تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

سید زبیر

محفلین
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
سید زبیر

پاکستان ائر فورس کو اپنے محدود وسائل ، طیاروں اور سامانِ حرب کی کمی کا شروع ہی سے سامنا تھا ۔ اسی لیے پاک فضائیہ ہمیشہ سے ٓلات حرب کی نسبت افراد کی تربیت اور فنی صلاحیتوں پر توجہ دیتی رہی ۔ اور جب بھی دشمن نے جارحیت کی پاکستان ائر فورس نے مثالی قوت سے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جو نہ صرف پاک فضائیہ کے شاہینوں بلکہ پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے

یہ اسی تربیت اور بہترین پیشہ ورانہ تربیت کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۶۵ کی جنگ کے وقت پاکستان کے نمبر ۳۱ سکواڈرن کے پاس پاس بمبار طیارے صرف ۲۲ تھے جبکہ بھارت کے پاس اس کے مقابل بہترین بمبار کینبرا طیاروں کی تعداد ۶۰ تھی ۔ بہترین تربیت یافتہ تکنیکی عملے اور بلند حوصلہ ہوابازوں کی بدولت ان ۲۲ طیاروں نے ۱۶۷ ، پروازیں کیں جبکہ بھارت کے ۶۰، طیاروں نے ۹۲، پروازیں کیں جنگ کے اختتام پر پاکستان کے ۱۹ طیاروں کو نقصان پہنچا جبکہ بھارت کے ۵۴ ، طیارے تباہ ہوئے ۔

ایسی ہی اعلیٰ صلاھیتوں کے حامل ہوا باز سکواڈرن لیڈر عالم صدیقی اور سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی (نیوی گیٹر) ۶، ستمبر کی شام اپنے پہلے مشن پر مسرور (ماڑی پور' کراچی ) سے روانہ ہوئے اور بھارتی فضائیہ کے جام نگر پربمباری کر کے زبردست تباہی کی ۔ مشن سے واپس ہوئے تو رات بارہ بجے دوسرے مشن پر روانہ ہوگئے اس مشن سے بھی کامیاب و کامران لوٹے تو دیکھا تیسرا مشن تیار تھا اور اس میں عالم صدیقی کا نام نہیں تھا سکواڈرن لیڈر عالم صدیقی دشمن کو تہس نہس کردینا چاہتے تھے ۔ اُن کی حالت ایک ایسے عقاب کی مانند تھی جس کے آ شیانے پر دشمن حملہ آور ہوا ہو وہ جنون کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ وہ مادر وطن کی حرمت کی طرف بڑھتے ہوئے ہر قدم کو کچل دینا چاہتے تھے ۔ اگرچہ دو مسلسل کامیاب کاروائیوں کے بعد انہیں آرام کی ضرورت تھی مگر جب گھر پر حملہ ہو تو آرام کیسا۔ اُنہوں نے رضا کارانہ طور پر تیسرے مشن کے لیے بھی اپنا نام دے دیا اُن کے ساتھی نیوی گیٹر سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی بھلا کیسے پیچھے رہتے ۔ دونوں ساتھی شب تین بجے اپنے تیسرے مشن پر روانہ ہوئے ۔ یہ ایک چاندنی رات تھی چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی ۔ پاک فضائیہ کے اہل خان بیس ہی میں ایک کالونی میں مقیم ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی مشن روانہ ہوتا زمینی عملہ انہیں خدا حافظ کہتا اور ان کیمیاب واپسی کے لیے دعا گو ہوتا اور یہی حال اُن کے اہل خانہ کا ہوتا جو اپنے پیاروں کے لیے دعا گو ہوتے اور یہ سلسلہ اُ س وقت تک جاری رہتا جب تک واپسی نہ ہو جاتی ۔
248981-pilotshabbiralam-1315597662-550-640x4801_zpsb3acd953.jpg

سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی سکواڈرن لیڈر عالم صدیقی

عالم صدیقی اور اسلم دشمن پر جلد حملہ آور ہونا چاہتے تھے ،اُس رات 6 بمبار طیرے مسرور بیس سے دشمن حملے کے لیے اُڑے ۔ چاندنی رات کی بدولت وہ جلد ہی اپنے ہدف پر پہنچ گئے ۔ جام نگر کے ہوائی اڈے پر تین ہزار فٹ کی بلندی سے غوطہ زن ہوتے نشانوں پر بم گراتے اور پھر فضا میں بلند ہو کر تین ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ جاتے اس طرح انہوں نے چار مرتبہ کیا ور دشمن کے ایسے ہوائی اڈے کی جو بھارت بحری کے لیے بہت اہم تھا ، اُس کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ اُن کے جہاز کی غراہٹ سے دل دہل جاتے تھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عالم صدیقی طرح ان کا جہاز بھی دشمن کو مکمل ختم کرنا چاہ رہا ہے ۔ کامیاب حملے کے بعد انہوں نے دوسرتے جہاز میں سوار اپنے ساتھی سکواڈرن لیڈر رئیس رفیع سے موسم کی صورتحال پوچھی رئیس رفیع نے انہیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا یہ ان کا آخری رابطہ تھا ان کے جہاز کو حادثہ پیش آگیا اور دونوں ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا
pafpainting1_zpscf6f0213.jpg

جام نگر پر عالم صدیقی کے حملہ کی مصوری

ادھر کا لونی میں بالکونیوں میں کھڑی خواتین واپسی کے طیاروں کی تعداد پوری کر رہی تھیں ایک طیارہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا سب خواتین کے دلوں کی دھڑکنیں رک رک جا رہی تھیں شب بہت بیت چکی تھی ۔صسبح کاذب کا دھندلکا سا تھا ، نہ جانے کس کا طیارہ نہیں سب اپنے سہاگوں کی سلامتی کی طالب تھی مگر رب کریم نے انہیں کہیں زیادہ انعام دینا تھا ۔ سکواڈر ن لیڈر عالم صدیقی اور سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی کے اہل خانہ کو اُن کے لا پتہ ہونے کی اطلاع ان کے ساتھی سکواڈرن لیڈر رئیس رفیع نے پہنچائی عالم صدیقی کی اہلیہ شہناز عالم اور اسلم قریشی کی اہلیہ پروین قریشی جن کی عمریں بیس سال کے لگ بھگ تھیں اور شیر خوار بچوں کی مائیں تھیں دونوں ے اپنی زندگی ایک گو مگو کی سی کیفیت میں گزاری ۔ چالیس سال بعد ۲۰۰۶ میں وہ ائر کموڈور ریٹائرڈ نجیب خان کی وساطت سے بھارتی فضائیہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں ۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ ششی تیاگی نے باقاعدہ سرکاری طور پر شہناز عالم کو بھارت کی دعوت دی اور بتایا کہ عالم صدیقی بھارت کی طیارہ شکن توپوں کا نشانہ بنے اور ان کی تدفین قریب ہی قبرستان میں کی گئی تھی

سلام ہو جن کو اللہ کریم نے یہ سعادت عطا فرمائی

میرے اللہ نے شہیدوں کو مردہ کہنے سے منع کیا ہے ، بے شک وہ زندہ ہیں مگر ہم لا شعور ہیں
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
سید زبیر

پاکستان ائر فورس کو اپنے محدود وسائل ، طیاروں اور سامانِ حرب کی کمی کا شروع ہی سے سامنا تھا ۔ اسی لیے پاک فضائیہ ہمیشہ سے ٓلات حرب کی نسبت افراد کی تربیت اور فنی صلاحیتوں پر توجہ دیتی رہی ۔ اور جب بھی دشمن نے جارحیت کی پاکستان ائر فورس نے مثالی قوت سے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جو نہ صرف پاک فضائیہ کے شاہینوں بلکہ پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے

یہ اسی تربیت اور بہترین پیشہ ورانہ تربیت کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۶۵ کی جنگ کے وقت پاکستان کے نمبر ۳۱ سکواڈرن کے پاس پاس بمبار طیارے صرف ۲۲ تھے جبکہ بھارت کے پاس اس کے مقابل بہترین بمبار کینبرا طیاروں کی تعداد ۶۰ تھی ۔ بہترین تربیت یافتہ تکنیکی عملے اور بلند حوصلہ ہوابازوں کی بدولت ان ۲۲ طیاروں نے ۱۶۷ ، پروازیں کیں جبکہ بھارت کے ۶۰، طیاروں نے ۹۲، پروازیں کیں جنگ کے اختتام پر پاکستان کے ۱۹ طیاروں کو نقصان پہنچا جبکہ بھارت کے ۵۴ ، طیارے تباہ ہوئے ۔

ایسی ہی اعلیٰ صلاھیتوں کے حامل ہوا باز سکواڈرن لیڈر عالم صدیقی اور سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی (نیوی گیٹر) ۶، ستمبر کی شام اپنے پہلے مشن پر مسرور (ماڑی پور' کراچی ) سے روانہ ہوئے اور بھارتی فضائیہ کے جام نگر پربمباری کر کے زبردست تباہی کی ۔ مشن سے واپس ہوئے تو رات بارہ بجے دوسرے مشن پر روانہ ہوگئے اس مشن سے بھی کامیاب و کامران لوٹے تو دیکھا تیسرا مشن تیار تھا اور اس میں عالم صدیقی کا نام نہیں تھا سکواڈرن لیڈر عالم صدیقی دشمن کو تہس نہس کردینا چاہتے تھے ۔ اُن کی حالت ایک ایسے عقاب کی مانند تھی جس کے آ شیانے پر دشمن حملہ آور ہوا ہو وہ جنون کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ وہ مادر وطن کی حرمت کی طرف بڑھتے ہوئے ہر قدم کو کچل دینا چاہتے تھے ۔ اگرچہ دو مسلسل کامیاب کاروائیوں کے بعد انہیں آرام کی ضرورت تھی مگر جب گھر پر حملہ ہو تو آرام کیسا۔ اُنہوں نے رضا کارانہ طور پر تیسرے مشن کے لیے بھی اپنا نام دے دیا اُن کے ساتھی نیوی گیٹر سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی بھلا کیسے پیچھے رہتے ۔ دونوں ساتھی شب تین بجے اپنے تیسرے مشن پر روانہ ہوئے ۔ یہ ایک چاندنی رات تھی چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی ۔ پاک فضائیہ کے اہل خان بیس ہی میں ایک کالونی میں مقیم ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی مشن روانہ ہوتا زمینی عملہ انہیں خدا حافظ کہتا اور ان کیمیاب واپسی کے لیے دعا گو ہوتا اور یہی حال اُن کے اہل خانہ کا ہوتا جو اپنے پیاروں کے لیے دعا گو ہوتے اور یہ سلسلہ اُ س وقت تک جاری رہتا جب تک واپسی نہ ہو جاتی ۔
248981-pilotshabbiralam-1315597662-550-640x4801_zpsb3acd953.jpg

سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی سکواڈرن لیڈر عالم قریشی

عالم صدیقی اور اسلم دشمن پر جلد حملہ آور ہونا چاہتے تھے ،اُس رات 6 بمبار طیرے مسرور بیس سے دشمن حملے کے لیے اُڑے ۔ چاندنی رات کی بدولت وہ جلد ہی اپنے ہدف پر پہنچ گئے ۔ جام نگر کے ہوائی اڈے پر تین ہزار فٹ کی بلندی سے غوطہ زن ہوتے نشانوں پر بم گراتے اور پھر فضا میں بلند ہو کر تین ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ جاتے اس طرح انہوں نے چار مرتبہ کیا ور دشمن کے ایسے ہوائی اڈے کی جو بھارت بحری کے لیے بہت اہم تھا ، اُس کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ اُن کے جہاز کی غراہٹ سے دل دہل جاتے تھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عالم صدیقی طرح ان کا جہاز بھی دشمن کو مکمل ختم کرنا چاہ رہا ہے ۔ کامیاب حملے کے بعد انہوں نے دوسرتے جہاز میں سوار اپنے ساتھی سکواڈرن لیڈر رئیس رفیع سے موسم کی صورتحال پوچھی رئیس رفیع نے انہیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا یہ ان کا آخری رابطہ تھا ان کے جہاز کو حادثہ پیش آگیا اور دونوں ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا
pafpainting1_zpscf6f0213.jpg

جام نگر پر عالم صدیقی کے حملہ کی مصوری

ادھر کا لونی میں بالکونیوں میں کھڑی خواتین واپسی کے طیاروں کی تعداد پوری کر رہی تھیں ایک طیارہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا سب خواتین کے دلوں کی دھڑکنیں رک رک جا رہی تھیں شب بہت بیت چکی تھی ۔صسبح کاذب کا دھندلکا سا تھا ، نہ جانے کس کا طیارہ نہیں سب اپنے سہاگوں کی سلامتی کی طالب تھی مگر رب کریم نے انہیں کہیں زیادہ انعام دینا تھا ۔ سکواڈر ن لیڈر عالم صدیقی اور سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی کے اہل خانہ کو اُن کے لا پتہ ہونے کی اطلاع ان کے ساتھی سکواڈرن لیڈر رئیس رفیع نے پہنچائی عالم صدیقی کی اہلیہ شہناز عالم اور اسلم قریشی کی اہلیہ پروین قریشی جن کی عمریں بیس سال کے لگ بھگ تھیں اور شیر خوار بچوں کی مائیں تھیں دونوں ے اپنی زندگی ایک گو مگو کی سی کیفیت میں گزاری ۔ چالیس سال بعد ۲۰۰۶ میں وہ ائر کموڈور ریٹائرڈ نجیب خان کی وساطت سے بھارتی فضائیہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں ۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ ششی تیاگی نے باقاعدہ سرکاری طور پر شہناز عالم کو بھارت کی دعوت دی اور بتایا کہ عالم صدیقی بھارت کی طیارہ شکن توپوں کا نشانہ بنے اور ان کی تدفین قریب ہی قبرستان میں کی گئی تھی

سلام ہو جن کو اللہ کریم نے یہ سعادت عطا فرمائی

میرے اللہ نے شہیدوں کو مردہ کہنے سے منع کیا ہے ، بے شک وہ زندہ ہیں مگر ہم لا شعور ہیں
جزاک اللہ سید زبیر انکل۔ آپ کی تحاریر کا انتظار رہتا ہے۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
سلام ان کو جنہوں اپنا آج ہمارے کل کے لیئے قربان کر دیا ۔۔۔۔
بہت خوب شراکت محترم سید زبیر بھائی
 
Top