جمھوریت ، پارلیمنٹ اور اسکا مقام

پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف کا پروڈکشن آرڈر پر لایا جانا یقیناً بزات خود پاکستان میں جمھوریت کے ٹرانزشن کے دور میں ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس طرح کے عمل تب ہی واقع ہوتے ہیں جب جمھوریت کو پنپنے کا موقعہ فراہم ہو۔ یوں تو پاکستان کی ابتداء ہی جمھوری نظام سے رکھی گئی مگر اس نظام کو عمر کے لحاظ سے بڑھوتڑی کا موقعہ نہیں ملا اور جمھوریت مختلف شکلوں میں اندرونی و بیرونی قدغنوں کا شکار رہی۔ مختلف سیاسی ماہرین کئی اندرونی اور بیرونی طاقتوں کو اس کا مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں اور اس سارے معاملے کی ظاہری صورتحال سے یہی لگتا بھی ہے اور ان طاقتوں کا کردار بھی سب کے سامنے ہے جن کو کسی بھی طرح سے قابل جواز نہیں کہا جاسکتا مگر میں اس سارے کی ساری صورتحال کا سبب بخود سیاستدانوں کو سمجھتا ہوں۔

پارلیمنٹ کے اس اجلاس کی اگر مکمل کاروائی اور اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو ساری بات کھل کر سمجھ آجاتی ہے کہ ہمارے اکثریتی سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کی پختگی کس سطح کی ہے۔

اس اجلاس میں جہاں سنجیدہ ، حساس ، پختہ اور قابل ستائش باتیں ہوئیں وہاں ایک دوسرے کا دل دکھانے والی اور طعنہ زنی کی باتیں بھی بہت تھیں۔ ایک دوسرے کو آئینہ بھی دکھایا جو یقیناً سمجھنے والوں کے لئے کافی تھا مگر دھائیوں سے سوئے ہوئے ضمیر کب ان چند لمحوں کی ہرزہ رسائی سے جاگتے ہیں۔ اگر میں کہوں کہ ان کو اونگھ بھی نہیں آئی تو غلط نہیں ہوگا۔

میں سیاستدانوں کو مورد الزام اس لئے ٹھہراتا ہوں کہ یہ عوام کے اندر ہوں یا پارلیمنٹ میں ہوں محض شعلہ بیاں خطاب کے جادو کی سحر انگیزی سے واہ واہ اور مخالفین کو کوسنے پر شیم شیم کے نعروں سے آگے کوئی مقصد ہی نہیں رکھتے۔

اجلاس پر اپنے اور قوم کے کروڑوں خرچ کرکے اکٹھے ہوئے اور جوش خطابات اور کھوکھلے نعرے لگا کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ کیا یہی مقصد تھا ؟ میں پوچھتا ہوں کیا نتائج حاصل کئے ؟ کیا محض اپنی بے بسی اور نااہلی ثابت کرنا مقصد تھا ؟ اگر خود کوئی اپنے رتبے اور حیثیت کو ہی نہ پہچانتا ہو تو یہی نتائج اخذ ہوا کرتے ہیں ۔ اپنی عزت و تکریم کے لئے اپنی حیثیت اور رتبے کو اپنے عمل اور قربانیوں سے منوانا اور حاصل کرنا پڑتا ہے ۔ اس ملک کی جمھوریت اور بنیادوں کو ایسی نا اہلیاں اور بزدلیاں ہی کھوکھلا کرتی ہیں ۔

خورشید شاہ نے بہت خوبصورت بات کی کہ پارلیمنٹ اداروں کی ماں ہوتی ہے۔ بہت گہری بات ہے ۔ ماں اور اولاد کے رشتے اور ان کے کردار سے کون واقف نہیں ۔ ماں کی گود پہلی درس گاہ ہوتی ہے تربیت کی بنیاد یہاں سے شروع ہوتی ہے ۔ اگر نا خلد اور نا فرمان اولاد ہو تو اس کا الزام بہرحال ماں کو بھی جاتا تو ہے ۔ ماں کا حق ہوتا ہے کہ اپنے بچوں پر ابتداء ہی سے اپنی حد اور حق کی پہچان کو واضح کرے اور عملی طور پر ان کو اچھا اور ذمہ دار فرد اور شہری بنائے خواہ اس کے لئے سختی اور سرزنش ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

پارلیمنٹ اداروں کی ماں کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف ملکی آئین کی پاسداری کو یقینی بنائے بلکہ تکلیفوں کی پرواہ کئے بغیر اداروں کو آئینی حدود میں رکھنے اور آپس کی چپکلش سے بچائے اور حدود کو عبور کرنے والوں کی آئینی طریقہ سے اصلاح اور مستقبل میں ایسے عوامل کے سدباب کو بھی یقینی بنائے۔

کیا پارلیمنٹ کے آئینی اور قانونی بازو کی حرکت کو روکنے کے لئے یہ کہنا کافی ہے کہ ’’ ایکٹ میں لکھا ہے کہ معاملے یا کاروائی کو کہیں ڈسکس نہیں کیا جا سکتا ‘‘
کیا ماں کی حیثیت ’’کوئی ‘‘ اور پارلیمنٹ کا مقام ’’ کہیں ‘‘ ہے ؟
کیا واقعی کسی ادارے کے عمل کے قانونی یا غیر قانونی ہونے یا قانون سے اس کی مطابقت کو ڈسکس نہیں کیا جا سکتا؟
کیا اداروں کے پاس تو صوابدیدی اختیارات ہیں مگر پارلیمنٹ کے پاس ہی نہیں ہیں؟
کیا اس مسئلہ کے حل کی کوئی بھی صورت نہیں ؟
یقیناً نہیں ہوگا جب ماں پارلیمنٹ تربیت اور اصلاح کی اہلیت ، قابلیت اور طاقت نہ رکھتی ہو۔

ایسی صورتحال میں طعنے زنی ،اداروں یا دوسرے ملکوں پر الزام کشی اپنی نااہلی ، ناقابلیت اور بے بسی پر آنکھیں بند کرکے یہ سمجھنا کہ دوسروں کی نظر سے چھپ گئے ہیں کو حماقت کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

جیسے بھی حالات اور جو بھی صورتحال ہو محض رونا پیٹنا کبھی حل نہیں ہوتا بلکہ اپنی جسمانی اور دماغی صلاحیتوں سے کسی ترتیب کردہ حکمت عملی سے ہی چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور قائدانہ سیاسی بصیرت ، اہلیت اور قابلیت رکھنے والے مشکل سے مشکل اور مخالف حالات کو بھی اپنی حکمت عملی سے کامیابی کے موافق بنا لیا کرتے ہیں۔
 
Top