تعلیم اب اردو میں۔۔۔۔دیر آید درست آید

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں سرائیکی اور پنجابی کے ایک ہی زبان کے دو لہجے یا دو الگ زبانیں ہونے کی بحث چھڑ گئی ہے۔۔۔
میں ان دونوں کو الگ الگ زبان اس لیے مانتا ہوں کہ بلا شبہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔ سرائیکی میری مادری زبان ہے۔۔۔ میں پنجابی بالکل پنجابیوں کی طرح بولتا رہا ہوں اور ایک وقت تھا کہ پہچان مشکل ہوگئی تھی۔۔۔ میرے پنجابی دوست مجھے بھی پنجابی سمجھنے لگے تھے۔۔۔ دونوں ملتی جلتی زبانیں ضرور ہیں لیکن ایک نہیں ہیں۔۔۔ ہاں آپ ہندکو کو پنجابی کا ایک لہجہ سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ بہت کم جگہیں ایسی ہیں جہاں وہ پنجابی سے بالکل الگ کوئی زبان معلوم ہونے لگتی ہے لیکن اس میں سرائیکی والی بات نہیں کہ حروف تہجی بھی الگ اور افعال یعنی ٹینسز بھی الگ۔۔۔۔ ہم نے یہ مطالعہ پاکستان کے مضمون میں پڑھا تھا کہ پنجابی کے تو لہجے ہیں ہی، سرائیکی کے لہجوں اور ملتی جلتی زبانوں کی تعداد بہت ہے، تقریبا ایک درجن کے قریب لہجے ہیں جو سرائیکی میں پائے جاتے ہیں۔۔۔ ملتانی سرائیکی الگ ہے۔۔۔ بہاولپوری الگ ہے اور ڈیرہ غازی خان والی سرائیکی الگ ہے۔۔۔ ان میں بھی اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ ہم پنجابی اور ہندکو میں سمجھتے ہیں ۔۔۔ میں بہاولپوری سرائیکی بولتا ہوں لیکن ڈیرہ غازی خان یا ملتانی کو میرے ساتھ بٹھا دیں۔۔۔ ہم آپس میں بخوبی گفتگو کریں گے لیکن لہجے کے فرق سے سمجھ بھی جائیں گے کہ ہماری سرائیکی میں بہت فرق ہے۔۔۔ کون سا شخص کس علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔۔ سمجھ جائیں گے ۔۔۔ لیکن بہت سے پنجابی ہم تینوں کی بات نہیں سمجھ سکیں گے کہ ہم کہہ کیا رہے ہیں۔۔۔ ہاں، پنجابی زبان کو ہم سرائیکی اس سے کہیں زیادہ سمجھتے ہیں جتنا کہ کوئی پنجابی سرائیکی زبان کو سمجھتا ہے۔۔۔ اس کی وجہ پنجابیوں کی نالائقی نہیں بلکہ پنجابیوں کی اکثریت ہے۔۔۔ ہر جگہ تو پنجابی ہی زیادہ تر بولی جاتی ہے تو ہمیں آجاتی ہے۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
محترم ایک سوال پوچھا تھا لیکن اتنی خفگی کی وجہ سمجھ نہیں آ سکی؟ آپ بھی خوش رہیئے
یہاں آپ کے خفا ہونے کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آسکی۔۔۔۔ کلر کیا گیا جملہ ، جملہ معترضہ تو نہیں لگتا۔۔۔ محض ایک محاورہ ہے جو استعمال کردیا گیا۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بات صرف یہ ہو رہی ہے کہ بچوں کو مادری زبان کی املا و تحریر سے روشناس کروانے کے لئے باقی تین صوبوں میں اگر مادری زبان (پشتو، سندھی، بلوچی) پڑھائی جا رہی ہے، تو اپنی زبان سےواقفیت کے مقصد سے پنجاب میں بھی (صرف ابتدائی جماعتوں میں) اس مثبت اقدام یعنی پنجابی کو ایک زبان کے طور پر پڑھانے کا آغاز کر دیا جائے تو اس میں حرج بھی کیا ہے،کیونکہ پنجاب کے بچوں کا بھی یہ حق بنتا ہے ۔ کہ وہ بڑے ہو کر اپنی مادری زبان کے ادب کو پڑھنے (اور لکھنے) کے قابل ہو سکیں۔میں میرے ناقص خیال کے مطابق نہ تو اس سے دیگر زبانوں یا مضامین کی پڑھائی پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ یہ کہا جا رہا ہے کہ دیگر مضامین کو بھی پنجابی میں پڑھایا جا ئے، انہیں بھلے اردوؕ یا انگریزی میں یا جیسے بھی پڑھانا جاری رکھا جائے ، وہ ہمارا موضوع گفتگو نہیں یا باعث نزاع نہیں۔

محمد یعقوب آسی
دوست
فلک شیر - جناب ، اعلی درجے کے پبلک اسکول کے ایک مدرس کے طور پر آپ کے گراں قدر تآثرات اور آرا کاانتظار ہے۔
نیرنگ خیال
فرحت کیانی
زبیر مرزا
ابتدائی جماعتوں جتنی بھی زبانیں سکھائی جائیں گی بچہ سیکھ لیتا ہے کیونکہ اس وقت اس کے ذہن میں جذب کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے اگر ان جماعتوں میں قومی زبان کے ساتھ ساتھ مادری ، علاقائی اور بین الاقوامی زبانیں (امریکہ سمیت بہت سے ممالک آنے والے وقتوں میں چین کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ابتدائی سکولنگ میں منڈیرن زبان کو بھی نصاب میں شامل کر رہے ہیں) بھی پڑھائی جائیں تو اس کے لئے بیک وقت اتنی زبانیں سیکھنا بالکل مشکل نہیں ہو گا ۔ اور میں بھی ذاتی طور پر اس حق میں ہوں کہ مادری یا علاقائی زبان ضرور سکھانی چاہئیے۔ ہاں یہ سلسلہ صرف پرائمری زبان تک رہنا چاہئیے۔ ایلیمنٹری جماعتوں میں جا کر اسے اختیاری مضمون بنانا زیادہ بہتر رہتا ہے۔ اگر آپ دیگر ممالک کو دیکھیں تو زیادہ تر پرائمری جماعتوں میں علاقائی زبان بھی پڑھائی جاتی ہے اور پھر ایلیمنٹری میں آ کر قومی زبان کے ساتھ ساتھ کم از کم دو زبانیں اختیاری طور پر پڑھنی پڑتی ہیں جیسے برطانیہ میں ابتدائی جماعتوں میں انگریزی کے علاوہ ویلش (ویلز) ، آئرش (آئرلینڈ) ، سکاٹش (سکاٹ لینڈ) پڑھائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ایلیمنٹری سے سیکنڈری تک بچوں کو جرمن ، ہسپانوی، فرانسیسیی اور حتیٰ کہ کچھ جگہوں پر اردو بھی اختیاری زبان کے طور پر پڑھنا ہوتی ہیں۔
باقی رہی تمام نصاب کو اردو میں کرنے کی تو یہ تجربہ ہمارے تعلیمی نظام کو مزید پیچھے کی طرف لے جائے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔
باقی رہی تمام نصاب کو اردو میں کرنے کی تو یہ تجربہ ہمارے تعلیمی نظام کو مزید پیچھے کی طرف لے جائے گا۔
اس ایک سطر سے میں متفق نہیں ہوں۔۔۔ جو زبان سمجھ میں آتی ہے ، اسی میں تعلیم دی جانی چاہئے۔۔۔ ایک زبان آپ نے سیکھی نہیں اور سیکھی ہے تو اس میں Fluent نہیں ہیں۔۔۔ نہ بول سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ پھر اس میں تعلیم چہ معنی دارد؟
ہمارے ہاں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی سیکھ کر بچہ آگے نہیں آتا۔۔۔ خاص طور پر Listening اور Understanding تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔۔۔ پھر انگریزی میں پڑھایاجاتا ہے تو خود اساتذہ کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا۔۔۔ علم کا تعلق فہم سے ہے۔۔۔ بچہ سمجھے گا ہی نہیں تو محض عجیب و غریب قسم کے نہ سمجھ میں آنے والے الفاظ رٹ کر اسے کیا ملے گا؟ کچھ بھی نہیں۔۔۔
 
اس ایک سطر سے میں متفق نہیں ہوں۔۔۔ جو زبان سمجھ میں آتی ہے ، اسی میں تعلیم دی جانی چاہئے۔۔۔ ایک زبان آپ نے سیکھی نہیں اور سیکھی ہے تو اس میں Fluent نہیں ہیں۔۔۔ نہ بول سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ پھر اس میں تعلیم چہ معنی دارد؟
ہمارے ہاں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی سیکھ کر بچہ آگے نہیں آتا۔۔۔ خاص طور پر Listening اور Understanding تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔۔۔ پھر انگریزی میں پڑھایاجاتا ہے تو خود اساتذہ کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا۔۔۔ علم کا تعلق فہم سے ہے۔۔۔ بچہ سمجھے گا ہی نہیں تو محض عجیب و غریب قسم کے نہ سمجھ میں آنے والے الفاظ رٹ کر اسے کیا ملے گا؟ کچھ بھی نہیں۔۔۔

درست کہا۔
 

نزرانھ بٹ

محفلین
ویسے ہونا یہ چاہیئے کہ ہر صوبے کو اپنی ہی زبان میں تعلیم ملے۔ اس سے طلباء ذہین ہونگے اور طلباء آسانی سے اپنی مضمون یاد کر سکے گے۔
thumb12.jpg

http://study.result.pk/
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس ایک سطر سے میں متفق نہیں ہوں۔۔۔ جو زبان سمجھ میں آتی ہے ، اسی میں تعلیم دی جانی چاہئے۔۔۔ ایک زبان آپ نے سیکھی نہیں اور سیکھی ہے تو اس میں Fluent نہیں ہیں۔۔۔ نہ بول سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ پھر اس میں تعلیم چہ معنی دارد؟
ہمارے ہاں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی سیکھ کر بچہ آگے نہیں آتا۔۔۔ خاص طور پر Listening اور Understanding تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔۔۔ پھر انگریزی میں پڑھایاجاتا ہے تو خود اساتذہ کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا۔۔۔ علم کا تعلق فہم سے ہے۔۔۔ بچہ سمجھے گا ہی نہیں تو محض عجیب و غریب قسم کے نہ سمجھ میں آنے والے الفاظ رٹ کر اسے کیا ملے گا؟ کچھ بھی نہیں۔۔۔
میں اس بحث برائے بحث میں نہیں پڑنا چاہتی۔ بس برسبیلِ تذکرہ صرف اتنا کہ اس طرح دیکھا جائے تو ہم لوگ تو اردو میں بھی رواں نہیں ہیں۔ اس کا کیا کیا جائے۔ واقعی مجھے انگریزی کے الفاظ رٹ کر کچھ نہیں ملے گا بس یہ ہو گا کہ Fluent ، Listening اور Understanding جیسے الفاظ کے متبادل کے طور پر میرے جملے میں 'خالی جگہ پُر کریں' آ جائے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں اس بحث برائے بحث میں نہیں پڑنا چاہتی۔ بس برسبیلِ تذکرہ صرف اتنا کہ اس طرح دیکھا جائے تو ہم لوگ تو اردو میں بھی رواں نہیں ہیں۔ اس کا کیا کیا جائے۔ واقعی مجھے انگریزی کے الفاظ رٹ کر کچھ نہیں ملے گا بس یہ ہو گا کہ Fluent ، Listening اور Understanding جیسے الفاظ کے متبادل کے طور پر میرے جملے میں 'خالی جگہ پُر کریں' آ جائے گا۔
ایک لفظ جب بچے کو بتایا جاتا ہے تو فورا اس کی ایک تصویر اس کے ذہن میں آجاتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ پانی کہیں تو پانی کی تصویر آئے گی۔۔۔ آسمان کا نام لیں گے تو فورا اوپر کی طرف دیکھے گا۔۔۔
لیکن اس کی بجائے جب آپ Water اور Sky استعمال کریں گے تو بچے کو سوچنا پڑے گا۔۔۔ یہ کیا ہے؟
یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ آپ نے اس کو بتا دیاہے کہ بیٹا Water کا مطلب پانی ہے اور Skyکا آسمان، لیکن اگر اس نے یاد نہ کیا تو؟
اگر یاد کرلیا اور زبان سمجھ میں آگئی تو درست، ورنہ تعلیم کا ابلاغ درست نہیں ہو پائے گا۔۔۔ مقصد پورا نہیں ہوگا۔۔۔
اردو میں رواں نہ ہونا یا اردو کے مشکل الفاظ کا آنا الگ مسئلہ ہے۔۔ لیکن مطلب کے اظہار کے لیے ایک زبان پہلے سے کام کر رہی ہے۔۔
پھر دوسری کیوں؟؟ جبکہ اسے سیکھنے میں الگ وقت لگے گا۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
اس خواب کو شرمندہِ تعبیر کرنے سے پہلے ایک تحقیق کروالینی چاہیے کہ اگر ایسا ہوگیا تو کتنے طلبا اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر تیار ہوں گے۔
مسئلہ اردو زبان میں تعلیم کا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی ”سرکاری زبان“ اردو ہونی چاہئے۔ جب کاروبارمملکت اور دفتری زبان اردو ہوگی تو لوگ خود بخود اردو کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔
 
اوپر کے مباحث سے میں نے یہ اخذ کیا ہے کہ اصل مسئلہ زبان کا ہے ہی نہیں۔ کوئی بھی زبان امیر یا غریب ہوتی ہے تو ان علوم کی بنیاد پر جو اس میں پڑھائے جارہے ہیں۔ ہم نے اپنی زبان کو موقع ہی کب دیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ بن رہا ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کا ایک طبقہ اپنی ہی زبانوں کو (ماسوائے اپنے لہجے کے) اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے، اس کے محرکات کچھ بھی رہے ہوں ۔ جب ہم خود اپنی زبان کو رد کر دیں گے تو دوسرا کوئی کیوں کر اس کو قبول کرے گا۔

دوسری بات جو میں نے محسوس کی ہے، میں اور میرے کئی دوست اپنی خواہشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں، کچھ کچھ بھڑاس بھی نکال رہے ہیں، مگر اس کا چنداں حاصل شاید اس لئے بھی نہ ہو کہ سرکار کی ترجیحات کا عوامی امنگوں سے واسطہ ہمیشہ کم ہی رہا ہے۔ وہ بڑے میاں جو میرے ساتھ چلے تھے، یہی کچھ دیکھ سن کر چپ سادھ بیٹھے ہیں۔
 
Top