تلاشِ حق برائے اصلاح

تیری ذات کا کچھ عرفان چاہتا ہوں میں
کوئی قطرہ میرے رحمن چاہتا ہوں میں

مانتا ہوں تُو ہے ہر فہم سے ہی بالا تر
تیری کچھ تو پھر بھی پہچان چاہتا ہوں میں

مانتا ہوں ہے میری ہی تو یہ خطا ساری
اب نجات کا کچھ سامان چاہتا ہوں میں

جھوٹ اور سچّائی تو ملے ہیں آپس میں
جھوٹ اور سچ کی پہچان چاہتا ہوں میں

پاؤں چوم لوں اس کے اور جان دوں اس پر
رب سے جو ملا دے انسان چاہتا ہوں میں

کوئی تو ہو جو لوٹائے سکونِ دل میرا
اہلِ دل کی کوئی دوکان چاہتا ہوں میں

جی رہا ہوں گُھٹ گُھٹ کے دیارِ شر میں یوں
ہوں کسی کا یوسف کنعان چاہتا ہوں میں

چاہتا ہے ارشد الفت رسول کی یا رب
پختہ تجھ پہ یا رب ایمان چاہتا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
اگر اس کے مفاعیل میں درست سمجھا ہوں تو یہ بحر دو حصوں میں منقسم ہے۔ فاعلن مفاعیلن، فاعلن مفاعیلن
اس میں ہر حصے میں بات مکمل ہونا چاہیے، ٹوٹنا نہیں۔ اور یہاں قافیہ ہی تقسیم ہو رہا ہے۔ لن فاع میں۔رح۔مان، عر۔فان،ای۔مان وغیرہ
 
Top