معاویہ وقاص
محفلین
تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے
میں جن کو چومتا تھا وہ کاغذ تو پھٹ گئے
انسان اپنی شکل کو پہچانتا نہیں
آآ کے آئینوں سے پرندے چمٹ گئے
بنتی رہی وہ ایک سویٹر کو مدتوں
چپ چاپ اس کے کتنے شب و روز کٹ گئے
کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے
آخر کسی کشش نے انھیں کھینچ ہی لیا
دروازے تک نہ آئے تھے آکر پلٹ گئے
پت جھڑ میں اک کلی بھی میسر نہ آسکی
پس سگرٹوں کی راکھ سے گلدان اَٹ گئے
بدلا ہوا دکھائی دیا آسماں کا رنگ
ذرے زمیں سے، شاخ سے پتے لپٹ گئے
اتنا بھی وقت کب تھا کہ پتوار تھام لیں
ایسی چلی ہوا کہ سفینے اُلٹ گئے
پابندیاں تو صرف لگی تھیں زبان پر
محسوس یہ ہوا کہ مرے ہاتھ کٹ گئے
کچھ سرد تھی ہوا بھی نظر کے دیار کی
کچھ ہم بھی اپنے خول کے اندر سمٹ گئے
ہر سُو دکھائی دیتے ہیں نیزہ بدست لوگ
اے کاخِ ظلم تیرے طرف دار گھٹ گئے
شہزاد پھر سے رخت سفر باندھ لیجیے
رستے بھی سوکھ جائیں گے، بادل تو چھٹ گئے
شہزاد احمد