جدا جدا سا کم و کیف رات رات میں ہے ۔ مدبر آسان قائل

فرخ منظور

لائبریرین
تازہ غزل
مدبر آسان قائل

جدا جدا سا کم و کیف رات رات میں ہے
جزائے ہجر کہاں وصل کی نشاط میں ہے

کھُلا کہ میری تمنا کا تار و پود تمام
تمہارے ہاتھ میں تھا اور تمہارے ہات میں ہے

کھرچ کے دیکھیں تو ارزانیِ وجود کا میل
کہ جز شبیہِ عدم کیا نوادرات میں ہے

کرے نہ گھر دلِ خستہ میں غم تو جائے کہاں
کشادگی کہیں ایسی بھی کائنات میں ہے

ہمیں تو یوں بھی تھی خلوت عزیزتر اپنی
پھر اس پہ ان دنوں اندیشہ اختلاط میں ہے

ہمیں بوقتِ شکایت یہ ہوش بھی نہ رہا
کہ اک ملالِ شکیبائی اس کی بات میں ہے

وہ مجھ سے جیت کے خوش ہے اسے یہ کیا معلوم
کہ اس کی مات بھی در اصل میری مات میں ہے

چلو کہ ہوگا یونہی رفتہ رفتہ شعر عطا
ہزار غم ابھی اس ضبطِ بے ثبات میں ہے
 
آخری تدوین:
Top