تنقید کے لئے ۔۔۔ صرف عنوان ہی کیا سارا فسانہ تیرا۔

صرف عنوان ہی کیا سارا فسانہ تیرا۔
عکس کب میرا ہے جو آئینہ خانہ تیرا۔
٭٭٭
ناچتے اور ہی لے پر ہیں یہ اربابِ نشاط۔
مفتی و شیخ و فقیہہ کر کے بہانہ تیرا۔
٭٭٭
جام و مِینا ہی نہیں، ساقی و صہبا ہی نہیں۔
پیرِ میخانہ ترا ہے تو زمانہ تیرا۔
٭٭٭
کام کر دے سِپر انداختہ لوگوں کا ذرا۔
اے کہ خالی نہیں جاتا ہے نشانہ تیرا۔
٭٭٭
یہ جو تحسین ہے سب گردشِ ساغر کی ہے۔
رات کی رات ہیں یہ دل بھی ٹھکانہ تیرا۔
٭٭٭
واعظا رند بھی ساقی کی طرح جانتے ہیں۔
جوہرِ سجدہ ترا، شغلِ شبانہ تیرا۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب۔ اصلاح کی ضرورت آپ کے کلام کو نہیں۔ بس ذرا فقیہہ کا تلفظ مکمل نہیں آ رہا ہے بحر میں
 
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے، تاہم میری ایک دو گزارشات ہیں۔
ابھی ایک غزل میں لفظ تشبیہ پر بات کی ہے، یہاں فقیہ کے ساتھ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔ ایک تو ہجے درست فرما لیں ’’فقیہہ‘‘ بطور مذکر نادرست ہے۔ ’’فقیہ‘‘ کی مؤنث ہو گی ’’فقیہہ‘‘ اور اس کو ’’ف قی ہہ‘‘ ادا کریں گے۔ جیسے فی البدیہہ میں ہے ’’فِل ب دی ہہ‘‘۔ تشبیہ اور فقیہ ان میں ہ حروفِ مادہ میں شامل ہے، اس کو گرانا ویسے بھی معیوب لگتا ہے (اجازت، غیر اجازت سے قطع نظر)۔
 
ٹھکانا ۔۔ اصولی طور پر ’’ٹھکانہ‘‘ نادرست ہے۔ اس کا آخر الف ہو گا۔ قافیہ کے طور پر البتہ یہاں کوئی قباحت نہیں، املاء بہر کیف درست ہونی چاہئے۔
 
Top