تین دن دنیا ندھیرے میں ڈوب جائے گی ؟

طالوت

محفلین
2012ء میں قیامت
تحریر: نجیم شاہ

ایک طویل عرصہ سے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سال 2012ءکے آخری مہینہ میں دنیا تباہ ہو جائے گی۔ یہ عقیدہ ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں کا ہے ۔ دنیا میں آباد ہر مذہب اور قوم کی اپنی ایک الگ تہذیب و ثقافت ہے جبکہ کئی قدیم تہذیبیں بھی اس دنیا کی بنیاد ہیں۔ایسی ہی ایک تہذیب جو مایا کہلاتی ہے، لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک کی سب سے قدیم تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔یہ تہذیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے بہت پہلے اس دنیا میں زندہ تھی۔ زیادہ مضبوط شواہد چھ سو قبل مسیح کو مایا تہذیب کے عروج کا نقطہ آغاز بتاتے ہیں جبکہ اس تہذیب کا دوسرا دور تیسری سے دسویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ جنوبی میکسیکو، گوئٹے مالا، ایل سلواڈور سے لے کر بے لائیز اور مغربی ہونڈراس تک کم و بیش ہزاروں کلو میٹر وسیع و عریض خطے پر اس عظیم الشان تہذیب نے جنم لیا۔میکسیکو ایک ایسی پراسرار جگہ ہے جہاں کئی ایسے راز ہیں جو ابھی تک دنیا پر کھل رہے ہیں جبکہ اسکے کچھ باشندے اب بھی قدیم مایا زبانیں بول سکتے ہیں۔
مایا تہذیب زبان، حساب اور ستاروں کے علم میں بہت ترقی یافتہ تھی۔ ان کی تہذیبی اور ثقافتی برتری نے ارد گرد کی دیگر اقوام کو بھی متاثر کیا۔اس تہذیب کے باشندوں نے امریکا میں لکھائی کی ابتداءکی جبکہ اِن کے لکھنے کا طریقہ قدیم مصری زبان سے ملتا جلتا ہے۔ یہ لوگ الفاظ اور تصاویر کو ملا کر لکھی جانے والی زبان کیلئے جانوروں کے بالوں یا پَروں سے بنا ہوا برش استعمال کرتے تھے۔ وہ درختوں کی چھالوں پر لکھتے تھے، جس کی چند کتابیں آج بھی محفوظ ہیں۔ مایا تہذیب کے کلینڈروں میں اٹھارہ مہینے اور ہر مہینے میں بیس دن ہوتے تھے یعنی سال میں تین سو ساٹھ دن۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بنائے ہوئے کلینڈر ہمارے آج کے عیسوی کلینڈرز سے بہت زیادہ درست ہیں۔ ان کا حساب اتنا درست ہے کہ فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ سورج کب نصف النہار پر ہوگا، سال کے کن حصوں میں دن رات برابر ہونگے، ہمارے نظام شمسی میں دیگر سیارگان کے گزرنے کے راستے اور اوقات کیا ہونگے، زہرہ اور مریخ کے مدان کون کون سے ہیں وغیرہ۔
اس تہذیب کا اپنا حساب کتاب کرنے کا نظام بھی تھا۔ اس نظام میں فقط تین نشانات استعمال ہوتے تھے جس میں لکیر، نقطہ اور سیپ کا نشان شامل ہے۔ اس میں لکیر کے معنی پانچ، سیپ کے معنی صفر اور نقطہ کے معنی ایک ہیں۔ ان تین نشانوں کے ذریعے بغیر پڑھے لکھے لوگ بھی بڑے سے بڑا حساب کتاب کر لیتے تھے۔ مایا تہذیب بظاہر صدیوں پہلے ہی زوال پذیر ہو چکی ہے مگر مایا قوم کی اولادیں آج بھی میسو امریکن علاقوں میں موجود ہیں۔ ان میں بہت سارے لوگ اب بھی مایا مذہب کی بہت سی رسومات پر عمل کرتے ہیں مگر ان کے پیچیدہ رسم الخط کو وہ بھول چکے ہیں۔ اس تہذیب کی سب سے قابل ذکر ایجاد ان کا کلینڈر مانا جاتا ہے۔ مایا کلینڈر کے مطابق 21دسمبر 2012ءکو پانچ ہزار ایک سو چھبیس برس پر مشتمل ایک دور کا خاتمہ ہو رہا ہے لہٰذا اس دن ایک بڑی قدرتی آفت کے ذریعے قیامت برپا ہو جائے گی جبکہ مایا برادری پر تحقیق کرنیوالے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دنیا پانچ عہدوں میں بٹی ہوئی ہے اور مایا لوگ چوتھے عہد میں جی رہے ہیں۔ ان کے کلینڈر کے مطابق چوتھے عہد کو ہمارے آج کے عیسوی کلینڈر کے حساب سے اکیس دسمبر میں ختم ہو جانا ہے اور پھر اس کے بعد دنیا کا آخری اور پانچواں عہد شروع ہو جائیگا۔
ماضی میں ایک عیسائی مبلغ کی طرف سے سن دو ہزارہ گیارہ میں دنیا کے خاتمے کی پیشگوئی بھی غلط ثابت ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال اکیس اکتوبر کا دن خیریت اور سکون سے گزر گیا حالانکہ امریکا سمیت کئی ملکوں میں بہت سے لوگ اس فکر میں تھے کہ اس روز دنیا ختم ہو سکتی ہے کیونکہ ایک عیسائی مبلغ ہیرالڈ کیمپنگ نے پیش گوئی کی تھی کہ اس دن قیامت آ جائے گی۔اس عیسائی مبلغ نے پہلے اکیس مئی کو قیامت آنے کی پیش گوئی کی تھی مگر جب مئی کا وہ دن خیریت سے گزر گیا تو پھر اُس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان سے جمع تفریق میں تھوڑی بہت گڑ بڑ ہو گئی تھی جسے اب ٹھیک کرلیا گیا ہے لہٰذا اب اکیس اکتوبر دو ہزار گیارہ کو قیامت ہوگی۔ کائنات کے خاتمے کے حوالے سے پیش گوئی کرنے والے وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ مغربی دنیا میں ان سے پہلے بھی کئی لوگ قیامت کی ناکام پیش گوئیاں کر چکے ہیں حتیٰ کہ کئی بار سائنسدان بھی مختلف موقعوں پر خلاءمیں بھٹکتے ہوئے کئی بڑے اجرام فلکی کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں قیامت برپا ہونے کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں مگر ہر بار کرہ ارض ایسے کسی ممکنہ حادثے سے بچ جاتا رہا ہے۔
میرے خیال میں یہ مایا تہذیب یا قوم کا عقیدہ نہیں بلکہ ان کے کیلنڈر کو جو انھوں نے دسمبر 2012 پر ختم کیا ، یار لوگوں نے اخذ کیا ہے۔
اور
جی آپ نے درست کہا ، اس عیسائی مبلغ کی عادت ہے چولیں مارنے کی اور باقی چولیں ان کے حصے کی ہیں جو اس طرح کی خبریں اڑاتے ہیں اور ہمارے اردو اخبارات انھیں جگہ دے کر عوام کے وقت اور فکری صلاحیتوں کو ضائع کرتے ہیں۔ اور اجرام فلکی کے ٹکرانے کا معاملہ بھی عموما ایسی ہی صحافت کا شاخسانہ ہوتا ہے۔
 
Top