جم کوربٹ، کیپٹن ینگ اور سلطانہ ڈاکو۔ایک تصویر۔ایک کھوج

راشد اشرف

محفلین
جم کوربٹ، کیپٹن ینگ اور سلطانا ڈاکو۔ایک تصویر۔ایک کھوج


ان دنوں ”شکار کی ناقابل فراموش داستانیں“ پر کام کررہا ہوں۔ درجنوں کتابیں کنگھالی جارہی ہیں ، سینکڑوں اوراق ازسر نو پڑھے جاچکے ہیں۔ پان سو صفحا ت کی کتاب میں کوشش ہے کہ بہت کچھ آجائے۔

جم کوربٹ نے اپنی تحریروں سے لاکھوں ،کروڑوں کو متاثر کیا، انہی میں سے ایک میں بھی ہوں۔ ہمیشہ ہی سے ان کی تحریروں کا معترف رہا، سحر زدہ انداز تحریر۔

انٹرنیٹ پر ایک جگہ یہ تصویر نظر آئی، لنک ملاحظہ کیجیے:



A very rare photograph of Jim Corbett, Capt Feddy Young & Col Wood having lunch after a duck shoot in the Ganga Khadar of distt Bijnor, photo taken during the period when Sultana was being hunted down.. (family collection ....jalilpur bijnor)

”شکار کی ناقابل فراموش داستانیں“ میں ہندوستانی و پاکستانی شکاریوں کے علاوہ کوربٹ ہیں، کینتھ اینڈرسن ہیں، جے اے ہنٹر ، کرنل پیٹرسن ہیں اور ان کے علاوہ کرنل وڈ بھی ہیں۔ تصویر کے عنوان میں
Col Wood
لکھا دیکھا (اوپر درج کردہ لنک پر یہ نام درست کیا جاچکا ہے(۔ طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ فوری نتیجہ یہی نکالا کہ کرنل وڈ اور جم کوربٹ آپس میں دوست تھے۔ لیجیے، یہ تو ایک نئی بات ہوگئی۔ کتاب کا دیباچہ دلچسپ ہوجائے گا۔

مگر انٹرنیٹ پر موجود ہر معلومات درست نہیں ہوتی۔چونکہ کرنل وڈ کی کوئی تصویر انٹرنیٹ پر موجود نہیں ہے یا کم از کم میری نظر سے باوجود عرق ریزی سے تلاش کے، نہیں گزری لہذا اس کی تصدیق کو ناممکن سمجھ کر دیباچے میں محض کرنل کے کوائف شامل کرنے ہی پر اکتفا کی تھی۔مگر اب یہ تصویر ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

اور سب سے اہم بات تو یہ کہ عنوان میں یہ
Sultana
کون عفیفہ ہے جس کو
hunt down
کرنے کے لیے یہ حضرات سرگرداں نظر آتے ہیں۔جم کوربٹ اور کسی عفیفہ کی تلاش میں ؟ ایں چہ بوالعجبی است۔مگر یہ خیال بھی آیا کہ کوربٹ تمام عمر غیر شادی شدہ ہی رہے تھے۔

چونکہ کچھ عرصے سے جم کوربٹ خوب پڑھے جارہے ہیں سو اسی اثناءمیں ”جم کوربٹ کا ہندوستان“ نامی کتاب سے ،جس کو متفقہ طور پر کوربٹ کی سوانح عمری بھی کہا جاتا ہے۔

اسی اثناء میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔اس کا عنوان تھا ”سلطانہ“۔مضمون کا پڑھنا تھا کہ تمام گتھیاں سلجھتی چلی گئیں اور یقین جانئے فرط مسرت سے آنکھ بھی نم ہوئی۔ کیسے لگ بھگ نوے تا سو برس پرانی ایک تصویر میں موجود لوگ پہچانے گئے۔ وہ جو انٹرنیٹ پر علاحدہ سے کہیں نہیں ہیں۔ معلوم ہوا کہ Capt Feddy Young
جن کو
Feddy کے بجائے ”کیپٹن فریڈرک (یا فریڈی)ینگ “لکھا چاہیے تھا، کوربٹ کے دوستوں میں سے تھے۔

اور وہ جنہیں لکھنے والا خدا جانے کس پنک میں
Col Wood لکھ گیا(اسے کیا خبر کہ راقم الحروف پر اس سہوکا کیسا جان لیوا اثر ہوا) وہ دراصل
Wyndham Percy
ہیں جو کماوں کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ کماوں جو جم کوربٹ کا وطن تھا اور جس پر انہیں فخر تھا۔ پرسی وڈنہم کے کوائف ملاحظہ کیجیے:

Wyndham, Percy, C.I.E. (1909), M.A., F.R.G.S., Deputy Commissioner, Kumaon; s. of Horace Robert Wyndham; b. 1867; educ: at Giggleswick Grammar School; Queen’s College, Oxford; joined I.C.S., 1888; Deputy Superintendent of Family Domams of Maharaja of Benares, 1894; District Magistrate, Mirzapur, 1900; Deputy Commissioner, Oudh, 1907. Address: Naini Tal, Kumaon. Club: East India United Service.

تصویر میں چونکہ تاریخ درج نہیں ہے لہذا سلطانا ڈاکو کی تلاش میں ایک مرتبہ پھر ’نکلنا‘ پڑا۔ سلطانہ کو 7 جولائی 1924 ءکو پھانسی دی گئی تھی۔ لہذا یہ تصویر 1924 کی نہ سہی، 1923 کی رہی ہوگی۔ نوے برس پرانی۔

آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ تصویر میں موجود لوگوں کے نام درج نہیں کیے گئے ہیں۔ چلیے جم کوربٹ تو فیلٹ ہیٹ میں نیم دراز ہوئے صاف پہنچانے جاتے ہیں ۔مگر یہ کیسے معلوم ہو کہ کیپٹن ینگ کون سے ہیں اور پرسی وڈنہم کون ذات شریف ہیں۔کیا وہ موصوف ہی ” ینگ“ ہیں جو نسبتا ”ینگ“ نظر آرہے ہیں یعنی فربہ اندام حضرت ۔ یا پھر وہ جو دائیں جانب ہاتھ میں سگریٹ تھامے سر جھکائے ،یوں لگتا ہے کہ فربہ اندام حضرت کی بات پر مسکرا رہے ہیں۔

اس کا جواب کوربٹ کی تحریر نے دیا۔

کوربٹ کے مضمون ”سلطانہ‘ ‘ کے ایک اقتباس سے فریڈی کے حلیے اور خاص کر فربہ اندامی کی تصدیق ہوتی ہے۔

تصویر میں کھانا تناول کرتے لوگوں کے عقب میں چار افراد کھڑے ہیں۔ یہ تک علم ہوگیا کہ ان میں سے دو وہ ہیں جو سلطانا کے مخبر تھے اور جو پولیس سے آملے تھے۔کیونکہ کوربٹ نے اپنی تحریر میں ان چا رافراد کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ:

” ان چار رہنماوں میں سے دو بھانتو تھے جن کا تعلق سلطانہ کے گروہ سے تھا اور چند روز قبل ہری دوار کے بازار میں ماخوذ کیے گئے تھے۔اور انہی کی نشان دہی پر اس دوش کا انتظام کیا گیا تھا۔بقیہ دو گڈریے تھے جن کی ساری عمر اسی جنگل میں مویشی چراتے گزر گئی تھی اور سلطانہ کے لیے دودھ فراہم کرتے تھے۔

یہ دو کون سے والے ہیں ؟ قیاس ہے کہ وہ دو جو زمین پر براجمان ہیں۔ چہرے سے گھاگ جان پڑتے ہیں ۔ لیکن اگر ”ساری عمر اسی جنگل میں مویشی چراتے گزر گئی تھی“پر غور کیجیے تو وہ بھی ہوسکتے ہیں جو ایستادہ ہیں۔
بعد اس کے خیال آیا کہ تینوں دوستوں کا یہ ٹولہ آخر کیا تناول کررہا ہے اور یہ جگہ کس قسم کی ہے؟

چونکہ کوربٹ کے مطابق کیپٹن فریڈی ینگ فربہ اندام تھے لہذا خوش خوراک بھی رہے ہوں گے۔ بلکہ یقینا تھے ۔ کوربٹ لکھتے ہیں:
”ہم دوبارہ اسی لمبی نوکیلی گھاس میں واپس پہنچ گئے ۔دھوپ تیز ہوگئی تھی اس لیے کپڑے خشک ہوگئے۔ فریڈی نے اپنے کشادہ تھیلے سے بھنی ہوئی مرغی اور ڈبل روٹی نکالی جو ہم نے بھوک اور تکان کی وجہ سے خوب سیر ہو کر کھائی۔ “

خیال آیا کہ فریڈی ینگ آخر کیا ہوئے ؟ کوربٹ یہ تو لکھ چکے تھے کہ ینگ کے سینے میں ایک درد مند دل تھا۔وہ ایک ہمدرد انسان تھے۔
ایک ویب سائٹ سے اس تصدیق ان الفاظ میں ہوئی جو راقم کے لیے بھی ایک خوش کن خبر تھی:

This young man did not want Sultana to be hanged and he visited Sultana in jail many times and also went to Delhi to petition the higher ups to pardon Sultana. But the pardon never came and Young met Sultana before his hanging and asked for his last wish. Sultana requested Young to adopt his 7 year old son and bring him up as a ‘sahib’. Young agreed and later sent the boy to England for studies. Freddie young’s grave has been located by an enterprising reporter and is at Bhopal. He had retired as Inspector General Prisons at Bhopal.
The descendents of Sultan Daku were settled by Young at Bhopal and still live there at Belawadu near Obeidullahganj.

کوربٹ نے اپنے مضمون میں اس کی تصدیق کی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ:

” سلطانہ جس وقت پھانسی کی کوٹھری میں قید تھا اس نے فریڈی کو بلوا کر نصیحت کی تھی نجیب آباد کے قلعہ میں مقید اس کے کتے کی دیکھ بھال اچھی طرح کی جائے۔ کتے کو تو فریڈی نے پال لیا اور جو فریڈی کے مزاج سے واقف ہوں گے ان کو معلوم ہوگا کہ سلطانہ کی بیوی اور بیٹے کی کس درجہ دیکھ بھال کی ہوگی۔“

فریڈی ینگ نے سلطانا کے بیٹے کا کس حد تک خیال رکھا، اس بارے میں R.V. SMITH اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

Sultana requested Young that the officer takes charge of his seven-year-old son. Young, a bachelor, agreed to adopt him and after some time sent the boy to England where he studied and returned to India to join the Indian Civil Service under the surname Young

اسمتھ مزید لکھتے ہیں:
An enterprising reporter of The Pioneer has located Freddie Young's grave in Bairagarh cemetery of Bhopal. Young, who died a sexagenarian in 1948, was IG of Police in Bhopal State after his anti-dacoit operations in the United Provinces, the Nepal Terai and Gwalior State. He also operated for some time in Jodhpur State

صاحبو! یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد اب ایک مرتبہ دوبارہ کوربٹ، فریڈی اور پرسی وڈنہم کی اس تصویر کو دیکھئے تو سہی

کیا اس میں موجود لوگ چلتے پھرتے، سانس لیتے محسوس نہیں ہوتے ؟ جیسے سلطانا کی تلاش ابھی ابھی کی بات ہو۔ جیسے وہ سب ابھی دستر خوان جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اور ان میں ہمارے محبوب مصنف جم کوربٹ بھی تو ہیں۔

کیا یہ تصویر واقعی 90 برس پرانی لگتی ہے ؟ کیا یوں نہیں لگتا کہ جیسے وقت تھم گیا ہو ؟
 
آخری تدوین:
Top