تو نور تو میں دھنک ہوا ہوں ۔۔۔

خود میں جوتجھی کو پوجتا ہوں۔
تیرا ہی تو حرفِ مدعا ہوں۔
٭٭٭
تو نور تو میں دھنک ہوا ہوں۔
کیا میں کوئی تجھ سے دوسرا ہوں۔
٭٭٭
کثرت کے سراب میں گھرا ہوں۔
تو جانتا ہے میں جانتا ہوں۔
٭٭٭
اَبعاد ترے ہیں سب تو مالک۔
میں وقت میں کیوں بھٹک رہا ہوں۔
٭٭٭
خواہش کے طلسم میں نہ الجھا۔
میں تجھ سے تجھی کو مانگتا ہوں۔
٭٭٭
سب علم سرابِ آگہی ہے۔
تجھ کو میں کہاں سمجھ سکا ہوں۔
٭٭٭
تجھ کو جو سمجھ گیا تھا اس میں۔
تکمیل کی حد کو پا گیا ہوں۔
٭٭٭
مالک مرے جذب کا بھرم رکھ۔
میں تیری تلاش میں چلا ہوں۔
٭٭٭
خوشبو ہوں کہا تلک چلوں گا۔
آخر کو نوشتۂِ ہوا ہوں۔
٭٭٭
تو کل ہے میں ایک جزو تیرا۔
تیری ہی تو ایک انتہا ہوں۔
٭٭٭
یہ آن کہ تیرے دھیان کی ہے۔
اس آن تو میں بھی ما ورا ہوں۔
٭٭٭
تو جاگتا ہے میں تیرا شاعر۔
تیرے لئے خواب دیکھتا ہوں۔
 
شدید خواہش کے معنوں میں کہا ہے۔ لگن، کشش۔
شوق بھی ہو سکتا ہے مگر جذب ذرا زیادہ شدید لگ رہا تھا۔ رائے سے نوازیئے۔
 
Top