مصطفیٰ زیدی جسم کی بےسود پکار

غزل قاضی

محفلین
جسم کی بےسود پکار

آج تو مڑ کے بھی اس نے نہیں دیکھا ساتھی
ورنہ اس راہ پہ ، ذرات ہیں پامال جہاں

اس کی آنکھوں میں تھی انجان ستاروں کی تلاش
کھیلتے ، گھومتے ، گمگارتے دھاروں کی تلاش
جھومتے ، ڈولتے ، خاموش اِشاروں کی تلاش

آج آنکھوں میں تڑپ تھی نہ اِشارہ ساتھی
یہ نہیں ہے کہ اسے شوقِ خود آرائی تھا

اک تمدن کی کہانی تھی وہ بےنام نگاہ
جس میں مشرق کا تقدس تھا نہ مغرب کا گناہ
جس کے کوچے سے گزرتی ہے روایات کی راہ

جس کے قدموں سے لپٹتا ہے زمانا ساتھی
تال دے اٹھتی تھیں یوں اس کے قدم پر راہیں

جیسے برسات کے پانی میں چھنکتے جَھانجن
جیسے کرنوں سے جھمک جائے کسی کا کنگن
جیسے کلیوں کے طرب راز میں جھولے ساون

جیسے جنت کے جزیرے میں سویرا ساتھی !
اس سلگتے ہوئے مشرق کے دریچے کے قریب

اکثر اوقات مرے دل میں حرارت آئی
میرے سینے پہ کئی بار قیامت آئی
میری آنکھوں میں کئی بار جسارت آئی

اس کی نظروں نے کئی بار پکارا ساتھی
لیکن اس فکر کا انجام عمل ہو نہ سکا

مئے بےباک نہ ہو جس میں تو وہ خُم کیا ہے
خاموش نگاہوں کا تصادم کیا ہے
پیار کرتی ہوئی روحوں کا تکلم کیا ہے

جس کو حاصل نہ ہو لفظوں کا سہارہ ساتھی
ان تو یہ فکر بھی بیکار ہے یہ غم بھی فضول

کہ اسے مجھ سے بہرطور محبت بھی نہ تھی
کہ اس الجھن کا سبب کوئی رقابت بھی نہ تھی
آج تو اس کی نگاہوں میں حقارت بھی نہ تھی

آج تو مڑ کے بھی اس نے نہیں دیکھا ساتھی

(مصطفیٰ زیدی از روشنی )
 
Top