جسٹس ایم آر کیانی ؛ لسان پاکستان

سید زبیر

محفلین
سید زبیر نے کہا ہے:​
میرا خیال ہے نیب کے موجودہ چئیرمین فصیح بخاری سابقہ نیول چیف ہیں۔​
کم علمی کےباعث غلطی کی معافی محترم۔ میں انہیں آج تک ایک سابق جسٹس ہی سمجھتا رہا۔ (پھر تو ان سے عدلیہ کے بارے میں ہر قسم کے بیان کی توقع کی جا سکتی ہے۔):)
سر شرمندہ نہ کریں ۔ میں نے صرف اس لیے نشاندہی کی تھی کہ اس طرح مجھے بھی تصدیق ہو جائے گی
جزاک اللہ سر
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کسی کی قدر نہ کریں۔ میں یہ کہتا ہو کہ آپ کسی کو دھوکا نہ دیں۔ یہ آپ کے بڑے افسر ، امیر، وزیر ، عموماً اچھے لوگ ہوتے ہیں مگر صبح شام جھوٹ سُن سُن کر ان کی طبیعت ناساز ہو جاتی ہے۔ جھوٹ کا ماحول مرطوب آب و ہوا کی طرح ہے جس سے کوتاہ نفسی کی شکایت لاحق ہو جاتی ہے۔ میرے ایک دوست نے جو پچھلے ہفتے کراچی سے آئے ہیں ، کراچی کے بعض لوگوں سے کہا : عجیب بات ہے کہ آپ موجودہ حکومت والوں کو بھی اسی طرح ہار پہناتے ہیں جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو پہناتے تھے۔ یہ بیچارے کیسے سمجھیں گے کہ ہم میں اور ہمارے متقدمیں میں کچھ فرق ہے۔ ان لوگوں نے میرے دوست سے کہا کہ آپ سے پہلے پیغمبروں نے بھی ایسی باتیں کی ہیں۔ اگر سچے پیغمبر ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اس نے جواب دیا کہ آپ سے پہلی امتوں نے بھی یہی کہا تھا اور ان کو معجزے دکھائے گئے تھے پھر انہوں نے کیا عبرت حاصل کی۔ رات کو سوئے تو اچھی بھلی وزارت تھی ، صبح اُٹھے تو کچھ بھی نہ تھا۔ کبھی ووٹوں کی زہریلی ہوا چلی اور باغ جل کر راکھ ہو گیا۔ کبھی لاقانونیت کی مکڑی حریتِ خیال کے آسمان پر پیلے بادل کی طرح چھا گئی اور سب کچھ پیلا نظر آنے لگا۔ انہی دنوں میں جب لاقانیونیت کا دور دورہ تھا ، ایک بہت بڑے شخص نے پشاور یا نتھیا گلی میں چند رؤسا کو تبادلۂ خیال کے لئے کھانے پر بلایا۔ ان دنوں گندم تیس روپے مَن تھی مگر گورنمنٹ نے پندرہ سولہ روپے مَن نرخ مقرر کیا تھا۔ کھانے سے پہلے دو مہمانوں نے آپس میں صلاح کی کہ میزبانِ گرامی کو بتائیں گے کہ اِس قیمت پر گندم بازار میں نہیں آتی اور اس لئے خوط زور و شور سے بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔ جب کھانے پر بیٹھے تو میزبانِ گرامی نے حاضرین سے ایک عام سوال کیا کہ گندم آج کل کس نرخ پر ملتی ہے؟ ایک شخص نے جھٹ سے کہا کہ یہی بارہ چودہ روپے مَن۔ میزبانِ گرامی یہ سُن کر باغ باغ ہو گئے اور فرمانے لگے کہ دو چار روپے بڑھ بھی گئے تو میں برداشت کر سکتا ہوں۔ اتنے میں ان دونوں میں سے ایک نے منہ کھولا کہ صورتِ حال سے میزبانِ گرامی کو آگاہ کر دے مگر دوسرے نے اشارے سے روک دیا اور اس کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا۔ کھانے کے بعد باہر آ کر اس نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اس نے صحیح بات بتانے سے اسے کیوں روکا تو اس کے دوست نے کہا " آپ نے نہیں دیکھا کہ میزبانِ گرامی پہلے شخص کی جھوٹی قیمت سُن کر کتنے خوش ہوئے تھے۔ آپ اگر انہیں سچی بات بتاتے تو وہ ناراض ہو جاتے۔ بھائی ، ہم اپنے میزبان کو ناراض کرنے تو نہیں گئے تھے"۔ اس کے بعد میزبانِ گرامی جہاں بھی گئے انہوں نے کہا کہ معتبر ذرائع سے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ جو قیمت حکومت نے مقرر کی ہے وہ گندم فروشوں کے لئے کافی منافع کی گنجائش رکھتی ہے چنانچہ ہر منڈی میں گندم کی ڈھیریاں پڑی ہیں۔ یہ آخری بات ٹھیک تھی۔ گندم کی ڈھیریاں پڑی تھیں کہ عام آدمی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔

افکارِ پریشاں۔ باب 'حدِ ادب'۔ 'اُس میں رس ہے، مجھ میں ہائے ہے: خطبۂ الوداعیہ۔ لاہور (اکتوبر 1962ء)' سے اقتباس
 
Top