جل رہا ہے سماج کچھ کیجے ۔۔۔ برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جل رہا ہے سماج کچھ کیجے
نفرتوں کا علاج کچھ کیجے

سب کی آنکھوں میں دھند پھیلی ہے
ظلمتوں کا ہے راج کچھ کیجے

کل کو آنا نہیں، یہ ہے معلوم
آج بس میں ہے، آج کچھ کیجے

قدرِ انسانیت نہ کم ہوجائے
بڑھ نہ جائیں رواج کچھ کیجے

اب تو سستی ہے جان انساں کی
اور ہے مہنگا اناج کچھ کیجے

کون دیتا ہے ساتھ مفلس کا
کون رکھتا ہے لاج کچھ کیجے

اب زمیں چاہتی ہے جانوں کا
ہم سے شاید خراج کچھ کیجے
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے، تین اشعار کے بارے میں کچھ کہوں گا
سب کی آنکھوں میں دھند پھیلی ہے
ظلمتوں کا ہے راج کچھ کیجے
÷÷ دو لخت ہے، دھند کی جگہ کچھ اندھیری قسم کا لفظ لایا جائے،

کل کو آنا نہیں، یہ ہے معلوم
آج بس میں ہے، آج کچھ کیجے
÷÷پہلا مصرع رواں نہیں، ’یہے معلوم‘ کی وجہ سے۔ ’یہ علم تو ہے‘ بہتر ہو گا

قدرِ انسانیت نہ کم ہوجائے
بڑھ نہ جائیں رواج کچھ کیجے
رواج کا گھٹنا بڑھنا چہ معنی دارد؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
خوب غزل ہے، تین اشعار کے بارے میں کچھ کہوں گا
سب کی آنکھوں میں دھند پھیلی ہے
ظلمتوں کا ہے راج کچھ کیجے
÷÷ دو لخت ہے، دھند کی جگہ کچھ اندھیری قسم کا لفظ لایا جائے،

کل کو آنا نہیں، یہ ہے معلوم
آج بس میں ہے، آج کچھ کیجے
÷÷پہلا مصرع رواں نہیں، ’یہے معلوم‘ کی وجہ سے۔ ’یہ علم تو ہے‘ بہتر ہو گا

قدرِ انسانیت نہ کم ہوجائے
بڑھ نہ جائیں رواج کچھ کیجے
رواج کا گھٹنا بڑھنا چہ معنی دارد؟

ایک شعر تو یہ رہا:

تیرگی چھا گئی ہے آنکھوں میں
ظلمتوں کا ہے راج کچھ کیجے

اور اس پر آپ کی اصلاح قبول ہے:
کل کو آنا نہیں، یہ علم تو ہے
آج بس میں ہے، آج کچھ کیجے
۔۔۔
رواج والے شعر کا مضمون ذہن میں شاید آیا بھی تھا، اب بھول گیا ہوں۔۔
 
Top