جسٹس افتخار کے خلاف صدارتی ریفرینس

غازی عثمان

محفلین
برادران!
جرنل مشرف کی جانب سےچیف جسٹس افتخار کے خلاف سپریم جوڈیشیل کونسل کو بھیجے جانے والے ریفرینس کی کاپی یونی کوڈ میں حاضر ہے ،، یاد رہے کہ اس ریفرینس کے مندرجات کو کسی بھی صورت نشر کرنا یا ان پر بات کرنے پر سپریم جوڈیشیل کونسل نے پابندی لگائی ہوئی ہے اس لیئے آج تک کسی پاکستانی ٹی وی چینل یا اخبار پر نشر نہیں ہو سکی میں اس ریفرینس پر آپ کی رائے طلب کر کے آپ کو قانون شکنی کا موقع دیتا ہوں
امید ہے کے رائے سے آگاہ کریں گے۔۔
--------------------------------------------------------------------

صدارتی ریفرنس کی تفصیلات:
1) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بیٹے ارسلان افتخار کوناجائز فائدہ پہچانے کے لیے کئی لوگوں کو غیر قانونی کام پر مجبور کیا۔

2) ڈاکٹر ارسلان نے 1996 میں بولان میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ داخلہ کے لیے میرٹ سے 111 نمبر کم ہونے کے باوجود اس وقت کے وزیر اعلی بلوچستان سے داخلہ کے لیے رابطہ کیا گیا۔

3) 22 جون 2005 کو ڈاکٹر ارسلان کوانسٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کوئٹہ میں میڈیکل آفیسر میں تعینات کیا گیا۔

4) 18 جولائی 2005 کو چیف منسٹر بلوچستان نے حکم جاری کیا کہ ڈاکٹر ارسلان کو مفاد عامہ میں محکمہ صحت میں بطور سیکشن آفیسر (ٹیکنیکل) تعینات کیا جائے۔

5) 18 جولائی چیف سیکریٹری بلوچستان نے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے احکامات محکمۂ صحت کو ارسال کر دیئے۔

6) محکمہ صحت نے 10 اگست 2005 کو ڈاکٹر ارسلان افتخار کا معاملہ محکمہ ایس اینڈ جی ڈی کو ارساں کردیا۔

7) محکمہ ایس اینڈ جی ڈی نے چیف منسٹر کو سمری بھیجی کہ ٹیکنیکل کوٹہ میں سیکشن آفیسر کی کوئی آسامی خالی نہیں ہے۔ محکمہ ایس اینڈ جی ڈی نے تجویز دی کہ جب تک سیکشن آفیسر کو پبلک سروس کمشن کے ذریعے ہونے والے امتحان ہونے والے امیدواروں کے تعینات ہونے تک ڈاکٹر ارسلان کو عارضی طور پر تعینات کر دیا جائے۔

8) 15 اگست کو ڈاکٹر ارسلان کو عارضی آسامی پر سیکشن افسر تعینات کر دیا گیا۔

9) ڈاکٹر ارسلان کی بطور سیکشن آفیسر تعیناتی سے نو دن پہلے(چھ اگست 2005) وفاقی وزارت داخلہ بلوچستان کے محکمہ صحت کوخط لکھا گیا کہ مفاد عامہ میں محکمہ صحت کے گریڈ سترہ کے آفیسر ڈاکٹر ارسلان کی خدمات ایف آئی اے کو درکار ہیں۔

10) ڈاکٹر ارسلان کی محکمہ صحت میں بطور سیکشن آفسیر کی تعیناتی کے نوٹیفکیش سے دو روز پہلے بلوچستان کے محکمہ ایس اینڈ جی ڈی نے ڈاکٹر ارسلان کی خدمات ایف آئی اے میں تعیناتی کے لیے وفاقی وزارت داخلہ کے حوالے کر دیں۔

11) وزارت داخلہ نے 5 ستمبر 2005 میں ڈاکٹر ارسلان کو گریڈ سترہ میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے تعیناتی کے احکامات جاری کر دیئے۔
12) ڈاکٹر ارسلان کو انٹسٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ میں بطور میڈیکل آفیسر کی تعیناتی کے چار مہینوں کے اندر بطور سیکشن آفیسر تعینات کر دیا گیا۔ بطور میڈیکل آفیسر ان کی چھ مہینے کی پروبیشن بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔

13) ڈاکٹر ارسلان کو جو مقابلے کے امتحان میں تین دفعہ ناکام رہے، تین سال تک ایف آئی اے میں تعینات رکھا گیا۔

13) محکمۂ صحت میں عارضی آسامی پر تعیناتی کے بعد ڈاکٹر ارسلان کو 22 نومبر 2005 میں بلوچستان حکومت نے ڈاکٹر ارسلان افتخار کی عارضی آسامی کو مسقل میں بدل دیا۔

14) ایف آئی اے میں بطور اسٹنٹ ڈائریکٹر کی تعیناتی کے پانچ ماہ بعد وزارت داخلہ نے ڈاکٹر ارسلان کو گریڈ اٹھارہ میں ترقی دے دی۔

15) یہ سب کچھ ڈاکٹر ارسلان کو محکمہۂ پولیس میں بھرتی کے لیے کیا گیا۔ محکمہ پولیس میں بھرتی کے مقابلے کے امتحان کو پاس کرنا ضروری ہے جبکہ گریڈ اٹھارہ حاصل کر کے فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے بچنے کی کوشش کی گئی۔

16) 19 مئی 2006 کو وزارت داخلہ نےنیشنل پولیس اکیڈمی کو خط لکھا کہ ایف آئی اے کے اسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر ارسلان کو اسٹنسٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی تربیت دے جائے۔

17) 24مئی 2006 وزارت داخلہ نے ایک اور حکم جاری کیا کہ ڈاکٹر ارسلان کو پولیس اکیڈمی میں سپیشل تربیت کے بعد لاہور میں تعیناتی کے لیے پنجاب پولیس کے حوالے کر دیا جائے۔

18) 27 جون 2006 کو نیشنل پولیس اکیڈمی نے ڈاکٹر ارسلان کی خدمات حکومت پنجاب کے حوالے کردیں۔

19) اسی دوران وزیر اعظم سکریٹریٹ سے رابطہ کیاگیا کہ ڈاکٹر ارسلان کو مستقل طور پر محکمۂ پولیس میں گریڈ اٹھارہ میں بھرتی کر لیا جائے۔

20) وزیر اعظم سیکریٹریٹ نے ڈاکٹر ارسلان کی محکمۂ پولیس میں بھرتی کے لیے متعلقہ محکموں سے رائے لی۔

21) اسٹیبلمشنٹ ڈویژن نے کہا کہ متعلقہ رولز میں ترمیم کے بغیر ڈاکٹر ارسلان کی گریڈ اٹھارہ میں تعیناتی ممکن نہیں ہے۔

22) 31 مئی 2006 کو سیکرٹری اسٹیبلمشنٹ کو چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر بلایا گیا اور رات گیارہ بجے ہونے والی ملاقات میں جسٹس افتخار نے ڈاکٹر ارسلان کی پولیس میں گریڈ اٹھارہ میں مسقل تعیناتی کا مطالبہ کیا۔

23) جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے گرین فون پر رابطہ کر ڈاکٹر ارسلان کے معاملے ہونے والی پیش رفت کی تفصیلات چاہیں۔

24) جب پرنسپل سیکرٹری نے جسٹس افتخار کوبتایا کہ معاملہ تحریری پر وزیر اعظم کے نوٹس میں لایا جائے گا اور اس پر کچھ وقت لگے توانہوں نے کہا کہ اس سے معاملہ خراب ہو سکتا ہے اور یہ ایک پیکج کا حصہ ہے۔

25) جسٹس افتخار کے دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹر ارسلان کی پولیس سروس میں گریڈ اٹھارہ میں بھرتی کے لیے سمری بنائی گئی۔

26) جسٹس افتخار نے استنبول میں ہونے والے عالمی دہشت گردی سے نمٹے کے کورس میں ڈاکٹر ارسلان کی شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا۔

گاڑیاں

27) چیف جسٹس جو 1600 سی سی کی ایک کار کے حقدار تھے مرسیڈیز بینز (3000 سی سی) سمیت سات کاریں اپنے استعمال میں رکھیں۔

28) اس کے علاوہ انہوں نے کاروں کی بڑی تعداد سپریم کورٹ لاہور اور کراچی کے دفاتر میں اپنے استعمال میں رکھی۔

29) جسٹس افتخار نے ایک سے زیادہ مرتبہ وزیرِ اعلیٰ یا گورنر کے زیر استعمال کاروں کو استعمال کرنے پر اصرار کیا۔

پروٹوکول

31) جسٹس افتخار مطالبہ کرتے تھے کہ سینئر افسران ان کو ائیرپورٹ لینے کے لیے موجود ہوں۔

32) مختلف تقریبات یا فاتحہ خوانی میں شرکت کے لیے جسٹس افتخار طیارے اور ہیلی کاپٹر کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ وہ اس کے حقدار نہیں تھے۔

33) کچھ عرصہ کے لیے رضیہ ون کی نمبر پیلٹ والی بی ایم ڈبلیو کار جسٹس افتخار اور ان کے اہل خانہ کے زیر استعمال رہی۔ جب یہ بات اخباروں میں چھپی تو انہوں نے خاموشی سے کار کو کہیں بھیج دیا۔

عدالتی برتاؤ
34) جسٹس افتخار محمد کے خلاف عدالت میں سنائے جانے والے فیصلوں کے متصادم تحریری فیصلوں کی بھی شکایت ہیں۔ دو ایسے مقدموں کا بہت چرچا ہو ا ہے ۔ان دو مقدموں کی مالیت 55 ملین روپے بتائی جاتی ہے۔

35) جسٹس افتخار محمد ان مراعات کا مطالبہ کرتے رہے جس کے وہ حقدار نہیں تھے۔

ان شواہد کی روشنی میں وزیر اعظم نے صدر کو مشورہ دیا کہ وہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سپرد کریں جو اس بات کا جائزہ لے کہ کیا کہیں جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال تو نہیں کیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجنے کے ساتھ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بطور چیف جسٹس کام کرنے سے روک دیا جائے۔

دستخط
سیکرٹری قانون و انصاف جسٹس ریٹائرڈ منصور احمد
 

مہوش علی

لائبریرین
اس ریفرنس سے انصاف تو سپریم جیوڈیشنل کونسل کر لے گی، مگر لگتا ہے کہ حکومت نے ہوم ورک مکمل کر رکھا تھا، اور اگر واقعی یہ الزامات صحیح طور پر لگائے گئے ہیں، تو پھر جسٹس افتخار واقعی وہ ہیں جو میں اُنکے متعلق رائے رکھتی تھی۔
 
Top