جب سب کچھ ٹھیک ہے پھر یہ مہنگائی کیوں ہے؟

جاسم محمد

محفلین
جب سب کچھ ٹھیک ہے پھر یہ مہنگائی کیوں ہے؟
خرم حسین07 فروری 2020

تقریباً 2 دہائیوں میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے ساتھ ہی مہنگائی کی شرح بلندیوں کو چھونے لگی ہے۔

جولائی 2019ء میں جب پروگرام پر عمل درآمد کا آغاز ہوا تو اسی ماہ شرح سود 13.25 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ آئی ایم ایف کے تمام پروگراموں کا آغاز شرح سود میں اضافے، زرِمبادلہ کی شرح میں کمی اور اسٹیٹ بینک سے سرکاری قرضوں کی کٹوتی کے ساتھ ساتھ بجٹ خسارے کے حجم کو گھٹانے کے لیے اخراجات میں کمی کی جاتی ہے۔

ان اقدامات سے جہاں ایک طرف شرح مبادلہ میں کمی کے ذریعے مہنگائی کو جھٹکا ملتا ہے وہیں دوسری طرف گردشی روپے میں اضافے پر قابو پاتے ہوئے مہنگائی کی مالیاتی جڑیں کاٹ دیتے ہیں۔

اگر آپ پاکستان میں مہنگائی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ پائیں گے کہ مہنگائی کا زور 2000ء میں اس وقت ٹوٹا تھا جب ملک کے اندر ایک مختصر لیکن سخت آئی ایم ایف پروگرام پر کامیاب عمل درآمد کیا گیا تھا۔

کچھ عرصے بعد مہنگائی کی شرح میں دوبارہ اضافہ ہوا لیکن 2002ء میں پاکستان جب دوسرے آئی ایم ایف پروگرام کی طرف بڑھا تو مہنگائی کی شرح میں ایک بار پھر کمی آگئی۔ اس پروگرام کا دورانیہ 3 برس ہونا تھا لیکن 2004ء میں ہی پاکستان کی جانب سے اسے اس وقت ختم کردیا گیا جب جنرل مشرف کو محسوس ہوا کہ چونکہ تمام اہداف پہلے ہی حاصل کرلیے گئے ہیں اس لیے ملک کو پروگرام کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد (مہنگائی سال بہ سال بڑھتی گئی اور) اگست 2008ء میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔

نومبر 2008ء میں ملک ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام کی طرف گیا اور پھر 2011ء تک مہنگائی کی شرح 10 فیصد تک گھٹ گئی جبکہ سال کے آخری حصے میں تو 10 سے بھی کم رہ گئی تھی۔

یہ اچھی خاصی کمی تھی لیکن جس سطح پر ملک کے اندر ایڈجسٹمنٹس کی گئی تھیں اس کے پیش نظر مہنگائی کی شرح میں اس سے بھی زیادہ کمی کی توقع کی گئی تھی لیکن بقولِ آئی ایم ایف ’حکومت نے کمرشل بینکوں سے قرضہ لینا شروع کردیا اور اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو قرضے دے کر اس عمل میں حکومت کی مدد کی ہے۔ یاد رہے کہ کمرشل بینکوں سے قرضے لینے کی پالیسی مہنگائی کو اسی شرح سے بڑھاتی ہے جس طرح براہ راست مرکزی بینک سے پیسے ادھار مانگنے سے اثرات مرتب ہوتے ہیں‘۔

مہنگائی میں کمی لانے اور اسٹیٹ بینک کی پالیسی کی ساکھ کو بڑھانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ مرکزی بینک کمرشل بینکوں کو اس قسم کے قرضوں کی فراہمی کے رجحان میں کمی لائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک سے براہ راست قرضہ لینے سے گریز کرنا چاہیے۔

2013ء تک جب ملک ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام کی طرف گیا تب مہنگائی کی شرح پہلے ہی تیزی سے نیچے آرہی تھی۔ اس کے باوجود شرح سود کو ایک طویل عرصے تک 9 فیصد تک برقرار رکھا گیا تاکہ سیلز ٹیکس کی شرح، بجلی کے نرخوں میں اضافے اور زرِمبادلہ کی شرح میں کمی کے ذریعے کسی حد تک متوقع مہنگائی کے دباؤ پر قابو پایا جاسکے۔

2015ء تک مالی خسارے میں کمی آنا شروع ہوگئی، بینکاری نظام سے حکومتی قرضہ لینے کا رجحان کم ہوا اور مالیاتی پھیلاؤ پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا۔ اس سب کے نتیجے میں شرح سود 6.5 فیصد تک گھٹ گئی۔

جب یہ حکومت اقتدار میں آئی تب مالیاتی پھیلاؤ قابو سے باہر تھا۔ حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینا پیسے چھاپنے جیسا ہی ایک عمل ہے۔ جون 2018ء میں حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے قرضے کا حجم 3 کھرب 67 ارب روپے تھا جو فروری 2019ء تک دگنا ہوکر 7 کھرب 60 ارب تک پہنچ گیا تھا۔ قرض کی یہ شرح غیر معمولی تھی، جس کے باعث قلیل عرصے میں ہی پیسوں کی گردش میں بڑی سطح پر اضافہ ہوا۔

اس پوری پریکٹس کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں برآمد ہوا جو مارچ 2019ء میں 9.4 فیصد تک پہنچ گئی اور حکومت کو ہکا بکا کردیا۔ حکومت نے یہ کہہ کر اس نتیجے کو گھومانے کی کوشش کی کہ ادارہ شماریات پاکستان سے اعداد کے حساب کتاب میں غلطی ہوئی ہے۔ حساب کتاب میں گیس نرخوں سے متعلق معاملات پر اعتراض کرتے ہوئے حکومتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ ادارہ شماریات جتنی افراط زرِ کی شرح بتا رہا ہے اس سے تقریباً ایک فیصد کم ہونی چاہیے۔

لیکن پھر یہ شرح اسی سطح پر برقرار رہی۔ اگلے چند ماہ تک کے لیے افراطِ زر کی شرح بلند سطح پر برقرار رہی اور مالی سال کے اختتام تک افراطِ زر کی شرح ماہانہ اوسط 7 فیصد سے کچھ زائد رہی۔

ایسا اس وقت ہوا جب آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد شروع ہوا اور اسی اثنا میں شرح سود میں اضافہ ہوا۔ تب سے مالیاتی پھیلاؤ پر قابو پالیا گیا جبکہ حکومت ایک ماہ کے لیے پرائمری بیلنس میں آنے والے سرپلس پر اتراتی رہی۔ پھر حکومت کی جانب سے اپنے اثاثے سے جڑے معاملات سنبھالنے کے لیے بڑے نقدی بفر بنائے گئے اور اسٹیٹ بینک سے نہ صرف قرضہ لینا بند کردیا بلکہ پرانا قرضہ بھی اتار لیا گیا۔ آنے والے مہینوں میں زرِمبادلہ کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔

جولائی کے بعد آنے والے مہینوں میں ہم نے مہنگائی کی شرح اوپر جاتے دیکھی تھی۔ جس کی چند وجوہات تھیں، جیسے مالی سال 2019ء کی آخری سہہ ماہی کے دوران شرح مبادلہ کی شرح میں آنے والی کمی، کسی حد تک وجہ مالی سال 2020ء کی پہلی سہہ ماہی میں ہونے والے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے، اور کسی حد تک وجہ ایندھن پر عائد بھاری ٹیکس تھے۔

یہی صورتحال متوقع تھی اور عام طور پر ایسا تب ہوتا ہے جب بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ایڈجسٹمنٹ کا آغاز ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس قسم کی ایڈجسٹمنٹ عام طور پر اپنے ساتھ شرح سود میں اضافہ لاتی ہے۔

مہنگائی کی مالیاتی جڑیں کاٹنے کے باوجود بھی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان کیوں پایا جاتا ہے؟ کسی حد تک اس کی توقع کی جا رہی تھی لیکن مہنگائی کی جس حد تک پیش گوئی کی گئی ہے ہم اس کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

حکومت کے اندازوں کے مطابق مہنگائی کی شرح میں 11 سے 12 فیصد کے قریب اضافہ ہوگا جبکہ ماہانہ اوسط تو ویسے ہی 11.6 فیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔ اگر مالیاتی مسائل حل کردیے گئے ہیں تو پھر خاص طور پر ایسے وقت میں قیمتیں کیوں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں جب زبردست انداز میں ایڈجسٹمنٹ کی جا رہی ہے؟

حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے انتظامی وجوہات ہیں یا پھر بقول اسٹیٹ بینک یہ سب ’temporary supply shocks‘ کا کیا دھرا ہے۔ وزیرِاعظم اس کی وجہ مافیاؤں اور منافع خوروں کے گٹھ جوڑ کو قرار دیتے ہیں۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ’temporary supply shocks‘ ہیں تو پھر مہینوں تک برقرار کیوں ہیں؟ اسٹیٹ بینک نے یہی بات نومبر اور پھر جنوری میں بھی کہی تھی۔ اور اگر یہ منافع خوروں یا مافیاؤں کا گٹھ جوڑ ہے تو پھر وہ اس حکومت کی ناک کے نیچے سرگرم کیسے ہوگئے ہیں؟ شاید عمران خان کو اپنے پیشروؤں سے یہ مشورہ لینا چاہیے کہ ان مافیاؤں اور منافع خوروں پر نگرانی کیسے رکھی جاتی ہے۔

مہنگائی یا تو حد سے زیادہ پیسے بنانے سے ہوتی ہے یا پھر ایسے چیزوں کے داموں میں اضافے کے ذریعے ہوتی ہے جن کی قیمتیں دیگر کموڈٹیز کی قیمتوں میں استعمال ہوتی ہے۔ تیل کی گرتی قیمتوں اور خساروں میں کمی اور اس وقت جاری ایڈجسٹمنٹ کے بیچ مہنگائی میں اضافے کا صرف ایک مطلب ہے: ناکام گورننس۔
 
آخری تدوین:

زیرک

محفلین
جب سب کچھ ٹھیک ہے پھر یہ مہنگائی کیوں ہے؟
تیل کی گرتی قیمتوں اور خساروں میں کمی اور اس وقت جاری ایڈجسٹمنٹ کے بیچ مہنگائی میں اضافے کا صرف ایک مطلب ہے: ناکام گورننس۔
لکھنے والے نے آخری جملے میں بیماری پھیلانے والے وائرس یعنی حکومت کی نااہلی اور بیڈ گورنس کا بتا دیا ہے، آگے کوئی نہ سمجھے تو اسے اللہ ہی سمجھائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لکھنے والے نے آخری جملے میں بیماری پھیلانے والے وائرس یعنی حکومت کی نااہلی اور بیڈ گورنس کا بتا دیا ہے، آگے کوئی نہ سمجھے تو اسے اللہ ہی سمجھائے۔
یہ جملہ بھی پڑھ لیتے:
جب یہ حکومت اقتدار میں آئی تب مالیاتی پھیلاؤ قابو سے باہر تھا۔
نیز مہنگائی کا یہ گراف بھی دیکھ لیں
BCD5-B0-AB-C440-445-A-BC19-E31-E174-EE834.png

مالیاتی پھیلاؤ کنٹرول کرنے میں وقت لگتا ہے۔ پی پی پی حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے تین سال بعد مہنگائی کو قابو کر پائی تھی۔ جبکہ ن لیگ حکومت کو سابقہ حکومت سے مالیاتی پھیلاؤ (کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ) اتنا کم ملا تھا کہ ان کے لئے مہنگائی کنٹرول کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ جواب میں وہ تحریک انصاف حکومت کو ۱۸ ارب ڈالر کا ریکارڈ خسارہ چھوڑ کر گئے تھے۔ اس لئے مہنگائی کی اصل ذمہ دار پچھلی حکومت کی معاشی پالیسیاں ہیں۔
 

زیرک

محفلین
مہنگائی جس تناسب سے بڑھ رہی ہے اگر یہ برقرار رہا تو فروری کے اختتام تک مہنگائی کی شرح ٪14 اور مارچ کے اختتام تک ٪17 جبکہ اپریل کے اختتام تک ٪20 کراس کر جائے گی اور تم جیسے حکومتی کفگیر پچھلی حکومت پچھلی حکومت کی رٹ ہی لگائے رکھو گے؟ اپنے دعووں کی طرف بھی آیا کرو اور روزانہ کی بنیاد پر یہ بھی بتایا کرو کہ ہاں ہم نے الیکشن جیتنے کے لیےجھوٹے وعدے کیے تھے تاکہ ووٹ لے سکیں اور پھر ووٹ لے کر عوام سے انتقام لے سکیں کہ انہوں نےماضی میں مخالفین کو ووٹ کیوں دئیے تھے، ہمیں دینا چاہییں تھے تاکہ ہم کو مزید مہنگائی کرنے کا موقع ملتا۔:LOL:
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
مہنگائی جس تناسب سے بڑھ رہی ہے اگر یہ برقرار رہا تو فروری کے اختتام تک مہنگائی کی شرح ٪14 اور مارچ کے اختتام تک ٪17 جبکہ اپریل کے اختتام تک ٪20 کراس کر جائے گی اور تم جیسے حکومتی کفگیر پچھلی حکومت پچھلی حکومت کی رٹ ہی لگائے رکھو گے؟ اپنے دعووں کی طرف بھی آیا کرو اور روزانہ کی بنیاد پر یہ بھی بتایا کرو کہ ہاں ہم نے الیکشن جیتنے کے لیےجھوٹے وعدے کیے تھے تاکہ ووٹ لے سکیں اور پھر ووٹ لے کر عوام سے انتقام لے سکیں کہ انہوں نےماضی میں مخالفین کو ووٹ کیوں دئیے تھے، ہمیں دینا چاہییں تھے تاکہ ہم کو مزید مہنگائی کرنے کا موقع ملتا۔:LOL:
ظاہر ہے جو قومی خزانہ لوٹ کر گئے ہیں وہ تو ملک سے ہی فرار ہو گئے ہیں۔ پیچھے رہ گئی عوام تو اب وہی مہنگائی سے خزانہ بھرے گی۔ تاکہ آئیندہ کیلئے سبق یاد رہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے مافیا کا کوئی نہ کوئی سرپرست بھی تو ہوتا ہے۔ ہمیں خان صاحب پر شبہ تو نہیں۔ کم از کم وہ جان بوجھ کر سرپرستی کرنے سے تو رہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے مافیا کا کوئی نہ کوئی سرپرست بھی تو ہوتا ہے۔ ہمیں خان صاحب پر شبہ تو نہیں۔ کم از کم وہ جان بوجھ کر سرپرستی کرنے سے تو رہے۔
معیشت پر شاہ زیب خانزادہ کا یہ پروگرام دیکھیں۔ تمام حقائق بتائے گئے ہیں کہ کیسے پچھلے تیس سالوں میں پاکستانی معیشت جو چین اور بھارت سے بہتر تھی کو تباہ کیا گیا اور اس کا سارا ملبہ موجودہ حکومت کی نااہلی پر ڈال دیا گیا ہے جو 30 سال کا گند صاف کر رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مہنگائی جس تناسب سے بڑھ رہی ہے اگر یہ برقرار رہا تو فروری کے اختتام تک مہنگائی کی شرح ٪14 اور مارچ کے اختتام تک ٪17 جبکہ اپریل کے اختتام تک ٪20 کراس کر جائے گی اور تم جیسے حکومتی کفگیر پچھلی حکومت پچھلی حکومت کی رٹ ہی لگائے رکھو گے؟ اپنے دعووں کی طرف بھی آیا کرو اور روزانہ کی بنیاد پر یہ بھی بتایا کرو کہ ہاں ہم نے الیکشن جیتنے کے لیےجھوٹے وعدے کیے تھے تاکہ ووٹ لے سکیں اور پھر ووٹ لے کر عوام سے انتقام لے سکیں کہ انہوں نےماضی میں مخالفین کو ووٹ کیوں دئیے تھے، ہمیں دینا چاہییں تھے تاکہ ہم کو مزید مہنگائی کرنے کا موقع ملتا۔:LOL:

آٹا ،گھی، چینی، چاول اور دالوں کی قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک ہفتہ 8 فروری 2020
1981155-imran-1581168439-235-640x480.gif

ہم غریب کی بہتری کے لئے ہی حکومت میں آئے ہیں، وزیراعظم۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ غریب کی بہتری کے لئے ہی حکومت میں آئے ہیں اور اگر غریب کا احساس نہیں کر سکتے توحکومت میں رہنے کاحق نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلی سطح اجلاس ہوا جس میں کھانے پینے کی اشیاء کی سستے نرخوں فراہمی پر غور کیا گیا اور عوامی ریلیف کے حوالے سے آٹا ،گھی، چینی، چاول اور دالوں کی قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عام آدمی کے کچن میں بنیادی اشیاء ہر حال میں پہنچائیں، جن گھرانوں میں خریدنے کی سکت نہیں، انہیں حکومت راشن دے گی، احساس پروگرام کے تحت انتہائی غریب افراد کو راشن دیں، اگرغریب کا احساس نہیں کر سکتے توحکومت میں رہنے کاحق نہیں، ہم غریب کی بہتری کے لئے ہی حکومت میں آئے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو بنیادی اشیائے ضروریہ کی قمتیں ہر صورت کم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ بھی کریں عوام کو ریلیف دیں، کسی بھی چیز کے پیسے کاٹیں مگر غریب آدمی کو سہولت دیں، عوامی ریلیف کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے کروں گا، قیمتوں میں کمی کے لئے ہر حد تک جائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ملک میں مہنگائی سابقہ حکومت کی لوٹ مارکا نتیجہ ہے، ذخیرہ اندوزوں نے بھی معاملات خراب کئے، تاہم آٹابحران میں یوٹیلیٹی اسٹورز نے بہترین کام کیا اور اسی وجہ سے یوٹیلیٹی اسٹورز کی سیل میں800 فیصدتک اضافہ ہوا۔
 

زیرک

محفلین
ظاہر ہے جو قومی خزانہ لوٹ کر گئے ہیں وہ تو ملک سے ہی فرار ہو گئے ہیں۔ پیچھے رہ گئی عوام تو اب وہی مہنگائی سے خزانہ بھرے گی۔ تاکہ آئیندہ کیلئے سبق یاد رہے۔
یوں لکھا کرو کہ 200 ارب ڈالرز ملک میں لانے میں ناکام ہونے والی تبدیلی سرکار نے بالآخر یہ حل نکالا کہ عوام کاپیٹ کاٹ کر خزانہ بھرا جائے۔ جب اللہ کرے بھر جائے تو یہ کہنے مت آنا کہ ہم نے خزانہ بھر دیا، وہ تو عوام نے بھرا ہو گا تو کریڈٹ بھی انہی کا بنتا ہے۔
 

زیرک

محفلین
آٹا ،گھی، چینی، چاول اور دالوں کی قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک ہفتہ 8 فروری 2020
ہم غریب کی بہتری کے لئے ہی حکومت میں آئے ہیں، وزیراعظم۔ فوٹو:فائل
پچھلے اڑھائی ماہ سے بے چاری عوام کا پیٹ کاٹاجا رہا تھا، حکومت میں شامل کاروباری دوستوں کو خوب جگا ٹیکس کاٹنے کا موقع دیا گیا۔ اب جبکہ ان مگر مچھوں کا پیٹ بھر چکا ہےاور الیکشن میں لگایا گیا پیسا واپس جیب میں آ چکا ہے تو حکومت نے سوچا بدنامی نے تو ویسے بھی حکومت کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا ہے،چلیں کوئی اچھا بننے کا ناٹک ہی رچا لیاجائے۔ جب تک حکومتی اتحادی ساتھ تھے تب تک حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگی، اب چونکہ اتحادی ناراض ہیں، مہنگائی کا جن بھی قابومیں نہیں آ رہا ہے، ڈر ہے کہ کہیں اندرون خانے کو تبدیلی نہ آ جائے تو جگے ڈاکو نے لوٹ کے مال سے مونگ پھلی برابر سستا رزق بانٹنے کا نیا ڈرامہ رچانے کا سوچا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ جس حکومت کی رٹ ہی نظر نہ آئے اس نے مہنگائی کو گراؤنڈ لیول پہ کیسے قابو کرنا ہے؟ ہاں لوٹ کر اب لوٹ کے مال سے چورن ضرور بانٹنے کا کام لیا جائے گا۔ جہاں مجھے غریب عوام سے ہمدردی ہے وہیں وقتی خوشی بھی ہے کہ چلو دو دن کے لیے ہی سہی سارا نہ سہی کچھ چیزیں تو سستی ہوں گی، لیکن عمران خان وہ بدقسمت شخص ہے کہ جس بات کا اعلان کرتا ہے اس کے الٹ ہی ہوتا ہے، جب بھی کسی خوشخبری کا نام لیا جاتا ہے، ہوتا اس کے الٹ ہے، اللہ کرے ایسا ہو جائے لیکن ہو گا نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یوں لکھا کرو کہ 200 ارب ڈالرز ملک میں لانے میں ناکام ہونے والی تبدیلی سرکار نے بالآخر یہ حل نکالا کہ عوام کاپیٹ کاٹ کر خزانہ بھرا جائے۔ جب اللہ کرے بھر جائے تو یہ کہنے مت آنا کہ ہم نے خزانہ بھر دیا، وہ تو عوام نے بھرا ہو گا تو کریڈٹ بھی انہی کا بنتا ہے۔
خزانہ بھرنے کا سارا کریڈٹ عوام کو جاتا ہے۔ اللہ تعالی ایسی صابر یا ڈھیٹ عوام ہر ملک کو عطا کرے۔ جو نہ قومی خزانہ لٹنے پر حکومت کا تختہ الٹتی ہے نہ اسے دوبارہ بھرنے کیلئے مہنگائی ہونے پر حکومت کو نیچے اتارتی ہے۔ یعنی دونوں صورتوں میں شدید برداشت کا مظاہرہ کرتی ہے
 
امید پر دنیا قائم ہے
پیٹرول چھ پیسے سستا ہوچکا، اب آٹا، چاول ، دالوں پر بھی دو پیسے چار پیسے کم کرکے حاتم طائی کو شرمندہ کیا جائے گا۔ اسی اثناء میں خان صاحب کے کوئی "دوست" پھر کچھ فیور مانگ لیں گے، اللہ اللہ خیر صلا!

جو لوگ ٹھیک ٹھاک پیسا لگا کر خان صاحب کو اقتدار کے ایوانوں میں لائے ہیں اور وہاں بھی ان کا اور ان کے کتوں کا خرچہ اٹھارہے ہیں، کیا ان کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ چینی چاول میں ہی دوپیسے بچاسکیں؟
 

زیرک

محفلین
امید پر دنیا قائم ہے
اب تک اس حکومت نے عوام کی امیدیں ہی تو توڑی ہیں، مزید توڑی جائیں گی کیونکہ جب حکمران جھوٹ بول کر اسے کوئی نام دیں جیسا کہ مہاتما اسے یوٹرن کا نام دیتا ہے۔ گویا جھوٹ بھی بولا گیا اور شرمندہ بھی نہ ہوئے تو رب کی ذات جھوٹ کی وجہ سے برکت ختم کر دیتی ہے، جھوٹا جو کام بھی کرتا ہے وہ پورا نہیں ہوتا، گویا رزق اٹھا لیا جاتا ہے۔
 

زیرک

محفلین
خزانہ بھرنے کا سارا کریڈٹ عوام کو جاتا ہے۔ اللہ تعالی ایسی صابر یا ڈھیٹ عوام ہر ملک کو عطا کرے۔ جو نہ قومی خزانہ لٹنے پر حکومت کا تختہ الٹتی ہے نہ اسے دوبارہ بھرنے کیلئے مہنگائی ہونے پر حکومت کو نیچے اتارتی ہے۔ یعنی دونوں صورتوں میں شدید برداشت کا مظاہرہ کرتی ہے
عوام کے استحصال پر حکومت اور ان کے حمایتیوں کو ایسے عوام کُش بیانات دینے پر بے غیرتی کا میڈل دیا جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عوام کے استحصال پر حکومت اور ان کے حمایتیوں کو ایسے عوام کُش بیانات دینے پر بے غیرتی کا میڈل دیا جاتا ہے۔
وینزویلا کی مہنگائی چیک کریں ذرا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں ہے جہاں مہنگائی ایک مستقل مسئلہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جو لوگ ٹھیک ٹھاک پیسا لگا کر خان صاحب کو اقتدار کے ایوانوں میں لائے ہیں اور وہاں بھی ان کا اور ان کے کتوں کا خرچہ اٹھارہے ہیں، کیا ان کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ چینی چاول میں ہی دوپیسے بچاسکیں؟
معلوم نہیں اشارہ کس طرف ہے۔ کبھی کہتے ہیں عمران خان کو فوج اقتدار میں لائی ہے توکبھی کہتے ہیں یہ چینی مافیا جہانگیر ترین کی کرامات ہیں۔ پہلے اس کا فیصلہ کر لیں اس کے بعد بات کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب تک اس حکومت نے عوام کی امیدیں ہی تو توڑی ہیں، مزید توڑی جائیں گی کیونکہ جب حکمران جھوٹ بول کر اسے کوئی نام دیں جیسا کہ مہاتما اسے یوٹرن کا نام دیتا ہے۔ گویا جھوٹ بھی بولا گیا اور شرمندہ بھی نہ ہوئے تو رب کی ذات جھوٹ کی وجہ سے برکت ختم کر دیتی ہے، جھوٹا جو کام بھی کرتا ہے وہ پورا نہیں ہوتا، گویا رزق اٹھا لیا جاتا ہے۔

وزیراعظم کا غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی کیلئے اقدامات کرنے کا اعلان
ویب ڈیسک اتوار 9 فروری 2020
1981548-imrankhane-1581223714-828-640x480.jpg

مجھے تنخواہ دار طبقے اور عوام کی مشکلات کا ادراک ہے، وزیراعظم فوٹوفائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے ان مشکلات کا ادراک ہے جن کا تنخواہ دار طبقے سمیت مجموعی طور پرعوام کو سامنا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں ملک میں جاری مہنگائی اورعام عوام کی مشکلات کے حوالے سے کہا ہے کہ مجھے ان مشکلات کا ادراک ہے جن کا تنخواہ دار طبقے سمیت مجموعی طور پر عوام کو سامنا ہے، چنانچہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے، میری حکومت منگل کو کابینہ کے اجلاس میں عوام کے لیے بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی کی خاطر مختلف اقدامات کا اعلان کرے گی۔

وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ اسی اثناء میں تمام متعلقہ حکومتی ادارے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے اسباب کی جامع تحقیقات کا آغاز کرچکے ہیں۔ قوم اطمینان رکھے کہ ذمہ داروں کا بھرپور محاسبہ کیا جائے گا اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں کھانے پینے کی اشیاء کی سستے نرخوں فراہمی پر غور اور عوامی ریلیف کے حوالے سے آٹا، گھی، چینی، چاول اور دالوں کی قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے دوران اجلاس کہا تھا کہ عام آدمی کے کچن میں بنیادی اشیاء ہر حال میں پہنچائیں، جن گھرانوں میں خریدنے کی سکت نہیں، انہیں حکومت راشن دے گی، احساس پروگرام کے تحت انتہائی غریب افراد کو راشن دیں، اگرغریب کا احساس نہیں کر سکتے توحکومت میں رہنے کاحق نہیں، ہم غریب کی بہتری کے لئے ہی حکومت میں آئے ہیں۔
 

زیرک

محفلین
وینزویلا کی مہنگائی چیک کریں ذرا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں ہے جہاں مہنگائی ایک مسئلہ ہے۔
مہنگائی کی وجوہات کو میں سمجھتا ہوں، مگر کچھ وجوہات ایسی ہوتی ہیں جن کنٹرول کرنا حکومتوں کا کام ہوتا ہے، لیکن جس ملک میں حکومت خود ایسے کاروباری طبقے کو جن کا تعلق ان کی ڈونر گروپ سے ہو جس صرفِ نظر کرے اور انہیں رج کے منافع کمانے کا موقع فراہم کرے، پھر اسی منافعے سے چورن برابر رقم لے کر کبھی دسترخواناور کبھی ہفتہ دس کے لیے سستی اشیاء بیچنے کا ڈرامہ رچا کر اچھا بننے کا ڈھونگ رچایا جائے اور غذائی اجناس کی ہورڈنگ اور قیمتوں میں اضافے کا الازام ایسے کاروباری طبقے جن کا تعلق مخالف سیاسی سے ہوپر لگا کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ جو حکومت رٹ برقرار نہ رکھ سکے تو پھر ایسی حکومت کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 

زیرک

محفلین
معلوم نہیں اشارہ کس طرف ہے۔ کبھی کہتے ہیں عمران خان کو فوج اقتدار میں لائی ہے توکبھی کہتے ہیں یہ چینی مافیا جہانگیر ترین کی کرامات ہیں۔ پہلے اس کا فیصلہ کر لیں اس کے بعد بات کریں گے۔
فوج پیسا تو نہیں لگا سکتی، اسے تو خود پیسا چاہیے اس لیے یہ کام ترین جیسا مافیا ہی کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے اورساتھ میں کما بھی رہا ہے۔
 
Top