جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کوئی کیس نہیں سن سکتے، سپریم کورٹ

جاسم محمد

محفلین
موصوف کو چیف جسٹس نے کہا بھی تھا کہ آپ یہ سب کیوں کررہے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ ماورائی طاقتیں آپ کے خلاف ہوگئی ہیں اور اپنے بندے کو استعمال کررہی ہیں۔ اب آپ سیدھے گھر جائیں اور اللہ اللہ کریں۔
جسٹس فائز عیسی کو ماورائی طاقتوں سے لڑنے کا بہت شوق تھا تو جب ۲۰۱۴ میں وزیر اعظم نواز شریف نے خود آرمی چیف راحیل شریف کو دھرنے میں ثالث مقرر کیا اس وقت ان کے خلاف سو موٹو ایکشن کیوں نہیں لیا؟
COAS Raheel Sharif made 'mediator' to end political crisis - Pakistan - DAWN.COM

اور پھر جب نواز شریف اقتدار میں نہیں تھے اور فیض آباد دھرنے میں ایجنسیوں کے خلاف بولے تو موصوف نے جھٹ سے اس پر سو موٹو ایکشن لے لیا۔ نواز شریف پر اتنی مہربانیوں کیوں؟ ن لیگ کو جسٹس فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کا اتنی شدت سے انتظار کیوں ہے؟ اس بغض عمران کا جواب درکار ہے۔
Sharif asks why Rangers gave money to TLP protestors | The Express Tribune
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: سپریم کورٹ کے جج کو کسی درخواست کی سماعت سے روکنا کتنا غیر معمولی ہے؟
  • شہزاد ملک
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
8 گھنٹے قبل
_116928075_mediaitem116928074.jpg

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈ دینے کے اعلان کا از خود نوٹس لیا تھا

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جمعرات کو وزیراعظم کی طرف سے مبینہ طور پر ارکان پارلیمیٹ کو پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ دینے سے متعلق از خود نوٹس کی درخواست نمٹاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ چونکہ بنچ کے ایک رکن جسٹس فائز عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں وزیراعظم کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے، اس لیے غیر جانبداری کے اصولوں کا تقاضا یہی ہے کہ انھیں ایسے معاملات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے جو کہ وزیراعظم عمران خان سے متعلق ہوں۔

سپریم کورٹ کی طرف سے ایک جج کو کسی درخواست کی سماعت سے روکنے کا یہ فیصلہ کتنا غیر معمولی ہے اور ماضی میں اس کی کیا مثالیں ملتی ہیں؟ ہم نے ان سوالات کے جواب کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین حامد خان اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر سے بات کی ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کی طرف سے سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈ دینے کے اعلان کا از خود نوٹس لیا تھا اور یہ معاملہ اُنھوں نے چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا جنھوں نے اس از خود نوٹس پر پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا تھا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین حامد خان کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ چیف جسٹس گلزار احمد اس طرح کی آبزرویشن نہ دیتے، جس سے کسی جج کی غیر جانبداری پر سوال ہو سکے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر کسی جج کی جانبداری پر کوئی شبہ ہے تو اس بارے میں سماعت کے دوران درخواست گزار یہ معاملہ کسی بھی مرحلے پر اٹھا سکتا ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ وہ جج ہی کرسکتا ہے جس پر اعتراض اٹھایا گیا ہو۔

حامد خان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی جانب سے آس ابزرویشن سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ چونکہ موجودہ حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ’کمفرٹیبل‘ (comfortable ( نہیں اس لیے مستقبل میں اُنھیں ایسے مقدمات کی سماعت سے روکا جائے جو کہ موجودہ حکومت یا وزیراعظم سے متعلق ہوں۔

حامد خان نے، جو پاکستان کی آئینی تاریخ کے بارے میں ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں، کہا کہ عدلیہ کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں جس میں کسی جج کو کسی مقدمے کی سماعت سے روکا گیا ہو۔

_116928073_justice_faez_isa.jpg

،تصویر کا ذریعہSupreme Court of Pakistan

حامد خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی جسٹس فائز عیسیٰ سے متعلق اس سے ملتا جلتا اقدام ہی اٹھایا تھا جب پشاور میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دونوں میں اختلاف ہوا تھا۔

’اس وقت کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ کو مقدمے کی سماعت سے الگ کر کے دو رکنی بینچ کے ساتھ اس مقدمے کی سماعت کی تو اس سماعت کے بعد تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اس واقعہ پر ایک سخت نوٹ لکھا کہ کسی جج کو بنچ سے الگ کرنے کا فیصلہ چیف جسٹس کو نہیں بلکہ اس جج کو خود ہی کرنا چاہیے جس کی بنچ میں موجودگی کے بارے میں اعتراض اٹھایا گیا ہو۔‘

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس انتظامی اختیارات ضرور ہیں کہ وہ مقدمات کی سماعت کے لیے اپنی مرضی کے بنچ بنا سکتے ہیں لیکن ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی جج کو کسی مقدمے کی سماعت کرنے سے روکیں۔

_116928071_gettyimages-847352768.jpg

،تصویر کا ذریعہAFP

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج عثمان علی شاہ کی ایک بنچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھایا گیا تو سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اگر کسی جج کی غیر جانبداری پر درخواست گزار یا دوسرے فریق کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے تو اس جج پر منحصر ہے کہ وہ خود اس بنچ سے الگ ہوتا ہے یا نہیں۔

اُنھوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سابق چیف جسٹس کے بیٹے پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے مبینہ طور پر پیسے لینے کا معاملہ سامنے آیا تو اس کی پہلی سماعت افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ جب اُنھوں نے بطور اٹارنی جنرل ان کی بنچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھایا تو اس وقت کے چیف جسٹس نے اس اعتراض کو درست تسلیم کرتے ہوئے خود کو بنچ سے الگ کر لیا۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ بظاہر وزیراعظم کی طرف سے ارکان پارلیمان کو فنڈ دینے سے متعلق اس از خود نوٹس کے بارے میں فیصلہ آ گیا ہے لیکن اُنھیں خدشہ ہے کہ اس بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے کوئی اختلافی نوٹ بھی آ سکتا ہے جس سے ’عدلیہ میں ڈویژن ہو سکتی ہے‘۔

یاد رہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے ایک مذہبی جماعت کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق فیصلہ تحریر کیا تھا جس کے خلاف وزارت دفاع اور اس کے ماتحت اداروں کے علاوہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بھی نظرثانی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں تاہم نظرثانی کی درخواستوں کو ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کا تحریک انصاف لائرز فورم میں شرکت کے بارے میں بھی نوٹس لے رکھا ہے اور یہ معاملہ بھی اُنھوں نے چیف جسٹس کو بھجوایا ہوا ہے لیکن یہ معاملہ ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جمعرات کو وزیراعظم کی طرف سے مبینہ طور پر ارکان پارلیمیٹ کو پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ دینے سے متعلق از خود نوٹس کی درخواست نمٹاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ چونکہ بنچ کے ایک رکن جسٹس فائز عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں وزیراعظم کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے، اس لیے غیر جانبداری کے اصولوں کا تقاضا یہی ہے کہ انھیں ایسے معاملات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے جو کہ وزیراعظم عمران خان سے متعلق ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کر رکھی ہے اس لئے وہ ان کے خلاف کوئی کیس نہیں سن سکتے۔ جبکہ نیچے حامد خان کہہ رہا ہے کہ فائز عیسیٰ کو سماعت سے اس لئے روکا گیا کیونکہ ان کے ساتھ موجودہ حکومت کمنفرٹ ایبل نہیں ہے:
حامد خان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی جانب سے آس ابزرویشن سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ چونکہ موجودہ حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ’کمفرٹیبل‘ (comfortable ( نہیں اس لیے مستقبل میں اُنھیں ایسے مقدمات کی سماعت سے روکا جائے جو کہ موجودہ حکومت یا وزیراعظم سے متعلق ہوں۔
کیا پاکستان میں کوئی بھی بات سیدھی طرح نہیں ہو سکتی؟ کیا ہر بات اسی طرح ٹویسٹ اور سپن کر کے پیش کی جاتی ہے؟ آخر یہ بغض عمران کب تک جاری رہے گا؟
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں تو خدشا ہے کہ ماورائی فیصلوں کے تحت موصوف کو عہدۂ زریں بھی نہیں ملنے والا!
کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا
تین فروری کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج فائز عیسی قاضی نے اچانک اٹارنی جنرل کو طلب کیا اور کہا کہ اخباری رپورٹس کے مطابق ستائیس جنوری کو وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا یہ منظوری آئین کے تحت دی گئی یا نہیں؟ اگر نہیں تو وزیراعظم کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ متعلقہ محکمے سے ان پٹ لے کر عدالت میں جواب پیش کرے گا۔
عین اسی وقت فائز عیسی نے اپنی سربراہی میں دورکنی بنچ تشکیل دے دیا اور سوموٹو نوٹس بنا کر مقدمہ شروع کردیا۔
اٹارنی جنرل نے کابینہ اجلاس کی کارروائی، وزارت خزانہ کے قواعد اور متعلقہ آئینی دفعات کے حوالہ جات اکٹھے کرکے فائز عیسی کی عدالت میں پیش کردئیے۔
فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کے جواب کو ناکافی قرار دے کر اعلان کیا کہ وہ یہ معاملہ اب لارجر بنچ کے سپرد کررہا ہے کیونکہ بادی النظر میں یہ ایک غیر آئینی اقدام لگ رہا ہے جس کی پاداش میں وزیراعظم کو گھر بھی جانا پڑ سکتا ہے۔
اگلے روز چیف جسٹس نے پانچ ججوں پر مشتمل اپنی سربراہی میں لارجر بنچ تشکیل دیا اور کارروائی شروع ہوگئی۔
اٹارنی جنرل نے دوبارہ سے وہی جواب لارجر بنچ کو جمع کروایا اور مزید ہدایات کا انتظار کرنے لگ گیا۔
آج کی سماعت میں چیف جسٹس سمیت بنچ کے تمام ججوں ماسوائے فائز عیسی قاضی کے، نے آبزرویشن دی کہ ترقیاتی فنڈز آئین کا حصہ ہیں اور یہ کوئی پہلی دفعہ جاری نہیں ہوئے بلکہ ہر حکومت میں ہر سال اراکین اسمبلی کو یہ فنڈز ملتے آئے ہیں۔
فائز عیسی قاضی نے بجائے شرمندہ ہونے کے، یہ کہہ دیا کہ اسے دراصل ایک وآٹس ایپ پیغام موصول ہوا تھا جس کے مطابق این اے پینسٹھ چکوال کے ایم این اے کو فنڈز جاری ہوئے چنانچہ اس نے سوموٹو نوٹس لے لیا۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فائز عیسی کی قابلیت کا کیا عالم ہے۔
سب سے پہلے تو اسے یہ پتہ نہیں کہ ترقیاتی فنڈز آئین کے تحت جاری ہوتے ہیں۔
پھر اس نے یہ جھوٹ بولا کہ وہ ستائیس جنوری کی کابینہ میٹنگ کی بنیاد پر سوموٹو نوٹس لے رہا ہے جبکہ اسے تو واٹس ایپ پر کوئی جعلی خبر ملی تھی۔
اس ساری مشق میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا وقت ضائع کیا گیا، اٹارنی جنرل، سیکرٹری خزانہ سمیت اہم افسران کا وقت ضائع ہوا،
اور حاصل وصول کیا ہوا؟ خواری اور بے عزتی۔
باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
ضمیر مطمئن اور دامن صاف ہو تو آپ ۱۵ سال پرانا بینک ریکارڈ لا کر بھی اپنی جائیدادوں کی منی ٹریل عدالت کے منہ پر مارتے ہیں۔ فائز عیسی اور اہلیہ سرینا عیسی کی طرح وزیر اعظم، صدر پاکستان، ڈی جی آئی ایس آئی، شہزاد اکبر اور دیگر ججز پر بے بنیاد الزامات نہیں لگاتے۔ یہ بات پٹواریوں کو سمجھا دینا۔
Jemima finds 15 yrs old bank record to prove Imran’s innocence
 

جاسم محمد

محفلین
ہاہاہا۔ نواز شریف کی فرمائش پر بوائز کے خلاف سو موٹو کس نے لیا تھا؟ ایک گمنام واٹس ایپ میسیج کی فرمائش پر وزیر اعظم کے خلاف سو موٹو کس نے لیا تھا؟ جسٹس فائز عیسی پہلے خود پنگا لے کر جمہوری انقلابی بننے کی کوشش کرتا ہے اور جب ذلیل و رسوا ہوتا ہے تو اپنے علاوہ ہر اک پر بے بنیاد الزامات لگاتا ہے۔ یہ ججز کا نواز شریف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فائز عیسی کے دوران کاروائی ریمارکس پڑھیں۔ کہتا ہے کہ وزیر اعظم لفافے بانٹ رہے تھے۔ اگر وزیر اعظم کو پانچ سال حکومت کیلئے کم لگتے ہیں تو پارلیمان سے رجوع کریں۔ پھر بھی پٹواری بضد ہیں کہ فائز عیسی بڑے غیر جانبدار جج ہیں
 
Gulraiz Qureshi
FoetdogSrmsbprSgoucnaorSsy l11o cat t11r:nslemd1a5 lPeMau ·

‏40 سال ساتھ رہنے والی اہلیہ نے لندن میں کروڑوں کی جائیداد کیسے بنائی. اسکے فنڈز کس نے دیے یہ فائز عیسی کو نہیں پتہ. نہ کوئی وٹس ایپ پر بتاتا ہے.
البتہ ضلع چکوال کی تحصیل کلر کہار کی یونین کونسل بچل کلاں میں 6 کلومیٹر لمبی روڈ کے فنڈ کون دے رہا ہے. یہ فائز عیسی کو پتہ ہے.
‏نام ہے قاضی
فائز ہے اعلی عدلیہ کے جج کے عہدے پر
دل میں بھرا بغض عمران
لیتا ہے جعلی خبروں کا نوٹس
لیکن اپنے/اپنی بیگم کی آمدن سے زائد اثاثوں کا دیتا نہیں حساب
کیا ایسا شخص قاضی کے نام پر دھبہ نہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
Gulraiz Qureshi
FoetdogSrmsbprSgoucnaorSsy l11o cat t11r:nslemd1a5 lPeMau ·

‏40 سال ساتھ رہنے والی اہلیہ نے لندن میں کروڑوں کی جائیداد کیسے بنائی. اسکے فنڈز کس نے دیے یہ فائز عیسی کو نہیں پتہ. نہ کوئی وٹس ایپ پر بتاتا ہے.
البتہ ضلع چکوال کی تحصیل کلر کہار کی یونین کونسل بچل کلاں میں 6 کلومیٹر لمبی روڈ کے فنڈ کون دے رہا ہے. یہ فائز عیسی کو پتہ ہے.
‏نام ہے قاضی
فائز ہے اعلی عدلیہ کے جج کے عہدے پر
دل میں بھرا بغض عمران
لیتا ہے جعلی خبروں کا نوٹس
لیکن اپنے/اپنی بیگم کی آمدن سے زائد اثاثوں کا دیتا نہیں حساب
کیا ایسا شخص قاضی کے نام پر دھبہ نہیں؟
اسے بغض عمران ہی نہیں بغض فوج اور ایجنسی بھی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا ایسا شخص قاضی کے نام پر دھبہ نہیں؟
جس شخص کے حمایتی سزا یافتہ مجرم نواز شریف اور مجرمہ مریم نواز جیسے لوگ ہوں اس کو ان چیزوں کی کیا پرواہ؟
Nawaz says Justice Isa’s remarks ‘not ordinary’ - Pakistan - DAWN.COM
Asking Justice Isa to not hear cases on PM bad for 'credibility' of judiciary: Maryam - Pakistan - DAWN.COM
 

ثمین زارا

محفلین
ہمیں تو خدشا ہے کہ ماورائی فیصلوں کے تحت موصوف کو عہدۂ زریں بھی نہیں ملنے والا!
ان کو ملنا بھی نہیں چاہئے ۔ حدیبیہ کی طرز پر نون لیگ کے تمام کیسیز کو بھرپور پروٹیکشن دے سکتے ہیں اور عمران خان کے خلاف واٹس ایپ دیکھ دیکھ کر مقدمے بھی قائم کر سکتے ہیں ۔ نہیں پیش کر سکتے تو وہ اپنی بیوی بچوں کی جائیدادوں کی رسیدیں ہیں ۔ یہی ان کو لے ڈوبیں گی ۔
 
Top