تکنیکی بے روز گاری!

arifkarim

معطل
میں اکثر مختلف فارمز و بلاگز پر عام لوگوں کا رونا دیکھتا آیا جب وہ غربت، لاچاری و بے روزگاری کے بارہ میں درد بھرے جملے لکھتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان “مسائل“ کی وجہ سیاست دانوں یا کرپٹ لیڈران پر تھوپ کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ معاملہ بالکل سادہ ہے۔ آئیے چند جملوں میں ان تمام مسائل کی جڑ تک پہنچتے ہیں:
1۔ ہمیں اول دن سے معاشرے نے سکھایا ہے کہ “غریب“ آدمی کیلئے آمدنی کا واحد ذریعہ اسکا کام ہے۔ یعنی کہ اسکی جاب، نوکری، ملازمت وغیرہ۔ یہ سچ ہے کہ لاٹری اور جوئے جیسے راستے بھی بفضل شیطان موجود ہیں۔ پر ان پر قسمت آزمائی کیلئے بھی پہلے “کچھ“ ہونا لازمی ہے!
2۔ یہاں تک تو لاجک کی بدولت ہمیں قبول ہے کہ اگر کام ہو تو اجرت میں زرتبادلہ یعنی روپیہ، پیسا بھی ہونا چاہئے۔ مگر یہ سسٹم اس چیز کو اپنے دائرہ عقل میں نہیں لاتا کہ بے روز گار کیلئے کیا اختیارات ہیں؟ وہ کہاں سے کھائے گا، رہے گا، اپنے اخراجات کہاں سے پورے کرے گا؟ مغرب نے اسکا حل یہ نکالا کہ اگر کام کرتا نوجوان بے روز گار ہوتا ہے تو اسکو ایک عرصہ تک کلیم پر “جینے“ کیلئے پیسے دے دئے جائیں، اور اگر نیا نیا پڑھا لکھا نوجوان بے روز گار ہے تو کمرشل بینک سے سود پر قرض لیکر جاب نہ ملنے تک گزارہ کر لے! ;)
3۔ یہاں تک بھی ہماری لاجک راضی ہے اور سسٹم سے خوش ہیں۔ لیکن جب یہ مشینیں اور کمپیوٹرز انسانوں کو زیادہ سے زیادہ فیلڈز میں ریپلیس کرنا شروع کریں گے، پھر آپ کہاں جائیں گے؟ جب ان میکینیکل مشینوں کی بدولت ہماری صنعتی پروڈکشن تو بڑھ جائے گی، پر ان کو کنٹرول کرنے والے انسانوں کی ضرورت نہ رہے گی، تب کیا ہوگا؟ کیا انسانوں کیساتھ بھی وہی ہوگا جیسا کہ گدھوں، گھوڑوں اور بھینسوں کیساتھ پچھلی صدی میں ہوا؟ جب انکی جگہ جدید مشینیں لے سکتی ہیں تو آٹومیشن کی فیلڈز میں یہ انسانوں کی جگہ کیوں نہیں لے سکتی؟ اثبوت کیلئے دیکھئے: تکنیکی بے روز گاری اور حکومت کا فراڈ:
 
Top