جب ہمیں اذنِ تماشا ہوگا ۔ اسلم انصاری

فرخ منظور

لائبریرین
جب ہمیں اذنِ تماشا ہوگا
تو کہاں انجمن آرا ہوگا

ہم نہ پہنچے سرِ منزل تو کیا
ہم سفر کوئی تو پہنچا ہوگا

اڑتی ہوگی کہیں خوشبوئے خیال
گُلِ معنی کہیں کھلتا ہوگا

وادیِ رنگ میں ہر نقشِ بہار
شاخ در شاخ لرزتا ہو گا

ساغرِ دل میں ترا عکسِ جمال
محوِ ایجادِ تمنّا ہو گا

ہر گُل و برگ ہے اک نقشِ قدم
کون اس راہ سے گزرا ہوگا

لبِ تصویر پہ گویا ہے سخن
کوئی سن لے تو تماشا ہوگا

اب بھی گُل پوش دریچے کے قریں
تُو کسی سوچ میں ڈوبا ہوگا

آج کی شام بھی وہ سروِ جمیل
تیرے آنگن میں لہکتا ہوگا

تو نے جب ہاتھ چھڑایا تھا، وہ پل
تجھ کو بھی یاد تو آتا ہوگا

دل یہ کہتا ہے تجھی سے ملیے
میں یہ کہتا ہوں کہ پھر کیا ہوگا

دشتِ فرقت میں کھڑا سوچتا ہوں
تُو کہاں انجمن آرا ہوگا
1964ء

(اسلم انصاری)
 
آخری تدوین:
Top