جمہوریہ وسطی افریقہ میں فرقہ وارا نہ فسا دات تین سو افراد ہلاک

کاشفی

محفلین
جمہوریہ وسطی افریقہ میں فرقہ وارا نہ فسا دات تین سو افراد ہلاک
وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلما نو ں کے خلا ف فرانسیسی آپریشن شروع،فرانسیسی فوج کا دارالحکومت بنگوئی میں گشت بنگوئی میں صورت حال انتہائی نازک اور کشیدہ ہے، انٹرنیشنل کرائسس گروپ بنگوئی (قدرت نیوز) افریقی ریاست جمہوریہ وسطی افریقہ کے دارالحکومت میں دو دن کے تشدد میں تین سو افراد ہلاک ہو گئے۔ عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ جمہوریہ میں تشدد میں اضافہ اس وقت ہوا جب فرقہ وارانہ فسادات کے باعث بڑے پیمانے پر قتلِ عام کے خدشات سامنے آئے۔اقوامِ متحدہ کی جانب سے علاقے میں امن بحال کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں فرانس کے سینکڑوں فوجی اہلکار وہاں پہنچ چکے ہیں۔فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے جمعے کو کہا تھا کہ ساڑھے چھے سو فوجی فوری طور پر علاقے میں روانہ کیے گئے ہیں اور ’یہ تعداد چند دنوں میں دگنی کر دی جائے گی۔جمہوریہ وسطی افریقہ میں فوجیں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس حق میں ووٹ دیے جانے کے بعد روانہ کی گئی ہیں تاکہ یہ امن قائم کرنے کے لیے افریقن امن فوج کی مدد کرسکیں۔بنگوئی پر جمعرات کو حملہ کیا گیا تھا، اطلاعات کے مطابق حملہ آور ملیشیا معزول صدر فرانکوئس بوزیز کے حامی ہیں۔ مارچ میں صدر کے باغیوں کے ہاتھوں معزول کیے جانے کے بعد سے ملک کشیدگی کا شکار ہے۔ بنگوئی کے ہسپتال میں بہت سے لوگوں کو زخمی حالت میں دیکھا ہے۔جمہوریہ وسطی افریقہ میں ریڈ کراس کے سربراہ پاسٹر اینٹونی مباؤ بوگو کا کہنا ہے کہ ان کے عملے نے سینکڑ و ں لاشیں اکٹھی کی تھیں۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہلاکتوں میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ ادھربراعظم افریقہ میں فرانسیسی فوج کا ایک نیا فوجی آپریشن وسطی افریقی جمہوریہ میں شروع ہو گیا ہے۔ اس سے قبل مالی میں بھی فرانسیسی فوج نے باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کی تھی۔فرانس کے وزیر دفاع ژاں ایو لیدریاں کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ میں فرانسیسی فوجوں نے دارالحکومت بنگوئی میں گشت شروع کر دی ہے۔بین الاقوامی شہرت کے حامل تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ڈائریکٹر برائے وسطی افریقہ تھیری ورکولا نے اس فوجی مداخلت کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ بنگوئی میں صورت حال انتہائی نازک اور کشیدہ ہے، وہاں کسی بھی لمحے ایک چھوٹی سی چنگاری ایک بڑی آگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے، یہ ملک افراتفری کا شکار ہے۔ جہاں امریکا اور فرانس اِس افریقی ملک میں نسل کشی کے خطرات سے خبردار کر رہے ہیں وہاں بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے فرانسیسی شعبے کے سربراہ میگو ٹیرییاں کہتے ہیں کہ ملک کے خصوصاً شمالی اور وسطی حصوں میں تشدد کے واقعات یقیناً دیکھنے میں آ رہے ہیں لیکن میرا خیال نہیں کہ اس صورت حال کو نسل کشی قرار دیا جانا چاہیے۔ ادھروسطی افریقی جمہوریہ میں شروع ہونے والے پرتشدد واقعات کو مذہبی منافرت کا نام دیا جا رہا ہے۔ ملک پر مسلمانو ں کا اِس وقت کنٹرول ہے اور ان کو فارغ کیے جانے والے صدر فرانسوا بوزیزی کے حامی مسیحی ملیشیا اور جنگجووں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ میں مسلح مذہبی چپقلش بنیادی طور پر اقتدار پر قبضے کی لڑائی ہے۔ وسطی افریقی جمہوریہ میں رواں برس مارچ میں مسلمان باغیوں کی پیش قدمی کے بعد سے سیاسی کشیدگی نے پرتشدد رنگ اختیار کر لیا۔ مسیحی اور مسلمان مارچ سے چھوٹی بڑی جھڑپوں کا تبادلہ جاری رکھے ہوئے تھے لیکن اس عرصے میں جمعرات کے روز بنگوئی میں رونما ہونے والا واقعہ سب سے زیادہ ہولناک اور سنگین تھا -
 
Top