شائستہ

محفلین
سورہ الا عراف،،،،سورہ نمبر7

الاعراف


نام
اس سورہ کا نام اعراف اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کی ایات، 46۔47 میں اعراف اور اصحاب کا ذکر ایا ہے۔ گویا اسے ' سورہ اعراف' کہنے کا مطلب یہ ہے کہ' وہ سورہ جس میں اعراف کا ذکر ہے'

زمانہ نزول
اس کے مضامین پر غور کرنے سے بین طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول تقریبا وہی ہے جو سورہ انعام کا ہے۔ یہ بات تو یقین کے ساتھ نہین کہہ جاسکتی کہ یہ پہلے نازل ہوی ہے یا وہ۔ مگر انداز تقریر سے صاف ظاہر ہورہا ہےکہ ہے یہ اسی دور سے متعلق۔ لہذا اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس دیباچہ پر ایک نگاہ ڈال لینا کافی ہوگا جو ہم نے سورہ انعام پر لکھا ہے

مباحث
اس سورہ کی تقریر کا مرکزی مضمون دعوت رسالت ہے ساری گفتگو کا مدعا یہ ہے کہ مخاطبوں کو خدا کے فرستادہ پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے پرامادہ کیا جاے۔ لیکن اس دعوت میں انذار(تنبیہ اور ڈراوے) کا رنگ نمایاں پایا جاتا ہے، کیونکہ جو لوگ مخاطب ہیں (یعنی اہل مکہ) انہین سمجھاتے سمجھاتے ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور ان کی گران گوشی، ہٹ دھرمی، اور مخالفانہ ضد اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ عنقریب پیغمبر کو ان سے مخاطبہ بند کے کے دوسروں کی طرف رجوع کرنے کا حکم ملنے والا ہے۔ اس لیے تفہیمی اندازقبول رسالت کی دعوت دینے کے ساتھ ان کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ جوروش تم نے اپنے پیغمبر کے مقابلہ میں اختیار کررکھی ہےایسی ہی روش تم سے پہلے کی قومیں اپنے پیغمبروں کے مقابلہ میں اختیار کرکے بہت برا انجام دیکھ چکی ہیں۔ پھر چونکہ ان پرحجت تمام ہونے کے قریب اگی ہے اور ایک جگہ تمام دنیا کے لوگوں سے عام خطاب بھی کیا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب ہجرت قریب ہے اور وہ دور جس میں نبی کا خطاب تمام تر اپنے قریب کے لوگوں سے ہوا کرتا ہے ، خاتمہ پر الگا ہے
دوران تقریر میں چونکہ خطاب کا رخ یہود کی طرف بھی پھر گیا ہے اس لیے ساتھ ساتھ دعوت رسالت کے اس پہلو کو بھی واضح کردیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ منافقانہ روش اختیار کرنے اور سمعو طاعت کا عہد استوار کرنے کے بعد اسے توڑدینے، اور حق و باطل کی تمیز سے واقف ہوجانے کے بعد باطل پرستی میں مستغرق رہنے کا انجام کیا ہے

سورہ کے اخر میں نبی ؓ اور اپ کے صحابہ کو حکمت تبلیغ کے متعلق چند اہم ہدایات دی گی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ انہین نصحیت کی گی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے مقابلہ میں صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہو کر کوی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو!!!!!!
 

شائستہ

محفلین
ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے

ا ،ل ، م ، ص۔ یہ ایک کتاب ہے جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے(1)، پس اے محمد، تمھارے دل میں‌اس سے کوئی جھجک نہ ہو(2)۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو(3)۔ لوگو ، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو(4) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم نصحیت کم ہی مانتے ہو۔
کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا۔ ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جب کہ وہ آرام کررہے تھے۔ اور جب ہمارا عذاب ان پر آگیا تو ان کی زبان پر اس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے (5)
پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں(6) ، جن کی طرف ہم نے پیغمیبر بھیجے ہیں‌اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں( کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہان‌تک انجام دیا اور انہیں‌اس کا کیا جواب ملا(7) )
پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کردیں‌گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں‌تھے۔ اور وزن اس روز عین حق8 ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں‌گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں‌گے رہی اپنے آپ کو خسارے میں‌مبتلا کرنے والے ہوں‌گے(9) کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔
ہم نے تم کو زمین میں‌اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمھارے لیے یہاں سامان زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو
 

شائستہ

محفلین
1۔ کتاب سے مراد یہی سورہ اعراف ہے
2۔ یعنی بغیر کسی جھججکے اور خوف کے اسے لوگوں تک پہنچادو اور اس بات کی کچھ پروا نہ کرو کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے۔ وہ بگڑتے ہیں ، بگڑیں۔ مذاق اڑاتے ہیں ، اڑائیں۔ طرح طرح کی باتیں‌بناتے ہیں ، بنائیں۔ دشمنی میں‌اور زیادہ سخت ہوجاتے ہیں ، ہو جائیں۔ تم بے کھٹکے اس پیغام کو پہنچاؤ اور اس کی تبلیغ میں‌ذرا باک نہ کرو۔
جس مفہوم کے لیے ہم نے لفظ جھججک استعمال کیا ہے، اصل عبارت میں‌اس کے لیے لفظ حرج استعمال ہوا ہے ۔ لغت میں‌ حرج گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو۔ دل میں‌ حرج ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پاکر آدمی کا دل آگے بڑھنے سے رکے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلا “ اے محمد ، ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو“ ( الحجز، آیت 97) ،،، یعنی تمھیں‌پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد اور ہٹ‌دھرمی اور مخالفت حق کا یہ حال ہے انہیں‌ آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے
“ تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم پر وحی کیا جارہا ہے اس میں‌سے کوئی چیز تم بیان کرنے سے چھوڑ دو اور اس بات سے دل تنگ ہوکہ وہ تمھاری دعوت کے جواب میں کہیں گے اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اترا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا“ ( ہود، آیت نمبر12)
3۔ مطلب یہ ہے کہ اس سورہ کا اصل مقصد تو ہے انذار، یعنی لوگوں کو رسول کی دعوت قبول نہ کرنے کے نتائج سے ڈرانا اور غافلوں کو چونکانا اور متنبہ کرنا، رہی اہل ایمان کی تذکیر( یاد دہانیں تو وہ ایک ضمنی فائدہ ہے جو انذار کے سلسلے میں خود بخود حاصل ہوجاتا ہے
4۔ یہ اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے۔ اصل دعوت جو اس خطبہ میں دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت ہے ، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غایت سمجھنے کے لیے جو علم اسے درکار ہے اور اپنے اخلاق ، تہذیب، معاشرت اور تمدن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے، ان سب کے لیے اسے صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے ، اور صرف اسی کی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ بھیجی ہے۔اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا ار اپنے آپ کو اس کی رہنمائی کے حوالے کر دینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں‌نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا۔ یہاں “ اولیاء“ ( سرپرستوں) کا لفظ اسی معنی میں‌استعمال ہوا ہے کہ انسان جس کی رہنمائی پر چلتا ہے اسے درحقیقت اپنا ولی و سرپرست بناتا ہے خواہ زبان سے اس کی حمدو ثنا کے گیت گاتا ہو یا اس پر لعنت کی بوچھاڑ کرتا ہو، خواہ اس کی سرپرستی کا معترف ہو یا بہ شدت اس سے انکار کرے( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، اشوری ، حاشیہ 6)
5۔ یعنی تمھاری عبرت کے لیے ان قوموں کی مثالیں موجود ہیں جو خدا کی ہدایت سے منحرف ہوکر انسانوں اور شیطانوں کی رہنمائی پر چلیں اور آخر کار اس قدر بگڑیں کہ زمین پر ان کا وجود ایک ناقابل برداشت لعنت بن گیا اور خدا کے عذاب نے آکر ان کی نجاست سے دنیا کو پاک کیا۔
آخری فقرے سے مقصود دو باتوں پر متنبہ کرنا ہے ۔ ایک یہ کہ تلافی کا وقت گزر جانے کے بعد کسی کا ہوش میں آنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بےکار ہے۔ سخت نادان ہے وہ شخص اور وہ قوم جو خدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سرشاریوں میں ضائع کردے اور داعیان حق کی صداؤں کو بہرے کانوں سے سنے جائے اور ہوش میں‌صرف اس وقت آئے جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ اس پر پڑچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ افراد کی زندگیوں میں‌بھی اور اقوام کی زندگیوں میں‌ بھی ایک دو نہیں‌ بے شمار مثالیں تمھارے سامنے گزر چکی ہیں کہ جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہوچکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خدا کی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے، اور ایک مرتبہ پکڑ میں‌آجانے کے بعد چھٹکارے کی کوئی سبیل اسے نہیں ملتی۔ پھر جب تاریخ کے دوران میں‌ایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ یہی کچھ ہوچکا ہے تو آخر کیا ضروری ہے کہ انسان اس غلطی کا بار بار اعادہ کیے چلا جائے اور ہوش میں‌آنے کے لیے اسی آخری ساعت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ حسرت و اندوہ کے سوا نہیں ہوتا
6۔ باز پرس سے مراد روز قیامت کی باز پرس ہے۔ بدکار افراد اور قوموں پر دنیا میں‌جو عذاب آتا ہے وہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا، اچانک گرفتار کرلیا جائے اور مزید ظلم و فساد کے مواقع اس سے چھین لیے جائیں۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھری پڑی ہے اور یہ نظریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں‌شتر بے مہار کی طرح‌چھوڑ نہیں دیا گیاہے کہ جو چاہے کرتا پھر، بلکہ اوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حد خاص‌تک اسے ڈھیل دیتی ہے ، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے ، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں‌آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے۔ پھر اگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کررہا ہے اس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب ان سارے مجرموں پر عدالت قائم ہوگی اور ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کی آیت کو جس میں دینوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے، بعد والی آیت کے ساتھ لفظ “ پس“ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ گویا اس دینوی عذاب کا بار بار واقع ہونا آخرت کی باز پرس کے یقینا واقع ہونے پر ایک دلیل ہے
7۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کی باز پرس سراسر ، رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی، ایک طرف پیغبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا۔ دوسری طرف جن لوگوں‌ تک رسولوں کا پیغام پہنچا ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں انبیاء کا پیغام نہ پہنچاہو، ان کے بارے میں‌تو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمہ کا کیا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس معاملہ میں اللہ تعالی نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے ان کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق و نافرمانی کے لیے کوئی حجت نہ پیش کرسکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت وندامت کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے جہنم کی راہ لیں۔
8۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روز خدا کی میزان عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہونگے ۔ حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگی اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ باوزن ہوگا۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہوگا وزن کے لحاظ سے ہوگا، کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں‌کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں، اس ترازو میں سراسر بے وزن قرار پائے گی۔ باطل پرست جب اس میزان میں‌ تولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں‌ جو کچھ وہ مدت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرکاہ کے برابر بھی وزن نہیں‌رکھتا۔ یہی بات ہے جو سورہ کہف 103 تا105 میں‌فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں‌سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے ہیں اور اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کام کیا کہ انجام کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے ، ان کے کارنامہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے
9۔ اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ انسان کا کارنامہ زندگی دو پہلوؤں میں‌تقسیم ہوگا۔ ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو۔ مثبت پہلو میں صرف حق کو جاننا اور ماننا اور حق کی پیروی میں ، حق ہی کی خاطر کام کرنا شمار ہوگا اور آخرت میں اگر کوئی چیز وزنی اور قمیتی ہوگی تو وہ بس یہی ہوگی ۔ بخلاف اس کے حق سے غافل ہو کر یا حق سے منحرف ہو کر انسان جو کچھ بھی اپنی خواہش نفس یا دوسرے انسانوں اور شیطانوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر حق کی راہ میں‌کرتا ہے وہ سب منفی پہلو میں‌ جگہ پائے گا اور صرف یہی نہیں کہ یہ منفی پہلو بجائے خود بے قدر ہوگا بلکہ یہ آدمی کے مثبت پہلوؤں کی قدر بھی گھٹادے گا۔
پس آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا تمام تر انحصاراس پر ہے کہ اس کے کارنامہ زندگی کا مثبت پہلو اس کے منفی پہلو پر غالب ہو اور نقصانات میں بہت کچھ دے دلا کر بھی اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے۔ رہا وہ شخص جس کی زندگی کا منفی پہلو اس کے تمام مثبت پہلوؤں کو دبالے تو اس کا حال بالکل اس دیوالیہ تاجر کا سا ہوگا جس کی ساری پونجی خساروں کا بھگتان بھگتنے اور مطالبات ادا کرنے ہی میں‌کھپ جائے اور پھر بھی کچھ نہ کچھ مطالبات اس کے ذمہ باقی رہ جائیں
 

شائستہ

محفلین
سورہ الاعراف

ہم نے تھماری تخلیق کی ابتدا کی ، پھر تمھاری صورت بنائی ، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو۔اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔
پوچھا، “ تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا؟“
بولا،، میں‌اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے“
فرمایا،“ اچھا، تو یہاں سے نیچے اتر۔ تجھے حق نہیں‌ ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے۔ نکل جا کہ درحقیقت تو ان لوگوں میں‌سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں“
بولا،“ مجھے اس دن تک مہلت دے جب کہ یہ سب دوبارہ اٹھائے جائیں‌گے“۔
فرمایا ‘ تجھے مہلت ہے“
بولا،“ اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں‌مبتلا کیا ہے میں‌بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں‌لگا رہوں‌گا، آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں‌سے اکثر کو شکر گزار نہیں‌ پائے گا“
فرمایا ،“ نکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھکرایا ہوا۔ یقین رکھ کہ ان میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تجھ سمھت ان سب سے جہنم کو بھردوں گا۔ اور اے آدم، تو اور تیری بیوی ، دونوں اس جنت میں‌رہو، جہاں جس چیز کو تمھارا جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں‌سے ہو جاؤ گے“
پھر شیطان نے ان کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں‌جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے۔ اس نے ان سے کہا“ تمھارے رب نے تمھیں‌جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں‌تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے“۔
اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں‌تمھارا سچا خیر خواہ ہوں۔
اس طرح دھوکا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا۔ آخر کار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔
تب ان کے رب نے انہیں پکارا“ کیا میں نے تمھیں‌اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمھار کھلا دشمن ہے“۔
دونوں بول اٹھے“ اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں‌گے“۔

فرمایا ،“ اتر جاؤ ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ، اور تمھارے لیے ایک خاص مدت تک زمین میں‌جائے قرار اور سامان زیست ہے“۔ اور فرمایا“ وہیں‌تم کو جینا اور وہیں‌مرنا ہے اور اسی میں سے تم کو آخر کار نکالا جائے گا“
 

شائستہ

محفلین
سورہ الاعراف

اے اولاد آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقوی کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں‌سے ایک نشانی ہے ، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں۔ اے بنی آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں‌ پھر اسی طرح‌فتنے میں مبتلا کردے جس طرح اس نے تمھارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔ وہ اور اس کے ساتھی تمھیں‌ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیاطین کو ہم نے ان لوگوں کا سر پرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں‌لاتے۔
یہ لوگ ہم کوئی شرمناک کام کرتے ہیں‌تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اوراللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں‌دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں‌کہتے ہو جن کے متعلق تمھیں‌علم نہیں ہے( وہ اللہ کی طرف سے ہیں) اے محمد ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی و انصاف کا حکم دیا ہے اور اس کاحکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اسی کو پکارو، اپنےدین کو اس کے لیے خالص رکھ کر ، جس طرح اس نے تمھیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے۔
ایک گروہ کو تو اس نے سیدھا راستہ دکھادیا ہے، مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ انہوں نے خدا کے بجائے شیاطین کو اپنا سر پرست بنالیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں ۔
اے بنی آدم ، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کو ، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں‌کرتا۔
 

شائستہ

محفلین
اے محمد ان سے کہو کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوٰی پاک چیزوں ممنوع کردیں(22) ، کہو یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے روز تو خالصتہ انہی کے لیے ہوں گی(23) ۔ اس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں

اے محمد ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں ، بےشرمی کےکام ، خواہ کھلے ہوں یا چھپے،،،،،،،،،،، گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمای ہے۔

ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے پھر جب کسی قوم کی مدت ان پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم بھی نہیں ہوتی۔ ( اور یہ بات اللہ نے اغاز تخیلق ہی میں صاف فرمادی تھی کہ) اے بنی ادم یاد رکھو اگر تمھارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول اییں جو تمھیں میری ایات سنارہے ہوں ، تو جو کوی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے رویے کی اصلاح کرلے گااس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے اور جو لوگ ہماری ایات کو جھٹلایں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کے اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی سچی ایات کو جھٹلاے ایسے لوگ نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ گھڑی اجاے گی جب ہمارے بھیجے ہوے فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے ، اس وقت وہ ان سے پوچھیں گے کہ بتاو اب کہاں ہیں تمھارے وہ معبود جن کو تم خدا کے بجاے پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ سب ہم سے گم ہوگے ،،، اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکر حق تھے۔ اللہ فرماے گا جاو تم بھی اسی جہنم میں چلے جاو جس میں تم سے پہلے گزرے ہوے گروہ جن و انس جاچکے ہیں ۔ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا حتی کہ جب سب وہاں جمع ہوجایین گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے رب یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہذا انہیں اگ کا دوہرا عذاب دے،، جواب میں ارشاد ہوگا ہر ایک کے لیے دوہرا ہی عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہواور پہلا گروہ دوسرے گروہ سے کہے گا کہ ( اگر ہم قابل الزام تھے) تو تمھیہ کو ہم پر کونسی فضیلت حاصل تھی، اب اپنی کمای کے نتیجہ میں عذاب کا مزا چکھو
 

شائستہ

محفلین
یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری ایات کو جھٹلایا ہے ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ان کے لیے اسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جاییں گے۔ ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایساہی بدلہ ملا کرتا ہے ۔ ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم کا ہی اوڑھنا ۔ یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں ا اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں وہ اہل جنت یں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے ان کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہ کہیں گے کہ ،، تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ہم خود راہ نہ پاسکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمای نہ کرتا ، ہمارے رب کے بھیجے ہوے رسول واقعی حق ہی لے کر اے تھے ،، اس وقت ندا اے گی ،، یہ جنت جس کے تم وارث بناے گے ہو تمھیں ان اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے

پھر یہ جنت کے لوگ دوزخ ولاوں سے پکار کر کہیں گے ،،، ہم نے ان سارے وعدوں کو ٹھیک پالیا جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے ، کیا تم نے بھی ان وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمھارے رب نے کیے تھے؟ ،، وہ جواب دین گے ہاں ،،، تب ایک پکارنے والا ان کے درمیاں پکارے گا کہ خدا کی لعنت ان ظالموں پر جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے تھے اور ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور اخرت کے منکر تھے
ان دونوں گروہوں کے درمیاں ایک اوٹ حایل ہوگی جس کی بلندیوں پر کچھ اور لوگ ہونگے ، یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانین گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے ، کہ لسامتی ہو تم ،،، یہ لوگ جنت میں داخل تو نہٰں ہوے بر اس کے مایدوار ہونگے ، اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے رب ہمٰن ان ظالم لوگوں مین شامل نہ کیجیو
 

شائستہ

محفلین
، پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ دیکھ لیا تم نےاج نہ تمھارے جتھے تمھارے کسی کام اے اور نہ وہ ساز وسامان جن کو تم بڑی چیز سمھتے تھے ۔ اور کیا یہ اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں کن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا،، ٓج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہوجاو جنت میں تمھارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج

اور دوزخ کے لوگ جنت والوں کو پکاریں گے کہ کچھ تھوڑا سا پانی ہم پر ڈال دو ی ا جو رزق اللہ نے تمھیں دیا ہے اسی میں سے کچھ پھینک دو۔ وہ جواب دین گے کہ : اللہ نے دونوں چیزیں منکرین حق پر حرام کردی ہں جنہوں نے اپنے دیکن کو کھیل اور تفریح بنالیا تھا ار جنہین دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ اج ہم بھی انہین اسی طرح بھلادیں گے جس طرح وہ اس دن کی ملاقاتکو بھولے رہے اور ہم ایتوں کا انکار کرتے رہے

ہم ان لوگوں کے پاس ایک اایسی کتاب لے اے ہین جس کو ہم نے علم کیبنا پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمانل انے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ اب کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ وہ انجام سامنے اجاے جس کی یہ کتاب خبر دے رہی ہے ؟ جس روز وہ انجام سامنے اگیا تو وہی لوگ جنہوں نے اسے نظر انداز کردیا تھا کہیں گے کہ ،،، واقعی ہمارے رب کے رسول حق لے کر اے گے، پھر کیا اب ہم یں کچھ سفارشی ملین گے جو ہمارے حق میں سفارش کریں ؟ یا ہمٰں دوبارہ واپس ہی بھیج دیا جاے تاکہ جو کچھ ہم پہلے کرتے تھے اس کے بجاے اب دوسرے طریقے پر کام کرکے دکھایین ۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنے اپ کو خسارے میں ڈال دیا اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے نصنیف کر رکھے تھے اج انس ے گم ہوگے
 

شائستہ

محفلین
درحقیقت تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے اسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرماہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا اتا ہے ۔ جن نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو۔ اسی کی خلق ہے اسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا ملاک و پروردگار۔ اپنےھ رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوے اور چپکے چپکے ، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، زمیں مین فساد برپانہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو کوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ۔ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔
اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواوں کو اپنی رحمت کے اگے اگے خوشخبری لیے ہوے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوے بادل اٹھالیتی ہیں تو انہینں کسی مردہ سر زمیں کی طرف حکرت دیتا ہے ، اور وہاں مینہ برساکر ( اسی مری ہوی زمیں سے) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے ، دیکھو، اس طرح ہم مردوں کو حالت موت سے نکالتے ہٰ ، شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔ جو زمیں اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمیں خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہٰں ان لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں۔
 

شائستہ

محفلین
درحقیقت تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے اسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرماہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا اتا ہے ۔ جن نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو۔ اسی کی خلق ہے اسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا ملاک و پروردگار۔ اپنےھ رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوے اور چپکے چپکے ، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، زمیں مین فساد برپانہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو کوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ۔ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔
اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواوں کو اپنی رحمت کے اگے اگے خوشخبری لیے ہوے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوے بادل اٹھالیتی ہیں تو انہینں کسی مردہ سر زمیں کی طرف حکرت دیتا ہے ، اور وہاں مینہ برساکر ( اسی مری ہوی زمیں سے) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے ، دیکھو، اس طرح ہم مردوں کو حالت موت سے نکالتے ہٰ ، شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔ جو زمیں اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمیں خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اس طرح ہم نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہٰں ان لوگوں کے لیے جو شکر گزار ہونے والے ہیں۔
 

شائستہ

محفلین
ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا ، اے بردران قوم اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوی خدا نہیں ہے ۔ میں تمھارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا۔۔ ہم کوتو یہ نظر اتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔۔ نح نے کہا۔ اے برادران قوم مٰں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ،تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں ، تمھارا خیرخواہ ہوں، اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھو معلوم ہے جو تمھیں معلوم نہیں ہے ، کیا تمھیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمھارے پاس خود تمھاری اپنی قوم کے ایک ادمی کے ذریعہ سے تمھارے رب کی یاد دہانی ای تاکہ تمھیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاو ، اور تم پر رحم کیا جاے۔۔مگر انہوں نے اس کو جھٹلادیا ۔ اخر کا ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی اور ان لوگوں کو ڈبودیا جنہوں نے ہماری ایات کو جھٹلایا تھا یقینا وہ اندھے لوگ تھے
 

شائستہ

محفلین
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھای ہود کو بھیجا ،، اس نےکہا ، اے برادران قوم ، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھار کوی خدا نہیں ہے ، پھر کیا غلط روی سے پرہیز نہ کروگے ؟ اس کی قوم کے سرداروں نے جو اس کی بات ماننے سے س انکار کررہے تھے ، جواب میں کہا ،،، ہم تو تمھیں بے عقلی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمیں گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو۔۔۔ اس نے کہ ،،، اے برادران قوم میں بےعقلی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ، تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمھارا ایسا خیرخواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتاہے۔ کیا تمھیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمھارے پاس خود تمھاری اپنی قوم کے ایک ادمی کے ذریعہ سے تمھارے رب کی یاد دہانی ای تاکہ وہ تمھیں خبردار کرے؟ بھول نہ جاو کہ تمھارے رب نے نوح کی قوم کے بعد تم کو اس کا جانشین بنایا اور تھمیں خوب تنومند کیا، پس اللہ کی قدرت کے کرشموں کو یاد رکھو، امید ہے کہ فلاح پاو گے۔۔۔ انہوں نے جواب دیا۔۔۔ کیا تو ہمارے پاس اس لیے ایا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور انہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے اے ہیں ؟ اچھا تو لے او وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو سچا ہے۔۔ اس نے تمھارے رب کی پھٹکار تم پر پڑگی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑا کیا تم مجھ سے ان ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، جن کے لیے اللہ نے کوی سند نہیں نازل کی ہے؟ اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔۔۔ اخر کار ہم نے اپنی مہربانی سے ہود اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جو ہماری ایات کو جھٹلاچکے تھے اور ایمان لانے والے نہ تھے
 

شائستہ

محفلین
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھای صالح کو بھیجیا ، اس نے کہا ، اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمھارا کوی خدا نہیں ہے۔ تمھارے پاس تمھارے رب کی کبھلی دلیل اگی ہے ۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمھارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے۔ لہذا اسے چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے۔ اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایکدردناک عذاب تمھیں الے گا۔ یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمھیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ اج تم اس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو۔ پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہوجاو اور زمین میں فساد برپانہ کرو۔۔۔
اس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوے تھے کمزور طبقہ کے ان لوگوں سے جو ایمان لے اے تھے کہا ، ،، کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کا پیغمبر ہے؟ انہوں نے جواب دیا،،،، بے شک جس پیغام کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے اسے ہم مانتے ہیں ۔۔۔ ان بڑای کے مدعیوں نے کہا جس چیز کو تم نے مانا ہے ہم اس کے منکر ہیں ۔۔۔۔
پھر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمرد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے اور صالح سے کہہ دیا کہ لے ا وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبرون میں سے ہے۔۔۔ اخر کار ایک دہلادینے والی افت نے انہین ا لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گے۔ اور صالح یہ کہتا ہوا ان کی بستیوں سے نکل گیاکہ۔۔۔۔ اے میری قوم،، میں نے اپنےرب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور میں نے تیری بہت خیر خواہی کی، مگر میں کیا کروں کہ تجھے اپنے خیر خواہ پسند ہی نہیں ہیں

اور لوگ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا۔۔۔۔ کیا تم ایسے بے حیال ہوگے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جتم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، ھۡیقت یہی ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔۔۔ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ،، نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ۔۔۔ ٓکر کار ہم نے لوط اور اس کے گھر والوں کو ۔۔۔۔۔۔۔ بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔۔۔۔۔۔۔ بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسای ایک بارش پھر دیکھو کہ ان مجرموں کا کیا انجام ہوا۔۔۔
 

شائستہ

محفلین
اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھای شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا ،،، اے برادرن قوم اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوی خدا نہین ہے۔ تمھارے پاس تمھارے رب کی صاف رہنمای اگی ہے، لہذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمیں میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے ، اسی میں تمھاری بھلای ہے اگر تم واقعی مومن ہو۔ اور (زندگی کے) ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاو کہ لوگوں کو خوف زدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگو اور سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہوجاو۔ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمھیں بہت کردیا ، اور ٓنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیکم پر جس کے ساتھ میں بھیجیا گیا ہوں ، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہین لاتا تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیاں فیصلہ کردے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔۔۔
اس کی قوم کے سرداروں نے ، جو اپنی بڑای کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ اے شعیب ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لاے ہیں اپنی بستی سے نکلادین گے ونہ گم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس انا ہوگا۔۔۔ شعیب نے جواب دیا ،، کیا زبردستی ہمیں پھیرا جاے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں۔۔۔ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑے والے ہون گے اگر تمھاری ملت میں پلٹ اییں ،،، جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ہمارے لیے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہین الا یہ کہ خدا ہمارا رب ہی ایسا چاہے۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے اسی پر ہم نے اعتماد کرلیا ، اے رب ہمارے اورہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔۔۔۔
اس کی قوم کے سرداروں نے ، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر چکے تھے اپس میں کہا،،، اگر تم نے شعیب کی پیروی قبول کرلی تو برباد ہوجاو گے۔۔ مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی افت نے ان کو الیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گے ۔۔ جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے۔ شعیب کے جھٹلانے وال ہی اخر کار برباد ہو کر رہے اور شعیب یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ اے برادران قوم میں نے اپنے رب کے پیغامات تھیں پہنچا دییے اور تماری خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔ اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے
 

شائستہ

محفلین
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو ، اس خیال سے کہ شادی وہ عاجزی پر اتر اییں ۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہیاں تک کہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ،،، ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن اتے ہی رہے ہیں ۔۔ اخر کار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوی(77) ۔ اگر بستیوں کےلوگ ایمان لاتے اور تقوی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر اسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جھٹلایا ، لہذا ہم نے اس بری کمای کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے ۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ اجاے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟ یا انہین اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمرا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں ؟ حالانکہ اللہ کی چال() سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو

اور کیا ان لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اس امر واقعی نے کچھ سبق نہین دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں (79) (مگر وہ سبق اموز حقایق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگادیتے ہیں ، پھر وہ کچھ نہیں سنتے ()۔ یہ قومیں جن کے قصے ہم تمھیں سنارہے ہیں ( تمھارے سامنے مثال میں موجود ہیں) ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر اے ، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اسے وہ ماننے والے نہ تھے، دیکھو اس طرح ہم منکرین حق کے دلوں پر مہر لگادیتے ہیں1) ۔ ہم نے ان میں اکثرمیں کوی عہد پاس نہ پایا ، بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔
پھر ان قوموں کے بعد( جن کا ذکر اوپر کیا گیا ) ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا(3) مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا(4)۔
پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔
موسی نے کہا۔ اے فرعون(5) میں کاینات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا ایا ہوں، میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوی بات حق کے سوا کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمھارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر ایا ہوں ، لہذا تو بنی اسراییل کو میرے ساتھ بھیج دے(6)
فرعون نے کہا۔ اگر تو کوی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کرو۔

موسی نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدھا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا(7)
اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے اپس میں کہا کہ۔۔ یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے ، تھمیں تمھاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے() اب کہوں کیا کہتے ہو؟ پھر ان سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھای کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہر فن جادوگر کو اپ کےپاس لے اییں (9) چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس اگے ۔
انہوں نے کہا ،،، اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا
فرعون نے جواب دیا۔۔۔ ہاں ، اور تم مقرب بارگاہ ہوگے
پھر انہوں نے موسی سے کہا۔۔۔ تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکین؟
موسی نے جواب دیا۔۔ تم ہی پھینکو
انہوں نے جو اپنے انچھرپھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کردیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنالاے

ہم نے موسی کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا پھینکنا تھا کہ ان کی ان میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا(90)
اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں نے بنارکھا تھا وہ باطل ہوکر رہ گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوے اور ( فتح مند ہونے کی بجاے) الٹے ذلیل ہو گے۔ اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا ۔ کہنے لگے ہم نے مان لیا رب العالمین کو ۔ اس رب کو جسے موسی اور ہارون مانتے ہیں(91) ۔۔
فرعون نے کہا۔ تم اس پر ایمان لے اے قبل اس کے میں تمھیں اجازت دوں؟ یقینا یہ کوی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسطنت مین کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کردو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمھیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ مین تمھارے ہاتھ پاوں مخالف سمتوں سے کٹوا دونگا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاوں گا۔۔
انہوں نے جواب دیا۔ بہر حال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف سہے۔ تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے اگییں تو ہم نے انہیں مانا لیا۔ اے رب ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں(92)
فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا۔۔ کیا تو موسی اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلاییں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟ فرعون نے جواب دیا۔ میں ان کے بیٹوں کو قتل کراوں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ (93)ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے۔
موسی نے اپنی قوم سے کہا،، اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو ، زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنادیتا ہے۔ اور اخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوے کام کریں۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا۔۔ تیرے انے سے پہلے بھی ہم ستاے جاتے تھے اور اب تیرے انے پر بھی ستاے جارہے ہیں۔۔۔ اس نے جواب دیا۔۔ قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کردے اور تم کو زمین کا خلیفہ بناے ۔ پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو
ہم نے فرعون کے لوگوں کو کی سلا تک قحط اور پیداوار کی کمی مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش اجاے۔ مگر ان کو حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ اتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں اور جب برا زمانہ اتا تو موسی اوراس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فال بدٹھیراتے۔ حالانکہ در حقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے۔ انہوں نے موسی سے کہا،، تو ہمیں محسور کرنے کے لیے خواہ کوی نشانی لے اے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہین ہین۔ اخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹدل دل چھوڑے سرسر یاں پھیلایین ، مینڈک نکلاے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیان الگ الگ کرکے دکھایین ، مگر وہ سرکشی کیے چلے گے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ جب کبھی ان پر بلا نازل ہوجاتی تو کہتے ، اے موسی تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر، اگر اب کے تو ہم پر سے یہ بلا ٹلوادے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور نی اسراییل کو تیرے ساتھ بھیج دین گے۔ مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک کے لیے ، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والےتھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بے پروا ہوگے تھے۔اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھ گے تھے ۔ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسراییل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہوا ، کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کردیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔
بنی اسراییل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا ، پھر وہ چلے اور راستے یں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوی تھی، کہنے لگے، اے موسی ہمارے لیے بھی کویی ایسا معبود بنادے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں
موسی نے کہا ، تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتےہو۔ یہ لوگ جس طریقہ کی پیروی کررہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کررہے ہیں وہ سراسر باطل ہے۔
پھر موسی نے کہا ،،، کیا میں اللہ کے سوا کوی اور معبود تمھارے لیے تلاش کروں؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے۔ اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمھیں نجات دی جن کا حال یہ تھا کہ تمھیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے۔تمھارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے تمھاری بڑی ازمایش تھی۔
ہم نے موسی کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سیناپر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کردیا، اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہوگی ۔ موسی نے چلتے ہوے اپنےبھای ہارون سے کہاکہ ،، میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا۔ جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ۔۔ اے رب ، مجھے یاراے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں۔ ۔ فرمایا ' تومجھے نہیں دیکھ سکتا ۔ ہاں ذراسامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قایم رہ جاے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا" چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسی غش کھا کر گر پڑا۔ جب ہوش ایا تو بولا" پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں" ،، فرمایا" اے موسی میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو۔ پس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکر بجالا"
اس کے بعد ہم نے موسی کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصحیت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا
"ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں۔ عنقریب میں تمھیں فاسقوں کے گھر دکھاوں گا۔ میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کی نگاہیں پھیردونگا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں ، وہ خواہ کوی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لایین گے، اگر ایسا ان کے سامنے اے تو اسے اختیار نہ کرین گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر اے تو اس پر چل پڑیں گے، اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بے پروای کرتے رہے ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور اخرت کی پیشی کا انکار کیا اس کے سارے اعمال ضایع ہوگے۔ کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پاسکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں؟"
موسی کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنالیا جس میں سے بیل کی سی اواز نکلتی تھی۔ کیا انہیں نظر نہ اتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمای کرتا ہے؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنالیا اور وہ سخت ظالم تھے۔ پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہوگے ہیں تو کہنے لگے" اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہوجایین گے"
ادھر سے موسی غصے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا ۔ اتے ہی اس نے کہا" بہت بری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد ، کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے؟"
اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھای (ہارون) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ ہارون نے کہا" اے میرے ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبالیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر"
تب موسی نے کہا" اے رب مجھے اور میرے بھای کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما ، تو سب سے بڑھ کررحیم ہے"
( جواب میں ارشادہواکہ) " جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہوکر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے۔ جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔ اور جو لوگ برے عمل کریں پھر توبہ کرلیں اور ایمان لے اییں تو یقینا اس توبہ و ایمان کے بعد تیرا رب درگزر اور رحم فرمانے والا ہے"
پھر جب موسی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے تختیاں اٹھالیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور اس نے اپنی قوم کے ستر ادمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ ( اس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوے وقت پر حاضر ہوں۔ جب ان لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسی نے عرض کیا" اے میرے سرکار، اپ چاہتے تو پہلے ہی ان کو اور مجھے ہلاک کرسکتے تھے۔ کیا اپ اس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کردیں گے؟ یہ تو اپ کی ڈالی ہوی ایک ازمایش تھی جس کے ذریعہ سے اپ جسے چاہتے گمراہی میں مبتلا کردیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ۔ ہمارے سرپرست تو اپ ہی ہیں۔ پس ہمیں معاف کردیجیے اور ہم پر رحم فرماییے ، اپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں۔اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلای بھی رکھ دیجیے اور اخرت کی بھی، ہم نے اپ کی طرف رجوع کرلیا"
جواب میں ارشاد ہوا " سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھای ہوی ہے اور اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوۃ دیں گے اور میری ایات پر ایمان لایین گے"
(پس اج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر نبی امی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے بدی سے روکتا ہے ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوے تھے لہذا جو لوگ اس پر ایمان لاییں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں" اے محمد کہو کہ " اے انسانو، میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور اسمانون کی بادشاہی کا مالک ہے اس کے سوا کوی خدا نہیں ہے وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے پس ایمان لاو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوے نبی امی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے اور پیروی اختیار کرو اس کی ، امید ہے کہ تم راہ راست پالوگے"
موسی کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا۔ اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کرکے انہین مستقل گروہون کی شکل دے دی تھی۔ اور جب موسی سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کرلی۔ ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور ان پر من و سلوی اتارا۔۔۔
کھاو وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں ، مگر اس کے بعد انہوں نے جوکچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ۔ یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ اس بستی میں جاکر بس جاو اور اس کی پیداوار سے اپنے حسب منشا روزی حاصل کرو ، اور حطۃ حطۃ کہتے جاو اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوے داخل ہو، ہم تمھاری خطاییں معاف کرین گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازین گے۔ مگر جو لوگ ان میں سے ظالم تھے انہوں نے اس بات کو جو ان سے کہی گی تھی بدل ڈالا۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر اسمان سے عذاب بھیج دیا۔
اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاو وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر پر ان کے سامنے اتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں اتی تھین۔یہ اس لیےہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو ازمایش میں ڈال رہے تھے۔ اور انہیں یہ بھی یاد دلاو کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرےگروہ سے کہا تھا کہ" تم ایسے لوگوں کو کیوں نصحیت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے" تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ " ہم یہ سب کچھ تمھارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں" اخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گے جو انہیں یاد کرای گی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جوبرای سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا بندر بن جاو ذلیل اور خوار۔
اور یاد کرو جبکہ تمھارے رب نے اعلان کردیا کہ " وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسراییل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے" یقینا تمھارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقینا وہ درگزر اور رحم سے کام لینے والا ہے۔
ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے بہت سی قوموں میں تقسیم کردیا۔ کچھ لوگ ان میں نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف۔ اور ہم ان کو اچھے اور برے حالات سے ازمایش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ اییں ۔ پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوے جو کتاب الہی کے وارث ہو کر اسی دنیاے دنی کے فایدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کردیا جاے گا۔ اور اگر وہی متاع دنیا پھر سامنے اتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں ۔ کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جاچکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے ۔ اخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے۔ کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟ جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنھوں نے نماز قایم رکھی ہے یقینا ایسے نیک کردار لوگوں کا اجر ہم ضایع نہیں کرین گے۔ انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کررہے تھے کہ وہ ان پر اپڑے گا اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمھیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔
اور اے نبی ، لوگوں کو یاد دلاو وہ وقت جبکہ تمھارے رب نے بنی ادم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوے پوچھا تھا کہ " کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟" انہوں نے کہا " ضرور اپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں " یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ " ہم تو اس بات سے بے خبر تھے" یا یہ نہ کہنے لگو کہ " شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوے پھر کیا اپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔ دیکھو اس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ اییں۔
اور اے محمد ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی ایات کا علم عطا کیا تھا مگر ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ اخر کار شیطان اس کے پیچھے پڑگیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہوکر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان ایتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے ، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکاے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکاے رہے ، یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری ایات کو جھٹلاتے ہیں ۔
تم حکایات ان کو سناتے رہو۔ شاید کہ یہ کچھ غوروفکر کریں بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری ایات کو جھٹلایا اور وہ اپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ رہمنای سے محروم کردے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن ارو انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہین مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ۔ ان کے پاس انکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گے گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوے گے ہیں ۔ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے ، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منخرف ہوجاتے ہیں ۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکررہیں گے۔
ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہداہت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری ایات کو جھٹلادیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جایین گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگ۔ میں ان کو ڈھیل دے رہاہوں میری چال کا کوی توڑ نہیں ہے۔
اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچانہیں ؟ ان کے رفیق پر جنون کا کوی اثر نہیں ہے۔ وہ تو ایک خبردار ہےجو(برا انجام سامنے انے سے پہلے ) صاف صاف متنبہ کررہا ہے ۔ کیا ان لوگوں نے اسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے انکھین کھول کر نہیں دیکھا؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب الگا ہو؟ پھر اخر پیغمبر کی ا س تنبیہ کے بعد اور کونسی بات ایسی ہوسکتی ہے جس پر یہ ایمان لاییں؟۔۔۔۔۔۔۔ جس کو اللہ رہمنای سے محروم کردے اس کے لیے پھر کوی رہنما نہیں ہے ، اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔
یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ اخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ، کہوں اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا۔ اسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا۔ وہ تم پر اچانک اجاے گا۔ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوے ہو۔ کہو، اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں "
اے محمد ان سے کہو کہ " میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہین رکھتا ، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے ۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فایدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوی نقصان نہ پہنچتا ۔ میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانین"
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جنس سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگی تو دونوں نے مل کر اللہ ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح سالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیرانے لگے۔ اللہ بہت بلند و بالا تر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہین ۔ کیسے نادان ہین یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ،جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں ۔ اگر تم انہین سیدھی راہ پر انے کی دعوت دو تو وہ تمھارے پیچھے نہ اییں، تم خواہ انہیں پکارو یا خاموش رہو، دونوں صورتوں مین تمھارے لیے یکساں ہی رہے۔ تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہین پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو، ان سے دعاییں مانگ دیکھو، یہ تمھاری دعاوں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمھارے خیالات صحیح ہین ، کیا یہ پاوں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں؟ کیا یہ انکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سنیں؟ اے محمد، ان سے کہو کہ بلالو اپنے ٹھیراے ہوے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو، میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک ادمیوں کی حمایت کرتا ہے، بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمھاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد کرنے کے قابل ہیں، بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر انے کے لیے کہو تو وہ تمھاری بات سن بھی نہیں سکتے، بظاہر تم کو ایسا نظر اتا ہے کہ وہ تمھاری طرف دیکھ رہے ہین مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔
اے نبی ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاو، اور جاہلوں سے نہ الجھو، اگر کبھی شیطان تمھیں اکساے تو اللہ کی پناہ مانگو۔ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کی اثر سے کوی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فورا چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر انے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ رہے ان کے (شیاطین) کے بھای بند۔ تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں۔اور انہین بھٹکانے میں کوی کسر اٹھا نہین رکھتے۔
اے نبی ، جب تم ان لوگوں کے سامنے کوی نشانی(یعنی معجزہ)پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی؟ ان سے کہو" میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمھارے رب کی طرف سے ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ جب قران تمھارے سامنے پڑھا جاے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو۔ شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجاے۔
اے نبی ، اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو، دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی اواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجاو جو غفلت میں پڑے ہوے ہیں ۔ جو فرشتے تمھارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑای کے گھمنڈ میں اکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے اگے جھکے رہتے ہیں
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ الانفال کے معانی کی ترجمانی
تم سے اَنفال کے متعلق پُوچھتے ہیں؟ کہو “یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو”۔ سچّے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں، جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں۔ قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ (اِس غنیمت کے معاملہ میں بھی ویسی ہی صورت پیش آ رہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جبکہ) تیرا رب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے دراں حالے کہ وہ صاف صاف نمایاں ہو چکا تھا۔ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔
یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تا کہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقینًا اللہ زبردست اور دانا ہے۔
اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تا کہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کر دے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے قدم جما دے۔
اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہاتھا کہ “میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رُعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ”۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے۔ یہ ہے تم لوگوں کی سزا، اب اس کا مزا چکھو، اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔
اے ایمان لانے والو، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری، الا یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دُوسری فوج سے جا ملنے کےلیے ، تو وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائے گا، اُس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے۔
پس حقیقت یہ ہے کہ تم سے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نےپھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اِس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقینًا اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے۔ یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے۔ (اِن کافروں سے کہہ دو) “اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہترہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اس سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی۔ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے”۔
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے۔یقینًا خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ اگر اللہ کو معلوم ہوتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سُننے کی توفیق دیتا (لیکن بھلائی کے بغیر) اگر وہ ان کو سُنواتا تو وہ بے رُخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے۔
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کےدرمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ اے ایمان لانے والو، جانتے بُوجھتے اللہ اور اس کے رسُولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو، اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کےلیے بہت کچھ ہے۔ اے ایمان لانے والو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری بُرائیوں کو تم سے دُور کر دے گا، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر دیں یا جلا وطن کر دیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ “ہاں، سُن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی پُرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آ رہے ہیں”۔ اور وہ بات بھی یاد ہے جو اُنہوں نے کہی تھی کہ “خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ”۔ اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنےوالا نہ تھا جبکہ تو ان کے درمیان موجود تھا۔ اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دیدے۔ لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجد حرام کا راستہ روک رہے ہیں، حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں۔ اس کے جائز متولی تو صرف اہلِ تقوٰی ہی ہو سکتے ہیں۔ مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیان پیٹتے ہیں۔ پس اب لو، اِس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔ جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے۔ مگر آخرکار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے، پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے تا کہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے۔ یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں۔
اے نبیؐ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن اگر یہ اسی پچھلی روش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔
اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے، اور اگر وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے۔
اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسُولؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈبھیڑ کے دن، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی، ( تو یہ حصہ بخوشی ادا کرو)۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دُوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا۔ اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرارداد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلوتہی کر جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظُہور میں لے آئے تا کہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقینًا خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے۔
اور یاد کرو وہ وقت جبکہ اے نبیؐ، خدا اُن کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا، اگر کہیں وہ تمہں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے، لیکن اللہ ہی نے اِس سے تمہیں بچایا، یقینًا وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔
اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور ان کی نگاہوں میں تمہیں کم کر کے پیش کیا، تاکہ جو بات ہونی تھی اُسے اللہ ظُہور میں لے آئے، اور آخرکار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی۔ اور اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینًا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور اُن لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔
ذرا خیال کرو اس وقت کا جب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مگر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ اُلٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگ نہیں دیکھتے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔ جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کےدلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقینًا اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے۔ وہ ان کے کے چہروں اور ان کے کولھوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے “لو اب جلنے کی سزا بھگتو، یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیا کر رکھا تھا، ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے”۔ یہ معاملہ ان کے ساتھ اُسی طرح پیش آیا جس طرح آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے دُوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا۔ اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطہ کے مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کیا اور آل فرعون کو غرق کر دیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔
یقینًا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں۔ (خصوصًا) ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دُوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہو جائیں۔ توقع ہے کہ کہ بد عہدوں کے اِس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقینًا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا ۔ منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقینًا وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔
اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا۔
اور اے نبیؐ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقینًا وہی سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقینًا وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ اے نبیؐ، تمہارے لیے اور تمہارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے۔
اے نبیؐ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے، اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔
کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سخت سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینًا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اے نبیؐ، تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں ان سے کہو اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اُس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں، چنانچہ اسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آ گئے، اللہ سب کچھ جانتا اور حکیم ہے۔
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام) میں آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔ جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدو جہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔ مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، یقینًا اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ التوبۃ کے معانی کی ترجمانی
اعلان برأت ہے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اَور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرینِ حق کو رسوا کرنے والا ہے۔
اطلاعِ عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حجِ اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین کے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبیؐ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو، بجز اُن مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پُورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدتِ معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔
پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو۔ اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنُنے) تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔
ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسُول کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہو سکتا ہے؟ بجز اُن لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔ مگر اِن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اُن کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا۔ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کر لی ہے پھر اللہ کے راستے میں سدِّ راہ بن کر کھڑے ہو گئے۔ بہت بُرے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ کسی مومن کے معاملہ میں نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادتی ہمیشہ ان کی طرف سے ہوئی ہے۔ پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں۔ اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے شروع کر دیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے۔
کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسُول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم اس سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا، اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے گا۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے۔ کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے (اس کی راہ میں) جانفشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درانحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہو گئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے آبادکار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکٰوۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے۔ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں۔ یقینًا اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبی، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسُول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غَزوہ حُنَین کے روز (اُس کی دستگیری کا شان تم دیکھ چکے ہو)۔ اس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرینِ حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں۔ پھر (تم یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اے ایمان لانے والو، مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔
جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسُول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابنِ مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبُود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمّل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو ی کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے ایمان لانے والو، اِن اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دھکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پشانیوں اور پہلوؤں کو داغا جائے گا، یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزا چکھو۔
حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ ٹھیک یہی ضابطہ ہے۔ لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مِل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔ نَسِی تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔ کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد بھی پوری کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہُوا حلال بھی کر لیں۔ ان کے بُرے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ منکرینِ حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دُنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اُٹھائے گا، اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دُوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ "غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے"۔ اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافرں کا بول نیچا کر دیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔ نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
اے نبی، اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقینًا تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔
اے نبی، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تا کہ تم پر کھُل جاتا کہ کون لوگ سچّے ہیں اور جھُوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔ جو لوگ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں۔
اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو ان کا اُٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لیے انہیں سُست کر دیا اور کہدیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دَوڑ دُھوپ کرتے، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کی باتیں کان لگا کر سُنتے ہیں، اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی اِن لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا اُلٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آ گیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا۔
ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ “مجھے رخصت دے دیجیے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے”۔ سُن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنّم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔
تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہُوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کر لیا تھا۔ ان سے کہو “ہمیں ہرگز کوئی (بُرائی یا بھَلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہلِ ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے”۔
ان سے کہو، “تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں سے دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں”۔
ان سے کہو “ تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے کیونکہ تم فاسق لوگ ہو”۔ ان کے دیے ہوئے مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے، نماز کے آتے ہیں تو کَسمَساتے ہوئے آتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادلِ نخواستہ خرچ کرتے ہیں۔ اِن کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاؤ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے اور یہ جان بھی دیں تو انکارِ حق ہی کی حالت میں دیں۔
وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں، حالانکہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوف زدہ ہیں۔ اگر وہ کوئی جائے پناہ پا لیں یا کوئی کھوہ یا گھُس بیٹھنے کی جگہ، تو بھاگ کر اُس میں جا چھُپیں۔
اے نبیؐ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں۔اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسولؐ نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہ اپنے فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا، ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں”۔ یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرضداروں کی مدد کرنے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبیؐ کو دُکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچّا ہے۔ کہو، “وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے رسُول کو دُکھ دیتے ہیں، ان کے لیے دردناک سزا ہے”۔
یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تا کہ تمہیں راضی کریں، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسُول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور اُس کے رسُول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔
یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سُورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔ اے نبیؐ، ان سے کہو، “اور مذاق اُؑڑاؤ، اللہ اُس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو”۔ اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ ان سے کہو “کیا تمہاری ہنسی، دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟ اب عذرات نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کےبعد کفر کیا ہے، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دُوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دُوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ بُرائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھُول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھُلا دیا۔ یقینًا منافق ہی فاسق ہیں۔ ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتشِ دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہی ان کے لیے موزوں ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔ تم لوگوں کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمہارے پیش رووں کے تھے۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے۔ پھر انہوں نے دنیا میں اپنے حصے کے مزے لُوٹ لیے اور تم نے بھی اپنے حصے کے مزے اسی طرح لُوٹے جیسے انہوں نے لُوٹے تھے، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے، سو ان کا انجام یہ ہُوا کہ دُنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہو گیا اور وہی خسارے میں ہیں۔ کیا اِن لوگوں کو اپنے پیش رووں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوحؑ کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیمؑ کی قوم، مَدیَن کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں اُلٹ دیا گیا۔ اُن کے رسُول ان کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکٰوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقینًا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدابہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
اے نبیؐ، کفّار اور منافقین دونوں کا پُوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ آخرکار ان کا ٹھکانہ جہنّم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصّہ اسی بات پر ہے نا کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آ جائیں تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو اِن کا حمایتی اور مددگار ہو۔
ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولتمند کر دیا تو وہ بخل پر اُتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اِس بدعہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی، اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کےدلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اس کے حضور پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ کیا یہ لوگ جانتے نہیں کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں تک معلوم ہیں اور وہ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے؟ (وہ خوب جانتا اُن کنجوس دولت مندوں کو) جو برضا و رغبت دینے والے اہلِ ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھاٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اُڑاتے ہیں جن کے پاس (راہ خدا میں دینے کے لیےٌ) اُس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں۔ اللہ اِن مذاق اُڑانے والوں کا مذاق اُڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے نبیؐ، تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو، اگر تم ستّر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔
جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسُول کا ساتھ نہ دینے اور گھر میں بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہُوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ “اس سخت گرمی میں نہ نکلو”۔ ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ، اس لیے کہ جو بدی یہ کماتے رہے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے (کہ انہیں اس پر رونا چاہیے)۔ اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ “اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیّت میں کسی دشمن سے لڑ سکتے ہو، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر بیٹھنے والوں ہی کے ساتھ بیٹھے رہو”۔
اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔ ان کی مالداری اور ان کی کثرتِ اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اس مال و اولاد کے ذریعہ سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔
جب کبھی کوئی سُورۃ اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسُولؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ ہم بیٹھنے والوں کےساتھ رہیں۔ ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامِل ہونا پسند کیا اور ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔ بخلاف اس کے رسُولؐ نے اور ان لوگوں نے جو رسول کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور اب ساری بھلائیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے عظیم کامیابی۔
بدوی عربوں میں سے بھی بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی جائے۔ اِس طرح بیٹھے رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان بدویوں میں سے جن جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے عنقریب وہ دردناک سزا سے دوچار ہوں گے۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خُلوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسُولؐ کے وفادار ہوں۔ ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبورًا واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسُو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔ البتّہ اعتراض ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں اور پھر بھی تم سے درخواستیں کرتے ہیں کہ انہیں شرکتِ جہاد سے معاف رکھا جائے۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا، اس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی اس روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے)۔
تم جب پلٹ کر ان کے پاس پہنچو گے تو یہ طرح طرح کے عذرات پیش کریں گے۔ مگر تم صاف کہہ دینا کہ “بہانے نہ کرو، ہم تمہاری کسی بات کا اعتبار نہ کریں گے۔ اللہ نے ہم کو تمہارے حالات بتا دیے ہیں۔ اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرز عمل کو دیکھے گا۔ پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھلے اور جھُپے سب کا جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو”۔ تمہاری واپسی پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے کہ تم ان سے صَرفِ نظر کرو۔ تو بے شن تم ان سے صَرفِ نظر ہی کر لو، کیونکہ یہ گندگی ہیں اور ان کا اصلی مقام جہنّم ہے جو ان کی کمائی کے بدلے میں انہیں نصیب ہوگی۔ یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ۔ حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ اللہ ہرگز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہو گا۔
یہ بدوی عرب کفرونفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔ ان بدویوں میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹّی سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کر رہے ہیں (کہ تم کسی چکّر میں پھنسو تو وہ اپنی گردن سے اس نظام کی اطاعت کا قلادہ اتار پھینکیں جس میں تم نے انہیں کس دیا ہے)۔ حالانکہ بدی کا چکّر خود انہی پر مسلّط ہے اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ اور انہی بدویوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے ہاں تقرّب کا ااور رسُولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرّب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کریگا، یقینًا اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہُوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیّا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔؂
تمہارے گردوپیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں سے بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں۔ تم انہیں نہیں جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں۔ قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے، پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔
کچھ لوگ اور ہیں جنہوں نے اپنے قصُوروں کا اعتراف کر لیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ اور کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دُعا ان کے لیے وجہ تسکین ہو گی، اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ کیا اِن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے، اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے؟ اور اے نبیؐ، اِن لوگوں سے کہدو کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِعمل اب کیا رہتا ہے۔ پھر تم اُس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھُلے اور چھُپے سب کو جانتا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
کچھ دُوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھیرا ہُوا ہے، چاہے انہیں سزا دے اور چاہے اُن پر ازسرِنو مہربان ہو جائے۔ اللہ سب کچھ جانتا اور حکیم و دانا ہے۔
کچھ اَور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اِس غرض کے لیے کہ (دعوتِ حق کو) نقصان پہنچائیں، اور (خدا کی بندگی کرنے کے بجائے) کفر کریں، اور اہل ایمان میں پھُوٹ ڈالیں، اور (اس بظاہر عبادت گاہ کو) اُس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اُس کے رسُولؐ کے خلاف برسرِ پیکار ہو چکا ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا کسی دُوسری چیز کا نہ تھا۔ مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ قطعی جھُوٹے ہیں۔ تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ جو مسجد اوّل روز سے تقوٰی پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔ پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بُنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اُٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنّم کی آگ میں جا گری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے یقینی کی جڑ بنی رہے گی (جس کے نکلنے کی اب کوئی صُورت نہیں) بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہو جائیں۔ اللہ نہایت باخبر اور حکیم و دانا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اُس کی بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گُن گانے والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حُدُور کی حفاظت کرنے والے، (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خریدوفروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں ) اور اے نبی ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔
نبی کو اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دُعا کریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات کھُل چکی ہے کہ وہ جہنّم کے مستحق ہیں۔ ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے جو دُعائے مغفرت کی تھی وہ تو اُس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا، مگر جب اس پر یہ بات کھُل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گیا، حق یہ ہے کہ ابراہیم بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بردبار آدمی تھا۔
اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کر دے جب تک کہ انہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ درحقیقت اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ ہی کے قبضہ میں آسمان و زمین کی سلطنت ہے، اسی کی اختیار میں زندگی و موت ہے، اور تمہارا کوئی حامی و مددگار ایسا نہیں ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے۔
اللہ نے معاف کر دیا نبی کو اور اُن مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت نبیؐ کا ساتھ دیا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہو چلے تھے، (مگر جب انہوں نے اس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبی کا ساتھ ہی دیا تو ) اللہ نے انہیں معاف کر دیا، بے شک اُس کا معاملہ اِن لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے۔ اور اُن تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کے معاملہ کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بار ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے، تو اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں، یقینًا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچّے لوگوں کا ساتھ دو۔ مدینے کے باشندوں اور گردونواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسُول کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بے پروا ہو کر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے۔ اس لیے کہ ایسا کبھی نہ ہوگا کہ اللہ کی راہ میں بھوک و پیاس اور جسمانی مشقّت کی کوئی تکلیف وہ جھیلیں، اور منکرینِ حق کو جو راہ ناگوار ہے اُس پر کوئی قدم وہ اُٹھائیں، اور کسی دُشمن سے (عداوتِ حق کا) کوئی انتقام وہ لیں اور اس کے بدلے ان کے حق میں ایک عمل صالح نہ لکھا جائے۔ یقینًا اللہ کے ہاں محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہو گا کہ (راہ خدا میں ) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ وہ اُٹھائیں اور (سعی جہاد میں ) کوئی وادی وہ پار کریں اور ان کے حق میں اسے لکھ نہ لیا جائے تاکہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطا کرے۔
اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہُوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصّہ میں سے کچھ لوگ نِکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو اُن منکرینِ حق سے جو تم سے قریب ہیں۔ اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں، اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے) پُوچھتے ہیں کہ “کہو، تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہُوا”؟ (اس کا جواب یہ ہے کہ ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سُورت نے )اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں، البتّہ جن لوگوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہُوا تھا اُن کی سابق نجاست پر (ہر نئی سُورت نے) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا اور وہ مرتے دم تک کفر ہی میں مُبتلا رہے۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں؟ مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔ جب کوئی سُورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دُوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے، پھر چپکے سے نکل بھاگتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔
دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسُول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔ اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبیؐ، ان سے کہدو کہ “میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا”۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ یونس کے معانی کی ترجمانی
ا ل ر، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکت و دانش سے لبریز ہے۔(1)
کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہو گئی کہ ہم نے خود اُنہی میں سے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کےلیے اُن کے رب کے پاس سچّی عزّت و سرفرازی ہے (2)؟ (کیا یہی وہ بات ہے جس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھُلا جادُوگر ہے(3)؟
حقیت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تختِ حکومت پر جلوہ گر ہُوا اور کائنات کا نظام چلا رہا ہے (4)۔ کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے(5)۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو(6) ۔ پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے (7)؟
اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے ( 8 ) ، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے (9) گا، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہُوا پانی پییں اوردردناک سزا بھگتیں اُس انکار حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے (10)۔
وہی ہے جس نے سُورج کو اُجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ (کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) بامقصدہی بنایا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ یقینًا رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں اور ہر اُس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے ) بچنا چاہتے ہیں(11)۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں، اُن کا آخری ٹھکانہ جہنّم ہو گا اُن بُرائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرز عمل کی وجہ سے ) کرتے رہے (12ٌ)۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے اُن صداقتوں کو قبول کر لیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں) اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں اُن کا رب اُن کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں میں ان کے نیچے نہریں بہیں گی، وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ “پاک ہے تو اے خدا،” اُن کی دعا یہ ہو گی کہ “سلامتی ہو” اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہو گا کہ “ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے (14) “۔
اگر کہیں (15ٌ) اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مُہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں۔ انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتوتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔ لوگو، تم سے پہلے کی قوموں (16) کو ( جو اپنے اپنے زمانہ میں برسرِ عُروج تھیں) ہم نے ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی (17) روش اختیار کی اور اُن کے رسُول اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لا کر ہی نہ دیا۔ اس طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اب ان کے بعد ہم نے تم کو زمین میں ان کی جگہ دی ہے تا کہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو ( 18 ) ۔
جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ “اِس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو (19)”۔ اے محمدؐ، ان سے کہو “میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبّدل کر لوں۔ میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے (20)”۔ اور کہو “اگر اللہ کی مشیّت نہ ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سُناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے (21)؟ پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھُوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے (22)۔ یقینًا مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے (23)”۔
یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ اے محمدؐ، ان سے کہو “کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں”؟ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
ابتدًا سارے انسان ایک ہی امّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے، اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا جاتا۔
اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اِس نبیؐ پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی، تو ان سے کہو “غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں”۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فورًا ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ان سے کہو “اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری سب مکّاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں”۔ وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دُعائیں مانگتے ہیں کہ “اگر تو نے ہم کو اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے”۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ لوگو، تمہاری یہ بغاوت اُلٹی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے۔ دنیا کے چند روزہ مزے ہیں (لُوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اُس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔ (تم اِس ناپائیدار زندگی کے فریب میں مُبتلا ہو رہے ہو) اور اللہ تمہیں دار السّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے) جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ جن لوگوں نے بھَلائی کا طریقہ اختیار کیا ان کے لیے بھَلائی ہے اور مزید فضل۔ ان کے چہروں پر رُوسیاہی اور ذلّت نہ چھائے گی۔ وہ جنت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور جن لوگوں نے بُرائیاں کمائیں ان کی بُرائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ذلّت ان پر مسلّط ہو گی، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہو گا، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں) اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھیر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیّت کا پردہ ہٹا دیں گے اور ان کے شریک کہیں گے کہ “تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے”۔ اُس وقت ہر شخص اپنے کیے کا مزا چکھ لے گا، سب اپنے مالک حقیقی کی طرف پھیر دیے جائیں گے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے گم ہو جائیں گے۔
اِن سے پُوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟ تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔ پھر حق کے بعد گمراہی کےسوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جا رہے ہو؟ (اے نبیؐ، دیکھو) اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے رب کی بات صادق آ گئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے۔
اِن سے پُوچھو، تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی، پھر تم یہ کس اُلٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو؟
اِن سے پُوچھو تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو؟ کہو وہ صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ پھر بھلا بتاؤ، جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا اِلّا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسے اُلٹے الٹے فیصلے کرتے ہو؟
حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں، حالاں کہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔
اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے۔ بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو، “اگر تم اپنے اس الزام میں سچّے ہو تو ایک سُورۃ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بُلا سکتے ہو مدد کے لیے بُلا لو”۔ اصل یہ ہے کہ جو چیز اِن کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا، اُس کو اِنہوں نے (خوامخواہ اٹکل پچّو) جھٹلا دیا۔ اِسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھُٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو اُن ظالموں کا کیا انجام ہُوا۔ اِن میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے اور تیرا رب اُن مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔ اگر یہ تجھے جھُٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ “میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بَری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں”۔
ان میں سے بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں، مگر کیا تو بہروں کو سنائیگا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟ اِن میں بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں، مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انہیں کچھ نہ سُوجھتا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔ (آج یہ دُنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ اِن کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دُنیا کی زندگی اِنہیں ایسی محسُوس ہو گی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے۔ (اس وقت تحقیق ہو جائے گا کہ) فی الواقع سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہرگز وہ راہِ راست پر نہ تھے۔ جن بُرے نتائج سے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں ان کا کوئی حصہ ہم تیرے جیتے جی دکھا دیں یا اس سے پہلے ہی تجھے اُٹھا لیں، بہرحال اِنہیں آنا ہماری ہی طرف ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر اللہ گواہ ہے۔
ہر امّت کے لیے ایک رسُول ہے۔ پھر جب کسی امّت کے پاس اُس کا رسُول آ جاتا ہے تو اس کا فیصلہ پُورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔
کہتے ہیں اگر تمہاری یہ دھمکی سچّی ہے تو آخر یہ کب پُوری ہو گی؟ کہو “میرے اختیار میں خود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں، سب کچھ اللہ کی مشیّت پر موقوف ہے۔ ہر امّت کے لیے مُہلت کی ایک مدّت ہے، جب یہ مدّت پُوری ہو جاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی”۔ اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آ جائے (تو تم کیا کر سکتے ہو؟) ۔ آخر یہ ایسی کونسی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟ کیا جب وہ تم پر آ پڑے اسی وقت تم اسے مانو گے؟ اب بچنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم خود ہی اس کے جلدی آنے کا تقاضا کر رہے تھے! پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے عذاب کا مزا چکھو، جو کچھ تم کماتے رہے ہو اس کی پاداش کے سوا اور کیا بدلہ تم کو دیا جا سکتا ہے؟
پھر پُوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ کہو “میرے رب کی قسم، یہ بالکل سچ ہے اور تم اتنا بل بُوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہُور میں آنے سے روک دو”۔ اگر ہر اُس شخص کے پاس جس نے ظلم کیا ہے، رُوئے زمین کی دولت بھی ہو تو اُس عذاب سے بچنے کے لیے وہ اسے فدیہ میں دینے پر آمادہ ہو جائے گا۔ جب یہ لوگ اس عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل ہی دل میں پچھتائیں گے۔ مگر ان کے درمیان پُورے انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا، کوئی ظلم ان پر نہ ہو گا۔ سنو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ سُن رکھو! اللہ کا وعدہ سچّا ہے مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔
لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ، کہو کہ “یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں”۔ اے نبیؐ، ان سے کہو “تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرا لیا”! اِن سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟ جو لوگ اللہ پر یہ جھوٹا افترا باندھتے ہیں ان کا کیا گمان ہے کہ قیامت کے روز ان سے کیا معاملہ ہو گا؟ اللہ تو لوگوں پر مہربانی کی نظر رکھتا ہے مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو شکر نہیں کرتے۔
اے نبیؐ، تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سُناتے ہو، اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو اُس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی چیز ذرہ برابر آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔ سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوٰی کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں، عزّت ساری کی ساری خدا کے اختیار میں ہے، اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے، سب سے سب اللہ کے مملوک ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے و ہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (کھُلے کانوں سے پیغمبر کی دعوت کو) سُنتے ہیں۔
لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ سُبحان اللہ! وہ تو بےنیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے۔ تمہارے پاس اس قول کے لیے آخر دلیل کیا ہے؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟ اے محمدؐ، کہدو کہ جو لوگ اللہ پر جھُوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پا سکتے۔ دُنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کر لیں، پھر ہماری طرف اُن کو پلٹنا ہے پھر ہم اس کفر کے بدلے میں جس کا ارتکاب وہ کر رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
ان کو نوحؐ کا قصہ سُناؤ، اُس وقت کا قصّہ جب اُس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ “اے برادرانِ قوم اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سُنا سُنا کرتمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کر لو اور جو منصُوبہ تمہارے پیشِ نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہارے نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مُہلت نہ دو۔ تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا (تو میرا کیا نقصان کیا) میں تم سے کسی اجر کا طلب گار نہ تھا، میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں"۔
انہوں نے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہُوا کہ ہم نے اسے اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا۔ پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبّہ کیا گیا تھا (اور پھر بھی انہوں نے مان کر نہ دیا) اُن کاکیا انجام ہوا۔
پھر نوحؐ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کے آئے، مگر جس چیز کو انہوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیتے ہیں۔
پھر ان کے بعد ہم نے موسٰی اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کا اور وہ مُجرم لوگ تھے۔ پس جب ہمارے پاس سے حق ان کے سامنے آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھُلا جادُو ہے۔ موسٰیؐ نے کہا: “تم حق کو یہ کہتے ہو جبکہ وہ تمہارے سامنے آ گیا ہے؟ کیا یہ جادُو ہے؟ حالانکہ جادُوگر فلاح نہیں پایا کرتے”۔ اُنہوں نے جواب میں کہا “کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے؟ تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں”۔ اور فرعون نے (اپنے آدمیوں سے) کہا کہ “ہر ماہرِ فن جادوگر کو میرے پاس حاضر کرو”۔ جب جادوگر آ گئے تو موسٰی نے ان سے کہا “جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے پھینکو”۔ پھر جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینک دیے تو موسٰی نے کہا “یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادُو ہے، اللہ ابھی اِسے باطل کیے دیتا ہے، مفسدوں کے کام کو اللہ سُدھرنے نہیں دیتا، اور اللہ اپنے فرمانوں سے حق کو حق کر دکھاتا ہے، خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو”۔
(پھر دیکھو) کہ موسٰی کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآور لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں۔
موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ “لوگو، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو”۔ انہوں نے جواب دیا “ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے”۔
اور ہم نے موسٰی اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ “مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو اور اپنے لیے ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو”۔
موسٰی نے دعا کی “اے ہمارے رب، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے۔ اے رب، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مُہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں”۔ اللہ تعالٰی نے جواب میں ارشاد فرمایا “تم دونوں کی دُعا قبول کی گئی۔ ثابت قدم رہو اور اُن لوگوں کے طریقے کی ہرگز پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے”۔
اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے۔ پھر فرعون اور اس کے لشکر ظلم اور زیادتی کی غرض سے ان کےپیچھے چلے۔ حتٰی کے جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اُٹھا “میں نے مان لیا کہ خداوندِ حقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں بھی سرِ اطاعت جھُکا دینے والوں میں سے ہوں۔ (جواب دیا گیا) “اب ایمان لاتا ہے! حالانکہ اِس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تا کہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں”۔
ہم نے بنے اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا اور نہایت عمدہ وسائلِ زندگی انہیں عطا کیے۔ پھر انہوں نے باہم اختلاف نہیں کیا مگر اُس وقت جبکہ علم اُن کے پاس آ چکا تھا۔ یقینًا تیرا رب قیامت کے روز اُن کے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔
اب اگر تُجھے اُس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پُوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے رب کی طرف سے، لہٰذا تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھُٹلایا ہے، ورنہ تو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پر تیرے رب کا قول راست آ گیا ہے ان کے سامنے خواہ کوئی نشانی آ جائے وہ کبھی ایمان لا کر نہیں دیتے جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں۔ پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہُوا ہو؟ یُونسؑ کی قوم کے سوا (اس کی کوئی نظیر نہیں)۔ وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتّہ ہم نے اس پر دُنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا اور اس کو ایک مدّت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا۔؂
اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی کہ (زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔
اِن سے کہو “زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو”۔ اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں۔ اب یہ لوگ اِس کے سوا اور کس چیز کے منتظر ہیں کہ وہی بُرے دن دیکھیں جو اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگ دیکھ چکے ہیں؟ اِن سے کہو “اچھّا انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں”۔ پھر (جب ایسا وقت آتا ہے تو ) ہم اپنے رسُولوں اور اُن لوگوں کو بچا لیا کرتے ہیں جو ایمان لائے ہوں۔ ہمارا یہی طریقہ ہے۔ ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کو بچا لیں۔
اے نبیؐ، کہہ دو کہ “لوگو، اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو سُن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اس کی بندگی کرتا ہوں جس کے قبضے میں تمہاری موت ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمَان لانے والوں میں سے ہوں۔ اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تو یکسُو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اِس دین پر قائم کر دے، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔ اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پُکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان۔ اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہو گا۔ اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے”۔
اے محمدؐ، کہہ دو کہ “لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آ چکا ہے۔ اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اس کی راست روی اسی کے لیے مفید ہے، اور جو گمراہ رہے اس کی گمراہی اسی کے لیے تباہ کن ہے۔ اور میں تمہارے اوپر کوئی حوالہ دار نہیں ہوں”۔ اور اے نبیؐ، تم اس ہدایت کی پیروی کیے جاؤ جو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جا رہی ہے، اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ ہود کے معانی کی ترجمانی (پہلا حصہ)

ا ل ر۔ فرمان (1) ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں (2)، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف، کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔ اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا (3) اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا (4)۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑ ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھُپ جائیں (5)۔ خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھُپے کو بھی جانتا ہے اور کھُلے کو بھی، وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔ زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں سونپا جاتا ہے (6)، سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھے دنوں میں پیدا کیا، جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا (7) ، تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے (8) ۔ اب اگر اے محمدؐ، تم کہتے ہو کہ لوگو، مرنے کے بعد تم دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے، تو منکرین فورا بول اُٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے (9) ۔ اور اگر ہم ایک خاص مدت تک ان کی سزا کو ٹالتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کس چیز نے اُسے روک رکھا ہے؟ سنو! جو روز اُس سزا کا وقت آ گیا تو وہ کسی کے پھیرے نہ پھر سکے گا اور وہی چیز ان کو آ گھیرے گی جس کا وہ مذاق اُڑا رہے ہیں۔
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے (10) ۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی (12) ۔
تو اے پیغمبرؐ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی کو (بیان کرنے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے “اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا”، یا یہ کہ “اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا”۔ تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے (13) ۔
کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو، “اچھّا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سُورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبُود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بُلا سکتے ہو تو بُلا لو اگر تم (انہیں معبُود سمجھنے میں) سچّے ہو۔ اب اگر وہ (تمہارے معبُود) تمہاری مدد کو نہیں پہنچتے تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوئی ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبُود نہیں ہے۔ پھر کیا تم (اِس امرِ حق کے آگے) سرِتسلیم خم کرتے ہو (14) ”؟
جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں (15) ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے (16) ۔ (وہاں معلوم ہو جائے گا) کہ جو کچھ انہوں نے دُنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا (17)، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آ گیا (18)، اور پہلے موسٰی کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کر سکتا ہے؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے (19)۔ اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو ا س کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبرؐ، تم اِس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔
اور اُس شخص سے بڑھ کا ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھُوٹ گھڑے (20)؟ ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھُوٹ گھڑا تھا۔ سُنو! خدا کی لعنت ہے ظالموں پر (21)، اُن ظالموں پر (22) جو خدا کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں، اس کے راستے کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں (23) اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، وہ (24) زمین میں اللہ کو بےبس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی ان کا حامی تھا۔ انہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے (25) گا۔ وہ نہ کسی کی سُن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی انہیں کچھ سُوجھتا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خود گھاٹے میں ڈالا اور سہ سب کچھ ان سے کھویا گیا جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا۔ ناگزیر ہے کہ وہی آخرت میں سب سے بڑھ کر گھاٹے میں رہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے، تو یقینًا وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں (27) گے۔ اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے والا اور سُننے والا، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں (28) ؟ کیا تم (اِس مثال سے) کوئی سبق نہیں لیتے؟
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا (29)۔ (اُس نے کہا) “میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا (30) ”۔ جواب میں اُس کی قوم کے سردار، جنہوں نے اس کی بات ماننے سے انکار کیا تھا، بولے “ہماری نظر میں تو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے (31)۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس اُن لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے (32)۔ اور ہم کوئٰ چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے کچھ بڑھے ہوئے ہو (33)، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں”۔ اس نے کہا “اے برادرانِ قوم، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھُلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا(34) مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم نہ ماننا چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپیک دیں؟ اور اے برادرانِ قوم، میں اِس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا (35)، میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے۔ اور میں اُن لوگوں کو دھکّے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ آپ ہی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں (36)۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔ اور اے قوم، اگر میں اِن لوگوں کو دھتکار دوں تو خدا کی پکڑ سے کون مجھے بچانے آئے گا؟ تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات بھی نہیں آتی؟ اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعوٰی ہے کہ میں فرشتہ ہوں (37) اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی۔ ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا”۔
آخرکار ان لوگوں نے کہا کہ “اے نوحؑ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا۔ اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچّے ہو”۔ نوحؑ نے جواب دیا “وہ تو اللہ ہی لائے گا، گر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو۔ اب اگر میں تمہاری کچھ خیرخواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیرخواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کر لیا ہو، وہی تمہارا رب ہے اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹنا ہے”۔
اے محمدؐ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو “اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جُرم کی ذمّہ داری ہے، اور جو جُرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بَری ہوں”۔ ع
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتُوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو۔ اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں (40)۔
نُوح کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اُڑاتا تھا۔ اس نے کہا “اگر تم ہم ہر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں، عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اُسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے (41) گی”۔
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور تنور اُبل پڑا (42) تو ہم نے کہا “ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی، سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے (43)، اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں”۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ نوحؑ نے کہا “سوار ہو جاؤ اِس میں، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے (45)”۔
کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اُٹھ رہی تھی۔ نوحؑ کا بیٹا دُور فاصلے پر تھا۔ نوحؑ نے پُکار کر کہا “بیٹا، ہمارے ساتھ سوار ہو جا، کافروں کے ساتھ نہ رہ”۔ اُس نے پلٹ کر جواب دیا “میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا”۔ نوحؑ نے کہا “آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اِس کے کے اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے”۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔
حکم ہُوا “اے زمین، اپنا سارا پانی نِگل جا اور اے آسمان، رُک جا”۔ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا، فیصلہ چکا دیا گیا، کشتی جودی پر ٹِک گئی (46)، اور کہہ دیا گیا کہ دُور ہوئی ظالموں کی قوم!
نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا “اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچّا ہے (47) اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے (48)”۔ جواب میں ارشاد ہُوا “اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے (49)، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے (50)”۔ نوحؑ نے فورًا عرض کیا”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں (51) گا”۔
حکم ہُوا “اے نوحؑ، اُتر جا (52) ، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تُجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامانِ زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا”۔
اے محمدؐ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم۔ پس صبر کرو، انجام کار متقیوں ہی کے حق میں ہے۔ (53)۔ ع
اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو بھیجا (54)۔ اُس نے کہا “اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، تمہارا کوئی خدا اُس کے سوا نہیں ہے۔ تم نے محض جھُوٹ گھڑ رکھے ہیں (55)۔ اے برادران قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے (56)؟ اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا (57)۔ مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔”
انہوں نے جواب دیا “اے ہُود، تو ہمارے پاس کوئی صریح شہادت لے کر نہیں آیا ہے (58) اور تیرے کہنے سے ہم اپنے معبُودوں کو نہیں چھوڑ سکتے، اور تجھ پر ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپر ہمارے معبُودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے (59)”۔
ہُود نے کہا “میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں (60)۔ اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دُوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھیرا رکھا ہے اِس سے میں بیزار ہوں (61)۔ تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کسر نہ اُٹھا رکھو اور مجھے ذرا مُہلت نہ دو (62)، میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کےہاتھ میں نہ ہو۔ بے شک میرا رب سیدھی راہ پر ہے (63)۔ اگر تم منہ پھیرتے ہو تو پھیر لو۔ جو پیغام دے کر میں تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں۔ اب میرا رب تمہاری جگہ دوسری قوم کو اُٹھائے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے (64)۔ یقینًا میرا رب ہر چیز پر نگراں ہے۔”
پھر جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہُود کو اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے نجات دے دی اور ایک سخت عذاب سے انہیں بچا لیا۔
یہ ہیں عاد، اپنے رب کی آیات سے انہوں نے انکار کیا، اس کے رسُولوں کی بات نہ مانی (65)، اور ہر جبّار دشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے۔ آخرکار اس دُنیا میں بھی ان پر پھِٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سُنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سُنو! دُور پھینک دیے گئے عاد، ہُودؑ کی قوم کے لوگ۔ ع
سورۃ ہود کا بقیہ حصہ زیر تکمیل ہے
 
Top