جائیے دور مسکرانے کو.... ایک ہی بحر میں کی جانے والی کچھ کوششوں پر تبصرہ اور اصلاح درکارہے

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک دو غزلہ ہے۔۔۔
جائیے دور مسکرانے کو۔۔۔۔ بیٹھئے پاس جی جلانے کو
خود کشی ہم سے ہو نہیں پائی۔۔۔ آئیے حوصلہ بڑھانے کو
آپ مشہور ہیں زمانے میں۔۔۔ ہم نہیں مانتے زمانے کو
ہم سے جو لوگ پیار کرتے ہیں۔۔۔ آگئے پھر سے وہ ستانے کو
اے حسینو کچھ اور کام کرو۔۔۔ چھوڑ دو اب تو آزمانے کو
ڈھونڈتے تو ہیں آشیاں کے لیے۔۔۔ آگ ملتی نہیں جلانے کو
ہم یہاں سو رہے ہیں صدیوں سے۔۔۔ حوصلہ چاہئے جگانے کو۔۔۔

چھوڑ دو اب مرے فسانے کو۔۔۔ بھول جائو مرے زمانے کو
دوستی ہے فقط فریب نظر۔۔۔ پیار کہتے ہیں اک فسانے کو
میرے یاروں کا ساتھ کیا کہنے۔۔۔ ساتھ بیٹھے ہیں چھوڑ جانے کو
ساتھ دیں گے وہ زندگی بھر کا۔۔۔ زندگی بھر مجھے ستانے کو
برق چاہے خود آسماں پہ گرے۔۔۔ آگ لگتی ہے آشیانے کو
ساتھ رہتے ہیں حادثے لیکن۔۔۔ ڈھونڈتے ہیں مرے ٹھکانے کو
میں سمجھتا ہوں گریہ پیہم۔۔۔ آج لوگوں کے مسکرانے کو۔۔۔
اسی طرز کی دوسری غزل ہے
کوئی حاجت نہ تھی بتانے کی۔۔۔۔ تھی ضرورت مجھے ستانے کی
مجھ کو عجلت نہیں تھی ملنے کی۔۔۔ اس کو عجلت تھی چھوڑ جانے کی
پھونکنے پر تلے تھے لوگ مگر۔۔۔ فکر مجھ کو نہ تھی ٹھکانے کی
گر نہ جاتا جو میں وہیں کٹ کر۔۔۔۔ داد دیتا ترے نشانے کی
تیرے گھر کی تو راکھ بھی نہ بچی۔۔۔ اور تعریف کر زمانے کی
میں بھی انجان بن کے پوچھوں گا۔۔۔ تم بھی کوشش کرو چھپانے کی
جس کو میں بھول بھی نہیں سکتا۔۔۔ تم محبت ہو اس زمانے کی
بھول جاتا ہوں میں نصیحت کو۔۔۔ پھر نصیحت کرو بھلانے کی
نام تیرا بھی جس میں تھا شاہد۔۔۔ آخری سطر تھی فسانے کی
 

الف عین

لائبریرین
یہ دو غزلہ تو نہیں، دو الگ الگ غزلیں ہیں جن کے قوافی ایک ہو گئے ہیں، ردیفیں تو الگ ہیں!!
فی الحال تو غلطی نظر نہیں آ رہی ہے۔ بعد میں دیکھتا ہوں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ پہلی کوشش ہے جس میں پہلی نظر میں غلطی نہیں ملی۔۔۔ وجہ شاید یہ ہو کہ بہت سوچ سمجھ کر اور ایک استاد شاعر مولانا انجم فوقی بدایونی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ غزلیات لکھی گئی ہیں۔۔۔ انہوں نے لکھا تھا:
پھونک دو میرے آشیانے کو۔۔۔۔ روشنی تو ملے زمانے کو
لوگ سب کی خوشی سمجھتے ہیں۔۔۔ چند کلیوں کے مسکرانے کو
ہم تو بھٹکے قدم قدم لیکن۔۔۔ راستہ دے دیا زمانے کو
(موصوف آج کہاں ہیں ، یہ معلوم نہیں لیکن وہ علم عروض کی ایک معرکۃ الآرا کتاب فکر و فن کے مصنف ہیں جس کی ایک نقل میرے پاس محفوظ ہے جو شاید اب نایاب ہو چکی ہو۔۔۔یہ کتاب مجھے ایک بزرگ مصنف نے عنایت کی ہے جن کی کم ہی کتب شائع ہوسکیں لیکن وہ تاریخ کے بہترین جاننے والوں میں سے ہیں، ایک بار میں نے انہیں اپنی کتاب دی اور اس پر رائے لکھنے کو کہا۔ انہوں نے رائے لکھ کر دی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا آپ کے اشعار میں روانی ہے۔۔۔ مجھے روانی کی منطق سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ میں صرف لکھتا تھا، جانتا کچھ نہ تھا۔ میں نے پوچھا روانی ہے؟؟ کہا غضب کی روانی ہے۔ آپ لکھئے۔ اتفاقآ کل ان سے ملاقات ہو گئی، میں نے کہا میری وہ کتاب ہی بے کار تھی جس پر آپ سے رائے لکھوائی تھی۔ کہنے لگے آپ علم عروض کے چکر میں مت پڑئیے، جتنا اچھا لکھ سکتے ہیں لکھئے اور اسے شائع کروائیے۔۔۔ علما مدارس سے فارغ التحصیل نکلتے ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اساس س سے لکھنا ہے یا ث سے۔ میں مسکرا کر رہ گیا۔۔۔ جب تنقید مجھے سدھار سکتی ہے توسدھر جانا مجھے زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے، ان کے احسانات اور بھی ہیں لیکن اس کا تذکرہ پھر کبھی )
 
Top