جب بھی زادِ سفر لیا ہم نے ۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اصلاح کے بعد:

جب بھی زادِ سفر لیا ہم نے
مختصر مختصر لیا ہم نے

بخت بٹتا تھا جس جگہ پہ وہاں
آپ سا ہمسفر لیا ہم نے

دردِ سر لے گئے خرد والے
اور دردِ جگر لیا ہم نے

کچھ شکایت نہیں تھی یاروں سے
بس کنارہ سا کر لیا ہم نے

رہزنی کا ہو ڈر ہمیں کیوں کر
ساتھ کب راہبر لیا ہم نے؟

جنگ یاروں سے آ پڑی تھی، سو
خوں جگر کو ہی کر لیا ہم نے

حملہ آور ہوئے جو غم، تو سپر
تیری یادوں کو کر لیا ہم نے
 
Top