تیری تصویر جو دل میں نہ اتاری جاتی

ایم اے راجا

محفلین
ایک تازہ غزل عرض ہے۔

تیری تصویر جو دل میں نہ اتاری جاتی
(جو نہ تصویر تری دل میں اتاری جاتی)

تنہا مجھ سے نہ شبِ ہجر گذاری جاتی
(مجھ سے تنہا نہ شبِ ہجر گذاری جاتی)

ایک اک کر کے چلے جاتے ہیں دوست و دشمن
دیکھیئے کب مری باری ہے پکاری جاتی

(دیکھو کب میری بھی باری ہے پکاری جاتی)
مجھ کو درپیش ہے اک عمر سے صحرا کا سفر
کیسے پھر توڑی سرابوں سے یہ یاری جاتی

(تو ڑی پھر کیسے سرابوں سے یہ یاری جاتی)
تھوڑی کوشش کبھی کرتے جو وفا کی تم بھی
یوں نہ بیکار محبت یہ ہماری جاتی

عشق ہوتا نہ اگر شعر و سخن سے راجا
رات آنکھوں میں کبھی ایسے نہ ساری جاتی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
۔تشریف لے آیا راجا!!

تیری تصویر جو دل میں نہ اتاری جاتی۔
۔مجھ سے تنہا نہ شبِ ہجر گذاری جاتی
بہتر ہے

ایک اک کر کے چلے جاتے ہیں دوست و دشمن
دیکھیئے کب مری باری ہے پکاری جاتی
دوسرا مصرع یہ بہتر ہے جسے کاپی کیا ہے۔ لیکن پہلا مصرع وزن سے خارج ہے، دوست میں س اور ت میں سے ایک ہی حرف تقطیع میں آ سکتا ہے، دونوں نہیں۔ بدلنے کی کوشش کرو

مجھ کو درپیش ہے اک عمر سے صحرا کا سفر
کیسے پھر توڑی سرابوں سے یہ یاری جاتی
(تو ڑی پھر کیسے سرابوں سے یہ یاری جاتی)
÷÷دونوں متبادل مصرعوں میں ’یہ یاری‘ میں ی کی تکرار بری لگتی ہے۔ اس کو بھی بدلو۔

تھوڑی کوشش کبھی کرتے جو وفا کی تم بھی
یوں نہ بیکار محبت یہ ہماری جاتی
÷÷درست

عشق ہوتا نہ اگر شعر و سخن سے راجا
رات آنکھوں میں کبھی ایسے نہ ساری جاتی
÷دوسرا مصرع مزید روانی چاہتا ہے۔ جیسے
اس طرح آنکھوں میں یہ رات نہ ساری جاتی
 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
ایک اک کر کے چلے جاتے ہیں دوست و دشمن
دیکھیئے کب مری باری ہے پکاری جاتی
دوسرا مصرع یہ بہتر ہے جسئ کای کیا ہے۔ لیکن پہلا مصرع وزن سے خارج ہے، دوست میں س اور ت میں سے ایک ہی حرف تقطیع میں آ سکتا ہے، دونوں نہیں۔ بدلنے کی کوشش کرو
بہت بجا فرمایا انکل آپ نے۔
گر چہ یہ مصرع وزن میں درست ہے (کہ دوست کی تائے فارسی تقطیع میں شمار نہیں ہوگی) اور تقطیع میں دو + سو + دش + من آئے گا۔ لیکن یہ پڑھنے میں کچھ عجیب لگ رہا ہے، اسے بدلنا ہی مناسب رہے گا۔
ایک صورت جو مجھے مناسب لگی :
ایک اِک کر کے چلے جاتے ہیں سب دشمن و دوست
provided کہ انکل اسے درست کہیں اور راجا بھائی کو بھی پسند آئے :)
 
آخری تدوین:

ایم اے راجا

محفلین
تیری تصویر جو دل میں نہ اتاری جاتی
مجھ سے تنہا نہ شبِ ہجر گذاری جاتی

ایک اک کر کے چلے جاتے ہیں دشمن اور دوست
دیکھیئے کب مری باری ہے پکاری جاتی

مجھ کو درپیش ہے اک عمر سے صحرا کا سفر
تو ڑی پھر کیسے سرابوں سے یہ یاری جاتی

تھوڑی کوشش کبھی کرتے جو وفا کی تم بھی
یوں نہ بیکار محبت یہ ہماری جاتی

عشق ہوتا نہ اگر شعر و سخن سے راجا
اس طرح آنکھوں میں یہ رات نہ ساری جاتی


( سر الف عین صاحب دوست و دشمن کی دوسو دشمن تقطیع نہیں ہو گی مطلب ت گرا کر )
( یہ یاری کا سوچتا ہوں کچھ)


اور سر ایک بات اور کیا ہم کھنگالا کو فعولن باندھ سکتے ہیں ؟
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مصرع کے آخر میں تو بلا کراہت دوست کی ت گرائی جا سکتی ہے، لیکن درمیان میں؟ اس کی سند ڈھونڈھنا پڑے گی۔
ایک اک کر کے چلے جاتے ہیں دشمن اور دوست
دیکھیئے کب مری باری ہے پکاری جاتی
اب درست ہے، لیکن دو لخت ہونے کا احساس ہوتا ہے مفہوم میں، پہلے بھی تھا، لیکن پہلے نظر دوست و دشمن پر پڑی تھی!!
کھنگالا بہر حال فعولن ہے۔ اس نا نون غنہ ہے، تقطیع میں نہیں آتا، اسی طرح سنبھالا بھی محض ’سبالا‘ تقطیع ہو گا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
مصرع کے آخر میں تو بلا کراہت دوست کی ت گرائی جا سکتی ہے، لیکن درمیان میں؟ اس کی سند ڈھونڈھنا پڑے گی۔
ایک اک کر کے چلے جاتے ہیں دشمن اور دوست
دیکھیئے کب مری باری ہے پکاری جاتی
اب درست ہے، لیکن دو لخت ہونے کا احساس ہوتا ہے مفہوم میں، پہلے بھی تھا، لیکن پہلے نظر دوست و دشمن پر پڑی تھی!!
کھنگالا بہر حال فعولن ہے۔ اس نا نون غنہ ہے، تقطیع میں نہیں آتا، اسی طرح سنبھالا بھی محض ’سبالا‘ تقطیع ہو گا۔
سر ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے،
جوق در جوق چلے جاتے ہیں دشمن اور دوست
دیکھیئے کب مری باری ہے پکاری جاتی
( سر اس میں موت کا ذکر ہے کہ سب جا رہے ہیں کیا پتہ کب میری بھی باری آ جائے، پھر دو لخت کیسے ہوا )
 
آخری تدوین:

ایم اے راجا

محفلین
استاد محترم الف عین صاحب اگر اس شعر کو یوں کہا جائے تو ؟
مجھ کو درپیش ہے اک عمر سے صحرا کا سفر
رکھی پھر کیسے سرابوں سے نہ یاری جاتی
 

الف عین

لائبریرین
سر ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے،
جوق در جوق چلے جاتے ہیں دشمن اور دوست
دیکھیئے کب مری باری ہے پکاری جاتی
( سر اس میں موت کا ذکر ہے کہ سب جا رہے ہیں کیا پتہ کب میری بھی باری آ جائے، پھر دو لخت کیسے ہوا )
درست ہے یہ شعر۔
صحرا والا شعر بھی درست کہا جا سکتا ہے لیکن روانی نہیں ہے یاری والے مصرع میں
 
Top