ناز خیالوی ""تمہاری راہگزر سے گزر کے دیکھتے ہیں "" نازؔ خیالوی

تمہاری راہگزر سے گزر کے دیکھتے ہیں
پھر اس کے بعد نتیجے سفر کے دیکھتے ہیں

یونہی سہی یہ تماشہ بھی کر کے دیکھتے ہیں
کوئی سمیٹ ہی لے گا بکھر کے دیکھتے ہیں

ہمیں ہواؤں کے تیور جو دیکھنے ہوں کبھی
چراغِ جاں کو ہتھیلی پہ دھر کے دیکھتے ہیں

ملال یہ ہے کہ ہم آبرو سے جی نہ سکے
خیال یہ ہے کہ عزت سے مر کے دیکھتے ہیں

پھر اس کو دیکھتے رہتے ہیں دیکھتے والے
وہ ایک بار جسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بات بنانے پہ دسترس ہے اُسے
"یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں"

وفا بھی حسنِ عمل کا ثبوت مانگتی ہے
سو ہم بھی غازۃِ خِوں سے نِکھر کے دیکھتے ہیں

خرِد کی شعبدہ بازی کے ہم نہیں قائل
ہم اہل دل ہیں کرشمے نظر کے دیکھتے ہیں

تماشا کون سا آخر ہے سطح دریا پر
جسے حباب مسلسل اُبھر کے دیکھتے ہیں

نکل کے تم بھی پندارِ نازؔ سے دیکھو
تو ہم بھی بامِ انا سے اتر کے دیکھتے ہیں
نازؔ خیالوی
 
آخری تدوین:
Top