ٹائپنگ مکمل توزک اردو

مقدس

لائبریرین
۱۔

حصہ نظم

مثنویات

از خواجہ الطاف حسیں حالی

حب وطن

اے سپہر بریں کے سیارو
اے فضاے زمیں کے گلزارو

اے پہاڑوں کی دلفریب فضا
اے لب جو کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا

اے عنادل کے نغمہ سحری
اے شب ماہتاب تاروں بھری

اے نسیم بہار کے جھوکو
دہر ناپائدار کے دھوکو

تم ہر اک حال میں ہو یوں تو عزیز
تھے وطن میں مگر کچھ اور ہی چیز

جب وطن میں ہمارا تھا رمنا
تم سے دل باغ باغ تھا اپنا

تم میری دل لگی کے ساماں تھے
تم مرے درد دل کے درماں تھے

تم سے کٹتا تھا رنج تنہائی
تم سے پاتا تھا دل شکیبائی

آن اک اک تمھاری بھاتی تھی
جو ادا تھی وہ جی لبھاتی تھی

کرتے تھے جب تم اپنی غمخواری
دھوئی جاتی تھیں کلفتیں ساری

۔۲

جب ہوا کھانے باغ جاتے تھے
ہو کے خوش حال۔ گھر میں آتے تھے

بیٹھ جاتے تھے جب کبھی لب آب
دھوکے اٹھتے تھے دل کے داغ شتاب

کوہ و صحرا و آسمان و زمیں
سب مری دل لگی کی شکلیں تھیں

پر چھٹا جب سے اپنا ملک و دیار
جی ہوا تم سے خود بخود بیزار

نہ گلوں کی ادا خوش آتی ہے
نہ صدا بلبلوں کی بھاتی ہے

سیر گلشن ہے جی کا اک جنجال
شب مہتاب جان کو ہے وبال

کوہ و صحرا سے تا لب دریا
جس طرف جائیں جی نہیں لگتا

کیا ہوے وہ دن اور وہ راتیں
تم میں اگلی سی اب نہیں باتیں

ہم ہی غربت میں ہو گئے کچھ اور
یا تمھارے ہی کچھ بدل گئے طور

گو وہی ہم ہیں اور وہی دنیا
پر نہیں ہم کو لطف دنیا کا

اے وطن! اے مرے بہشت بریں!
کیا ہوئے تیرے آسمان و زمیں؟

رات اور دن کا وہ سمان نہ رہا
وہ زمیں اور وہ آسماں نہ رہا

تیری دوری سے مورد آلام
تیرے چھٹنے سے چھت گیا آرام

کاٹے کھاتا ہے باغ بن تیرے
گل ہیں نظروں میں داغ بن تیرے

مٹ گیا نقش کامرانی کا
تجھ سے تھا لطف زندگانی کا

جو کہ رہتے ہیں تجھ سے دور سدا
ان کو کیا ہو گا زندگی کا مزا

ہو گیا یاں تو دو ہی دن میں یہ حال
تجھ بن ایک ایک پل ہے اک اک سال

سچ بتا۔ تو سبھی کو بھاتا ہے
یا کہ مجھ سے ہی تیرا ناتا ہے

میں ہی کرتا ہوں تجھ پہ جان نثار
یا کہ سب تجھ ہی ہیں فدا اے یار!
 

مقدس

لائبریرین
۳۔

کیا زمانے کو تو عزیز نہیں
اے وطن تو تو ایسی چیز نہیں

جن و انسان کی حیات ہے تو
مرغ و ماہی کی کائنات ہے تو

ہے نباتات کو نمو تجھ سے
روکھ تجھ بن ہرے نہیں ہوتے

سب کو ہوتا ہے تجھ سے نشو ونما
سب کو بھاتی ہے تیری آب و ہوا

تیری اک مشت خال کے بدلے
لوں نہ ہر گز۔ اگر بہشت ملے

جان جب تک نہ ہو بدن سے جدا
کوئی دشمن نہ ہو وطن سے جدا

اے دل! اے بندہ وطن! ہشیار!
خواب غفلت سے ہو ذرا بیدار

او نشاط خودی کے متوالے!
گھر کی چوکھٹ کے چومنے والے

نام ہے کیا اسی کا حب وطن!
جس کی تجھ کو لگی ہوئی ہے لگن

کبھی بچوں کا خیال آتا ہے
کبھی یاروں کا غم ستاتا ہے

یاد آتا ہے اپنا شہر کبھی
لو کبھی اہل شہر کی لگی

نقش ہیں دل پہ کوچہ و بازار
پھرتے آنکھوں میں ہیں در و دیوار

کیا وطن کی یہی محبت ہے
یہ بھی الفت میں کوئِ الفت ہے

اس میں انساں سے کم نہیں ہیں درند
اس سے خالی نہیں چرند و پرند

ٹکڑے ہوتے ہیں سنگ غربت میں
سوکھ جاتے ہیں روکھ فرقت میں

جا کے کابل سے یاں بہی و انار
ہو نہیں سکتے بارور زنہار

مچھلی جب چھوٹتی ہے پانی سے
ہاتھ دھوتی ہے زندگانی سے

آگ سے جب ہوا سمندر دور
اس کو جینے کا پھر نہیں مقدور

۴۔

گھوڑے جب کھیت سے بچھڑتے ہیں
جان کے ان کی لالے پڑتے ہیں

گائے یا بھینس اونٹ یا بکری
اپنے اپنےٹھکانے خوش ہیں سبھی

کہئے حب وطنی اسی کو اگر
ہم سے حیوان نہیں ہیں کمتر

بیٹھے بے فکر کیا ہو۔ ہموطنو!
اٹھو۔ اہل وطن کے دوست بنو

مرد ہو۔ تو کسی کے کام آوَ
ورنہ کھاوَ۔ پیو ۔ چلے جاوَ

جب کوئی زندگانی کا لطف اٹھاوَ
دل کو دکھ بھائیوں کے یاد دلاوَ

پہنو جب کوئی عمدہ تم پوشاک
کرو دامن سے تا گریباں چاک

کھانا کھاوَ۔ تو جی میں تم شرماوَ
ٹھنڈا پانی پیو۔ تو اشک بہاوَ

کتنے بھائی تمھارے ہیں نادار
زندگی سے ہے جن کا دل بیزار

نوکروں کی تمھارے جو ہے غذا
ان کو وہ خواب میں نہیں ملتا

جس پہ تم جوتیوں سے پھرتے ہو
واں میسر نہیں وہ اوڑھنے کو

کھاوَ۔ تو پہلے لو خبر ان کی
جن پہ بپتا ہے نیستی کی پڑی

پہنو۔ تو پہلے بھائیوں کو پنھاوَ
کہ ہے اترن تمھاری جن کا بناو
َ
ایک ڈالی کے سب ہیں برگ و ثمر
ہے کوئی ان میں خشک کوئی تر

سب کو ہَ ایک اصل سے پیوند
کوئی آرزدہ ہے کوئی خرسند

مقبلو! مدبروں کو یاد کرو
خوشدلو! غمزدورں کو شاد کرو

جاگنے والو! غافلوں کو جگاوَ
تیرنے والو! ڈوبتوں کو تراوَ

ہیں ملے تم کو چشم و گوش اگر
لو جو لی جاے کور و کر کی خبر

(حالی)
 

مقدس

لائبریرین
۵۔

برکھا رت

گرمی کی تپش بجھانے والی
سری کا پیام لانے والی

قدرت کے عجائبات کی کان
عارف کے لیے کتاب عرفان

وہ شاخ و درخت کی جوانی
وہ مور و ملخ کی زندگانی

وہ سارے برف کی جان برسات
وہ کون؟ خدا کی شان برسات

آئی ہے بہت دعاوَں کے بعد
اور سینکڑوں التجاوَں کے بعد

برسات کا بج رہا ہے ڈنکا
اک شور ہے آسماں پے برپا

ہے ابر کی فوج آگے آگے
اور پیچھے ہیں دل کے دل ہوا کے

ہیں رنگ برنگ کے رسالے
گورے ہیں کہیں کہیں ہیں کالے

ہے چرخ پہ چھاوئنی سی چھاتی
ایک آتی ہے۔ فوج ایک جاتی

جاتے ہیں مہم پہ کوئی جانے
ہمراہ ہیں لاکھوں توپخانے

توپوں کی ہے جبکہ باڑ چلتی
چھاتی ہے زمین کی دہلتی

مینہ کا ہے زمین پر دڑیڑا
گرمی کا ڈبو دیا بیڑا

بجلی ہے کبھی جو کوند جاتی
آنکھوں میں ہے روشنی سی آتی

گھنگھور گھٹائیں چھا رہی ہیں
جنت کی ہوائیں آ رہی ہیں

کوسوں ہے جدھر نگاہ جاتی
قدرت ہے نظر خدا کی آتی

سورج نے نقاب لی ہے منہ پر
اور دھوپ نے تہ کیا ہے بستر

باغوں نے کیا ہے غسل صحت
کھیتوں کو ملا ہے سبز خلعت

۶۔

سبزہ سے ہے کوہ دشت معمور
ہے چار طرف برسا رہا نور

بٹیا سے ہے نہ سڑک نمودار
اٹکل سے ہیں راہ چلتے ہموار

ہے سنگ و شجر کی ایک وردی
عالم ہے تمام لاجوردی

پھولوں سے پٹے ہوے ہیں کہسار
دولھا سے بنے ہوئے ہیں اشجار

پانی سے بھرے ہوئے ہیں جل تھل
ہے گونج رہا تمام جنگل

کرتے ہیں پپیہے "پیہو پیہو"
اور مور جھنگارتے ہیں ہر سو

کوئل کی ہے کوک جی لبھاتی
گویا کہ ہے دل میں بیٹھی جاتی

مینڈک ہیں کو بولنے پہ آتے
سنسار کو سر پہ ہیں اٹھاتے

سب خوان کرم سے حق کے ہیں سیر
پانی ہیں مگر۔ کچھار میں شیر

زردار ہیں اپنے مال میں مست
قلانچ ہیں اپنی کھال میں مست

ابر آیا ہے گھر کے آسماں پر
کلمے ہیں خوشی کے ہر زباں پر
(حالی)


از مثنوی سحر البیان مصفہ میر حسن دہلوی

میر غلام حسن نام۔ حسن تخلص شرفا سے دہلی سے تھے۔ فن سخن میں میر درد اور میرزا سودا سے مشورہ کرتے تھے۔ ایام شباب میں دلی سے فیض آباد آئے۔ پھر لکھنو۔ وہیں یہ مثنوی لکھی۔ جس سے بہتر اردو میں کوئی مثنوی نہیں ہوئی۔ بیان سادہ پر تاثیر اور محاورہ کی خوبیوں سے معمور۔ جس معاملہ کو بیان کیا ہے اس کی تصویر کھینچ دی ہے۔

کروں پہلے توحید یزداں رقم
جھکا جس کے سجدہ کو اول قلم

سر لوح پر رکھ بیاض جبیں
کہا دوسرا کوئی تجھ سا نہیں

قلم پھر شہادت کی انگلی اٹھا
ہوا حرف زن یوں کہ رب العلا
 

مقدس

لائبریرین
۷۔

نہیں کوئی تیرا۔ نہ ہو گا شریک
تری ذات ہے وحدہ لا شریک

پرستش کے قابل ہے تو ۔ اے کریم!
کہ ہے ذات تیری غفور الرحیم

رہ حمد میں تیری عز و جل!
تجھے سجدے کرتا چلوں سر کے بل

وہ الحق۔ کہ ایسا ہی معبود ہے
قلم جو لکھے۔ اس سے ازود ہے

تر و تازہ ہے اس سے گلزار خلق
وہ ابر کرم ہے ہوا دار خلق

اگرچہ وہ بے فکر عیور ہے
ولے پرورش سب کی منظور ہے

کسی سے بر آوے نہ کچھ کام جاں
جو وہ مہرباں ہو۔ تو کل میرباں

نہاں سب میں اور سب میں ہے آشکار
یہ سب اس کے عالم ہیں ہژدہ ہزار

اسی سے ہے کعبہ۔ اسی سے کنشت
اسی کا ہے دوزخ۔ اسی کا بہشت

وہ ہے مالک الملک دنیا و دیں
ہیں قبضہ میں اس کے زمان و زمیں

نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے
وہ کچھ شے نہیں۔ پر ہر اک شے میں ہے

نہ گوہر میں ہے وہ۔ نہ ہے سنگ میں
وہ لیکن چمکتا ہے ہر رنگ میں

تامل سے کیجے اگر غور کچھ
تو سب کچھ وہی ہے۔ نہیں اور کچھ

دیا عقل و ادراک اس نے ہمیں
کیا خاک سے پاک اس نے ہمیں

وصف سخن

پلا مجھ کو ساقی شراب سخن
کہ ہو جس سے مفتوھ باب سخن

سخن کی مجھے فکر دن رات ہے
سخن ہی تو ہے۔ اور کیا بات ہے

سخن کے طلبگار ہیں عقلمند
سخن سے ہے نام نکویاں بلنا

سخن کی کریں قدر مردان کار
سخن نام ان کا رکھے برقرار

۸۔

سخن سے وہی شخص رکھتے ہیں کام
جنہیں چاہیے ساتھ نیکی کے کام

سخن سے سلف کی بھلائی رہی
زبان قلم سے بڑائی رہی

کہاں رستم و گیو و افراسیاب
سخن سے رہی یاد یہ نقل خواب

سخن کا صلہ یار دیتے رہے
جواہر سدا مول لیتے رہے

سخن کا سدا گرم بازار ہے
سخن سنج اس کا خریدار ہے

رہے جب تلک داستان سخن
الہی! رہیں قدر دان سخن

سواری کی ریاری

پڑی جب گرہ بارھویں سال کی
کھلی گل جھڑی غم کے جنجال کی

کہا شہ نے بلوا نقیبوں کو شام
کہ ہوں صبح حاضر سبھی خاص و عام

سواری تکلف سے تیار ہو
مہیا کریں۔ جو کہ درکار ہو

کریں شہر کو مل کے آئینہ بند
سواری کا ہو لطف جس سے دو چند

رعیت کے خوش ہوں صغیر و کبیر
کہ نکلیگا کل شہر میں بے نظیر

یہ فرما۔ محل میں گئے بادشاہ
نقیبوں نے سن حکم۔ لی اپنی راہ

خوشی میں گئی جلد جو شب گزر
ہوئی سامنے سے نمایاں سحر

عجب شب تھی وہ جوں سحر رو سفید
عجب روز تھا مثل روز امید

کہا شاہ نے اپنے فرزند کو
کہ بابا! نہا دھو کے تیار ہو

ہوا جب کہ داخل وہ حمام میں
عرق آ گیا اس کے اندام میں

تن نازنیں نم ہوا اس کا کل
کہ جس طرح ڈوبے ہے شبنم میں گل

نہا دھو کے نکلا وہ گل اس طرح
کہ بدلی سے نکلے ہے مہ جس طرح

۹۔

غرض شاہزادہ کو نہلا دھلا
دیا خلعت خسروانہ پنھا

نکل گھر سے جس دم ہوا وہ سوار
کئے خوان گوہر کے اس پر نثار

زبس تھا سواری کا باہر ہجوم
ہوا جب کہ ڈنکا پڑی سب میں دھوم

برابر برابر کھڑے تھے سوار
ہزاروں ہی تھیں ہاتھیوں کی قطار

وہ ماہی مراتب۔ وہ تخت رواں
وہ نوبت۔ کہ دولھا کا جیسے سماں

وہ شہنائیوں کی صدا خوش نما
سہانی وہ نوبت کی دھیمی صدا

وہ آہستہ گھوڑوں پے نقارچی
قدم با قدم ۔ بالباس زری

سوار اور پیادے۔ صغیر و کبیر
جلو میں تمامی امیر و وزیر

ہوے حکم سے شاہ کے پھر سوار
چلے سب قرینہ سے باندھے قطار

سجے سجائے سبھی خاص و عام
لباس زری میں ملبس تمام

غرض اس طرح سے سواری چلی
کہے تو۔ کہ باد بہاری چلی

رعیت کی کثرت۔ ہجوم سپاہ
گزرتی تھی رک رک کے ہرجا نگاہ

لگا لنج سے تا ضعیف و نھیف
تماشے کو نکلے قضیع و شریف

نظر کس کو آیا وہ ماہ تمام
کیا اس نے جھک جھک کے اس کو سلام

غرض شہر سے باہر اک سمت کو
کوئی باغ تھا شہ کا اس میں سے ہو

سواری کو پہنچا گئی فوج ادھر
گئے اپنی منزل پہ شمس و قمر

پہر رات تک پہنے پوشاک وہ
رہا ساتھ سب کے طربناک وہ

قضارہ وہ شب تھی شب چاردہ
پڑا جلوہ لیتا تھا ہر طرف مہ

نظارہ سے تھا اس کے دل کو سرور
عجب عالم نور کا تھا ظہور
 

مقدس

لائبریرین
۱۰۔

عجب لطف تھا سیر مہتاب کا
کہے تو۔ کہ دریا تھا سیماب کا

کچھ آئی جو اس مہ کے جی میں ترنگ
کہا۔ آج کوٹھے پے بچھے پلنگ

ارادہ ہے کوٹھے پے آرام کا
کہ بھایا ہے عالم لب بام کا

زبس نیند میں تھا جو وہ ہو رہا
بچھونے پے آتے ہی بس سو رہا

جہاں تک کہ چوکی کے تھے باریدار
ہوا جو چلی سو گئے ایک بار

شہزادہ گم ہو گیا

کھلی آنکھ جو ایک کی واں کہیں
تو دیکھا کہ وہ شاہزادہ نہیں

نہ ہے وہ پلنگ اور نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے اس جا۔ نہ وہ اس کی بو

نہ بن آئی کچھ ان کو اس کے سوا
کہ کہیے یہ احوال اب شہ سے جا

ہوا گم وہ یوسف۔ پڑی یہ جو دھوم
کیا خادمان محل نے ہجوم

شب آدھی وہ جس طرح سوتے کٹے
رہی تھی جو باقی۔ سوروتے کٹی

عجب طرح کی شب تھی ہیہات وہ
قیامت کا دن تھا۔ نہ تھی رات وہ

سحر نے کیا جب گریبا ن چاک
اڑانے لگے مل کے سب سر پے خاک

اٹحا شہر میں سب طرف شور غل
کہ غائب ہوا اس چمن سے وہ گل

غم و درد سے دل جو سب کا بھرا
ہوا باغ سارا وہ ماتم سرا

وہ لبریز جو نہر تھی جا بجا
سو آنکھوں کو وہ رہ گئی ڈبڈبا

ہوا حال چشموں کا یاں تک تباہ
کیا رخت پانی سے اپنا سیاہ

کہاں وہ کنوئیں اور کدھر آبشار!
کوئی دل میں روئے کوئی دھاڑ مار

جہاں رقص کرتے تھے طاوَس باغ
لگے بولنے ان منڈیروں پے زاغ

۱۱۔

منقش جہاں تھے وہ رنگیں مکاں
ہوے سب وہ جوں دیدی خوں چکاں

گلوں کی طرح کھل رہے تھے جو دل
سو وہ سب خزاں سے ہوے مضمحل

نہ غنچہ۔ نہ گل۔ نے گلستاں رہا
فقط دل میں اک خار ہجراں رہا

وزیروں نے دیکھا جو احوال شاہ
کہ ہوتی ہے اب اس کی حالت تباہ

کہا گو جدائی گوارہ نہیں
ولیکن خدائی سے چارا نہیں

خدا کی خدائی تو معمور ہے
غرض اس کے نزدیک کیا دور ہے

یہ کہہ اور شہ کو بٹھا تخت پر
بہر نوع رہنے لگے یک دگر

لٹایا بہت باپ نے مال و زر
ولیکن نہ پائی کچھ اس کی خبر

شادی کا سماں

بڑی خواہشوں سے جب آیا وہ روز
چڑھا بیاہنے وہ مہ شب فروز

محل سے نکل جب ہوا وہ سوار
بجے شادیانے بہم ایک بار

کوئی دوڑ گھوڑوں کی لانے لگا
کوئی ہاتھیوں کو بٹھانے لگا

سپر اور قبضے کھڑکنے لگے
سواروں کے گھوڑے بھڑکنے لگے

ٹکورے وہ نوبت کے اور ان کے بعد
گرجنا وہ دھوسوں کا مانند رعد

دو رستہ جو روشن چراغاں ہوئے
پتنے خوشی سے غزل خواں ہوئے

براتی ادھر اور ادھر جوق جوق
وہ آواز سرنا و آواز بوق

وہ ابرک کی ٹٹی وہ مینے کے جھاڑ
کہے تو۔ کہ تنکے کی اوجھل پہاڑ

دو رستہ برابر برابر وہ تخت
کسی پر کنول اور کسی پر درخت

اناروں کا دغنا بھچپنے کا زور
ستاروں کا چھٹنا پٹاخوں کا شور

۱۲۔

وہ مہتاب کا چھوٹنا بار بار
ہر اک رنگ کی جس سے دونی بہار

جب آئی وہ دلہن کے گھر پر برات
کہوں واں کے عالم کی کیا تجھ سے بات!

بلوریں دھرے شمعداں بےشمار
چڑھیں بتیاں موم کی چار چار

نئے رنگ کے اور نئے طور کے
دھرے ہر طرف جھاڑ بلور کے

تماشائیوں کی یہ کثرت۔ کہ بس
ملے ایک سے ایک سب پیش و پس

وہ دولھا کا مسند پے جا بیٹھنا
برابر رفیقوں کا آ بیٹھنا

ہوا جب نکاح اور بٹے ہار پان
پلا سب کو شربت دئے پاندان

وہ سب ہو چکے جب کہ رسم ورسوم
سواری کی ہونے لگی پھر تو دھوم

سحر کا وہ ہونا۔ وہ ٹونے کا وقت
وہ دلین کی رخصت۔ وہ رونے کا وقت

وہ دلہن کا رو رو کے ہونا جدا
وہ ماں باپ کا اور رونا جدا

نکلتے وہ جانا محل سے جہیز
کہ جوں چشم سے اشک ہو موج خیز

یہاں موت ہے اہل عرفان کو
کہ جانا اک دن بوہیں جان کو

وہ جو درد مندی سے ہیں آشنا
وہ شادی کا لیتے ہیں غم سے مزا

شہزادہ کا ملنا

پڑا شہر میں یک بیک پھر یہ غل
کہ غائب ہوا تھا سو آیا وہ گل

خبر یہ ہوئی جب کہ ماں باپ کو
کیا گم انہوں نے وہیں آپ کو

لگے رونے آپس میں زار و نزار
کہا۔ ہاے! ہم کو نہیں اعتبار

کہا سب نے صاحب! چلو تو سہی
یہ بیٹا تمھارا وہی ہے! وہی!

مکرر سنا جب کہ بیٹے کا نانوں
چلا پھر تو روتا ہوا ننگے پانوں
 

مقدس

لائبریرین
۱۳۔

جو ہیں اپنے کعبہ کو دیکھا رواں
چلا سر کے بل بے نظیر جہاں

گرا پانوں پر کہہ کے یہ باپ کے
"خدا نے دکھائے قدم آپ کے"

سنی یہ صدا جو ہیں اس ماہ کی
تو اس غم رسیدہ نے اک آہ کی

ملے پھر تو آپس میں وہ خوب سے
کہ یوسف ملے جیسے یعقوب سے

ہوے شاد و خرم صغیر و کبیر
چلے لیکے نذریں امیر و وزیر

مئے عیش سے سب کو مستی ہوئی
نئے سر سے آباد بستی ہوئی

درآمد ہوا گھر میں سرو رواں
لئے ساتھ اپنے وہ غنچہ وہاں

کہ اتنے میں آگے نظر جو پڑی
تو دیکھا۔ کہ ہے راہ میں ماں کھڑی

بہی چشم سے آنسووَں کی قطار
گرا ماں کے پانوں پے بےاختیار

وہ ماں خوب بیٹے کے لگ کر گلے
یہ روئی۔کہ آنسو کے نالے چلے

بہو اور بیٹے کو چھاتی لگا
وہ دونوں کی دو ہاتھ سے لی بلا

ہوئی جان اور جی سے ان پر نثار
پیا پانی ان دونوں پر وار وار

وہ آنکھیں جو اندھی تھیں۔ روشن ہوئیں
زمینیں جو تھیں خشل۔ گلشن ہوئیں

زبس باپ ماں کو تھی سہرہ کی چاہ
دوبارہ انہوں نے کیا اس کا بیاہ

بنا ان کء تقدیر کا جو بناوَ
نکالے انہوں نے یہ سب دل کے چاوَ

ہوا شہر پر فضل پروردگار
وہی شاہزادہ۔ وہی شہریار

وہی بلبلیں اور وہی بوستاں
شگفتہ گل و مجمع دوستاں

(حسن دہلوی)

۱۴۔

از مثنوی گلزار نسیم

پنڈت دیا شنکر متخلص بہ نسیم سرکاری اودھ کی فوج میں منشی تھے اور فن سخن میں خواجہ آتش کے شاگرد۔ قصہ گل بکاوَلی جو پہلے نثر میں تھا۔ اس کو نظم کر کے گلزار نسیم نام رکھا۔ تشبیہ و استعارہ اور صنائع لفظی و معنوی سے بیان کو آراستہ اور قصہ کو مختصر کیا ہے۔ میر حسن کی مثنوی کے بعد یہ ہی مثنوی ہے۔ جو مقبول عام ہوئی۔

۱
ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمد باری

کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر
حمد حق و مدحت پیمبر

پانچ انگلیوں میں حرف زن ہے
یعنی کہ مطیع پنجتن ہے

ختم اس پہ ہوئی سخن پرستی
کرتا ہے زباں کی پیش دستی

۲
رو داد زمان پاستانی
یوں نقل ہے خامہ کی زبانی

پورب میں ایک تھا شہنشاہ
سلطان زین الملوک ذیجاہ

لشکر کش و تاجدار تھا وہ
دشمن کش و شہریار تھا وہ

خالق نے دئے تھے چار فرزند
دانا۔عاقل۔ذکی۔خردمند

نقشہ ایک اور نے جمایا
پس ماندہ کا پیش خیمہ آیا

تھا افسر خسرواں وہ گلفام
پالا تاج الملوک رکھ نام

پردہ سے نہ دایہ نے نکالا
پتلی سا نگاہ رکھ کے پالا

جب نام خدا جواں ہوا وہ
مانند نظر رواں ہوا وہ
 

مقدس

لائبریرین
۱۵۔

آتا تھا شکارہ گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پسر کو ناگاہ

مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشم پوشی

دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کو بھائی

ہر چند کہ بادشہ نے ٹالا
اس ماہ کو شہر سے نکالا

گھر گھر یہی ذکر تھا یہی شور
خارج ہوا نور دیدی کور

آیا کوئی لیکے نسخہ نور
لایا کوئِ جا کے سرمہ طور

تقدیر سے چل سکا نہ کچھ زور
بینا نہ ہوا وہ دیدہ کور

ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے
مختار ہے جس طرح نباہے

۳
تھا اک کحال پیر دیریں
عیسی کی تھیں اس نے آنکھیں دیکھیں

وہ مرد خدا بہت کرایا
سلطاں سے ملا۔ کہا۔ کہ شاہا!

ہے باغ بکاوَلی میں اک گل
پلکوں سے اسی پے مار چنگل

خورشید میں یہ ضیا کرن کی
ہے مہر گیا اسی چمن کی

اس نے تو گل ارم بتایا
لوگوں کو شگوفہ ہاتھ آیا

شہزادے ہوے وہ چاروں تیار
رخصت کئے شہ نے چار ناچار

شاہانہ چلے وہ لیکے ہمراہ
لشکر۔اسباب۔خیمے۔خرگاہ

۴
وہ بادیہ گرد خانہ برباد
یعنی تاج الملوک ناشاد

میدان میں خاک اڑا رہا تحا
دیکھا۔ تو وہ لشکر آ رہا تھا


۱۶۔

پوچھا۔ تم لوگ خیل کے خیل
جاتے ہو کدھر کو صورت سیل

بولا لشکر کا اک سپاہی
"جاتی ہے ارم کو فوج شاہی"

سلطان زین الملوک شہ زور
دیدار پسر سے ہو گیا کور

منظور علاج روشنی ہے
مطلوب گل بکاوَلی ہے

گل کی جو خبر سنائی اس کو
گلشن کی ہوا سمائی اس کو

ہمرہ کسی لشکری کے ہو کر
قسمت پے چلا وہ نیک اختر

یک چند پھر کیا وہ ابنودہ
صحرا صحر و کو ہ در کوہ

بلبل ہوے سب ہزار جی سے
گل کا نہ پتا لگا کسی سے


۵
وہ دامن دشت شوق کا خار
یعنی تاج الملوک دل زار

درویش تھا بندہ خدا وہ
اللہ کے نام پر چلا وہ

اک جنگلے میں جا پڑا جہاں گرد
صحراے عدم بھی تھا جہاں گرد

سایہ کو پتا نہ تھا شجر کا
عنقا تھا نام جانور کا

مرغان ہوا تھے ہوش راہی
نقش کف پا تھے ریگ ماہی

وہ دشت۔ کہ جس میں پرتگ و دو
یا ریگ رواں تھا یا وہ رہرو

ڈانڈا تھا ارم کے بادشا کا
ایک دیو تھا پاسباں بلا کا

بھوکا کئی دن کا تھا وہ ناپاک
فاقوں سے رہا تھا پھانک کر خاک

حلوے کی پکا کر اک کڑھائی
شیرینی دیو کو چڑھائی

کہنے لگا۔ کیا مزا ہے دلخواہ!
اے آدمی زاد واہ وا واہ!


۱۷۔

چیز کھلائی تو نے مجھ کو
کیا اس کے عوض میں دوں تجھ کو؟

بولا وہ۔ کہ پہلے قول دیجیے
پھر جو میں کہوں قبول کیجیے

گلزار ارم کی ہے مجھے دھن
بولا وہ ارے بشر! وہ گلبن

خورشید کے ہم نظر نہیں ہے
اندیشہ کا واں گزر نہیں ہے

رہ جا! مرا بھائی ایک ہے اور
شاید کچھ اس سے بن پڑے طور

حال ا س سے کہا۔ کہ قول ہارا
ہے پیر یہ نوجواں ہمارا

مشتاق ارم کی سیر کا ہے
کوشش کرو، کام خیر کا ہے

حمالہ نام دیونی ایک
چھوٹی نہیں اس کی تھی بڑی نیک

خط اس کو لکھا بایں عبارت
"اے خواہر مہرباں سلامت!"

"پیارا ہے مرا یہ آدمی زاد
رکھیو اسے جس طرح میری یاد"

"انسان ہے چاہے کچھ جو سازش
مہمان ہے کیجئیو نوازش"

"باپ اس کا ہے اندھے پن سے مجہول
مطلوب بکاوَلی کا ہے پھول"

"دل داغ اس کا براے گل ہے
نرگس کے لئے ہواے گل ہے"

خط لیکے بشر کو لے اڑا دیو
پہنچا حمالہ پاس بے ریو

بھائی کا جو خط بہن نے پایا
بھیجے ہوئے کو گلے لگایا

دیووَں سے کہا۔ کہ چوہے بنجاوَ
تا باغ ارم سرنگ پہنچاوَ

سن حاجت نقب بہر گلگشت
کترا چوہوں نے دامن دشت

جب مہر تہ زمیں سمایا
اس نقب کی رہ وہ آدم آیا

کھٹکا جو نگاہبانوں کا تھا
دھڑکا یہی دل کا کہہ رہا تھا

۱۸-

گوشہ میں کوئی لگا نہ ہووے!
خوشہ کوئی تاکتا نہ ہووے!

گو باغ کے پاسپاں غضب تھے
خوابیدہ برنگ سبزہ سب تھے

پانی کے جو بلبلوں میں تھا گل
پہنچا لب حوض سے نہ چنگل

پوشاک اتار اتر کے لایا
پھولا نہ وہ جامہ میں سمایا

گل لیکے بڑھا ایاغ برکف
چوری سے چلا چراغ برکف

گل ہاتھ میں مثل دست بیضا
اس نقب کی آستیں سے نکلا

گل لیکے جب آملا وہ گلچیں
اس نقب کی رخنہ بندیاں کیں

۶

گلچیں نے وہ پھول جب اڑایا
اور غنچہ صبح کھلکھلایا

وہ سبز باغ خواب آرام
اٹھی نکہت سی فرش گل سے

منہ دھونے جو آنکھ ملتی آئی
پر آب وہ چشم حوض پائی

دیکھا تو۔ وہ گل ہوا ہوا ہے
کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے

گھبرائی کہ ہیں! کدھر گیا گل
جھنجلائی۔ کہ کون دیگیا جل؟

ہے ہے! مرا پھول لے گیا کون؟
ہے ہے! مجھے خار دے گیا کون؟

ہاتھ اس پے اگر پڑا نہیں ہے
بو ہو کے تو گل اڑا نہیں ہے

اپنوں میں سے پھول لیگیا کون؟
بیگانہ تھا سبزہ کے سوا کون؟

شبنم کے سوا چرانے والا
اوپر کا تھا کون آنے والا؟

جس کف میں وہ گل ہو۔ داغ ہو جائے!
جس گھر میں ہو۔ گل چراغ ہو جائے؟
 

مقدس

لائبریرین
۱۹۔

آنکھوں سے عزیز گل مرا تھا
پتلی وہی چشم حوض کا تھا

گلچیں کا جو ہاے! ہاتھ ٹوٹا
غنچہ کے بھی منہ سے کچھ نہ پھوٹا

او خات پڑا نہ تیرا چنگل
مشکیں کس لیں نہ تو نے سنبل؟

او باد صبا ہا نہ بتلا
خوشبو ہی سنگھا پتا نہ بتلا؟

بلبل تو چہک اگر خبر ہے؟
گل تو ہی مہک سنگھا کدھر ہے؟

لرزاں تھی زمیں یہ دیکھ کہرام
تھی سبزہ سے راست مو بر اندام

جو نخل تھا سوچ میں کھڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ مل رہا تھا

رنگ اس کا غرض لگا بدلنے
گل برگ سے کف لگی وہ ملنے

گل کا سا لہو بھر گریباں
سبزہ کا سا تار تار داماں

دکھلا کے کہا سمن پری کو
اب چین کہاں!بکاوَلی کو!

تھی بسکہ غبار سے بھری وہ
آندھی سی اٹھی۔ ہوا ہوئی وہ

ہر باغ میں پھولتی پھری وہ
ہر شاخ میں جھولتی پھری وہ

جس تختہ میں مثل باد جاتی
اس رنگ کے گل کی بو نہ پاتی

بےوقت کسی کو کچھ ملا ہے
پتا کہیں حکم بن ہلا ہے؟

(نسیم لکھنوی)

۲۰۔

از مثنوی میر تقی

محمد تقی نام میر تخلص۔ شرفاے اکبر آباد سے تھے، دلی پہنچکر ان کی شاعری نے شہرت پائی۔ شعرائے ماضی و حال نے ان کو غزل کا امام مانا ہے۔ مثنویاں بھی اچھی ہیں۔ مگر قصیدہ پھیکا، کلام ان کا نہایت صاف و شستہ اور پراثر ہے۔ آخر عمر میں لکھنو چلے گئے تھے۔ سو برس کے ہو کر ۱۲۲۵ھ میں راہی ملک بقا ہوئے۔ درد۔سعدا۔ مصحفی۔انشا اور جرا کے ہمعصر تھے۔

ضبط کروں میں ۔۔۔۔۔اب
چل رے خامہ! بسم اللہ اب

کرٹک دل کا راز نہانی
ثبت جریدہ میری زبانی

یعنی۔ میر اک خستہ غم تھا
سرتاپا اندوہ و الم تھا

تاب و توان و شکیب و تحمل
رخصت اس سے ہو گئے بالکل

سینہ فگاری سامنے آئی
بیتابی نے طاقت پائی

خواب وخورش کا نام نہ آیا
ایک گھڑی آرام نہ پایا

سوز سے چھاتی تابہ گویا
اور پلک خوننابہ گویا

دل میں تمنا۔ داغ جگر میں
شیون لب پر۔یاس نظر آیا

نالے شب کو اس کے سنکر
مر گئے کتنے۔سر کودھن کر

روے و جبیں پہ خراش ناخن
داغوں سے خوں کے قامت گلبن

غم نے تو دل میں کیا ہی چھوڑا
بر میں تھا اک پکا پھوڑا

کام رہا ناکامی ہی سے
تسکیں بےآرامی ہی سے

دشنہ غم سے سینہ کوچا
ناخن سے منہ ساراا نوچا

۲۱۔

دل آما جگہ غمناکی
اور نفس اک تیرے خاکی

نے طاقت نے یارا اس کو
ضعف دلی نے مارا اس کو

رنگ اڑے چہرہ کا ہر دم
تھا گویا گل آخر موسم

رنگ شکستہ ۔ بسکہ فسردا
کہنے کو زندہ۔ لیکن مردہ

دیدہ تر کے دریا قائل
ساحل خشک لبی کے سائل

ہر دم ہو ہر سمت کو جاری
خونباری سے سیل بہاری

خاک بسر آشفتہ سری سے
شور قیامت نوحہ گری سے

وادی پر جب اپنے آوے
صحرا صحرا خاک اڑا وے

سر پر اس کے سنگ ہمیشہ
جی پر عرصہ تنگ ہمیشہ

آہ سرد کرے وہ عریاں
بید سا کانپے موے پریشاں

پامالی میں مثل جادہ
خار بیاباں لال ہوئے سب

جس نے دیکھا اس کو یکدم
اس نے کہا یہ۔ پحول کے سب غم

چندے یہ ناشاد رہے گا
پر مدت تک یاد رہے گا

(میر)

۲۲۔

غزلیات

جہاں استاد۔ فصیح الملک۔ نواب میرزا خان۔داغ دہلوی

(۱)

جہاں تیرے جلوہ سے معمور نکلا
پڑی آنکھ جس کوہ طور نکلا

یہ سمجھے تھے ہم ایک چرکا ہے دل پر
دبا کر جو دیکھا۔ تو ناسور نکلا

نہ نکلا کوئی بات کا اپنی پورا
نہ یہ دور نکلا۔ نہ وہ دور نکلا

سمجھتے تھے ہم داغ گمنام ہو گا
مگر وہ تو عالم میں مشہور نکلا

(۲)
وہ زمانہ نظر نہیں آتا
کچھ ٹھکانہ نظر نہیں آتا

دل نے اس بزم میں بٹھا تو دیا
اٹھ کے جانا نظر نہیں آتا

رہئے مشتاق جلوہ دیدار
ہم نے مانا۔ نظر نہیں آتا

لے چلو مجکو رہروان عدم
یہاں ٹھکانہ نظر نہیں آتا

دل پر آرزو لٹا اے داغ
وہ خزانہ نظر نہیں آتا

(۳)
دل میں ہے غم و رنج و الم۔ حرص و ہوا بند
دنیا میں محمس کا ہمارے نہ کھلا بند

موقوف نہیں دام و قفس پر ہی اسیری
ہر غم میں گرفتار ہوں۔ ہر فکر میں پابند


۲۳۔
اے حضرت دل!جائیے۔ میرا بھی خدا ہے
بے آپ کے رہنے کا نہیں کام مر بند

دم رکتے ہی سینہ سے نکل پڑتے ہیں آنسو
بارش کی علامت ہے۔ جو ہوتی ہے ہوا بند

کہتے تھے ہم۔ اے داغ! وہ کوچہ ہے خطرناک
چھپ چھپ کے مگر آپ کا جانا نہ ہوا بند

(۴)
حضرت دل! آپ ہیں جس دھیان میں
مر گئے لاکھوں اسی ارمان میں

گر فرشتہ ہوا کوئی۔ تو کیا؟
آدمیت چاہیے انسان میں

جس نے کھویا۔ اسی کو کچھ ملا
فائدہ دیکھا۔ اسی نقصان میں

کس نے ملنے کا کیا وعدہ۔ کہ داغ
آج ہو تم اور ہی سامان میں

(۵)
خدا دے۔ تو دے اپنا غم ہر کسی کو
کرے پر نہ مائل کسی پر کسی کو

نہ کو ناصحا! ایسی دیوانی باتیں
یہ کیا؟ کھینچ مارا جو پتھر کسی کو

محبت میں جس جا گئے۔ لٹ گئے ہم
لیا دل کسی نے۔ دیا سر کسی کو

بہت چھیڑ کر ہم کو پچھتائیے گا
ستاتے نہیں بندہ پرور! کسی کو

(۶)
نہیں ہوےی بندہ سے طاعت زیادہ
بس اب خانہ آباد! دولت زیادہ!

وہ تشریف لاتے ہی بولے۔ کہ رخصت!
نہیں ہم کو ملنے کی فرصت زیادہ!

الہی! زمانہ کو کیا ہو گیا ہے؟
محبت تو کم ہے۔ عداوت زیادہ!

عدم سب آتے ہیں یاں چار دن کو
نہیں ہوتی منظور رخصت زیادہ

مری بندگی سے مرے جرم افزوں
ترے قہر سے تیری رحمت زیادہ
 

مقدس

لائبریرین
۲۴۔

(۷)

دل کی کلی نہ تجھ سے کبھی اے صبا کھلی
چمپا کھلی۔ گلاب کھلا۔ موتیا کھلی

ہم تو اسیر دام ہیں صیاد! ہم کو کیا؟
گلشن میں گر بہار بہت خوش نما کھلی

نالوں سے شق ہوا نہ جگر پاسبان کا
دیوار قید خانہ مگر بارہا کھلی

رونا نصیب میں ہو۔ تو ہنسنا ہو کس طرح؟
تو شکل گل نہ بلبل خونیں نوا کھلی

داغ شگفتہ دل کا ذرا دیکھنا اثر
مانند غنچہ قبر بھی بعد فنا کھلی

(۸)

سب حسرتوں کا یاس نے کھٹکا مٹا دیا
جن سے خلش تھی دل میں۔ وہ کانٹے نکل گئے

سچ ہے۔پرائی آگ میں پڑتا نہیں کوئی
ہمراہ کوہ طور کے موسی نہ جل گئے؟

اب کیا ہے! اگر کسی سے ملاتے نہیں نظر
لاکحوں ہماری آنکھ س جلسے نکل گئے

مرتے کے بعد ساتھ کوئی بھی مرتا نہیں کبھی
فرقت میں رفتہ رفتہ سب احباب ٹل گئے

احباب ڈھونڈتے ہیں۔ پریشان ہیں رفیق
کیا جانے! آج داغ کدھر کو نکل گئے

(۹)
غم اٹھانے کے واسطے دم ہے
زندگی ہے اگر۔ تو کیا غم ہے!

کہتے ہو۔ کچھ کہو۔ کہوں کیا خاک!
جانتا ہوں۔ مزاج برہم ہے

اب جہاں مہرباں ہو۔ تو کیا!
مہربانی تری مقدم ہے

سنتے ہیں۔ داغ! کل وہ آئے تھے
بارے اب تو سلوک باہم ہے

(۱۰)
طبعیت کوئی دن میں بھر جائیگی
چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائیگی



۲۵۔

رہیں گی دم مرگ تک خواہشیں
یہ نیت کوئی آج بھر جائیگی

نہ تھی یہ خبر ہم کو۔ اپنی بہار
ادھر آئیگی اور ادھر جائیگی

نہ چھوڑیگی دامن کبھی مشت خاک
صبا ہم سے اڑ کر کدھر جائیگی

دیا دل۔ تو اے داغ۔ اندیشہ کیا؟
گزرنی جو ہو گی۔ گزر جائیگی

امیر الشعرا منشی امیر احمد صاحب امیر مینائی

(۱)
ریاض دہر میں پوچھو نہ میری بربادی
برنگ بو ادھر آیا ادھر روانہ ہوا

خدا کی راہ میں دینا ہے گھر کا بھر لینا
ادھر دیا۔ کہ ادھر داخل خزانہ ہوا

قدم حضور کے آئے۔ مرے نصیب کھلے
جواب قصر سلیماں غریب خانہ ہوا

جب آئی جوش پہ میرے کریم کی رحمت
گرا جو آنکھ سے آنسو۔ در یگانہ ہوا

چنے مہینوں ہی تنکے غریب بلبل نے
مگر نصیب نہ دو روز آشیانہ ہوا

اٹھائے صدمے پہ صدمے۔ تو آبرو پائی
امیر ٹوٹ کے دل گوہر یگانہ ہوا

(۲)
وہ سنتا ہی نہیں۔ میں داد خواہی کیا کروں؟
کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الہی کیا کروں؟

مجھ گدا کو دے نہ تکلیف حکومت۔ اے ہوس!
چار دن کی زندگی میں بادشاہی کیا کروں؟

مجھ کو ساحل تک خدا پہنچائیگا۔ اے ناخدا!
اپنی کشتی کی بیاں تجھ سے تباہی کیا کروں؟

وہ مرے اعمال روز و شب سے واقف ہے امیر!
پیش خالق ادعاے بے گناہی کیا کروں؟

۲۶۔

(۳)
انساں عزیز خاطر اہل جہاں نہ ہو
وہ مہرباں نہ ہو۔ تو کوئی مہرباں نہ ہو

پیری میں بھی گیا نہ تغافل ہزار حیف
اتنا بھی کوئی مائل خواب گراں نہ ہو

آنکھوں سے فائدہ؟ جو دیدار نہ ہو نصیب
حاصل جبیں سے کیا؟ جو ترا آستاں نہ ہو

جانے اگر۔ کہ چاہ عدم میں گرائیگا
کوئی سوار تو سن عمر رواں نہ ہو۔

(۴)
دل نے جب پوچھا۔ مجھے کیا چاہیے؟
درد بول اٹھا۔ تڑپنا چاہیے

حرص دنیا کا بہت قصہ ہے طول
آدمی کو صبر تھوڑا چاہیے

ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم
کچھ مزہ اس کا بھی چکھا چاہیے

ہے مزاج اس کا بہت نازک امیر!
ضبط اظہار تمنا چاہیے۔

(۵)
کی دل شکنی نہ تندخو کی
سختی پہ بھی نرم گفتگو کی

کی جس پہ نگاہ۔ تجھ کو دیکھا
اب تک تو نظر کہیں نہ چوکی

جز دی و حرم کہاں میں جاوَں
راہیں تو یہی ہیں جستجو کی

دل ہی نہ رہا امید کیسی
جڑ کٹ گئی نخل آرشو کی

کلفت نہ مٹی امیر! دل سے
اشکوں نے ہزار شست وشو کی

(۶)
موتی کی طرح جو ہو خدا داد
تھوڑی سی بھی آبرو بہت ہے

جاتے ہیں جو صبر و ہوش۔ جائیں
مجھ کو اے درد! تو بہت ہے

۲۷۔

مانند کلیم بڑھ نہ اے سل!
یہ دور کی گفتگو بہت ہے

اے نشتر غم! ہو لاکھ تن خشک
تیرے دم کو لہو بہت ہے

کیا غم ہے امیر! اگر نہیں مال
اس وقت میں آبرو بہت ہے

از مولف

(۱)
کام اگر حسب مدعا نہ ہوا
تیرا چاہا ہوا۔ برا نہ ہوا

سب جتایا کئے نیاز قدیم
وہ کسی کا بھی آشنا نہ ہوا

کیا کھلے؟ جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے؟ جو کبھی جدا نہ ہوا

سخت فتنہ جہان میں اٹھتا
کوئی تجھ سا ترے سوا نہ ہوا

تو نہ ہو۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا
اور کوئی ہوا۔ ہوا۔ نہ ہوا

(۲)
جو بھلے برے کی اٹکل نہ مرا شعار ہوتا
نہ جزاے خیر پاتا۔ نہ گناہگار ہوتا

میں کبھی کا مر بھی رہتا۔ نہ غم فراق سہتا
اگر اپنی زندگی پر۔ مجھے اختیار ہوتا

کبھی بھولکر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا۔ تمھیں ناگوار ہوتا

ہے اس انجمن میں یکساں عدم ووجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا۔ یہی کاروبار ہوتا

(۳)
کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں
ہم سے پوچھو تو آدمی ہی نہیں

دوستی اور کسی غرض کے لئے!
وہ تجارت ہے۔ دوستی ہی نہیں

۲۸۔

جام وحد ت کی درد بھی جس نے
نہیں چکھی۔ وہ متقی ہی نہیں

جس خوشی کو نہ ہو قیام و دوام
غم سے بدتر ہے۔ وہ خوشی ہی نہیں

(۴)

جہاں تیغ ہمت علم دیکھتے ہیں
محالات کا سر قلم دیکھتے ہیں

کمالات صانع پہ جن کی نظر ہے
وہ خوبی مصنوع کم دیکھتے ہیں

نہیں مبتلا جو تن آسانیوں میں
انہیں دمبدم تازہ دیکھتے ہیں

اڑاتے ہیں جو رخش ہمت کو سرپٹ
وہ منزل کو زیر قدم دیکھتے ہیں

(۵)
ہے وصف ترا محیط اعظم
یہاں تاب کسے شناوری کی

دی زندگی اور اس کا ساماں
کیا شان ہے بندہ پروری کی

کیا آنکھ کو تل دیا! کہ جس میں
وسعت ہے چرخ چنبری کی

کی بعد خزاں بہار پیدا
سوکھی ٹہنی ہری بھری کی

کیا بات ہے! گر کیا ترحم
ہیہات! جو تو نے داوری کی

ہر شکل میں تھا وہی نمودار
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی

(۶)
راہ و رسم خط کتابت ہی سہی
گل نہیں۔ تو گل کی نکہت ہی سہی

بیدماغی بندہ پرور! اس قدر!
آپ کی سب پر حکومت ہی سہی

بسکہ ذکر العیش نصف العیش ہے
یاد ایام فراغت ہی سہی

حسن صورت کا نہ کھا اصلا فریب!
کلک صنعت گر کی صنعت ہی سہی

۲۹۔

کچھ نہ کرنا بھی مگر اک کام ہے
گر نہیں صبحت۔ تو عزلت ہی سہی

(۷)
ممکن ہے۔ کہ ٹل جائے جبل اپنے مقر سے
لیکن کبھی تبدیل جبلت نہیں ہوتی

ہو جان کی جونکھوں بھی اگر راہ طلب میں
پست اس سے الوالغرم کی ہمت نہیں ہوتی

خلوت میں بھی لاتے ہیں عاقل اسے منہ پر
جو بات کہ شائستہ جلوت نہیں ہوتی

ہم کرتے ہیں عادت کی غلامانہ اطاعت
اصلاح پذیر اس لئے عادت نہیں ہوتی

پتے کی طرح جو کوئی محکوم ہوا ہو
اس شخص کی دنیا میں کبھی پت نہیں ہوتی

ڈھاتی ہے قیامت یہی خونخوار جہاں میں
کچھ غم نہیں ہوتا۔ جو محبت نہیں ہوتی

(۸)
لو جان بینچکر بھی، جو فضل و ہنر ملے
جس سے ملے۔ جہاں سے ملے۔ جس قدر ملے

جب چشم آز پھوٹ گئی سب خلش مٹی
اب سنگریزہ ہاتھ لگے۔ یا گہر ملے

ممکن نہیں بغیر قباعت فراغ بال
ہر چند تودو تودوی تجھے سیم و زر ملے

جن کو نہیں ہے درد و دوا میں کچھ امتیاز
قسمت سے ان گنوں کے ہمیں چارہ گر ملے

(۹)
غیرتو کل نہیں چارا مجھے
اپنے ہی دم کا ہے سہارا مجھے

حرص و طمع نے تو ڈبویا ہی تھا
صبر و قناعت نے ابھارا مجھے

جو وہ کرے اس کو سزاوار ہے
چون و چرا کا نہیں یارا مجھے

فرصت اوقات ہے بس مغتنم
یہ نہیں ملنے کی دوبارا مجھے

آہ! نہیں رخصت افشاے راز
قصہ تو معلوم ہے سارا مجھے

۳۰۔

سراج الدین محمد۔ بہادر شاہ ظفر

سراج الدین محمد نام بہادر شاہ لقب۔ ظفر تخلص۔ آخر جانشیں شاہاں مغلیہ۔ شیخ ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ ان کا کلام نہایت سادہ سلیس اور روزمرہ اردو کا عمدہ نمونہ ہے

(۱)

کسی نے اس کو سمجھایا ہوتا
کوئی یہاں تک اسے لایا ہوتا

نہ بھیجا تو نے لکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا

نہ بولو۔ ہم نے کھڑکایا بہت در
ذرا دربا ں کو کھڑکایا تو ہوتا

دل اس کی زلف میں الجھا ہے کب سے
ظفر! اک روز سلجھایا تو ہوتا

(۲)
ہر بات میں تو ایک بھی ہے لاکھ پہ بھاری
گر بات کو اپنی نہ کرے طول سے ہلکا

ہے جامہ تکلف کا پسندیدی احمق
ہو گا نہ گدھا یہ کبھی اس جھول سے ہلکا

جز تارک دنیا ہو ہوس سے سبکدوش
یہ بوجھ نہ دنیا کے ہو مشغول سے ہلکا

صرفہ نہیں کاغذ کا۔ مگر بھیجتے ہیں وہ
خط ڈاک میں اندیشہ محصول سے ہلکا

دنیا میں ظفر جو ہے گر انبار جہالت
کب ہوتا ہے وہ مردم معقول سے ہلکا

(۳)
آکے پروانہ ہی کیا اس بزم میں جل بھن گیا؟
شمع بھی یہاں رو گئی۔ شعلہ بھی یہاں سر دھن گیا

جائیے اس در پہ اور دھونی رما کر بیٹھئے
جو گیا دل سوختی وہاں باندھکر یہ دھن گیا

نام جس کا رہگیا۔ کچھ اس کا گن باقی رہا
ورنہ جو یہاں سے گیا۔ ساتھ اس کے اس کا گن گیا

۳۱۔

میں صبا! وہ طائر بے طاقت اس گلشن میں ہوں
ایک پر جس کا نہ اڑ کر تا سر گلبن گیا

واسطے بے مغز کے کیا خاک ہو نشو ونما!
سبز ہو سکتا نہیں وہ۔ جو کہ دانہ گھن گیا

جاگ اٹھا خواب عدم سے یک بیک سارا جہاں
کان میں جس دم ظفر! خالق کا امر کن گیا۔


(4)

غم دنیا میں ہے جینے کا مزا ہیچ!
اس بے مزگی میں کوئی جیتا ہے تو کیا ہیچ!

کیا کیا محل و قصر بناتے ہیں تونگر
از بہر نشاں۔ لیک نشاں بعد فنا ہیچ!

ایماں کو نہ دے ہاتھ سے غافل! کہ پس مرگ
آنیکا نہیں کام ترے اس کے سوا ہیچ!



(5)

چاہتے ہیں کب نشاں اپنا مثال نقش پا!
جو کہ مٹجانے کو بیٹھے ہیں فنا کی راہ پر

دل سے ہو کیونکر طریق آشنائی میں خلاف
آشنا وہ ہے۔ کہ جو ہو آشنا کی راہ پر

ہے صراط المستقیم اس کے لئے جس نے ظفر!
استقامت کی ہے تسلیم و رضا کی راہ پر



(6)

اتنا نہ اپنے جامہ سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ۔ سنبھل کے چل

کم ظرف پرغرور! ذرا اپنا ظرف دیکھ
مانند جوش خم نہ زیادہ ابل کے چل

فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوز دل کے ساتھ
اس پر سپندوارنہ اتنا اچھل کے چل

یہ غول وش ہیں۔ ان کو سمجھ تو نہ رہنما
سایہ سے بچکے اہل فریب و دغل کے چل

انسان کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ
اور آپ ہی وہ کہتا ہے پتلے کو کل کے "چل"

پھر آنکھیں بھی تو دی ہیں۔ کہ رکھ دیکھکر قدم
کہتا ہے کون تجکو! نچل۔ چل۔ سنبھل کے چل!

جو امتحان طبع کرے اپنا۔ اے ظفر!
تو کہدو اس کو۔ طور پہ تو اس غزل کے چل
 

مقدس

لائبریرین
۳۲۔

(7)

نہٰن تم کو لازم برائی کی باتیں
بھلوں کو ہیں زیبا بھلائی کی باتیں

غضب ہے! کہ دم میں تو رکھو کدورت
کرو منہ پہ ہم سے صفائی کی باتیں

اگر سیدے ہوتے مرے بخت واژوں
تو کیوں کرتے وہ کگ ادائی کی باتیں

قفس میں ہے کیا فائدہ شوروغل سے
اسیرو! کرو کچھ رہائی کی باتیں

ظفر! کیا زمانہ برا آگیا ہے
جہاں دیکھو۔ ہیں وہاں برائی کی باتیں


(8)

گرد جو اے شہسوار! آئی نظر اڑتی ہوئی
تیرے آنے کی ہمیں پہنچی خبر اڑتی ہوئی

دل جلوں کی ہوتی قسمت میں نہ بربادی۔ تو کیوں
پھرتی پروانہ کی خاکستر سحر اڑتی ہوئی

وہ شکار انداز لے جب ہاتھ میں اپنے تفنگ
برق تھرا جاے رنجک دیکھکر اڑتی ہوئی

بےثباتی کیاکہوں ہستی کی؟ دیکھی ہی نہیں
سرخی رنگ حنا جلد اس قدر اڑتی ہوئی

ہے تو کچھ رونق صفائی میں ہی دلکی۔ ورنہ یاں
خاک ہی دیکھی کدورت مین ظفر ۔اڑتی ہوئی



(9)

کیا کیا آکر تری محفل میں ہم نے شمع ساں!
ہاں! مگر جلکر بروں کی جان کوہم رو گئے

حضرت دل تو گئے۔ پر کر گئے اور اک ستم
ساتھ اپنے مجکو بھی دونوں جہاں سے کھو گئے

شوق اپنا تم سے دونا ہی محبت میں رہا
جب وہاں سے ایک خط آیا۔ یہاں سے دو گئے

اے ظفر! جاؤ۔ دل دیوانہ کو ڈھونڈو کہیں
ہے خدا جانے کہاں؟ مدت ہوئی اس کو گئے


۳۳۔

ملک الشعرا شیخ ابراہیم ذوق

کلام نہایت عام پسند۔ محاوارات و ضرب الامثال خوب باندھتے ہیں۔ مفصل حال دیکھو صفحہ 73 حصہ نثر



(1)

اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا
اگر پایا۔ تو کھوج اپنا نہ پایا

جس انساں کو سگ دنیا نہ پایا
فرشتہ اس کا ہم پایا نہ پایا

مقدر ہی پہ گر سود وزیاں ہے
تو ہم نے یاں کچھ نہ کھویا۔ نہ پایا

سراغ عمر رفتہ ہو۔ تو کیونکر؟
کہیں جس کا نشان پا نہ پایا

رہ گم گشتگی میں ہم نے اپنا
غبار راہ بھی عنقا نہ پایا

رہا ٹیڑھا مثال نیش کژدم
کبھی کج فہم کو سیدھا نہ پایا

احاطے سے فلک کے۔ ہم تو کب کے
نکل جاتے۔ مگر رستا نہ پایا

جہاں دیکھا، کسی کے ساتھ دیکھا
کبھی ہم نے تجھے تنہا نہ پایا

کہے کیا ہائے زخم دل ہمارا!
دہن پایا۔ لب گویا نہ پایا

کبھی تو اور کبھی تیرا رہاغم
غرض۔ خالی دل شیدا نہ پایا

نظیر اس کو کہاں عالم میں! اے ذوق
کہیں ایسا نہ پائے گا۔ نہ پایا



(2)



نالہ اس زور سے کیوں میرا دہائی دیتا
اے فلک! اگر تجھے اونچا نہ سنائی دیتا

دیکھو چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا
آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا

کون گھر آئینہ کے جاتا؟ اگر وہ گھر میں
خاکساری سے نہ جاروب صفائی دیتا

منہ سے بس کرتے نہ ہر گز یہ خدا کے بندے
گر حریصوں کو خدا ساری خدائی دیتا۔



۳۴۔

دیکھ۔ اگر دیکھنا ہے ذوق! کہ وہ پردہ نشیں
دیدی روزن دل سے ہے دکھائی دیتا



(3)

بےنصیب اس کے ہیں گردیدار سے
سی دو آنکھوں کو نظر کے تار سے

اٹھ چکا وہ ناتواں۔ جو رہ گیا
دبکے تیرے سائی دیوار سے

اپنے دامن کو بچا کے جائیو
برق! میرے وادی پرخار سے

ناکسوں سے کیا رکیں وارستگاں!
الجھے کب دامن صبا کارخار سے


(4)

وہ خلق سے پیش آتے ہیں۔ جو فیضرساں ہیں
ہے شاخ ثمردار میں گل پہلے ثمر سے

فریاد ستم کش ہے وہ شمشیر کشیدہ
جس کا نہ رکے وار فلکی کی بھی سپر سے

اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم سوے دریار
مقصود رہ کعبہ ہے دریا کے سفر سے

اے ذوق! کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے



(5)

کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
ان کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے

رہے جو شیشہ ساعت وہ مکدر دونوں
کبھی مل بھی گئے دو دل جو کدورت والے

حرص کے پھیلتے ہیں پانوں بقدر وسعت
تنگ ہی رہتے ہیں دنیا میں فراغت والے

نہیں جز شمع مجاور مرے بالین مزار
نہیں جز کثرت پروانہ زیارت والے

نہ ستم کا کبھی شکوہ۔ نہ کرم کی خواہش
دیکھ تو! ہم بھی ہیں۔ کیا صبر و قناعت والے!

کیا تماشا ہت! کہ مثل مہ نو اپنا فروغ
جانتے اپنی حقارت کو ہیں شہرت والے

کبھی افسوس ہے آتا۔ کبھی رونا آتا
دل بیمار لے ہیں دو ہی عیادت والے


۳۵۔

ناز ہے گل کو نزاکت پے چمن۔اے ذوق
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے



(6)

نہیں ثبات بلندی عزوشاں کے لئے
کہ ساتھ اوج کے پستی ہے آسمان کے لئے

نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی۔ کہ یہ شے
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لئے

جو پاس مہر و محبت کہیں یہاں بکتا
تو مول لیتے ہم اک اپنے مہرباں کے لئے

اگر امید نہ ہمسایہ ہو۔ تو خانہ یاس
بہشت ہے ہمیں آرام جادواں کے لئے

وبال دوش ہے اس ناتوں کو سر۔ لیکن
لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لئے

بنایا آدمی کو ذوق! ایک جز و ضعیف
اور اس ضعیف سے کل کام دو جہاں کے لیے


(7)

ایسا نہ ہو کہ آتے ہی آتے جواب خط
قاصد! جواب زندگی مستعار دے

اے شمع تیری عمر طبعی ہے ایک رات
ہنسکر گزار یا اسے رو کر گزار سے

بے فیض گر ہے چشمہ آب بقا۔ تو کیا!
مانگو۔ تو ایک قطرہ نہ آئینہ وار دے

پشہ سے سیکھے شیوہ مردانگی کوئی
جب قصد خوں کو آئے۔ تو پہلے پکار دے

اس جبر پر تو ذوق! یہ انساں کا حال ہے
کیا جانے کیا کرے! جوخدا اختیار دے۔


(8)

لایہ حیات۔ آئے۔ قضا لے چلی۔ چلے
اپنی خوشی نہ آئے۔ نہ اپنی خوشی چلے

ہمسا بھی۔ اس بساط پے کم ہو گا بدقمار
جو چال ہم چلے۔ وہ نہایت بری چلے

بہتر تو ہے یہی۔ کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں! جو کام نہ بےدل لگی چلے

ہو عمر خضر بھی۔ تو ہو معلوم وقت مرگ
ہم کیا رہے یہاں! ابھی آئے۔ ابھی چلے



۳۶۔

حکیم مومن خان۔ مومن

مومن خان نام۔ مومن تخلص۔ وطن دلی۔ طبابت پیشہ آبائی۔ 1215 ہجری میں پیدا ہوئے۔ 1268ھ میں رحلت کی۔ نہایت ذکی و ذہین آدمی تھے۔ان کی روش خاص معاملہ بندی ہے۔ کہیں میر و درد کی سی سادہ بیانی۔ کہیں باریکی۔ ذوق اور غالب کے ہمعصر تھے۔



(1)



وعدہ وصلت سے ہو دل شاد کیا!
تم سے دشمن کی "مبارکباد" کیا!

کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی
آشیاں اپنا ہوا برباد کیا؟

ہیں اسیر اس کے۔ جو ہے اپنا اسیر
ہم نے سمجھے صید کیا! صیاد کیا!

نالہ اک دم میں اڑا ڈالے دھوئیں
چرخ کیا اور چرخ کی بنیاد کیا!

جب مجھے رنج دل آزاری نہ ہو
بےوفا! پھر حاصل بیداد کیا؟

کیا کروں اللہ! سب ہیں بےاثر
ولولہ کیا!نالہ کیا! فریاد کیا!

ان نصیبوں پر کی اختر شناس
لب پہ مومن "ہرچہ باداباد" کیا؟



(2)

کیا رم نہ کرو گے۔ اگر ابرام نہ ہوگا
الزام سے حاصل بجز الزام نہ ہوگا

ہاں جوش تپز!چھیڑ چلی جائے۔ کہ پرتو
جھڑ جائینگے۔ فرسودا اگر دام نہ ہوگا

ناکامی امید پہ صبر آئے۔ تو کیا آئے
ہر بات میں کہتے ہو۔ کہ یہ کام نہ ہو گا

وہ مشق رہی اور نہ وہ شوق ہے۔ مومن!
کیا شہر کہیں گے۔ اگر الہام نہ ہوگا۔



۳۷۔



اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے! کیا کیا لیکر!
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

آہ! طول امل ہے روز افزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا

نارسائی کے دم رکے۔ تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب وئی دوسرا نہیں ہوتا

چارہ دل سواے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا

کویں سنے عرض مومن مضطر
صنم آخر خدا نہیں ہوتا



(4)

قابو میں نہیں ہے دل کم حوصلہ اپنا
اس جور پہ جب کرتے ہین تجھ سے گلہ اپنا

لبیک حرم ہم ہیں۔ نہ ناقوس کلیسا
پھر شیخ و برہمن میں ہے کیوں غلغلہ اپنا؟

تھے دشت میں ہمراہ مرے آبلہ چند
سو آپ ہی پامال کیا قافلہ اپنا

اس ھال کو پہنچے ترے قصے سے۔ کہ اب ہم
راضی ہیں۔ گراعدا بھی کریں فیصلہ اپنا

انصاف کے خواہاں ہیں۔ نہین طالب زرہم
تھسین سخن فہم ہے مومن صلہ اپنا



(5)

تم بھی رہنے لگے خفا۔ صاحب!
کہیں سایہ میرا پڑا۔ صاحب!

ستم۔آزار۔ظلم۔جور۔جفا
جو کیا۔سو بھلا کیا۔ صاحب!

کیوں الجھتے ہو جنبش لب سے
خیر ہے! میں نے کیا کہا؟ صاحب!

کیوں لگے دینے خط آذادی
کچھ گنہ بھی غلام کا؟ صاحب!

۳۸۔

نام عشق بتاں نہ لو۔ مومن
کیجیئے بس خدا خدا۔ صاحب

(6)

ٹھانی تھی دل میں۔ اب نہ ملینگے کسی سے ہم
پر کیا کریں! کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

مجھ سے نہ بولو تم۔ اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیئے۔ پوچھتے ہیں آپ سے ہم

صاحب نے کس غلام کو آذاد کر دیا؟
لو بندگی! کہ چھوٹ گئے بندگی ہم سے

کب گل کھلیگا! فصل گل تو دور
اور سوے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم

لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں۔ جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم



(7)

سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
کیو علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے

گو کہ ہم صفحہ ہستی پہ تھے اک حرف غلط
لیک اٹھے بھی۔ تو اک نقش بٹھا کے اٹھے

اس رے گرمی محبت! کہ ترے سوختہ جاں
جس جگہ بیٹھ گئے۔ آگ لگا کے اٹھے

میں دکھاتا تمھیں تاثیر۔ مگر ہاتھ مرے
ضعف کے ہاتھ سے کب وقت دعا کے اٹھے

شعر مومن کے پڑھے بیٹھ کے اس کے آگے
خوب احوال دل زار سنا کے اٹھے



(8)

اگر غفلت سے باز آیا۔ جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے۔ تو کیا کی

فلک کے ہاتھ مین جا چھپوں۔ گر
خبر لا دے کوئی تحت الثرےٰ کی

جفا سے تھک گئے۔ تو بھی نہ پوچھا
کہ تو نے کس توقع پر وفا کی؟

کہا اس شوخ سے "مرتا ہے مومن"
کہا "میں کیا کروں! مرضی خدا کی"


۳۹۔

نواب مصطفے خان شفیتہ

مصطفٰے خان نام۔ شفیتہ تخلص۔ جہانگیر آباد ضلع شہر کے جاگیر دار اور عمائد دہلہ سے تھے۔ ان کی ذات ستودہ صفات امارت، فقر اور علم و فضل کی جامع تھی۔ ریختہ میں حکیم مومن خان مومن سے مشورہ کرتے تھے۔ کلام نہایت متین و سنجیدہ۔ فارسیت کا رنگ غالب۔ 1277 ہجری میں رحلت فرمائی۔

(1)

اے جان بیقرار ذرا صبر چاہیے
بےشک ادھر بھی آئیگا جھونکا نسیم کا

جس کی سرشت صاف نہ ہو آدمی نہیں
نیرنگ و عشوہ کام ہے دیو رحیم کا

طاعت اگر نہیں۔ تو نہ ہو۔ یاس کس لئے!
وابستہ سبب ہے کرم کب کریم کا

جس وقت تیرے لطف کے دریا کو جوش آئے
فوارہ جناں ہو زبانہ حجیم کا

اے شیفتہ! عذاب جہنم سے کیا مجھے؟
میں امتی ہوں نار و جناں کے قسیم کا

(2)

دل زار کا ماجرا کیا کہوں!
فسانہ ہے مشہور سیماب کا

کہاں پھر وہ نایاب! پایا جسے
غلط شوق ہے جنس نایاب کا

نہ کیجو غل۔ ے خوشنوایان صبح!
یہ ہے وقت ان کے شکر خواب کا

محبت نہ ہر گز جتائی گئی
رہا ذکر کا اور ہر باب کا

ویاں تیری روزوں کی پرواہ کسے
جہاں شغل ہو سیر مہتاب کا

میں بیجرم رہتا ہوں خائف۔ کہ واں
جفا میں نہیں دخل اسباب کا

نہ کرنا خطا پر نظر شیفتہ!
کہ اغماض شیوہ ہے احباب کا
 

مقدس

لائبریرین
۴۰۔

(3)


اہل طریق کی بھی روش سب سے ہے الگ
جتنا زیداہ شغل۔ زیادہ فراغ بال

ہنگام عہد کام میں لائے وہ ایسے لفظ
جن کے معانی متعدد پر اشتمال

یہ بات تو غلط ہے۔ کہ دیوان شیفتہ
ہے نسخہ' معارف و مجموعہ کمال

لیکن مبالغہ تو ہے البتہ! اس میں کم
ہاں! ذکر خدو خال۔ اگر ہے۔ نو خال خال

(4)

آرام سے ہے کون جہان خراب میں؟
گل سینہ چاک اور صبا اضطراب میں

سب اسی میں محو اور وہ سب سے علحٰدہ
آئینہ میں ہے آب۔ نہ آئینہ آب میں

معنی کی فکر چاہیے۔ صورت سے کیا حصول!
کیا فائدہ ہے موج اگر ہے سراب میں

ذات و صفات میں بھی یہی ربط سمجھئے
جو آفتاب و روشنے آفتاب میں

قطع نظر جو نقش و نگار جہاں سے ہو
دیکھو وہ آنکھ سے۔ جو نہ دیکھا ہو خواب میں

مرنے کے بعد بھی کہیں شاید پتا لگے
کھویا ہے ہم نے آپ کو عہد شباب میں

وہ قطرہ ہوں۔ کہ موجہ دریا میں گم ہوا
وہ سایہ ہوں۔ کہ محو ہوا آفتاب میں

اس صورت جاں نواز کا ثانی نہیں بنا
کیا ڈھونڈتے ہو! بربط وعودورباب میں

اے آفت زمانہ! تیرے دور میں شکیب
بلبل کو باغ میں ہے۔ نہ ماہی کو آب میں

بیباک شیوہ۔ شوخ طبعیت۔ زبان دراز
ملزم ہوا ہے۔ پر نہٰن عاجز جواب میں

تکلیف شیفتہ ہوئی تم کو۔ مگر حضور
اس اتفاق سے وہ ہیں عتاب میں


(۵)

جو کہ ہوا محو تجلی ذات
خاک در اس شخص کی اکسیر ہے

۴۱۔

کھیل ہے کچھ یہ؟ کہ دکھا دوں تمھیں
فرض کیا۔ آہ میں تاثیر ہے

خط کے لکھنے کا لکھوں کیا گلہ؟
خامہ! مدد کر۔ دم تحریر ہے

کیا کہوں! احباب کی آہن دلی
پانوں میں فولاد کی زنجیر ہے

ہم سے ناحق جو خفا ہو گئے
شیفتہ! کچھ اپنی ہی تقصیر ہے

(۶)
ستمگر کہے سے برا مانتا کیوں!
ستم کو اگر وہ بھلا جانتا ہے

جو بیگانہ جانے تجھے خلق۔ کیا غم!
اگر آشنا۔ آشنا جانتا ہے

اسے کنج خلوت کی کیا ہے ضرورت!
جو محفل کو خلوت سرا جانتا ہے

بہر صورت آئینہ بھی مغتنم ہے
کچھ آئین اہل صفا جانتا ہے

ہمیں شفیتہ کی نصیحت سے حاصل!
کہ وہ آپ سے سوا جانتا ہے

(۷)
ابھی کہوں، تو کریں لوگ شرمسار مجھے
کہ کس کے وعدے پراتنا ہے انتظار مجھے

یہی گمان یہی رشک ہے اگر۔ تو کبھی
نہ کوئی دوست ملیگا نہ کوئی یار مجھے

قفس میں کرتی ہے تحریک بال جنبانی
نو اے دلکش مرغان شاخسار مجھے

ہزار دم سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو۔ آئے۔ کرے شکار مجھے

رہے سرائر مکتومہ دل ہی میں۔افسوس!
جہان میں نہ ملا کوئی راز دار مجھے

جفا کو ترک کرو تم۔ وفا کو میں چھوڑوں
کچھ اشتہار تمھیں ہو۔ کچھ اشتہار مجھے

جو شورشیں نہ مچاتا۔ اسیر کیوں ہوتا!
خراب تو نے کیا۔ جلوہ بہار مجھے

بڑے فساد اٹھیں۔ شفیتہ!خدا نہ کرے!
کہ ان کی بزم میں ہو دخل و اختیار مجھے
 

مقدس

لائبریرین
۴۲۔

میرزا اسد اللہ خان غالب

ان کے کلام میں فارسی الفاظ اور ترکیبوں کا استعمال بیشتر۔ مگر الفاظ کی شستگی اور ترکیب کی چستی بےمثل۔ معانی کثیر کو الفاظ قلیل میں بیان کرنا ان کا خاصہ ہے۔ ابتداے عمر میں دس برس تک بیدل اور اسیر کے طرز پر خیالی مضامین لکھا کئے۔ جب تمیز آئی۔ اس دیوان کو چاک کر ڈالا۔ دیوان حال میں کچھ نمونہ ابتدائی کلام کا موجود ہے۔

(1)
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائینگے!
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائینگے!

بے نیازی حد سے گزری۔ بندہ پرور! کب تلک
ہم کرینگے عرض حال اور آپ فرمائینگے کیا؟

حضرت ناصح گر آئیں۔ دیدہ و دل فرش راہ
کوئی مجھکو یہ تو سمجھا دو۔ کہ سمجھائینگے کیا؟

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائینگے کیا؟

خانہ زاد زلف ہیں۔ جنجیر سے بھاگینگے کیوں!
ہیں گرفتار وفا۔ زنداں سے گھبرائینگے کیا؟

ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسد
ہم نے یہ مانا۔ کہ دلی میں رہے۔ کھائینگے کیا؟


(2)

یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے۔ یہ ہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جئے ہم۔ تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے۔ اگر اعتبار ہوتا۔

یہ کہاں کی دوستی ہے۔ کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا! کوئی غمگسار ہوتا

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو۔ کہ پھر نہ تھمتا
جیسے غم سمجھ رہے ہو۔ وہ اگر شرار ہوتا

کہوں کس سے میں۔ کہ کیا ہے۔ شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا۔ اگر ایک بار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا ۔ کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی۔ تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائل تصوف! یہ ترا بیان! غالب!
تجھے ہم ولی سمجھتے۔ جو نہ بادہ خوار ہوتا

۴۳۔

(3)
ہوئی تاخیر۔ تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا؟
آپ آتے تھے۔ مگر کوئی عناں گیر بھی تھا؟

تم سے بیجا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا

تو مجھے بھول گیا ہو۔ تو پتا بتلا دوں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا؟

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے۔ تو کیا!
بات کرتے۔ کہ میں لب تشنہ تقریر بھی تھا

پیشہ میں عیب نہیں۔ رکھئے نہ فرہاد کا نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا

ہم تھے مرنے کو کھڑے۔ پاس نہ آیا۔ نہ سہی!
آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا؟

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟

ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو۔غالب!
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

(4)

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانیگا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر

کہتے ہیں۔ جب رہی نہ مجھے طاقت سخن
"جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر"

کام اس سے آ پڑا ہے۔ کہ کس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے۔ وگرنہ ہم
سر جائے یا رہے۔ نہ رہیں پر کہے بغیر

چھوڑونگا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

مقصد ہے ناز و غمزہ۔ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر

ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

بہرا ہوں میں۔ تو چاہئے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

غالب! نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر

۴۴۔
(5)

کب سے ہوں (کیابتاؤں) جہان خراب میں
شبہاے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں۔ جو وہ لکھینگے جواب میں

ہین آج کیوں ذلیل! کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

رو میں رخش عمر۔ کہاں (دیکھئے) تھمے!
نے ہاتھ باگ پر ہے ۔ نہ پاہے رکاب میں

اتنا ہی مجکو اپنی حقیقت سے بعد ہے
جتنا ۔ کہ وہم غیر سے ہوں بیچ و تاب میں

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں۔ پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں!

ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج حباب میں

غالب! ندیم دوست سے آتی ہے بوے دوست
مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں

(6)

قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے۔ تو عداوت ہی سہی

میرے ہونے میں کیا ہے رسوائی
اے! وہ مجلس نہیں۔ خلوت ہی سہی

اپنی ہستی ہی سے ہو۔ جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں۔ غفلت ہی سہی

عمر پر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں!
نہ سہی عشق۔ مصیبت ہی سہی

کچھ تو دے۔ اے فلک ناانصاف!
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی

ہم بھی تسلیم کی خو دالیں گے
بےنیازی تیری عادت ہی سہی

یار سے چھیڑ چلی جاے اسد!
گر نہیں وصل۔ تو حسرت ہی سہی

۴۵۔

(7)
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں!
سوز غمہائے نہانی اور ہے

بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سر گرانی اور ہے

سے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے

ہو چکیں غالب! بالائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے

خواجہ حیدر علی۔ آتش

خواجہ حیدر علی نام۔ آتش تخلص۔ ان کے والد دلی سے لکھنو آئے۔ خواجہ کو ابتداے عمر سے شاعری کا چسکا لگا۔ شیخ مصحفی کے شاگرد ہوئے۔ غزل گوئی میں شیخ ناسخ سے مقابلہ رہا۔ ان کے کلام میں لطف محاوارات اور گرمی و تاثیر بہ نسبت شیخ ناسخ کے زیادہ ہے۔

(1)
حسن پری اک جلوہ مستانہ ہے اس کا
ہشیار وہی ہے، کہ جو دیوانی ہے اس کا

وہ شوخ نہاں گنج کی مانند ہے اس میں
معمورہ عالم جو ہے۔ ویرانہ ہے اس کا

جو چشم۔ کہ حیراں ہوئی۔ آئینہ ہے اس کی
جو سینہ۔ کہ صد چاک ہوا، شانہ ہے اس کا

دل قصر شہنشہ ہے۔ وہ شوخ اس میں شہنشاہ
عرصہ یہ دو عالم کا جلو خانہ ہے اس کا

وہ یاد ہے اس کی۔ جو بھلا دے دو جہاں کو
حالت کر کرے غیر۔ وہ یارانہ ہے اس کا

یوسف نہیں۔ جو ہاتھ لگے چند درم سے
قیمت جو دو عالم کی ہے۔ بیعانہ اس کا

آوارگی نکہت گل ہے یہ اشارہ
جامہ سے وہ باہر ہے۔ جو دیوانہ ہے اس کا

یہ حال ہوا اس کے فقیروں سے ہویدا
آلودہ دنیا جو ہے۔ بیگانہ ہے اس کا
 

مقدس

لائبریرین
۴۶۔

شکرانہ ساقی ازل کرتا ہے آتش
لبریز مئے شوق سے پیمانہ ہے اس کا

(2)

برنگ شمع جس نے دل جلایا تیری دوری میں
تو اس نے منزل مقصود کو زیر قدم پایا

ہزاروں حسرتیں جائینگی میرے ساتھ دنیا سے
شرار و برق سے بھی عرہ ہستی کم پایا

سواے رنج کچھ حاصل نہیں ہے اس خرابہ میں
غنیمت جان ۔ جو آرام تو نے کوئی دم پایا

نظر آیا تماشاے جہاں۔ جب بند کریں آنکھیں
صفائے قلب سے پہلو میں نے جام جم پایا

ہوا ہر گز نہ خط شوق کا ساماں درست۔ آتش!
سیاہی ہو گئی نایاب ۔ اگر ہم نے قلم پایا۔

(3)نہ بوریا بھی میسر ہو بچھانے کو
ہمیشہ خواب ہی دیکھا کئے چھپر کھٹ کا

مطیع نفس نہ اللہ نے کیا مجکو
نہ میں نے پیروی غول کی ۔ نہ میں بھٹکا

نہ پھول بیٹھ کے بالاے سرو۔ اے قمری!
چڑھی جو بانس کے اوپر۔ یہ کام ہے نٹ کا

عجیب بھول بھلیاں ہے غفلت ہستی
جسے کہ واہ ہوئی اس سے۔ خوب ہی بھٹکا

عجب نہیں ہے۔ جو سودا ہوا شعر گوئی سے
خراب کرتا ہے آتش! زبان کا چٹکا

(4)

اے چرخ بے مروت! بل بے تنک مزاجی!
خوش تیرے گھر میں دو دن ایک میہماں نہ ٹھیرا

برباد کر نہ ناحق - اے باد صرصر! اس کو
بلبل کا آشیانہ برگ خزان نہ ٹھیرا

عزلت گزینی کا کو میں نے کیا ارادہ
کنج لحد سے بہتر کوئی مکاں نہ ٹھیرا

پھونک آشیاں ہمارا - اے برق آتش گل!
رہنے کے قابل اپنے یہ بوستاں نہ ٹھیرا

میری ہی خاک پر کی منہ زوری اس نے آتش!
پہروں سمند قاتل ورنہ کہاں نہ ٹھیرا!

۴۷۔

(5)
مسافر کی طرح رہ خانہ بردوش
نہیں جاے اقامت دار فانی

یقیں ہے دیدی باریک بیں کو
کرے عینک طلب یہ ناتوانی

یہ مشت خاک ہو مقبول درگاہ
صبا کی چاہتا ہوں مہربانی

سفیدی مو کی ہو کافور ہر چند
کہٰں مٹتا ہے یہ داغ جوانی!

نہ خوش ہو فربہی تن سے ۔ غافل!
سبک کرتی ہے مردہ کو گرانی

موے جو پیشتر مرنے سے ۔ وہ لوگ
کفن سمجھے قباے زندگانی

ہوا کوئی نہ حال دل سے آگاہ
رہی مشتاق گوش اپنی کہانی

خدا کے حکم سے ہے قوت نطق
کلام اپنا ہے ہاتف کی زبانی

مرا دیواں ہے۔ اے آتش! خزانہ
ہر اک بیت اس میں ہے گنج معانی

(6)

آنکھوں کوکھول ۔ اگر تو دیدار کا ہے بھوکا
چودہ طبق سے باہر نعمت نہیں ہے کوئی

یہ کیا سمجھ کے کڑوے ہوتے ہیں آپ ہم سے!
پی جائیے گا کس کو! شربت نہیں ہے کوئی

میں نے کہا۔ کبھی تو تشریف لاؤ۔ بولے
"معذور رکھئے۔ وقت فرصت نہیں ہے کوئی"

دل لیکے جان کے بھی سائل جو ہو۔ تو حاضر
حاضر جو کچھ ہے۔ اس میں حجت نہیں ہے کوئی

ہم شاعروں کا حلقہ حلقہ ہےے عارفوں کا
ناآشناے معنی صورت نہیں ہے کوئی

ہژدہ ہزار عالم دم بھر ہے تیرا
تجکو نہ چاہے۔ ایسی خلقت نہیں ہے کوئی

نازاں نہ حسن پر ہو۔ مہماں ہے کوئی دم کا
بےاعتبار ایسی دوست مہیں ہے کوئی

یوں بد کہا کرو تم۔ یوں مال کچھ نہ سمجو
ہمسا بھی خیر خواہ دولت نہیں ہے کوئی

۴۸۔

ما و شما ۔ کہہ و مہ کرتا ہے ذکر تیرا
اس داستاں سے خالی صحبت نہیں ہے کوئی

(7)

منزل ہی دور ہے۔ جو پہنچی نہیں ہنوز
دم لینے والی راہ میں عمررواں نہ تھی

دکھلائے سیر آنکھوں کو بام مراد کی
ایسی کوئی کمند ۔ کوئی نردباں نہ تھی

نافہمی کی دلیل ہے یہ سجدہ سے ابا
ابلیس کو حقیقت آدم عیاں نہ تھی

افسوس کیا جوانی رفتہ کا کیجئے!
وہ کونسی بہار تھی! جس کوخزاں نہ تھی

نالوں سے ایک دن نہ کئی گرم گوش یار
آتش! مگت تمھارے دہن میں زباں نہ تھی۔


شیخ امام بخش ناسخ

شیخ امام بخش نام۔ ناسخ تخلص، لکھنو کے مشاہیر شعرا سے ہیں اور اپنے وقت کے استاد۔ میر تقتی میر ۔ مصحفی۔ انشا۔ جرات کا اخیر زمانیہ دیکھا تھا۔ خواجہ آتز کے ہمعصر تھے۔ کلام ان کا اصول فن کے مطابق نہایت جنچا تلا۔ تشبیہ و تمثیل سے معمور۔ مگر دلاویزی و تاثیر کم۔

(1)
انسان کو انسان سے کینہ نہیں اچھا
جس سینہ میں کینہ ہو۔ وہ سینہ نہیں اچھا

آوازیہ آتی ہے لب آب بقا سے
"مرنا ہی یہاں خوب ہے جینا نہیں اچھا"

ہو سیر جو منظور (دلد!) بحر جہاں کی
جز کشتی درویش سفینہ نہیں اچھا

(2)

دشمن سر ہے تری گردن کشی مانند شمع
افسرزر شوق سے رکھ ۔ پر نہ اتنا سر اٹھا

زندگی میں صرف کر۔ تو ہو سبکدوشی حصول
مثل قاروں خاک میں جا کر نہ بار زر اٹھا

چاہیے تعمیر دل۔ جو ساتھ اٹھا لیجائیگا
یوں خرابی کے لیے دیوار اٹھا، یا در اٹھا

۴۹۔

بات جن نازک مزاجوں سے نہ اٹھتی تھی کبھی
بوجھ ان سے سینکڑوں من خاک کا کیونکر اٹھا!

کیا سخن سنجی سے حاصل! جب سخنداں ہی نہیں
زانوے فکرت سے ۔ اے ناسخ! تو اپنا سر اٹھا

(3)
ہو وطن میں خاک میرے گوہر مضموں کی قدر
لعل قیمت کو پہنچتا ہے بدخشاں چھوڑ کر

ہوتی ہے گربت میں ثروت ۔ پر بڑی ایذا کے بعد
رنج اٹھائے کس قدر یوسف نے کنعاں چھوڑ کر

اعتماد اصلا نہیں۔ گر ہے جہاں زیر نگیں
اٹھ گیا دنیا سے خاتم کو سلیماں چھوڑ کر

آج تو پوشاک پر مرتا ہے تو۔ کل دیکھئیو!
جائیگا نباش تیری لاش عریاں چھوڑ کر

(4)
خوش قدوں کی خاک یہ اٹھتی ہے ہر دم سروقد
گرد باد ۔ اے اہل غفلت ! اس بیاباں میں نہیں

آج نقاشی کی چھت لگوا ۔ نہیں مانع کوئی
کل بجز خفاش کوئی سقف ایواں میں نہیں

دوست۔ دشمن۔ سب کے سب ہیں رفتنی مثل نسیم
گل تو کیا ! کانٹا بھی اک دن اس گلستاں میں نہیں

دم دبا جاتے تھے جن کے سامنے شیرژیاں
غیر روباہ و شغال اب ان کے ایواں میں نہیں

بےوطن ہو کر زمانہ میں ہوے نالاں بشر
آشنا نالوں سے ہر گز نے نیستاں میں نہیں

(5)
دو روز ایک وضع پہ رنگ جہاں نہیں
وہ کونسا چمن ہے؟ کہ جس کو خزاں نہیں

حاصل تجھے بصارت یعقوب ہو اگر
یوسف بغیر کوئی یہاں کارواں نہیں

منعم کے شکر میں بھی بلائیں کبھی کبھی
تنہا براے لذت دنیا زباں نہیں

پژمردہ ایک ہے ۔ تو شگفتہ ہے دوسرا
باغ جہاں میں فصل بہار و خزاں نہیں
 

مقدس

لائبریرین
۵۰۔

(6)
بیاں کیا ہو سکے عمر رواں کی مجھ سے چالاکی
کہ اس تو سن سے لگا ہے نہ ترکی کو ۔ نہ تاری کو

اکیلا دل مرا فوج تمنا کے مقابل ہے
الہٰی کیجئیو تو فتحیاب اس مرد غازی کو

ثمر پختہ جو ہے (اے خام طبعو!) باغ عالم میں
نہ کیونکر خاکساری سے وہ بدلے سرفرازی کو!

(7)

"پا شکستہ کو ہے۔ کرتا ہے جہاں میں سلطنت"
یہ صدا آتی ہے ہر دم تربت تیمور سے

منعم موذی کے گھر کو اہل حاجت لوٹ لیں
مانگتا ہے کب کوئی جا کر عسل زنبور سے!

بانٹ لے کوئی کسی کا درد! یہ ممکن نہیں
بار غم دنیا میں اٹھواتے نہیں مزدور سے

دیکھنا (اےاہل عبرت!) انتقام آسماں
بنتے ہیں جام گدا خاک سر فغفور سے

شیخ قلندر بخش جرات

قلندر بخش نام۔ جرات تخلص، اکبر آبادی مشہور ہیں۔ مگر ان کے والد دلی ے رہنے والے تھے۔ لکھنو میں پہنچر ان کی غزلوں نے شہرت پائی۔ عین جوانی میں نابینا ہو گئے۔ 1225ھ میں انتقال کیا۔ میر انشا اور مصحفہ کے ہمعصر تھے۔ ان کا کلا، میں میر کی سادہ بیانی اور لطف محاورہ تو ہے۔ مگر مذامین رندی و ہوا پرستی کی حد سے باہر کم نکلتے ہیں۔

(1)

غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس اگر اپنا
تو ہنس کے وہ بولے ہے۔ میاں! فکر کر اپنا

باتوں سے کتے کس کی بھلا راہ ہماری!
گربت کے سوا کوئی نہٰن ہم سفر اپنا

عالم میں ہے گھر گھر خوشی و عیش ۔ پر اس بن
ماتم کدہ ہم کو نظر آتا ہے گھر اپنا

ہر بات کا بہتر ہے چھپانا ہی ۔ کہ یہ بھی
ہے عیب ۔ کرے کوئی جو ظاہر ہنر اپنا

۵۱۔

کیا کیا اسے دیکھ۔ آتی ہے (جرات!) ہمیں حسرت
مایوس جو پھر آتا ہے پیغامبر اپنا

(۲)

بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات!
آوارہ وطن کو لگے خوش وطن کی بات

عیش و طرب کا ذکر کروں کیا میں۔ دوستو!
مجھ غمزدہ سے پوچھئے رنج و محن کی بات

شاید اسی کا ذکر ہو۔ ہر رہگزر میں میں
سنتا ہوں گوش دل سے ہر اک مرد و زن کی بات

جرات! خزان کے آتے چمن میں رہا نہ کچھ
اک رہ گئی زباں پہ گل و یاسمین کی بات

(۳)

صوت بلبل دل نالاں نے سنائی مجکو
سیر گل دیدہ گریاں نے دکھائی مجکو

لاوَں خاطر میں نہ میں سلطنت ہفت اقلیم
اس گلی کی جو میسر ہو گدائی مجکو

صلح میں جس کی نہیں چین یہ اندیشہ ہے
آہ! دکھلائینگی کیا اس کی لڑائی مجکو؟

وصل میں جس کے نہ تھا چین۔ سو جرات ! افسوس
وہ گیا پاس سے اور موت نہ آئی مجکو

(۴)

اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں۔ یار! کہ تو
میں ہر اک شخص سے رکھتا ہوں سروکار۔کہ تو؟

کم ثباتی مری ہر دم ہے مخاطب بحباب
دیکھیں تو ۔ پہلے ہم اس بحر سے ہوں پار۔ کہ تو؟

ناتوانی مری گلشن میں یہ ہی بحثے ہے
دیکھیں ۔ اسے نکہت گل! ہم ہیں سبکبار۔ کہ تو؟

دوستی کر کے جو دشمن ہوا تو جرات کا
بیوفا وہ ہے۔ پھر اے شوخ ستمگار۔ کہ تو؟

(۵)
دی خبر پیک صبا نے کیا یہ گلشن میں جو آہ!
غنچہ پژمردہ ساں دل کی کلی مرجھا گئی

صعف پیری روز اس کا انتقان اب لے ہے آہ!
قبل ازیں عمر جوانی کو مزے دکھلا گئی


۵۲۔

اس سے کیوں بحثے ہے۔ کیا سودا چڑھا تجکو۔ دلا!
وہ نہیں گر آپ میں۔ تو تو ہی بس کر جا گئی

اے جل! بس یہ تو رسوائی نہ دیکھی جائیگی
طبع غمخواروں کی اپنے اب بہت اکتا گئی

اب ڈھٹائی سمجھیے یا اس کی جرات جانئے
آئینگے جی۔ آئینگے! اب تو طبعیت آ گئی

(۶)

مشکل ہے، جو آوے وہ احاطہ میں خرد کے
گو اس کا تصور کوئی ادراک سے باندھے

دعوے نہ کرے برق کبھی اپنی تڑپ کا
گر پانوں ترے تو سن چالاک سے باندھے

قاتل ہو وہ سنمکھ۔ تو ابھی ڈر کے یہ بھاگیں
جو تیغ و سپر پھرتے ہیں بے باک سے باندھے

سید انشاء اللہ خان انشا

انشاء اللہ خان نام۔ انشا تخلص ۔ شرفا سے دہلی سے تھے۔ استعداد علمی میں لائق فائق۔ فارسی۔ عربی۔ ترکی سے ماہر۔ شیخ مصحفی نے ان کو فیضی زماں لکھا ہے۔ کلام میں ہزل و ظرافت زیادہ ہے۔ مگر جو صاف و سنجیدہ ہے۔ وہ بےمثل و نظیر۔ میر و مصحفی و جرات کے ہمعصر تھے۔ نواب آصف الدولہ کے عہد میں لکھنو پہنچے۔ ۱۲۳۳ھ میں بحالت دیوانگی انتقال کیا۔

(۱)

جس شخص نے کہ اپنے نخوت کے بل کو توڑا
راہ خدا میں اس نے گویا جبل کو توڑا

اپنا دل شگفتہ تالاب کا کنول تھا
افسوس تو نے ظالم! ایسے کنول کو توڑا

تھا ساعت فرنگی ۔ دل چپ جو ہو رہا ہے
کیا جانئے کہ کس نے ہے اس کی کل کو توڑا

دارا و جم نے تجھ سے کیا کیا شکست پائی
اے چرخ! تو نے کس کس ایک دول کو توڑا

لینی ہے جنس دل تو ظالم! تو آج لے چک
پڑ جائیگا وگرنہ پھر اس کا کل توڑا

احوال خوش انہوں کا انشا میاں جنہوں نے
اس ذات بخت سے مل بند اجل کو توڑا
 

مقدس

لائبریرین
۵۳۔

(۲)
جھوٹا نکلا قرار تیرا
اب کس کو ہے اعتبار تیرا

واللہ! کہ کام آ رہے گا
مجھ سا یک رنگ یار تیرا

کر جبر جہاں تلک تو چاہے
میرا کیا! اختیار تیرا

انشا سے نہ روٹھ۔ مت خفا ہو!
ہے بندی جاں نثار تیرا

(۳)
شعلے بھڑک رہے ہیں یوں اپنے تن کے اندر
دوں لگ رہی ہو جیسے گرمی میں بن کے اندر

جو چاہو تم۔ سو کہہ لو۔ چپ چاپ ہیں ہم ایسے
گویا زباں نہیں ہت اہنے دہن کے اندر

گل سے زیادہ نازک جو دلبران رعنا
ہیں بیکلی میں شبنم کے پیرہن کے اندر

ہے مجکو یہ تعجب۔ سو وینگے پانوں پھیلا
یہ رنگ گورے گورے کیونکر کفن کے اندر!

غم نے ترے بٹھایا۔ اے مای مصر خوبی!
یعقوب وار ہم کو بیت الحزن کے اندر

یوں بولتا کہے ہے۔ سنتے ہو میر انشا!
"ہیں طرفہ ہم مسافر اپنے وطن کے اندر"

(۴)
شادابی ہوا میں یہ کیفیت اب کے ہے
سورنگ کے شگفتہ ہیں گل شاخسار پر

نظارہ سوے دانہ شبنم اگر کروں
جاتی ہے چٹ نگاہ پھسل سبزہ زار پر

اشجار جھومتے ہیں پڑے صحن باغ میں
تاک اینڈ تے ہیں سست پڑے جوئبار پر

موج بہار لالہ خود رونے۔اے نسیم!
کچھ آگ سی لگائی ہے آ کوہسار پر

(۵)
نکلے ہیں خوں ٹھہر ٹھہر دل کے ہر ایک خراش سے
چھیڑ دو اس کو دوستو! تیز قلم تراش سے


۵۴۔

ہم کو مصاحبوں سے آپ کے کیا برابری!
ہم ہیں کمینہ اک غلام فرقہ خواجہ تاش سے

موسم گل ہے دوستو جاے وہ سیر باغ کو
اٹھنے کی تاب جس کو ہو تکیہ گہ فراش سے

حضرت عشق! دیر میں رہتے ہو یا حرم میں تم
مجکو نہیں کچھ اطلاع آپ کی بود و باش کی

ہے زند یہ دو روزہ زندگی ہم کو وبال گردن آہ!
اے وہ خوشا! جو چھٹ گئے دغدغہ معاش سے

(6)

یہ جائے ترحم ہے، اگر سمجھے تو صیاد
میں اور پھنسوں اس طرح اس کنج قفس میں

آتی ہے نظر اس کی تجلی ہمیں زاہد!
ہر چیز میں۔ ہر سنگ میں۔ ہر خار میں۔ خس میں

کیا پوچھتے ہو؟ عمر کٹی کس طرح اپنی
جز درد نہ دیکھا کبھی اس تیس برس میں

ہر بات میں یہ جلدی ہے ۔ ہر چیز میں اصرار
دنیا سے نرالی ہیں غرض تیری تو رسمیں

انشا ترے گرگوش اصم ہوں نہ۔ تو آوے
آواز تجھے یار کی ہر رنگ جرس میں

(7)

نبھ گئی بندہ درگاہ سے اور آپ سے خیر!
بہم الفت میں اگر ایسے ہی آئیں ہوئے

راہ رو! چونک۔ کہ ہے قافلہ میں تیاری
محمل اونٹوں پہ بندھے۔ فوج میں سب زیں ہوئے

قمری و بلبل نالاں ہیں پرے جو جھگڑے
سو دل غمزدہ کے موجب تسکیں ہوئے

اشک آنکھوں سے قدم رکھ نہیں سکتے باہر
دولت شرم سے مانند سلاطیں ہوئے

قصد بنگالہ مناسب ہی نہیں صاحب کو
گرچہ معمول تجارئ کے سب آئیں ہوئے

جی ہی اچھا نہ رہا پھر۔ تو عیاذاً باللہ!
فائدہ کیا! جو شناساے اراکیں ہوئے

(8)

کر بیٹھے وہیں فضل خداداد پے تکیہ
جب بن نہ پڑی بات کچھ اپنی تگ و دو سے

۵۵۔

جان اہل توکل انھیں اشخاص کو۔ جو ہیں
محفوظ پیاز و نمک و گردہ جو سے

اے دل! وہ کوشاکشت برومند۔ کہ جس کو
خطرہ ہی نہیں تہلکہ وقت درو سے

افواج گل و لالہ میں ہے زلزلہ انشا
اس باد بہاری کی سواری جلو سے

شیخ غلام ہمدانی مصحفی

غلام ہمدانی نام ۔ مصحفی تخلص۔ وطن اصلی مروہہ۔ دلی میں آکر علوم رسمیہ حاصل کئے۔ آصف الدولہ کے زمانہ میں لکھنو پہنچے۔ اور ریختہ گوئی میں میر و سودا کے بعد علم استادی بند کیا۔ خود فرماتے ہیں۔ "اے مصحفی شاعر نہیں پورب میں ہوا میں ۔ دلی میں بھی چوری میرا دیوان گیا۔" ان کا کلام نہات صاف و شستہ ہے۔ کہیں بطرز سودا۔ کہیں بطرز میر۔

(1)

نظارہ کروں دہر کی کیا جلوہ گری کا!
یہاں عمر کو وقفہ ہے چراغ سحری کا

کیا لطف مقام ان کو! جو مشتاق عدم ہیں
دل کوچ میں رہتا ہے ہمیشہ سفری کا

کیا بھجیئے قاصد کو وہاں! کوچہ جس کے
جبریل کو مقدور نہیں نامہ بری کا

تربت پہ مری برگ گل تازہ چڑھائے
احسان ہے مجھ پر یہ نسیم سحری کا

بندہ ہے ترا۔ مصحفی خستہ کو یارب!
محتاج طبیبوں کی نہ کر چارہ گری کا

(2)

بوئے محبت اپنی رکھی خدا نے اس میں
سینہ میں آدمی کے دل عطر داں بنایا

اپنی تو اس چمن میں عمر اس طرح سے گزری
یہاں آشیاں بنایا۔ وہاں آشیاں بنایا

گرم سفر رہے ہم۔ منزل کر پر نہ پہنچے
آوارگی نے ہم کو ریگ رواں بنایا

اے مصحفہ! گریباں سارا لہو سے تر ہے
یہ رنگ اپنا ظالم! تو نے کہاں بنایا؟
 

مقدس

لائبریرین
۵۶۔

(3)
ہے یہاں کس کو دماغ انجمن آرائی کا
اپنے رہنے کو مکاں چاہئیے تنہائی کا

شیشہ دل کو مرے چور کیا کیوں اس نے؟
کیا بگاڑا تھا بھلا گبند مینائی کا؟

بھیج دیتا ہے خیال اپنا عوض اپنے مدام
کس قدر یار کو غم ہے میری تنہائی کا!

مصحفی! ریختہ پہنچا مرا کس مرتبہ کو
شور یہاں گرد ہے مرزا کی مرزائی کا

(4)
کیا غیر کا کھٹکا ہے؟ کہ میں کچھ نہیں کہتا
یہ منہ مجھے تیرا ہے۔ کہ میں کچھ نہیں کہتا

دیوانے جو ہوتے ہیں کہا کرتے ہیں کیا کیا
مجکو یہ ہی سودا ہے۔ کہ میں کچھ نہیں کہتا

جو چاہتے ہیں۔ مجکو وہ کہتے ہیں۔ خدایا!
تو عالم و دانا ہے۔ کہ میں کچھ نہیں کہتا

اے مصحفی! بعضے مرے کہنے کے ہیں قائل
بعضوں کا مقولہ ہے۔ کہ میں کچھ نہیں کہتا

(5)
بوے خوں دیتا ہے کچھ مجکو یہ گلشن اے صاب
ہے شہیدوں کا یہاں کس کس کے مدفن اے صبا

کس کے ماتم ہوئے ہوئے ہیں گل ہزاروں سنہ چاک
بلبلیں کرتی ہیں کس کشتہ پہ شیون اے صبا

ہم اسیران قفس کو تب خبر دی تو نے آہ!
لٹ گئے جب باغ میں پھولوں کے خرمن اے صبا

ڈالکر شبنم کے مندرے بےتکلف کان میں
اب کے ہولی میں بنانا گل کو جوگن اے صبا

(6)
معشوں ہوں یا عاشق معشوق نما ہوں
معلوم نہین مجکو۔ کہ میں کون ہوں۔ کیا ہوں

ہوں شاید تنزیہی کے رخسارہ کا پردہ
یا خود ہی میں شاہد ہوں، کہ پردہ میں چھپا ہوں

ہستی کو مری ہستی عالم نہ سمجھنا
ہوں ہست۔ مگر ہستی عالم سے جدا ہوں

۵۷۔

انداز ہیں سب عاشق و معشوق کے مجھ میں
سوز جگر و دل ہوں۔ کبھی ناز و ادا ہوں

ہے مجھ سے گریبان گل و صبح معطر
میں عطر نسیم چمن و باد صبا ہوں

گوش شنوا ہو ۔ تع میری رمز کو سمجھے
حق یہ ہے۔ کہ میں ساز حقیقت کی صدا ہوں

یہ کیا ہے۔ کہ مجھ ہر مرا عقدہ نہین کھلتا
ہر چند۔ کہ خود عقدہ و خود عقدہ کشا ہوں

اے مصحفی شامیں ہیں مرے جلوہ گری میں
ہر رنگ میں میں مظہر انوار خدا ہوں

(7)
چہرہ اتر رہا ہے۔ نقشے بگڑ گئے ہیں
کچھ ان دنوں تو تیرے لچھن سے جھڑ گئے ہیں

تلوار سج کے جب وہ نکلا ہے گھر سے باہر
کشتوں کے ہر گلی میں ستھراؤ پڑ گئے ہیں

روتا پھروں نہ کیونکر میں قافلہ میں ہر سو
منزل پہ میرے ساتھی مجھ سے بچھڑ گئے ہیں

اے مصحفی میں روؤں کیا اگلی صحبتوں کو؟
بن بنکے کھیل ایسے لاکھوں بگڑ گئے ہیں

(8)
فلک کی کو نہیں ایسوں کی پرورش۔ ورنہ
شکستہ حال و غریب و فقیر ہم بھی ہیں

یہ درمیاں جو مہینوں بگاڑ رہتا ہے
وہی شریر نہیں۔ کچھ شریر ہم بھی ہیں

حسد کی جا نہیں اے مصحفی کلام ان کا
کہ اپنے عہد کے مرزا و میر ہم بھی ہیں

(9)
نوبہار آئی ہے۔ سو دائے کہن تازہ ہوا
سبزہ کی موج نے پھر سلسہ جنبانی کی

ہوں وہ غارت زدہ رہرو۔ کہ نمودار ہےصاف
میری صورت سے حقیقت مری ویرانی کی

محو ہر دم جو رہے اپنی ہی آرائش کا
اس کو کیا فکر مری بے سر و سامانی کی

مصحفی! دوں میں کہاں ریختہ گوئی کو رواج
قدر شیرازی کی ہو وہاں۔ نہ صفا ہانی کی


۵۸۔

میر محمد تقی ۔ میر
حالات کے لئے دیکھو صفحہ 20 حصہ نظم

(1)
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا؟
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

سبز ہوتی ہی نہیں یہ سر زمیں
تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا؟

یہ نشان عشق ہیں جانے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا؟

غیرت یوسف ہے یہ وقت عزیز
میر اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا؟


(2)
دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
جو کوئی دم ہے تو افسوس جوانی کا

اگرچہ عمر کے دس دن یہ لب رہے کاموش
سخن رہیگا سدا میری کم زبانی کا

ہزار جان سے قربانی بےپری کے ہیں
خیال بھی کبھو گزرا نہ پرفشانی کا

نمود کر کے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر بھی اک بلبلہ تھا پانی کا


(3)
طریق خوب ہے آپس میں آشنائی کا
نہ پیش آئے اگر مرحلہ جدائی کا

یہیں ہیں دیر و حرم۔ اب تو یہ حقیقت ہے
دماغ کس کو ہے ہر در کی جہہ سائی کا

کسو پہاڑ میں جوں کوہکس سراب ماریں
خیال ہم کو بھی ہے سخت آزمائی کا

رکھا ہے بار ہمیں دربدر کے پھرنے سے
سروں پے اپنے ہے احساس شکستہ پائی کا

جہاں میں میری کے ساتھ جانا تھا ۔ لیکن
کوئی شریک نہیں ہے کسو کی آئی کا

۵۹۔

(4)
مہر کی تجھ سے توقع تھی۔ ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے تیرے دل کو۔ پتھر نکلا

دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی۔ کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے ۔ کہ اس راہ سے لشکر نکلا

اشت تر۔ قطرہ خوں۔ لخت جگر۔ پارہ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہتر نکلا

ہم نے جانا تھا لکھیگاتو کوئی حرف اے میر
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا

(5)
مستو جب ظلم و ستم و جور و جفا ہوں
ہر چند کے جلتا ہوں۔ پہ سرگرم وفا ہوں

اس گلشن دنیا میں شگفتہ نہ ہوا میں
ہوں غنثہ افسردہ ۔ کہ مردود صبا ہوں

گو طاقت و آرام و خور و خواب گئے سب
بارے پہ غنیمت ہے۔ کہ جیتا تو رہا ہوں

سینہ تو کیا فضل الہٰی سے سبھی چاک
ہے وقت دعا میر، کہ اب دل کو لگا ہوں


(6)
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں

جلوہ ہے مجھی س لب دریاے سخن پر
صد رنگ مری شوچ ہے۔ میں طبع رواں ہوں

دیکھا ہے مجھے جس نے ۔ سو دیوانہ ہے میرا
میں باعث آشفتگی طبع جہاں ہوں

ہوں زرد غم تازہ نہالان چمن سے
اس باغ خزاں دیدہ میں میں برگ خزاں ہوں

رکھتی ہے مجھے خواہش دل بسکہ پریشاں
درپے نہ ہو ۔ اس وقت خدا جانے کہاں ہوں



(7)
رکھئے گردن کو تری تیغ ستم پر۔ ہو سو ہو
جی میں ہم نے یہ کیا ہے اب مقرر۔ ہو سو ہو

قطرہ قطرہ اشکباری تا کجا پیش سحاب
ایک دن تو ٹوٹ پڑ اے دیدہ تر۔ ہو سو ہو


۶۰۔

بند میں ناز و نعم ہی کے رہے کیونکر فقیر
یہ فضولہ ہے۔ فقیری میں میسر ہو سو ہو

صاحبی کیسی؟ جو تم کو بھی کوئی تم سا ملا
پھر تو خواری بے وقاری بندہ پرور ۔ ہو سو ہو

کہتے ہیں۔ ٹھیرا ہے تیرا اور غیروں کا بگاڑ
ہیں شریک اے میر ہم بھی تیرے۔ بہتر۔ ہو سو ہو


(8)
وہ اپنی ہی خوبی پہ رہتا ہے نازاں
مرو یا جیو کوئی اس کی بلا سے

نہ رکھی مری خاک بھی اس گلی میں
کدورت مجھے نہایت صبا سے

اگر چشم ہے۔ تو وہی عیھ حق ہے
تعجب تجھے ہے عجب ماسوا سے

ٹک اسے مدعی چشم انصاف وا کر
کہ بیٹھے ہیں یہ قافیئے کس ادا سے

نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت
کہو میر جی! آج کیوں ہو خفا سے


(9)
اپنی ہستی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

چشم دل کھول اس ہی عالم پر
یاں کی اوقا خواب کی سی ہے

میں جو بولا کہا ۔ کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے

(10)
تصویرکے سے طاہر خاموش رہتے ہیں ہم
جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے

جب کوندتی ہے طجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے

آنکھوں ہی میں رہے ہو۔ دل نہیں نہیں گئے ہو
حیراں ہوں میں۔ یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے

اتنی بھی بدمزاجی! ہر لحظہ میر تم کو
الجھاؤ ے زمین سے جھگڑا ہے آسماں سے
 

مقدس

لائبریرین
۶۱۔


میرزا رفیع سودا

میرزا محمد رفیع نام۔ سودا تخلص۔ 1125ھ میں پیدا ہوئے۔ دلی ان کا مولد و مسکن ۔ ریختی گوئی میں شاہ حاتم کے شاگرد۔ 1185ھ میں لکھنو چلے گئے۔ 1195ھ ہجری میں وہی انتقال فرمایا۔ ان کا کلام رنگا رنگ ہے۔ کہیں صاف و سادہ۔ کہیں تشبیہ و استعارہ + فارسی ترکیبوں کا استعمال بخلاف میر کے زیادہ۔ اگرچہ اصناف سخن میں استاد مسلم ہیں۔ مگر ان کے قصائد اور ہجویں خصوصیت کے ساتھ مشہور ہیں۔

(1)
مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا

پردہ کو تعین کے در دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے! لیکن
جب چشم کھلی گل کی۔ تو موسم ہے خزاں کا

ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا


(2)
گلہ لکھوں میں اگر تیری بےوفائی کا
لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا

زباں ہے شکر میں قاصر شکستہ بالی کے
کہ جن نے دل سے مٹایا خلش رہائی کا

دماغ جھڑ گیا آخر نہ تیرا۔ اے نمرود!
چلا نہ پشہ سے کچھ بس تری خدائی کا

طلب نہ چرخ سے سے کرنان راحت اے سودا
پھرے ہے اپنا وہ کاسہ لیے گدائی کا


(3)
لطف۔ اے اشک! کہ جوں شمع گھلا جاتا ہوں
رحم۔ اے آہ زرربار! کہ جل جاؤں گا

قطرہ اشک ہوں پیارے! مرے نظارہ سے
کیوں خفا ہوتے ہو! پل مارتےے ڈھل جاؤنگا


۶۲۔

اس مصیبت سے تو مت مجکو نکال اب گھر سے
تو کہے"آج ہی جا" میں کہوں "کل جاؤنگا"

چھیڑ مت باد بہاری! کہ میں جوں نکہت گل
پھاڑ کر کڑے ابھی گھر سے نکل جاؤنگا

کہتے ہیں وہ جو ہے سودا کا قصیدہ خوب
ان کی خدمت میں لئے میں یہ غزل جاؤنگا

(4)
قاصد اشک آے خبر کر گیا
قتل کوئی دل کا نگر کر گیا

دیکھئے! درماندگی اب کیا دکھائے
قافلہ یاروں کا سفر کر گیا

کیونکہ کوئی کھاےت ترا اب فریب
حال مرا سب کو خبر کر گیا

ایک جو مانند گل اس باغ سے
کرم و خنداں ہو کر گزر کر گیا

آن کے شبنم کی طرح دوسرا
شام سے رو رو کے سحر کر گیا

کیا تجھے اب فائدہ اس فکر سے
ہر کوئی اک طرح بسر کر گیا

(5)
گدا دست اہل کرم دیکھتے ہیں
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں

حباب لب جو ہیں اے باغباں ہم
چمن کو ترے کوئی دم دیکھتے ہیں

خدا دشمنوں کو نہ وہ چھ دکھائے
جو کچھ دوست اپنے سے ہم دیکھتے ہیں

مگر تجھ سے رنجیدہ خاطر ہے سودا
اسے تیرے کوچہ میں کم دیکھتے ہیں

(6)
مجمر کا دخل کیا ہے محفل میں تفتگاں کی
بو داغ دل کی اپنے ہم عود جانتے ہیں

اپنا چراگ دل کا جس دم سے بجھ گیا
ہم گھر کو آسماں کے پر دود جانتے ہیں

آئینہ سازی ان کو ہے کفر اے سکندر!
جو مرد شکل ہستی نابود جانتے ہیں

۶۳۔

جس خشت کو اٹھا کر دیکھیں وہ چشم دل سے
صورت کو اپنی اس میں موجود جانتے ہیں

کیا شکر کیا شکایت اپنی ہی شکل سے ہے
دونوں سے آپ کو ہم مقصود جانتے ہیں

عجز و غرور دونوں اپنی ہی ذات میں ہیں
ہم عہد سے جدا کب معبود جانتے ہیں

ہم سر نوائیں کس کے آگے؟ کہ بید آسا
اپنے قدم کو اپنا مسجود جانتے ہیں

(7)
تو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی
شبنم بھی اس چمن سے صبا! چشم ترگئی

کیجو اثر قبول ۔ کہ تجھ تک ہماری آہ
سینہ سے ارمغاں لئے داغ جگر گئی

دیوانہ کون گل ہے ترا جس کو باغ میں
زنجیر کرنے موج نسیم سحر گئی

خانہ خراب دل تو ہے۔ لیکن میں کیا کہون
جیسی بلائے جان ہے یہ آنکھ گھر گئی

مت پونچھ یہ۔ کہ رات کٹی کیونکہ مجھے بغیر
اس گفتگو سے فائدہ پیارے! گزر گئی

ظالم کڑوڑ گل کا گریباں ہوا ہے چاک
ایک عندلیب گرا جل اپنی سے مر گئی

پروانہ کون سا نہ جلا شام کو ۔ کہ شمع
روتی ہوئی نہ بزم سے وقت سحر گئی

(8)
نسیم ہے تیرے کوچے میں اور صبا بھی ہے
ہماری خاک سے دیکھو (دیکھو تو) کچھ رہا بھی ہے

ترا گرور مرا عجز تا کجا - ظالم!
ہر ایک بات کی آخر کچھ انتہا بھی ہے

زبان شکوہ سو اب زمانہ میں ہیہات!
کوئی کسی بہمدیگر آشنا بھی ہے

ستم روا ہے اسیروں ہی اس قدر؟ صیاد!
چمن چمن کہیں بلبل کی اب نوا بھی ہے؟

سمجھ کے رکھیو قدم خار دشت پر مجنوں!
کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے
 

مقدس

لائبریرین
۶۴۔

خواجہ میر درد

خواجہ میر نام۔ درد تخلص۔ دہلی کے ارباب طریقت و ارشاد سے تھے۔ ان کا دیوان ریختہ نہایت مختصر ہے۔ غزلیات تمام تر عارفانہ۔ خوبی زبان و سادی بیان کے لحاظ سے مقبول خاص و عام۔ میر و میرزا کے ہمعصر تھے۔ 1155ھ میں بعمر 68 سال رحلت فرمائی۔

(1)
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
حقا! کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا

اس مسند عزت پہ۔ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب? گزر ہووے تعقل لے قدم کا

بستے ہیں ترے سایہ میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا

ہے کوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا

مانند حباب آبکھ تو اے درد! کھلی تھی
کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا

(2)
سب کے ہاں تم ہوے کرم فرما
اس طرف کو کبھو گزر نہ کی
ا
دیکھنے کو رہے ترستے ہم
نہ کیا تو نے رحم۔ پر نہ کیا

آپ سے ہم گزر گئے کب کے
کیا ہے! ظاہر میں گو سفر نہ کیا

کونسا دل ہےے وہ? کہ جس میں آہ!
خانہ آباد! تو نے گھر نہ کیا

سب کے جوہر نظر میں آئے۔درد!
بےہنر! تو نے کچھ ہنر نہ کیا

(3)
لیکر ازل سے تاابد ایک آن ہے
گر درمیاں حساب نہ ہو سال وماہ کا

رحمت قدم نہ رنجہ کرے گر تری ادھر
یا رب ہے کون پھر تو ہمارے گناہ کا

۶۵۔

شاہ و گدا سے اپنے تئیں کام کچھ نہیں
ہے تاج کی ہوس ۔ نہ ارادہ کلاہ کا

سو بار دیکھیں میں نے تری بیوفائیاں
تس پر بھی نت غرور ہے دل میں بناہ کا

اے درد! چھوڑتا ہی نہین مجکو جذب عشق
کچھ کہر با سے بس نہ چلے برگ کاہ کا


(4)
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک! جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا۔ جو کچھ آرزو کریں

تر دامنی پہ شیخ! ہماری نہ جا ۔ ابھی
دامن نچوڑ دیں۔ تو فرشتے وضو کریں

سرتا قدم زبان ہیں جوں شمع کو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال? جو کچھ گفتگو کریں

ہر چند آئینہ ہوں۔ پر اتنا ہوں ناقبول
منہ پھیر لے وہ۔ جس کے مجھے روبرو کریں

نے گل کو ہے ثبات۔ نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن! ہوس رنگ و بو کریں

(5)
یاں عیش کے پردہ میں چھپی دل شکنی ہے
ہر بزم طرب جوں مژہ برہم زونی ہے

آگے جو بلا آئی تھی سو دل پہ ٹلی تھی
اب کے تو مری جان ہی پر آن بنی تھی

اے درد! بتا کس سے کہوً راز محبت
عالم میں سخن چینی ہے یا طعنی زنی ہے

(6)
دیکھئے جس کو یاں۔ اسے اور ہی کچھ دماغ ہے
کرمک شب چراغ بھی گوہر شب چراغ ہے

غیر سے کیا معاملہ? آپ ہیں اپنے دام میں
قید خودی نہ ہو اگر۔ پھر تو عجب فراغ ہے

حال مرا نہ پوچھئے۔ میں جو کہوں۔ سو کیا کہوں?
دل ہے سو ریش ریش ہے سینہ سو داغ داغ ہے

سنتے ہیں یوں ۔ کہ آہ تو ہم ہی میں چھپ رہا کہیں!
اپنی تلاش سے غرض ہم کو ترا سراغ ہے

غفلت دل ہوئی مگر ۔ پنبئہ گوش خلق درد!
بلبل داستاں سرا ورنہ ہر ایک زاغ ہے


۶۶۔

قصائد

امیر الشعرا منشی امیر احمد صاحب امیر مینائی

تحت کا غز ہی ہوا صدر نشیں شاہ قلم
دائرے طبل کی صورت ہیں الف شکل علم

ہیں جو یہ عرصہ کاغذ ہی حروف و حرکات
یہی لشکر ہے۔ یہی فوج۔ یہی خیل وخدم

ہے فصاحت جو مصاحب ۔ بلاغت ہے ندیم
وزرا مرتبہ و دبدہ و جاہ حشم

منتخب ہیں جو مضامیں ۔ تو معانی ہیں لطیف
ہیں وہی گنج و خزائن ۔ وہی دینار و درم

اہل دفتر نے جو کی کھولکے بستوں و نشست
گردن منشی گردوں ہوئی تسلیم کو خم

کبھی منصب ۔ کبھی تقسیم میں دیں جاگیریں
شقے لکھے گئے ۔ ہونے لگے فرمان رقم

وقت دربار ہوا۔ جمع ہوئے مجرانی
عقل و فہم و خرد و ہوش و تدابیر و حکم

سامنے آنے لگے خیر طلب بہر سلام
مردہا تھا جو ادب کا۔ وہ پکارا پیہم

روبرو خسرو جم جاہ فلک فر کے نگاہ
تا ابد سلطنت پشت و پناہ عالم

ہوئی مجرے سے بخوبی جو فراغت حاصل
مسند حکم ہوئی مطلع انوار قدم

روبرو دستخط خاس کو لایا کاغذ
حکمت الدولہ۔ جو تھا منشئی یاقوت رقم

عرضیاں گزریں۔ خلائی کے بر آئے مطلب
لب ہوئے لعل فشاں۔ کھل گئے ابواب کرم

بعد اخبار کے پرچوں کی جو نوبت آئی
نئے مضمون کا اک پرچہ ہوا پیش اس دم

کہ ملازم ہیں جو سرکار کے یہ دانش و وہم
در دولت پہ ے ہنگامہ۔ لرے ہین باہم

بحث اک بات کی دونوں میں پڑی ہی ایسی
کہ بہم گتھ گئے ہیں صورت خط توام

۶۷۔

حکم عالی یہ ہوا ۔ جلد کرو حاضر بزم
دیکھیں۔ کیا کہتے ہیں? خود دونوں ہیں ہم ہونگے بہم

حاضر بزم ہوئے وہ ۔ تو ہوا یہ ایما
کیوں لڑے? کیا سبب جنگ ہے آگاہ ہوں ہم

عرض دانش نے یہ کی۔ روز ابد تک قائم
یہ حکومت ۔ یہ ایالت ۔ یہ شہامت ۔ یہ چشم

بندہ خاص نے دیکھے ہیں ہزاروں انساں
حکمرانان زمانہ رؤساے عالم

ایک حاکم ہے ۔ فلک جاہ ۔ خردمند ۔ ذکی
صاحب علم و ہنر ۔ معدن اخلاق و کرم

نام ہے کلب علی خاں بہادر جم جاہ
جس کی خدام ہیں ہم مرتبہ قیصر و جم

علم میں ۔ حلم میں ۔ جود و کرم و ہمت میں
ہے وہ یکتاے زمانہ سر اقدس کی قسم!

جس میں جو بات ہو۔ کیونکر اسے کوئی نہ کہے
پیش انصاف گزیں حق کا چھپانا ہے ستم

میرے کہنے کو ذرا وہم نے باور نہ کیا
بلکہ مارا رہ انکار میں منکر نے قدم

کہ کمالات کا حصر ایک میں ہے ناممکن
کارخانہ ہے خدا کا ۔ نہین خالی عالم

کیسے کیسے نہیں گزرے ہیں کہاں میں نامی?
خواجگان عربستان و صنا دید عجم

سارے عالم میں ہے سحباب کی فصاحت مشہور
سارے آفاق میں کسری کی عدالت ہے علم

کس کو معلوم فلاطوں کی نہیں ہے حکمت؟
حکم نادر ہے عیاں۔ جلوہ نما عشرت جم

چار سو ہمت حاتم کا ہے آوازہ بلند
شش جہت پر ہے عیاں۔ سب سے جری تھا رستم

تو جو کہتا ہے ۔ کہ ان سب سے ہے بڑھکر کوئی
زعم باطل ہے فقط۔ مانتے ہیں کب اسے ہم

میں یہ کہتا ہوں ۔ میں دعوی میں ہوں اپنے صادق
ہیں دلائل ۔ جو ہوں گوش شنوا گوش اصم

کچھ یہ سنتا نہیں انکار نہ باندھی ہے کمر
گفتگو سے طرفین آپ سنیں ہو کے بہم

ہو گیا حکم ۔ کہ ہاں محکمہ بحث ہو گرم
ایک ایک بات کا ہو فیصلہ۔ لاہو ۔ کہ نعم
 

مقدس

لائبریرین
۶۸۔

(2)
فصل گل آئی ہوا گلزار جنت بوستاں
بڑھ کے رضواں سے ہے ان روزوں دماغ باغباں

ہر طرف گلہاے رنگا رنگ گلشن میں کھلے
جیسے صبح عید یکجا ہوں حسینان جہاں

خم نہیں شاخیں درختوں کی ہوا سے خاک پر
کر رہی ہین سجدہ شکر خداے انس و جاں

"قم باذن اللہ" کہتی آئی گلشن میں بہار
جی اٹھے جو ہو گئے تھے مردہ دل وقت خزاں

جھوم کر آیا ہے ابر کوہساری باغ میں
رقص میں ہیں ہر روش طاؤس۔ ہو کر شادماں

لالہ کہتا ہے کہاں موسی ہیں؟ آکر دیکھ لیں
صاف جلوہ ہے چراغ طور کا مجھ سے عیاں

جھومنا مستوں کی صورت ہے درختوں کا بجا
نکہت گل میں بھی ہے کیف شراب ارغواں

لالہ احمر نے یاقوتی کی ڈبیا کی درست
نرگس شہلا نے رکھی مے فروشی کی دکاں

دار بست تاک میں خوشے نظر آنے لگے
جس طرف جھرمٹ ستاروں لا فراز آسماں

سیم غنچہ کیوں نہ بیحد ہو زرگل بےشمار
رکھتی ہے اجسیر کی بوٹی بہار بوستاں

ہر روش پر بیٹھی ہے بزاز بن کر خرمی
جس طرف دیکھو کھلی ہے سبز مخمل کی دکاں

فیض شبنم نے دئے اشجار کو آبی لباس
بر میں ہے مردم گیا کے جامہ آب رواں

نو عروسان چمن کو ہے جواہر کا جو شوق
بینچنے فیروزہ آیا ہے چمن میں آسماں

یوں ہے جنبش میں ہوا سے ہر نہال سایہ دار
ہو خراماں کس طرح کوئی حسیں دامن کشاں

ہے مبارک فال ۔ کوئی ہونے والی ہے خوشی
ہر چراغ لالہ جوش رنگ سے ہے گل فشاں

جان پھولوں میں پری ۔ زندہ ہوئی خاک چمن
ہے دم جاں بخش عیسی یا نسیم بوستاں

قمریوں کا قول ہے "ہم ہیں طیور باغ خلد"
سرو کہتا ہے ۔ کہ میں ہوں طوبی باغ جناں

صحن گلشن میں نزاکت نے جمایا ہے یہ رنگ
مرغ بو کا آشیاں ہے شاخ گلبن پر کہاں

۶۹۔

ہے بلندی و درازی اس قدر ہر شاخ میں
ہے محیط مشرق و مگرب برنگ کہکشاں

پائے گر سورج مکھی کے سایہ میں تھوڑی جگہ
بھول جائے مہر جنبش مثل قطب آسماں

چودھویں کا چاند ہے۔ جو چاندنی کا پھول ہے
چادر مہتان ہے فرش فضائے بوستاں

سیر کو جو آئے۔ اس کا ناف آہو ہو مشام
گیسوے مشکین سنبل بسکہ ہے عنبر فشاں

دیدہ بیدار نرگس کا تو کیا مذکور ہے
خواب میں کرتا ہے سبزہ سیر گلزار جناں

ہے تبسم غنچہ گل کا کہ تیغ آبدار
نوک کی لیتے ہیں کانٹے یا چبوتے ہیں سناں

شمس العلما مولوی سید نذیر احمد صاحب

اگرچہ دیر سے ہیں مجمع خواص و عوام
پر اس میں شک نہیں جلسہ ہے اب کا بے ہنگام

کسی طرف سے بھی آواز خوش نہیں آتی
کچھ ایسا بگڑا ہے نظم لیالی و ایام

وہ بمبئی ۔ کہ جو تھا مرکز تجارت ہند
وبا نے کر دیا گویا کہ اس کا کام تمام

مقام ۔ رت جگے رہتے تھے ۔ جن میں ساری رات
وہ کر رہے ہیں پڑے بھائیں بھائیں اول شام

حکایتیں جو مصائب کی ان کے سنتے ہیں
تو دونوں ہاتھوں سے لیتے ہیں ہم کلیجہ تھام

خدا ہی جانے ۔ ہوئیں کتنی عورتیں بیوہ
خدا ہی جانے ۔ ہوئے کتنے بچے ایتام

جلا وطن ہوئے کتنے ۔ کہ جو نہ ٹھیر سکے
کوئی سلون کا بھاگا۔ کوئی گیا آسام

مگر پناہ نہیں آہوے حرم کو بھی
کہیں جہان میں۔ جس دم قضا بچھائے دام

مرا تو کرتے ہیں۔ لیکن نہ یوں۔ مفاجاۃً
تپ آئی صبح کو ۔ دن چڑھے ہو گیا سرسام

ہوئی دوپہر ۔ تو دنیا سے ہو گئے رخصت
کہ تپ کے ساتھ ہی آیا تھا مرگ کا پیغام

ہزاروں آدمی گر جاں بحق ہقئے۔ تو ہوئے
یہ کیا غضب ہے! ہوئی طب رہی سہی بدنام

علاج جتنے کیے۔ سب جت سب گئے بے سود
بتائیں جتنی تدابیر۔ سب رہیں ناکام

۷۰۔

بس اب کھلا ۔ کہ طبابے کی اتنی ہستی ہے
کہ جھٹ سے لکھدیا خیساندہ ازبر اے زکام

سکنجبین کو فرماہا قاطع صفرا
مریض یبس کو بتلایا روغن بادام

بنی جب آن کے جانوں ہی اور رہے عاجز
تو ایسی طب کو سلام اور سلام اور سلام

دوا کا حیلہ ہے۔ گر وقت ابھی نہیں آیا
تو ہوتے دیکھا ہے چٹکی سے خاک کی آرام

اور آن پہنچا ہے وعدہ ۔ تو بس سمجھ رکھو
دعا ۔ دوا۔ کوئی تدبیر بھی نہ آئے کام

ادھر وبا نہیں۔ پر قحط اور گرانی سے
مچا ہو ا ہے ہر اک گھر میں رات دن کہرام

غلط۔ کہ عبد ہوئی۔ کوئی ہم کا سجھا دے
یہ فاقے کیسے؟ اگر ہو چکا ہے ماہ صام

ہمیں تو بے زری اور مفلسی نے مار دیا
وگرنہ کیا تھا، جو ہوتے گرہ میں آپنی دام

وبا و قحط سے باقی تھا کیا اجڑنے میں؟
مگر بھلے کو نگہبان خلق تھے حکام

کجا فراغ! خوشی کیسی! کس کا اطمینان!
ان آفتوں کے سبب ہو رہی ہے زیست حرام

پھری ہوئی ہے خد کی نظر کچھ ان روزوں
کہ ہم نے توڑے ہیں اس کے ضوابط و احکام

بساط یہ ہے۔ اور اس پر گناہ کی جرات
نمود یہ ہے۔ اور اس پر قصور کا اقدام

سواے توبہ نہیں کچھ علاج قہر خدا
طبیب ہو کہ طبابت، کسی پہ کیا الزام!

وہ چاہے مار دے ہم سب کو بو وبا بےقحط
بقا تجھی کو ہے ۔ اے ذوالجلال والا کرام!

گناہگار ہیں۔ پرمعترف قصور کے ہیں
وسیع ہے تری رحمت ۔ کرم ہے تیرا عام

جئیں۔ تو خوش جئین۔ اور امن و عافیت سے جئیں
جب آئے موت۔ تو سب کا بخیر ہو انجام

حکیم مومن خان ۔ مومن

کوئی اس دور میں جئے کیونکر
ملک الموت ہے ہر ایک بشر

داد خواہوں کے شور سے ۔ دیکھو
چونک پڑتا ہے فتنہ محشر

۷۱۔

آئینہ نے بھی اس زمانہ میں
تیغ کے سے نکالے ہیں جوہر

ہے پئے اشتیاق ویرانی
شاہ فرہاد و بےستوں کشور

نہ امیروں کو پاے بندی عدل
نہ رعایا مطیع و فرماں بر

اس کو سو رستم زماں کا خطاب
جر کرے قتل خرد سالہ پسر

چمن آرا کو رسم پیرائش
اک بہانہ ہے بہر قطع شجر

پا کے الزام دست خالی سے
فلسفی پیٹتا ہے اپنا سر

آب و ناں کے لئے گرو رکھیں
رستمان زمانہ تیغ و سپر

شعرا کو یہ آرزوے شعیر
خوان عیسی ہے نیم خوردہ خر

کام آئے نی نغمہ شیریں
طوطیوں کو ہے حسرت شکر

سروران سپہر مرتبہ ہیں
بسکہ جاہل نواز دوں پرور

واعظوں کی زباں پہ آتا ہے
برملا شکوہ قضا و قدر

کہے مفتی سوال کو واجب
کسب مفقود کو ہوئے یکسر

پھلے پھولے ہیں بے خرد۔ کیا دور!
بید مجنوں بھی گر لے آئے ثمر

سختی و کاہلی کی دولت سے
دامن کوہ میں ہیں لعل و گہر

باندھتے ہیں سخن سرا موزوں
کس طرح ہو نصیب سرو کو بر

قدر دانی کا نام ہی نہ رہا
چند ناداں ہوئے ہیں نام آور

ایک امیر سخن شناس نہیں
لاکھ ہیں شاعر ثنا گستر

اے لب یا وہ گوے ہرزہ دراے
بس کہاں تک یہ ناستور سمر

ہجو گوئی نہیں ہمارا کام
ایسی باتوں سے خامشی بہتر
 

مقدس

لائبریرین
۷۲۔

میرزا اسد اللہ خان غالب

ہاں مہ نو! سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

دو دن آیا ہے تو نظر دم صبح
یہی انداز اور یہی اندام

بارے دو دن کہاں رہا غائب؟
بندہ عاجز ہے، گردش ایام

اڑ کے جاتا کہاں؟ کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام

مرحبا اے سروع خاص خواص!
حبذا اے نشاط عام عوام!

عذر میں تین دن نہ آنے کے
لیکے آیا ہے عید کا پیغام

اس کو بھولا نہ چاہیے کہنا
صبح کو جاے اور آئے شام

ایک میں کیا؟ کہ سب نے جان لیا
تیرا آغاز ار ترا انجام

راز دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے؟
مجکو سمجھا ہے کیا کہیں نمام؟

جانتا ہوں۔ کہ آج دنیا میں
ایک ہی امید گاہ انام

میں نے مانا۔ کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالب اس کا مگر نہیں ہے غلام ؟

جانتا ہوں ۔ کہ جانتا ہے تو
تب کہا ہے نطرز استفہام

مہرتاباں کو ہو تو ہو۔ اے ماہ
قرب ہر روزہ برسیل دوام

تجکو کیا پایہ روشناسی کا
جز بتقریب عید ماہ صیام

جانتا ہوں۔ کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہ تمام

ماہ بن ۔ ماہتاب بن۔ میں کون!
مجکو کیا بانٹ دیگا تو انعام؟

میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام

ہے مجھے آرزوے بخشش خاص
گر تجھے ہے امید رحمت عام

۷۳۔

جو کہ بخشیگا تجکو فر فروغ
کیا نہ دیگا مجھے مئے گلفام

جب کہ چودا منازل فلکی
کر چکے قطع تیری تیزی گام

تیرے پر تو سے ہوں فروغ پذیر
کوی و مشکوے و صحن و منظر و بام

دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز
اپنی صورت کا اک بلوریں جام

کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
اے پری بہرہ پیل تیز خرام

کون ہے کس کے در پے ناصیہ سا
ہیں مہ ومہر و زہرہ و بہرام

تو نہین جانتا۔ تو مجھ سے سن
نام شاہنشہ بلند مقام

قبلہ چشم و دل بہادر شاہ
مظہر ذوالجلال و الاکرام


شیخ ابراہیم ذوق

شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت
نشہ علم می سر مست غرور و نخوت

مزے لیتا تھا پڑا علم عمل کے اپنے
تھا تصور میرا ہرامر میں تصدیق صفت

جو مسائل نظری تھے وہ بدبہی تھے تمام
عقل کو تجربہ کی اتنی ہوئی تھی کثرت

ذہن میں سب مرے حاضر صور علمیہ
پر جتانی نہ تھی منظور مجھے علمیت

چار و ناچار جو ترغیب سے یاروں کے کبھی
درس و تدریس پے آجاتی تھی مجکو رغبت

کبھی ہمت تھی مری قاعدہ صرف میں صرف
کبھی تھی نحو میں ہر نحو مجھے محویت

کبھی میں کرتا تھا تصریح معانی و بیاں
کحی میں کرتا تھا توضیج نجوم و ہیئت

کبھی تھا علم الہی کی طرف ذہن رسا
کبھی کرتی تھی طبیعی میں طبعیت جودت

کبھی تھی عرصہ تدویر فلک کی مجھے سیر
کبھی میں ناپتا تھا سطح زمیں کی وسعت

کبھی ثابت مرے نزدیک فلک کی گردش
کبھی مثبت مرے نزدیک زمیں کی حرکت

۷۴۔

کبھی منقول پے مائل کبھی سوئے مقتول
کبھی میں فقہ پے راغب کبھی سوئے حکمت

کبھی میں کرتا تھا قانون سے تشریح علاج
کبھی میں کرتا تھا قاموس میں تصیح لغت

کبھی میں لون سے بینندہ بیمارو صحیح
کبھی میں نبض سے دانندہ ضعف و قوت

گہ بناتات کی آگاہ میں کیفیت سے
گہ جمادات کی معلوم مجھے خاصیت

جوں مہندس کبھی مالوف بہ شکل و مقدار
جوں محاسب کبھی مصروف بہ ضرب و قسمت

کبھی کرتا تھا قرآن مہ و زہرہ پہ نظر
کبھی تھا دیکھتا مریخ و زحل کی رجعت

کبھی تھا علم قیافہ میں یہ ادراک مجھے
ایک صورت سے بیاں کرتا تھا میں سو سیرت

کبھی میں شاعر غرا و ادب دان بلیغ
نظم میں نام مرا نثر میں میری شہرت

کبھی کرتا تھا عروضی کا بھی میں قافیہ تنگ
طبع موشوں کی دکھاتا تھا جو موزونیت

کبھی پیش نظر انجیل و زبور و توریت
کبھی مصحف میں نظر میری سر ہر آیت

کبھی یہ آگہی شاستر و بید و پران
کروں اک بات سے پنڈت کی کتھا میں کھنڈت

آخرش دیکھا ۔ تو العلم حجاب الاکبر
عاقبت پایا۔ تو ہاں بلہ کو اہل جنت

فائدہ کیا؟ کہ جو ہر علم کی جانی تعریف
فاءدہ کیا؟ جو ہوئی آگہی ہر ملت

بے مقدر نہ پڑے صورت بہبود نظر
دور آئینہ دل سے نہ ہو زنگ کلفت

(۲)

واہ وا! کیا معتدل ہے باغ عالم کی ہوا!
مثل نبض صاحب صحت ہے ہر موج صبا

بھرتی ہے کیا کیا میسحائی کا دم باد بہار!
بنگیا گلزار عالم رشک صد دار السفا

ہے گلوں کے حق میں شبنم مرہم زخم جگر
شاخ بشکستہ کو ہے یاراں کا قطرہ مومیا

ہو گیا موقوف یہ سودا کا بالکل احتراق
لالہ بے داغ سیہ پانے لگا نشو ونما

۷۵۔

ہو گیا زائل مزاج دہر سے یہانتک جنوں
بید مجنوں کا بھی سحرا میں نہیں باقی پتا

ہوتا ہے لطف ہوا سے اس قدر پیدا لہو
برگ میں ہر نخل کے سرخی ہے جوں برگ حنا

پائی یہ اصلاح صفرا نے کہ دنیا میں کہیں
زرد چشم اب دیکھنے کو بھی نہیں ہے کہربا

ہر مزاج بلغمی میں ہوتی ہے تولید خوں
چاندنی کا پھول ہو گر ارغوانی ہے بجا

نام کو اشیا میں نے تلخی رہی نے سمیت
بنگئی تریاک افیوں۔ زہر میٹھا ہو گیا

کیا عجب جدوار کی تاثیر گر رکھے زقوم
نیش کی جانوش حنظل دیوے شربت کا مزا

نیش کی جانوش ہو دنبالہ زنبور میں
کام میں افعی کے ہو مہرہ بجاے آبلہ

راحت و آرام کا اس دور میں ہے دور دور
چاہیے واقف نہ ہو دوران سر سے آسیا

موتیا بند آنکھ میں اپنے جو رکھتی ہے صدف
اب رکھے ہے روشنی مثل دل اہل صفا

آگیا اصلاح پر ایسا زمانہ کا مزاج
تازبان خامہ بھی آتا نہین حرف دوا

نسخہ پر لکھنے نہیں پاتا ہوا الشافی طبیب
کہتا ہے بیمار بس کر مجکو ہے بالکل شفا

فرق چاہا یہانتک اعضا سے بدن سے درد نے
درد کے جو حرف ہین وہ آپ ہی ہیں سب جدا

لاغروں کو ہو کمال تاب و طاقت یہ شتاب
کیسے دو ہفتے ہلال اک شب میں ہو بدر الدجا

صبح صادق کے ہے گو سر میں سپیدی آ گئی
لیکن اس پیری میں بھی صادق ہے ایسی اشتہا

بھوک کی شدت میں اس کو اک نفس فرصر نہو
قرص سے خورشید کے جن تک نہ کر لے ناشتا

رات بھر ٹھونکا کیا انجم کے تارے طرخ پیر
پھر جو دیکھا صبح کو۔ اصلا شکم میں کچھ نہ تھا

پہنچی یہ تفتیح کی نوبت ۔ کہ توبتخانہ میں
لیتی ہے جی کھولکر کیا کیا ڈکاریں کرنا

پوست پھولا پے خوشی سے نفخ کا کیا دخل ہے
جوں حباب اس کے نہیں مطلق شکم میں امتلا

ہضم کام اس قدر معدہ نے پہنچایا بہم
جید الکیموس ہے جو حلق سے اتری غذا
 
Top