑکے کو ایک دینی استاد نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ 2018 ء جنوری میں جنوبی بندرگاہی شہر کراچی میں ایک اور آٹھ سالہ لڑکے کو ایک مولوی نے زد و کوب کر کے ہلاک کر دیا۔

پاکستان میں بھی اس طرح کی مار پیٹ کی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔ گزشتہ ماہ حکومت نے جسمانی سزا پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ایک بل منظور کیا تھا لیکن پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق چیئرمین مہدی حسن کا خیال ہے کہ مذہبی حلقے کے ردعمل کے خوف کے سبب حکومت نے ابھی تک اس پر خاطر خواہ کارروائی نہیں کی ہے۔ حسن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،''علما یہ خیال کرتے ہیں کہ مقدس کتاب کی تعلیم دیتے ہوئے بچوں کو پیٹنا برا نہیں بلکہ اچھا ہے۔ حکومت ان کے اثر و رسوخ سے خوفزدہ رہتی ہے۔‘‘

اسی طرح بھارت کے دینی مدارس اور سکولوں میں بھی بچوں کو مارنا ایک عام سی بات ہے۔ بھارت میں بھی ایسی کئی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں، جہاں بچے کو قرآن زبانی یاد نہ کرنے کی وجہ سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

جنوبی ایشیا کے دینی مدارس میں جسمانی سزاؤں کا رجحان | DW | 28.03.2021
 

جاسم محمد

محفلین

ہانیہ

محفلین
سرکاری سکولوں میں جسمانی سزاؤں کی کیا صورتِ حال ہے؟

اس کے لئے ڈیٹا یہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ پرانی رپورٹ ہے۔۔۔

پنجاب کے سکولوں میں جسمانی سزا کا خاتمہ - ہم سب

پچھلے سالوں میں صوبائی حکومتوں نے جسمانی سزا کے خلاف کام کیا ہے۔۔۔تھوڑا بہت چینج تو آیا ہے۔۔۔۔لیکن لگتا نہیں ہے زیادہ چینج آیا ہے۔۔۔۔۔اندر سکولوں میں کیا ہوتا ہے۔۔۔یہ تو بچے ہی جانتے ہیں۔۔۔۔حال زیادہ اچھا نہیں ہے۔۔۔

’ تعلیم ‘ مار سے نہیں پیار سے
 

ہانیہ

محفلین
علمائے کرام مدارس میں بچوں پر تشدد کا نوٹس لیں!
ادارتی صفحہ

اداریہ

FEBRUARY 25, 2020



ہمارے دینی مدارس میں اساتذہ کے ہاتھوں بچوں پر تشدد یوں تو بالعموم روز مرہ کا معمول ہے لیکن لاہور کے نواحی علاقے کے ایک مدرسے میں ظلم کی حد ہی ہو گئی جب ایک طالب علم کو سبق یاد نہ کرنے پر مبینہ طور پر اتنا مارا پیٹا گیا کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔ پولیس نے اس واقعہ کے بارے میں جو مقدمہ درج کیا ہے اس کے مطابق 9سالہ گلفام پر جو قرآن پاک پڑھنے مدرسے میں جاتا تھا، قاری شعیب اور قاری بلال نے اس بری طرح تشدد کیا کہ اس کی حالت غیر ہو گئی، اسے نازک حالت میں اسپتال لے جانا پڑا جہاں اس نے دم توڑ دیا۔ دونوں قاری حضرات کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، جلد اصل حقائق سب کے سامنے آ جائیں گے۔ بچے کی المناک موت پر علاقے کے لوگوں نے رنگ روڈ پر ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کر دی اور پولیس اور واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف نعرے بازی کی۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جہاں لاکھوں بچے مدرسوں میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، صرف پنجاب میں 5ہزار سے زائد مدرسے ہیں جو وفاق المدارس کی تنظیم سے منسلک ہیں۔ ایسے مدارس بھی ہیں جن کا کسی تنظیم سے الحاق نہیں مگر وہ قرآن حکیم کی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ دینی مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو تواتر سے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض خوف کے مارے مدرسوں کو ہی خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ پنجاب کی حکومت نے 2005میں اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی لگا دی تھی مگر مدارس کو نظر انداز کر دیا گیا۔ پھر جسمانی سزا کسی ایک صوبے تک محدود نہیں، پورے پاکستان میں دی جاتی ہے۔ سندھ اسمبلی نے 2016میں ایک قانون منظور کیا جس کے تحت سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا سے تحفظ فراہم کیا گیا مگر مدارس پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایک سروے کے مطابق ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بچوں کے ذہن ناپختہ ہوتے ہیں، جن پر شیطان غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ بچوں کو اس کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے جسمانی سزا ضروری ہے جبکہ دینی اسکالرز کا کہنا ہے کہ ہاتھوں میں بچوں کو مارنے کے لیے بید رکھنا اور ان پر جسمانی تشدد کرنا غیر اسلامی فعل ہے۔ ان کی رائے میں پاکستان میں مدرسوں کے منتظمین طلبہ کو پڑھانے کے سائنسی طریقہ سے نابلد ہیں۔ دینی مدارس میں نہ صرف پڑھانے کا کلچر بدلنے بلکہ نصاب میں تبدیلیاں لانے کی بھی ضرورت ہے، بچوں کو جسمانی سزا دینا، انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جسمانی سزا سے بچوں میں جارحانہ طرزِ عمل اور سماج دشمن رویے بھی جنم لیتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے بچوں کی جسمانی سزا پر پابندی لگا رکھی ہے۔ قومی اسمبلی کے 2013ء میں منظور کردہ قانون کے مطابق بچوں کی جسمانی سزا پر پاکستان میں پابندی ہے مگر اس پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ مدارس تو سرے سے اس معاملے میں آزاد ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے قواعد و ضوابط صرف اسکولوں کے لیے ہیں، ان پر بھی عملدرآمد کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں۔ لاہور میں اساتذہ کی مار پیٹ سے دینی مدرسے کے طالبعلم کی موت ایک دلگداز واقعہ ہے۔ علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ اس کا سختی سے نوٹس لیں اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اصول و ضوابط وضع کریں۔ حکومت بھی نظام تعلیم، خصوصاً دینی مدارس میں جو اصلاحات لانا چاہتی ہے اس میں بچوں کو جسمانی سزا سے تحفظ پر خصوصی توجہ دے۔ انہیں ایسا تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے جس میں کوتاہیوں پر سرزنش بےرحمانہ مارپیٹ کے عنصر سے پاک ہو۔

علمائے کرام مدارس میں بچوں پر تشدد کا نوٹس لیں!
 
Top