جب ستم کرتے ہیں وہ غم آزمانے کے لیے۔ رشیدؔ وارثی

جب ستم کرتے ہیں وہ غم آزمانے کے لیے
مسکرا دیتا ہوں ان کا دل بڑھانے کے لیے

ذوق سجدہ جب ہوا تصویر جاناں کھینچ لی
خود بنا لیتا ہوں کعبہ سر جھکانے کے لیے

گر مکمل ہو گئی خود دارئ ذوق نظر
خود بہ خود آ جائیں گے جلوے منانے کے لیے

کرتی ہے فطرت یہاں تک ناز بردارئی حسن
آئی شبنم گلوں کا منہ دھلانے کے لیے

آ گیا ہے وقت میرے آخری دیدار کا
آپ بھی آ جائیے صورت دکھانے کے لیے

ہو گئی ساکن زباں لب ٹھہر ٹھہر کر رہ گئے
جب ملا موقع غم الفت سنانے کے لیے

رنج و غم میں سکڑنا کھیل سمجھے ہو رشیدؔ
چاہیے پتھر کا دل صدمے اٹھانے کے لیے

رشیدؔ وارثی
 
Top