تقطیع اور عروضی انجن

شاہد شاہنواز

لائبریرین
استاذ الشعراء محمد یعقوب آسی صاحب کا ایک شعر ذہن میں موجود تھا۔۔۔
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی؟
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے


ایک غزل اسی کو دیکھتے ہوئے لکھی جس کے دو اشعار یہ ہیں:

نبض تھمنے لگی خواہشوں کا نگر دیکھتے دیکھتے
ختم ہونے لگا زندگی کا سفر دیکھتے دیکھتے

خود بخود ذہن کے کچھ دریچے مری آنکھ میں کھل گئے
خود ہی در بن گیا ایک دیوار پر دیکھتے دیکھتے

جان جاتے ہی دیوار و در نے کہا : "اب چلے جائیے"
بند ہونے لگا ہم پہ اپنا ہی گھر دیکھتے دیکھتے
میرا خیال ہے کہ
عروضی انجن جو استاد آسی کے نام سے بنایا گیا ہے، اس کی تقطیع غلط کررہا ہے:
فَاعِلَتَان فَاعِلَاتُن مَفَاعِیلَتُن مَفَاعِیلَن فَاعِلَاتُن مَفَاعِلَاتُن فَاعِلَاتُن مَفَاعِیلَتُن فَاعِلَاتُن فَعِل/فَعُو
جبکہ میں سمجھتا ہوں یہ سب کا سب فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن میں تقطیع ہونا چاہئے ۔۔
اسی طرح ARUUZ.COMہے، وہ کوئی جواب ہی نہیں دے پا رہا۔۔
آپ کیا فرماتے ہیں بیچ اس مسئلے کے؟
استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب
اور
برادر عزیز
سید ذیشان
(اگر میں نے غلط ٹیگ کیا ہے تو براہ کرم درست کردیجئے ، شکریہ)
 
خود بخود ذہن کے کچھ دریچے مری آنکھ میں کھل گئے
خود ہی در بن گیا ایک دیوار پر دیکھتے دیکھتے

جان جاتے ہی دیوار و در نے کہا : "اب چلے جائیے"
بند ہونے لگا ہم پہ اپنا ہی گھر دیکھتے دیکھتے

بھئی واہ! کیا شعر نکالے ہیں صاحب! بہت عمدہ!
 
میرا خیال ہے کہ
عروضی انجن جو استاد آسی کے نام سے بنایا گیا ہے، اس کی تقطیع غلط کررہا ہے:
فَاعِلَتَان فَاعِلَاتُن مَفَاعِیلَتُن مَفَاعِیلَن فَاعِلَاتُن مَفَاعِلَاتُن فَاعِلَاتُن مَفَاعِیلَتُن فَاعِلَاتُن فَعِل/فَعُو
جبکہ میں سمجھتا ہوں یہ سب کا سب فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن میں تقطیع ہونا چاہئے ۔۔

وہ انجن تو ٹھیک سے چلا ہی نہیں صاحب! اس کو بھول ہی جائیے۔ محسن شفیق حجازی صاحب نے کام شروع کیا تھا، بعد میں وہ مصروف ہو گئے اور ٹریک بند ہو گیا۔

آپ نے بالکل درست تقطیع کی ہے: ایک مصرع چھ ’’فاعلن‘‘ کا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اپنے برادرر سید ذیشان تو کہیں پائے ہی نہیں جاتے ۔۔۔ ان کے نام پر کلک کرنے سے معلوم ہوا۔۔۔

ان کا aruuz.comلے کر اس میں آدھی آدھی تقطیع دیکھ لینا کیسا رہے گا؟؟
 
نبض تھمنے لگی خواہشوں کا نگر دیکھتے دیکھتے
ختم ہونے لگا زندگی کا سفر دیکھتے دیکھتے

خود بخود ذہن کے کچھ دریچے مری آنکھ میں کھل گئے
خود ہی در بن گیا ایک دیوار پر دیکھتے دیکھتے

جان جاتے ہی دیوار و در نے کہا : "اب چلے جائیے"
بند ہونے لگا ہم پہ اپنا ہی گھر دیکھتے دیکھتے

واہ وا جناب۔ بہت داد قبول فرمائیے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
لیجئے پوری غزل تقطیع اور دیگر فنی نقائص کی نشاندہی کی درخواست کے ساتھ حاضرہے:

نبض تھمنے لگی خواہشوں کا نگر دیکھتے دیکھتے
ختم ہونے لگا زندگی کا سفر دیکھتے دیکھتے

ہم تو یہ سوچتے تھے کہ شب ختم ہو، اب یہ ممکن نہیں
آنکھوں آنکھوں میں ہونے لگی ہے سحر دیکھتے دیکھتے

مسکراتے ہوئے سامنے سے چلی آرہی تھی قضا
منجمد ہوگیا سب کا خونِ جگر دیکھتے دیکھتے

جان جاتے ہی دیوارو در نے کہا : "اب چلے جائیے!"
بند ہونے لگا ہم پہ اپنا ہی گھر دیکھتے دیکھتے

ایسے کافر ادا کو بھی تنہا لٹایا گیا قبر میں
لوگ تھکتے نہیں تھے جسے عمر بھر دیکھتے دیکھتے

خود بخود ذہن کے کچھ دریچے مری آنکھ میں کھل گئے
خود ہی در بن گیا ایک دیوار پر دیکھتے دیکھتے

چلتے چلتے ذرا دیر کو لڑکھڑانے لگے تھے قدم
چھوڑ کر چل دئیے ہیں مجھے ہمسفر دیکھتے دیکھتے

میری آنکھوں کے آگے اُسے کاٹ کر کوئی لے بھی گیا
ایک جنگل کا سوچا تھا میں نے شجر دیکھتے دیکھتے

میں بھی ہر بار مظلوم کے ساتھ ظالم سے لڑتا رہا
کٹ کے گرتے رہے میرے کتنے ہی سر دیکھتے دیکھتے

محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی؟
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
کمال کا شعر ہے!
 

الف عین

لائبریرین
نبض تھمنے لگی خواہشوں کا نگر دیکھتے دیکھتے
ختم ہونے لگا زندگی کا سفر دیکھتے دیکھتے
//درست

ہم تو یہ سوچتے تھے کہ شب ختم ہو، اب یہ ممکن نہیں
آنکھوں آنکھوں میں ہونے لگی ہے سحر دیکھتے دیکھتے
//واضح نہیں۔ اب یہ ممکن کیوں نہیں؟

مسکراتے ہوئے سامنے سے چلی آرہی تھی قضا
منجمد ہوگیا سب کا خونِ جگر دیکھتے دیکھتے
//درست، اگرچہ کوئی خاص بات نہیں۔ محاورہ محض خون جمنے کا ہے، خون جگر جمنے کا نہیں۔

جان جاتے ہی دیوارو در نے کہا : "اب چلے جائیے!"
بند ہونے لگا ہم پہ اپنا ہی گھر دیکھتے دیکھتے
//درست

ایسے کافر ادا کو بھی تنہا لٹایا گیا قبر میں
لوگ تھکتے نہیں تھے جسے عمر بھر دیکھتے دیکھتے
//محاورہ محض ’دیکھتے نہیں تھکنا‘ ہے۔ دو بار دیکھتے غلط ہے۔

خود بخود ذہن کے کچھ دریچے مری آنکھ میں کھل گئے
خود ہی در بن گیا ایک دیوار پر دیکھتے دیکھتے
//ذہن میں یا آنکھ میں۔ ایک بات کہو۔ ذہن ہی درست ہے۔

چلتے چلتے ذرا دیر کو لڑکھڑانے لگے تھے قدم
چھوڑ کر چل دئیے ہیں مجھے ہمسفر دیکھتے دیکھتے
//چل دئے ہیں‘ نہیں، محض چل دئے‘ کی ضرورت ہے۔
میری آنکھوں کے آگے اُسے کاٹ کر کوئی لے بھی گیا
ایک جنگل کا سوچا تھا میں نے شجر دیکھتے دیکھتے
//واضح نہیں۔ دیکھتے دیکھتے سوچا ؟ کیا محاورہ ہے؟

میں بھی ہر بار مظلوم کے ساتھ ظالم سے لڑتا رہا
کٹ کے گرتے رہے میرے کتنے ہی سر دیکھتے دیکھتے
//درست
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بے حد شکریہ ۔۔۔ گویا اب صورت کچھ یوں بنی۔ ۔۔

نبض تھمنے لگی خواہشوں کا نگر دیکھتے دیکھتے
ختم ہونے لگا زندگی کا سفر دیکھتے دیکھتے

مسکراتے ہوئے سامنے سے چلی آرہی تھی قضا
منجمد ہوگیا سب کا خونِ جگر دیکھتے دیکھتے

جان جاتے ہی دیوارو در نے کہا : "اب چلے جائیے!"
بند ہونے لگا ہم پہ اپنا ہی گھر دیکھتے دیکھتے

سوچتے سوچتے خود بخود ذہن کے کچھ دریچے کھلے
خود ہی در بن گیا ایک دیوار پر دیکھتے دیکھتے

چلتے چلتے ذرا دیر کو لڑکھڑانے لگے تھے قدم
چھوڑ کر دور جانے لگے ہمسفر دیکھتے دیکھتے

میں بھی ہر بار مظلوم کے ساتھ ظالم سے لڑتا رہا
کٹ کے گرتے رہے میرے کتنے ہی سر دیکھتے دیکھتے

میری آنکھوں کے آگے اُسے کاٹ کر کوئی لے بھی گیا
ایک جنگل کا سوچا تھا میں نے شجر دیکھتے دیکھتے
//واضح نہیں۔ دیکھتے دیکھتے سوچا ؟ کیا محاورہ ہے؟
یہاں شجر دیکھتے دیکھتے جنگل کا سوچنا مراد ہے ۔۔۔ یعنی یہ ایک درخت ہے، اسی سے بیج حاصل کرکے ہم کتنے ہی اور درخت لگا سکتے ہیں ۔ اس سے جنگل اگ آئے گا۔ لیکن یہ بات یہاں واضح نہیں ہے تو اس شعر کو بھی ساقط سمجھا جائے کیونکہ فی الحال اس کی بہتر صورت ذہن میں نہیں آرہی ۔
 
Top