کاشفی
محفلین
غزل
(عبدالعزیز فطرت)
تمہاری یاد کو سینے سے ہوں لگائے ہوئے
ضیائے حسن سے یہ گھر ہوں جگمگائے ہوئے
فسانہ ہائے غمِ عشق باغ میں نہ کہو
یہ نغمے بلبلِ شوریدہ کے ہیں گائے ہوئے
گلوں کے ذوقِ نمو کا نہ پوچھئے احوال
ہیں فرطِ جوش سے چہرے بھی تمتمائے ہوئے
جہانِ حسن میں دیوانہ وار پھرتا ہوں
متاعِ ہوش و خرد ہاتھ میں اُٹھائے ہوئے
سجی ہوئی ہے بساطِ فلک تمام و کمال
ہر ایک سمت ستارے ہیں جگمگائے ہوئے
کسی کی یاد سے بہلا رہا ہوں دل فطرت
نگاہ روئے قمر پر ہوں میں جمائے ہوئے