جب کبھی یادوں کا دروازہ کھلا آخرِ شب ۔ رونق دکنی سیمابی

فرخ منظور

لائبریرین
جب کبھی یادوں کا دروازہ کھلا آخرِ شب
کوئی در آیا بااندازِ ہوا آخرِ شب
ھم پشیمان ادھر اور ادھر وہ نادم
شام کا بھولا ھوا آھی گیا آخرِ شب
دل کے آنگن میں بصدِ ناز تھا وہ محوِ خرام
پھول ھی پھول تھا نقشِ کفِ پا آخرِ شب
کر سکا پیش نہ عریانی کا جب کوئی جواز
آ گیا اوڑھ کے مریم کی رِدا آخرِ شب
سانولی شام کی زلفوں کے پرستار تمام
ھو گئےآپ ھی مصروفِ دعا آخرِ شب
نیند آ ھی گئی واماندہ تھے اعصاب تمام
ٹھنڈی ٹھنڈی جو چلی موجِ صبا آخرِ شب
وہ کسک مرغ سحر کی تھی نوا میں رونق
دل پہ اِک نشترِ احساس لگا آخرِ شب
-----------------------
رونق دکنی سیمابی
 
Top